حضرت عمرفاروقؓکے بارے میں روایات میں آیاہے کہ ایک بارقحط پڑگیا اور گندم کی قلت ہوگئی تو حضرت عمرؓ نے گندم کی روٹی ترک کرکے جوکی روٹی کھانی شروع کردی۔ آپ کے قریب موجودلوگوں نے کہا بھی کہ آپ کے لئے یہ ضروری نہیں۔ فرمایا مجھے اچھا نہیں لگتا کہ عام مسلمان تو جوکی روٹیاں کھائیں اور میںگندم کی روٹی کھاتا رہوں ۔ روایات کے مطابق قحط دور ہو اتو آپ نے پھرگندم کی روٹی کھانی شروع کی۔
اس طرح کی مثالیں سن کر بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی فکرمیں افراط وتفریط ملتی ہے۔ حالات کیسے بھی کیوں نہ ہوں ہم مثالیں خلافت راشدہ کی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ ظاہرہے کہ ہم اپنے اصل معیارات کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ لیکن خلفائے راشدین کی مثالیں واقعتاً بہت بڑی مثالیں ہیں۔ لیکن عوام کے خیال سے گندم کی روٹی ترک کرکے جوکی روٹی کھانے اور گندم کی قلت کی صورت میں گندم اور آٹے کی ذخیرہ اندوزی کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حکمران عوام کے غم میں گندم کی روٹی کیا فائیو اسٹار طرز زندگی بھی ترک نہ کریں۔ لیکن وہ ذخیرہ اندوز اور ذخیرہ اندوزوں کے سرپرست تو نہ بنیں اور چوربازاری میں ملوث نہ ہوں۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ بھی بڑی بات ہوگی۔
ہماری تہذیب اورتاریخ میں حکمرانی کا معیار تقوے اور علم کی یکجائی ہے۔ لیکن تقویٰ نہ ہوتو علم ہی ہو۔
علم سے نیچے ’’تجربے‘‘ کی دنیا ہے۔ ایک آدمی تقوے اور علم کی سطح سے عوام کے مسائل کو نہیں سمجھتا۔ مگر اسے ان مسائل کا تجربہ ہے۔ وہ تجربے سے جانتاہے کہ غربت کیا ہوتی ہے ؟اسے تجربے سے معلوم ہے کہ مہنگائی کے کیا معنی ہیں۔ وہ تجربے کی بنیاد پر آگاہ ہے کہ اشیائے صرف کی قلت پیدا ہوتی ہے تو کیا مسئلہ جنم لیتاہے۔
یہ جو ساری دنیا میں قیادت کے لئے متوسط طبقے کا شور مچتاہے اس کی بہت سی وجوہ میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا میں متوسط اورزیریں متوسط طبقہ کل آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ چنانچہ سمجھایہ جاتاہے کہ متوسط طبقے سے قیادت آئے گی تو وہ مسائل سے تجربے ‘ کی بنیاد پر بھی آگاہ ہوگا۔ تقویٰ علم ‘ تجربہ‘ کیا اس سے نیچے بھی جانا ممکن ہے ؟۔
تجربے سے نیچے صرف مشاہدہ باقی رہ جاتاہے۔ ایک آدمی عوام کے حال کا تجربہ تو نہیں رکھتا ہے البتہ مشاہدہ ضرور رکھتاہے۔ یہ بھی بڑی قیمتی بات ہے۔ زندگی کی تفہیم مشاہدے کی سطح پر ہوجائے تو بھی غنیمت ہے۔ لیکن ہمارا کیا پوری دنیا کا مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ قیادت کی سطح پر نہ تقویٰ ہے ۔ نہ علم کے تجربہ ہے نہ مشاہدہ آپ کہیں گے تقویٰ تو اسلامی اصطلاح ہے اس کا اطلاق غیرمسلم معاشروں پرکیسے ہوسکتاہے۔ چلئے آپ تقویٰ کی جگہ نیکی اچھائی یا ایمانداری کا لفظ استعمال کرلیجئے۔ ایسا نہ ہوتا تو دنیا کی یہ حالت نہ ہوتی۔
جمہوری دورمیں بادشاہت پر لعن طعن آسان ہی نہیں اس میں ایک سیاسی لطف اور جمہوری لذت بھی ہے۔ لیکن بادشاہت کی تاریخ اٹھاکر دیکھئے اس میں آپ کو نظرآئے گا کہ بادشاہ کی تعلیم وتربیت پر ریاست کے سارے وسائل صرف ہوتے تھے۔ اس لئے کہ بادشاہ پر ریاست کو کامیابی کے ساتھ چلانے کا بارہوتا تھا۔ چلئے مان لیں بادشاہ عوام کے مفاد میں نہیں اپنے اور اپنے خاندان کے مفاد میں بادشاہت کو کامیابی سے چلاتاتھا۔ مگر اس کی اس ’’ذاتی کامیابی ‘‘ سے عوام کابھی کچھ نہ کچھ فائدہ ہوہی جاتاتھا۔ دنیا بھرکی جمہوری بادشاہتوں میں ذاتی فائدے کا مفہوم حقیقی معنوں میں صرف ذاتی فائدہ ہوتاہے۔
اس امر سے اس پہلو کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اہلیت وصلاحیت سے اجتماعیت کو بہرحال فائدہ ہوتاہے۔تاریخ ایسے حکمرانوں کے ذکرسے بھری پڑی ہے۔ جن میں ’’بادشاہ‘‘ سبھی ہوتے ہیں جو راتوں کو بھیس بدل کے رعایا کا حال جاننے کے لئے گلی کوچوں میں گشت کرتے تھے۔ اس عمل کے تین بڑے ’’فائدہ‘‘ تھے ۔ اس طرح انہیں براہ راست اطلاع مل جاتی تھی۔ اس عمل میں انہیں معاملات کا ذاتی تجربہ بھی ہوجاتاتھا ۔ یہ بھی نہیں تو وہ مسائل کے چشم دید ’’گواہ‘‘ بن جاتے تھے۔ اس تجربے میں جہاں ’’تقویٰ‘‘ بھی ہے وہاں امور مملکت چلانے میں کمال ہوگیاہے۔ البتہ جہاں صرف علم ہے وہاں بھی ملک وملت کی مثالی خدمت ہوگئی ہے۔
البتہ اب دنیا بھرمیں مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ حکمران تقوے یا نیکی وایمانداری سے عاری ۔ علم سے محروم اورتجربے اورمشاہدے سے تہی دامن ہیں۔ اس پرطرہ یہ کہ وہ خرابی کو روکنے کے بجائے خرابی پیداکرنے والوں کے ساتھی بن گئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا فساد سے بھرگئی ہے۔