تعلیمی ادارے کی چار دیواری تقدس کی علامت

562

بچپن میں ہم دونوں بہنوں کو اسکول کے گیٹ پر بابا چھوڑتے، اور جب ہم اسکول کے اندر پہنچ کر بابا کو مڑ کر خدا حافظ کہتے تو بابا کے چہرے پر سکون اور اطمینان جھلکتا کہ میں نے اپنی بچیوں کو اسکول کی چاردیواری کے اندر بھیج دیا ہے، اب وہ محفوظ ہیں۔ پیچھے اماں بھی سکون محسوس کرتیں کہ میری بچیاں پاکیزہ جگہ پر ہیں بلکہ اکثر اماں بڑے فخر سے کہتیں کہ الحمدلله میری بچیوں کو گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر کا راستہ ہی معلوم ہے، اس کے سوا وہ کسی دوسرے راستے کے بارے میں نہیں جانتیں۔ یعنی اسکول اور تعلیمی ادارے تقدس اور تحفظ کی علامت سمجھے جاتے تھے جہاں صرف بچے تعلیم اور آدابِ زندگی سے آراستہ ہوسکتے تھے۔ لیکن فی زمانہ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ تعلیمی ادارے اپنا تقدس کھو بیٹھے ہیں۔ ویسے ہی بہت سے مسائل نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے، کوئی جگہ محفوظ تصور نہیں کی جارہی ہے، یہاں تک کہ تعلیمی ادارے بھی۔ آئے دن تعلیمی اداروں کے اندرونی حالات کا سن کر والدین پریشان ہوگئے ہیں اور ان اداروں میں جو تقدس کی علامت سمجھے جاتے تھے آج والدین وہاں بچوں کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں ۔

یہ ایک انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے۔

کیونکہ آج دنیوی زندگی کی ترقی کے لیے لوگوں نے تمام حدود پار کردی ہیں۔ کیا غلط ہے، کیا صحیح، اس سے کوئی سروکار نہیں۔ بس شہرت اور زر چاہیے۔ اس سلسلے میں لبرل ذہنیت کے مالک جو اس بات پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں کہ ہم کھلے دل کے مالک ہیں اور تنگ ذہن نہیں ہیں، دن بدن آگے کی طرف جارہے ہیں۔ ان کی اس دوڑ کو مزید تقویت دینے والے اور ساتھ دینے والے ہمارے محکمے بھی ہیں۔ سب سے مقدس اور اہم شعبہ تعلیم کا ہے، اس کی کارکردگی اس اسلامی ریاست کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ تعلیمی اداروں میں پیش آنے والے آئے دن کے واقعات سے خصوصاً ایک حساس طبقہ نالاں اور فکرمند ہے جو غلط نہیں۔ بے باکی، بے پردگی، ناچ گانے، بیہودگی، نشہ آور اشیا کی پہنچ… یہ ساری خرافات اسلامی معاشرے کے برعکس ہیں جو خصوصاً تعليمی اداروں کے تقدس کو پامال کرنے کا سبب ہیں۔ یہی تعلیمی ادارے نئی نسل کی آبیاری کے ضامن ہوتے ہیں۔ کیا ایک اسلامی ریاست کے اندر اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث تعلیمی ادارے قوم کے نونہالوں کی صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں؟ ویسے تعلیمی اداروں میں تقریبات میں گانے بجانے ہوہی رہے تھے اور اب موسیقی کی باقاعدہ تربیت، موسیقی کو تعلیم کا حصہ بنانا اور تعلیمی اداروں میں تقریبات میں ناچ گانے کو شامل کرنا کسی طرح بھی درست اور جائز نہیں ہے، اسلام میں اس چیز کی سختی سے ممانعت فرمائی گئی ہے۔ پچھلے دنوں ایک معروف اسلامی اسکالر کا بیان سننے کا موقع ملا۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ اگر میں چند یونیورسٹیوں کے اندرونی شرمناک حالات بیان کروں تو شریف النفس والدین خصوصاً اپنی بیٹیوں کو تو ان تعلیمی اداروں میں قطعاً نہیں بھیجیں گے۔ اب اگر تعلیمی اداروں میں گانے بجانے کی تعلیم کو عام کیا جائے گا تو آپ خود اندازہ لگائیں کہ وہ کیسی فضا ہوگی! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے جس برائی کی سختی سے ممانعت فرمائی آج ہم اس برائی کو ترقی کا زینہ سمجھتے ہوئے تعلیمی اداروں تک لے آئے ہیں۔ جبکہ ارشاداتِ ربانی اور احادیثِ مبارکہ میں موسیقی، ناچ گانے اور موسیقی کے آلات سے بھی دور رہنے کی سختی سے تاکید فرمائی گئی ہے۔ جو اللہ اور رسول اللہ کی بات کو اہمیت نہ دے، کیا وہ مسلمان ہے؟ آخرت میں ان کا کیا انجام ہوگا؟ اللہ کے نافرمان اپنے آپ کو اللہ کی رضا سے محروم کردیتے ہیں۔ سورہ لقمان میں ارشاد ربانی ہے کہ ”اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ ان باتوں کے خریدار بنتے ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی ہیں“۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اس آیت کے بارے میں فرماتے تھے کہ یہاں لھو حدیث سے مراد گانا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)

اور انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہم نے اس گانے کو روح کی غذا بناکر اپنے آپ کو اپنے رب سے غافل کردیا ہے۔ رب سے غافل ہونا اپنی ذات پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ رب العزت نے اپنے حبیبؐ کو جہالت کی جن برائیوں کے خاتمے کے لیے مبعوث فرمایا آج ہم نے انہی برائیوں سے ناتا جوڑ لیا ہے، یہاں تک کہ تعلیمی ادارے بھی اس غلاظت سے محفوظ نہیں ہیں۔ ابھی تو ابتدا ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ اللہ اور اس کے رسولؐ نے امتِ مسلمہ کو جو احکامات دئیے ہیں وہ بلاوجہ نہیں تھے، اس کے پیچھے حکمت پوشیدہ ہے، کیونکہ یہی ناچ گانے لوگوں میں بے حیائی اور شراب نوشی وغیرہ جیسی گندگی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ اگر ہمارے حکمران اور متعلقہ ذمہ داران مسلمان ہیں تو اس قسم کی خرافات کو انہیں یہیں روکنا ہوگا، کیونکہ قیامت کے دن انہیں اپنے رب کے سامنے جواب دینا ہوگا جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ”جو کوئی دیکھے تم میں سے برائی، تو اسے چاہیے کہ ہاتھ سے اسے مٹائے، پھر اگر (ہاتھ سے مٹانے کی) طاقت نہیں رکھتا تو اسے زبان سے مٹائے، اگر زبان سے مٹانے کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ اسے دل سے مٹائے (یعنی برا جانے اور نفرت کرے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے (صحیح بخاری)۔ اب ذرا غور کریں کہ ہم اسلامی ریاست کے باسی اپنے آپ کو کس درجے میں شامل کریںگے۔

حصہ