لٹے پٹے مسافروں کے لیے وہ ایک ایسی خوف ناک اژدھے جیسی رات تھی جس کے ہر لمحے میں موت کی پھنکار تھی۔ قافلے کے سب لوگ اپنی سانس کی آواز سے ہی ڈر جاتے تھے۔ اگست کے اواخر کا حبس دل و دماغ کے ساتھ سانسوں کو بھی بوجھل بنائے دیتا تھا۔
موت کو پہلو میں لیے مشرقی پنجاب کے مہاجر ٹوٹے دل، زخمی جسم اور بے سر و سامانی کے باوجود ہر قدم کے ساتھ بخیریت اپنے پاکستان تک پہنچنے کی دُعا کررہے تھے۔ کئی دنوں سے پیدل چلتے مسافروں کی رات آتی تو لگتا سویرا کبھی نہ ہوگا۔ کتّے بلیاں بھی لاشوں سے پیٹ بھربھر کر بے زار ہورہے تھے۔ درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ سے بھی بچوں اور عورتوں کے دل دہل جاتے تھے۔
مگر عجب بات تھی کہ آزاد پاکستان میں جینے کی تمنا ایسے آزار سے ختم ہونے کے بجائے اور مضبوط ہوتی جاتی تھی۔
ہر چار قدم پہ کسی نہ کسی کی سوالیہ آواز ’’کیا ہم پاکستان پہنچ گئے؟‘‘ بھی رات کے اس مہیب سناٹے میں گنگ کردیتی تھی۔
اور پھر ایک دن اجڑے مسافروں کے لیے پاکستان کی سرحد آگئی، مگر پون صدی گزر جانے کے بعد بھی ہنوز پاکستان نہیں پہنچ پائے۔