سائرہ کی طبیعت کی بے چینی ہر سال کی طرح عروج پر تھی۔ نہ کھانے میں مزا تھا، نہ ہی نیند آرہی تھی، بس آنکھوں کے سامنے جیسے ہر لمحہ کوئی فلم سی چلتی رہتی… دماغ سُن اور قویٰ مضمحل۔ پرانی یادیں اسے بار بار ماضی میں دھکیل دیتیں۔
’’بھائی جان! آپ میرے لیے ریوڑیاں اور مونگ پھلیاں لائے؟‘‘ ننھی سائرہ نے بھائی کو ڈیوڑھی سے گھر کے اندر آتے دیکھ کر بے قراری سے پوچھا۔ وہ گھر کے بڑے سے صحن میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل میں مشغول تھی۔
’’ہاں میری گڑیا! بھلا کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ میں اپنی لاڈلی بہن کی فرمائش پوری کرنا بھول جاؤں؟ یہ لو، اور ہاں اس میں بتاشے اور تل کے لڈو بھی ہیں۔‘‘
سرمد بھائی اس سے دس سال بڑے تھے اور ان سے بڑی بہن مائرہ باجی بیس سال کی تھیں۔ ان کی منگنی چچا زاد سے ہوئی تھی اور اب عید کے بعد شادی ہونی تھی۔ ابا جان کا کپڑے کا کاروبار بہت اچھا چل رہا تھا۔ امی ہر وقت مائرہ باجی کو گھریلو امور میں طاق کرنے اور ان کے کانوں میں آئندہ آنے والی زندگی کے بارے میں نصیحتیں انڈیلتی رہتیں۔ باجی کے چہرے پر اکثر شرمیلی سی مسکراہٹ رہتی۔
باجی بھی اس سے بے انتہا محبت کرتی تھیں، اس کی گڑیا کی شادی میں انہوں نے جہیز بنانے اور باراتیوں کے لیے کھانا پکانے میں بھرپور ساتھ دیا تھا۔ اس کے کپڑے بھی مائرہ باجی ہی سیا کرتی تھیں۔
ان کا یہ پانچ افراد کا کنبہ بہت محبت سے مزے میں رہ رہا تھا کہ تحریکِ پاکستان زور پکڑ گئی۔ لاکھوں مسلمانوں کی خواہش اور کوششوں سے آخر پاکستان وجود میں آگیا، اتنا بڑا کام اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو کردیا کہ مسلمانوں کی خوشی دیدنی تھی۔
اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے ملک میں اسلامی طرزِ حکومت کی بنیاد ڈالنے کا ارادہ تھا… مگر ہندو اور سکھ جو پہلے مسلمانوں کا کچھ لحاظ کر لیا کرتے تھے، اب اُن کے جانی دشمن بن گئے تھے۔ ہر روز کسی نہ کسی محلے میں بلوائی حملہ آور ہوتے… مردوں کو شہید کرتے اور خواتین کی عزتیں تاراج ہوتیں۔
سائرہ اُس وقت صرف چھ سال کی تھی، مگر وقت کی سفاکی نے اسے بہت کچھ سمجھا دیا تھا۔ گھر والوں کی دبے لفظوں میں کی جانے والی باتیں اسے جلد بڑا بنا گئیں۔ اسے آج بھی یاد ہے کہ اس کی سہیلی رابعہ کے محلے میں جب بلوائیوں نے حملہ کیا تھا تو ظلم کی انتہا کردی تھی۔ رابعہ سمیت تین بہنیں تھیں، جیسے ہی ان کے والد اور بھائیوں کو اندازہ ہوا کہ بس اب کچھ وقت میں ہندو اور سکھ ان کے گھر میں داخل ہوا چاہتے ہیں، انہوں نے خود گھر کی تمام خواتین کو اپنے ہاتھوں سے صحن میں موجود کنویں میں دھکا دے دیا کہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔ اور پھر جب بلوائی گھر کے دروازے توڑ کر گھروں میں داخل ہوئے تو آسمان بھی ان کی درندگی پر کانپ اُٹھا۔
وہ وقت قیامت کا تھا۔ بہت سے خاندان اپنے دین اور جان و مال کی سلامتی کے لیے اپنا گھر بار، نوکری، کاروبار سب چھوڑ چھاڑ ہجرت کا فیصلہ کر کے پاکستان سدھار رہے تھے۔ مگر یہ راستہ بھی انتہائی پُر خطر تھا۔ ٹرینوں کی ٹرینیں راستے میں کاٹ دی جاتی تھیں… خواتین کو اٹھا کر لے جاتے تھے۔ آج تک کتنے غیر مسلموں کے گھروں میں مسلمان عورتوں کے بچے، جو کہ اب بوڑھے ہوچکے ہیں، ہندوؤں یا سکھوں کے ناموں سے رہ رہے ہیں۔
