ہم میں سے اکثریت نے قیامِ پاکستان کے واقعات اپنی نانی، دادی سے سن رکھے ہیں، جو اُن کے یا ان کے والدین کے ساتھ پیش آئے۔ یہ واقعات سناتے ہوئے اُن کے چہروں پر خاموش کرب، دکھ، تکلیف، جدائیاں، غم اور پھر کچھ پانے کی خوشی سے دمکتی رنگت کے ملے جلے تاثرات نظر آتے تھے۔
اپنا گھر بار، مال و متاع، جائداد و زمین چھوڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کر جانا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ تاریخ میں ہجرت کے دوران کسی بھی مسلمان کی شہادت کی خبر نہیں ملتی لیکن پاکستان پانے کے لیے مسلمانوں نے جو ہجرت کی وہ عزتوں کی قربانی، خون کی ندیوں اور لاشوں کے ڈھیر سے گزر کر کی۔ کتابوں میں لکھے کو تو شاید ہم نظرانداز کردیں اور کہہ دیں کہ مصنف نے صرف قصیدہ گوئی سے کام لیا ہے، لیکن اپنے والدین کے ساتھ بیتے اور ان کی آنکھوں دیکھے پر کیسے شک کریں جنہوں نے اگر روپے، زیورات پکڑے بھی تو راستے میں لوٹ لیے گئے، جو رات کی تاریکیوں میں بھی بلوائیوں کے حملوں سے نہ بچ سکے، جنہیں جوان بچیوں کا ساتھ سب سے زیادہ خوف زدہ کررہا تھا، جن کی حاملہ عورتوں کے پیٹ چیر کر بچے نکالے گئے، پھر وحشی دشمن ان بچوں کو نیزوں پر لٹکاکر جشن مناتے اور جے شری رام، ست سری اکال کے نعرے لگاتے، جو گھروں سے تو پاکستان کا حصہ بننے کے لیے نکلے لیکن راستے میں ہی اپنا سب کچھ لٹا کر آخر شہادت کا درجہ بھی حاصل کیا۔ بستیاں کی بستیاں اور قافلوں کے قافلے لاشوں میں تبدیل ہوگئے۔ دریائوں کے پانی بھی خون سے سرخ ہوگئے۔ کئی ٹرینیں پاکستان میں ایسی بھی داخل ہوئیں جن کا صرف ڈرائیور زندہ تھا، باقی ٹرین لاشوں سے بھری پڑی تھی۔ ڈرائیوروں کو اس لیے زندہ چھوڑا تاکہ یہ بھری ٹرین پاکستان لے جائیں۔
پاکستان ہماری سب سے قیمتی متاع ہے، یہ ہمارا گھر ہے، ہماری پہچان ہے، ہماری آزادی کا نشان ہے، ہم کیسے اس وطن کو فاترالعقل لوگوں کے ہاتھوں میں چھوڑ سکتے ہیں! اب ہماری ذمہ داری بلکہ فریضہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اس ملک کے لیے جو کچھ کرسکتے ہیں، کریں۔ ملکی زمام کار سنبھالنے والوں کے انتخاب سے لے کر ہلدی، مرچیں بیچنے تک اس ملک میں سب ہمارا کام ہے۔ سیاست دان اور بیوروکریٹ جنہوں نے مل کر سب سے زیادہ ملک کا نقصان کیا ہے، اُن کی اگر تعداد دیکھی جائے تو ملکی آبادی کا نصف فیصد بھی نہیں بنتی، پھر ہم ان نصف فیصد سے بھی کم لوگوں کو اپنی قسمت سے کھلواڑ کرنے کیوں دے رہے ہیں؟ انہیں ملکی اداروں پر کیوں مسلط کررکھا ہے؟ یہ کروڑوں عوام پر کیوں حکمرانی کررہے ہیں؟ کیوں عوام کی محنت مشقت کی کمائی پر عیاشی کررہے ہیں؟ یہ لوگ ہمارے اپنے کب ہیں! ان کے دل ہمارے لیے درد سے خالی ہیں۔ یہ پاکستان کو اپنا سمجھتے ہی کب ہیں! ان کے بینک بیلنس ملک سے باہر ہیں، ان کے علاج ملک سے باہر ہوتے ہیں، ان کے بچے ملک سے باہر پڑھتے اور رہتے ہیں۔ یہ علاج اور پڑھائی کے لیے ملک سے باہر چلے تو جاتے ہیں لیکن پاکستان میں اس معیار کے ادارے بنانے کی کبھی زحمت نہیں کرتے۔ یہ سکون حاصل کرنے اور چھٹیاں گزارنے کے لیے ملک سے باہر چلے جائیں گے لیکن پاکستان کو پُرامن بنانے، تفریحی مقامات کو سجانے اور مکمل سیاحتی سہولتیں دینے کی کبھی کوشش نہیں کریں گے، کیوں کہ یہ پاکستان کو اپنا سمجھتے ہی نہیں۔
میرا یہ سب لکھنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ میرا ملک خوب صورت نہیں، یا یہاں کے ڈاکٹر اور استاد قابل نہیں، بلکہ یہ لوگ پاکستان کو اپنے قابل نہیں سمجھتے اور میں ان کو پاکستان کے قابل نہیں سمجھتی۔ ان کے گھر اور سرمایہ ملک سے باہر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تو یہ لوگ ملک کو کھانے چاٹنے آتے ہیں اور اپنا مقصد پورا کرنے کے بعد واپس اپنے ٹھکانوں پر چلے جاتے ہیں۔ سوچیں، ہمارے بزرگ تو جان و مال کی قربانیاں دے کر ملک ہمارے حوالے کرگئے ہیں، کیا ہم ان عظیم قربانیوں کو رائیگاں جانے دیں گے؟
اب یہ ہمارا کام ہے کہ اس آزادی کی قدر و قیمت جانیں۔ اپنے وطن کی حفاظت، سالمیت اور ترقی کے لیے اپنے ہر فعل میں نہ صرف اپنے فائدے بلکہ اپنے ملک کے نفع و نقصان کو بھی مدنظر رکھیں۔ سب سے پہلے اپنے ملک کی چیزیں خریدیں، باہر کی چیزیں استعمال کرنے سے ملک کے قرضے بڑھتے ہیں۔ لوگوں کو بتائیں اور سمجھائیں کہ اپنی ذات کے خول سے نکل کر ملک کے لیے بھی سوچیں اور جہاں بھی ضرورت پڑے قربانی دے کر اس آزادی کو بچا لیں جس کے لیے پاکستان حاصل کیا تھا، کیوں کہ آزادی ہمیشہ قربانی مانگتی ہے۔