یادوں کے دریچوں سے گزرتے ہوئے سائرہ جب یہاں تک پہنچی تو وہ پسینہ پسینہ ہو رہی تھی، دل کی دھڑکنیں منتشر اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
ٹرین کا وہ سفر بھلائے نہیں بھولتا تھا… سائرہ کے والد نے بھی حالات کے پیشِ نظر ہجرت کرنے کا ارادہ کیا۔ رات کی خاموشی میں اپنا بسا بسایا گھر چھوڑ کر، صرف پیسے لے کر چھپتے چھپاتے اسٹیشن پہنچے۔ مگر… وہ المناک اور دل خراش مناظر اب ستّر سال بعد بھی اس کی سانسیں روکنے کے لیے کافی تھے۔ مختصر یہ کہ اپنے خاندان میں سے صرف وہی زندہ پاکستان کی سرحد پار کر پائی تھی، اور وہ بھی ایسے کہ وہ اپنوں کا بہتا خون دیکھ کر بے ہوش ہو کر نیچے گر گئی اور اپنوں نے مر کر بھی اپنی محبت کا حق ادا کیا اور ان کی لاشوں نے اسے ڈھانپ لیا۔ البتہ بے ہوش ہونے سے پہلے اسے مائرہ باجی کی چیخیں ضرور سنائی دیں جو کہ آج تک اس کے کانوں میں گونج رہی ہیں۔
آج صبح ہی سے آسمان کالے بادلوں کی آماج گاہ بنا ہوا تھا۔ اگست کے مہینے کی برسات کے ساتھ سائرہ کی آنکھوں سے بھی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ بعض غم سال ہا سال کے بعد بھی مندمل نہیں ہوتے۔
’’دادی! دیکھیں میں بابا کے ساتھ جشنِ آزادی منانے کے لیے یہ کتنی ساری چیزیں لایا ہوں۔ بیجز، جھنڈیاں، ٹوپی اور چشمہ… سارا گھر سجاؤں گا۔ اور ہاں میرے اسکول میں بھی تو پروگرام ہو گا۔ دادی! آپ مجھے اچھی سی تقریر لکھوا دیں، مجھے مقابلے میں حصہ لیا ہے۔‘‘
محمد آزاد سائرہ کا سب سے چھوٹا پوتا تھا، بہت ذہین، سمجھ دار اور محنتی۔ سائرہ نے بچپن ہی سے اپنے سب بچوں کے دلوں میں وطن کی محبت اور اسلام سے لگاؤ پیدا کیا تھا۔ اسے یہ غم بھی چین نہ لینے دیتا تھا کہ جان، مال اور عزتوں کی اتنی فقیدالمثال قربانیوں کے بعد بھی پاکستان کے حکمرانوں نے اللہ سے کیا ہوا وعدہ نہ پورا کیا۔
’’پاکستان کا مطلب کیا… لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ لگا کر علیحدہ خطہ حاصل کیا، مگر 76 برس گزرنے کے باوجود نہ تو عدالتی نظام اسلامی ہے، نہ معیشت، نہ انصاف۔ ہر طرف افراتفری، لوٹ مار، فحاشی اور بے راہ روی ہے۔
مگر سائرہ جانتی ہے کہ مایوسی کفر ہے، اسے اپنے حصے کا دِیا جلانا ہے۔ ساری زندگی اسکول کی جاب کے دوران اس نے اپنے طالب علم بچوں کی بہترین تربیت کی۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں، بہوؤں، پوتے اور پوتیوں کی ذہن سازی سے بھی غفلت نہیں برتی۔ راتوں کو وطن کے حصول کی خاطر دی گئی قربانیوں کو کہانی کے طور پر سناتی تھی۔ ان کے دلوں میں پاکستان اور اسلام کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی۔ اُسے اندازہ تھا کہ اب یہ بچے ہی پاکستان کے وارث ہیں… ان ہی سے ملک میں اسلامی نظام کے نفاظ کی امیدیں بندھی ہیں۔ ہر لمحہ ان کی روشن آنکھوں کے چمکتے جگنو سائرہ کو امید کا پیام دیتے۔