(1)
طہارت و نظافت کے آداب:
خدا نے ان لوگوں کو اپنا محبوب قرار دیا ہے جو طہارت اور پاکیزگی کا پورا پورا اہتمام کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’طہارت اور پاکیزگی آدھا ایمان ہے‘‘ یعنی آدھا ایمان تو یہ ہے کہ آدمی روح کو پاک و صاف رکھے اور آدھا ایمان یہ ہے کہ آدمی جسم کی صفائی اور پاکی کا خیال رکھے۔ روح کی طہارت و نظافت یہ ہے کہ اس کو کفر و شرک اور معصیت و ضلالت کی نجاستوں سے پاک کرکے صالح عقائد اور پاکیزہ اخلاق سے آراستہ کیا جائے اور جسم کی طہارت و نظافت یہ ہے کہ اس کو ظاہری ناپاکیوں سے پاک و صاف رکھ کر نظافت اور سلیقے کے آداب سے آراستہ کیا جائے۔
-1 سوکر اٹھنے کے بعد ہاتھ دھوئے بغیر پانی کے برتن میں ہاتھ نہ ڈالیے۔ کیا معلوم سوتے میں آپ کا ہاتھ کہاں کہاں پڑا ہو۔
-2 غسل خانے کی زمین پر پیشاب کرنے سے پرہیز کیجیے بالخصوص جب غسل خانے کی زمین کچی ہو۔
-3 ضروریات سے فراغت کے لیے نہ قبلہ رخ بیٹھئے اور نہ قبلے کی طرف پیٹھ کیجیے۔ فراغت کے بعد ڈھیلے اور پانی سے استنجا کیجیے یا صرف پانی سے طہارت حاصل کیجیے، لید، ہڈی اور کوئلے وغیرہ سے استنجا نہ کیجیے اور استنجا کے بعد صابن یا مٹی سے خوب اچھی طرح ہاتھ دھولیجیے۔
-4 جب پیشاب پاخانے کی ضرورت ہو تو کھانا کھانے نہ بیٹھیے، فراغت کے بعد کھانا کھایئے۔
-5 کھانا وغیرہ کھانے کے لیے دایاں ہاتھ استعمال کیجیے، وضو میں بھی دائیں ہاتھ سے کام لیجیے اور استنجا کرنے اور ناک وغیرہ صاف کرنے کے لیے بایاں ہاتھ استعمال کیجیے۔
-6 نرم جگہ پر پیشاب کیجیے تاکہ چھینٹیں نہ اڑیں اور ہمیشہ بیٹھ کر پیشاب کیجیے۔ ہاں اگر زمین بیٹھنے کی لائق نہ ہو یا کوئی اور واقعی مجبوری ہو، تو کھڑے ہوکر پیشاب کرسکتے ہیں لیکن عام حالات میں یہ بڑی گندی عادت ہے جس سے سختی کے ساتھ پرہیز کرنا چاہیے۔
-7 ندی، نہر کے گھاٹ پر، عام راستوں پر اور سایہ دار مقامات پر فضائے حاجت کے لیے نہ بیٹھیے، اس سے دوسرے لوگوں کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور ادب و تہذیب کے بھی خلاف ہے۔
-8 جب پاخانے جانا ہو تو جوتا پہن کر اور سر کو ٹوپی وغیرہ سے ڈھان کر جایئے اور جاتے وقت یہ دعا پڑھیئے۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَآئِثِ(بخاری، مسلم)
’’خدایا! تیری پناہ چاہتا ہوں شیطانوں سے، ان شیطانوں سے بھی جو مذکر ہیں اور ان سے بھی جو مؤنث ہیں‘‘۔
اور جب پاخانے سے باہر آئیں تو یہ دعا پڑھیے:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْھَبَ عَنِّی الْاَذٰی وَعَافَانِیْ(نسائی، ابن ماجہ)
’’خدا کا شکر ہے جس نے مجھ سے تکلیف دور فرمائی اور مجھے عافیت بخشی‘‘۔
-9 ناک صاف کرنے یا بلغم تھوکنے کے لیے احتیاط کے ساتھ اگل دان استعمال کیجیے یا لوگوں کی نگاہ سے بچ کر اپنی ضروریات پوری کیجیے۔
-10 باربار ناک میں انگلی ڈالنے اور ناک کی گندگی نکالنے سے پرہیز کیجیے۔ اگر ناک صاف کرنے کی ضرورت ہو تو لوگوں کی نگاہ سے بچ کر اچھی طرح اطمینان سے صفائی کرلیجیے۔
-11 رومال میں بلغم تھوک کر ملنے سے سختی کے ساتھ پرہیز کیجیے۔ یہ بڑی گھنائونی عادت ہے۔ الا یہ کہ کوئی مجبور ہو۔
-12 منہ میں پان بھر کر اس طرح باتیں نہ کیجیے کہ مخاطب پر چھینٹیں اڑیں اور اسے تکلیف ہو، اسی طرح اگر تمباکو اور پان کثرت سے کھاتے ہو تو منہ صاف رکھنے کا بھی انتہائی اہتمام کیجیے اور اس کا بھی لحاظ رکھیے کہ بات کرتے وقت اپنا منہ مخاطب کے قریب نہ لے جائیں۔
-13 وضو کا فی اہتمام کے ساتھ کیجیے اور اگر ہر وقت ممکن نہ ہو تو اکثر باوضو رہنے کی کوشش کیجیے۔ جہاں پانی میسر نہ ہو، تمیم کرلیا کیجیے، بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر وضو شروع کیجیے اور وضو کے دوران یہ دعا پڑھیے۔
اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَحْدَہ‘ لَاشَرِیْکَ لَہ‘ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ‘ وَرَسُوْلُہ‘ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ (ترمذی)
’’میں گوہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ خدایا! مجھے ان لوگوں میں شامل فرما جو بہت زیادہ توبہ کرنے والے اور بہت زیادہ پاک و صاف رہنے والے ہیں‘‘۔
اور وضو سے فارغ ہوکر یہ دعا پڑھیے:
سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ (نسائی)
’’خدایا! تو پاک و برتر ہے اپنی حمد و ثنا کے ساتھ، میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں مگر تو ہی ہے، میں تجھ سے مغفرت کا طالب ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں‘‘۔
نبیؐ کا ارشاد ہے : ’’قیامت کے روز میری امت کی نشانی یہ ہوگی کہ ان کی پیشانیاں اور وضو کے اعضا، نور سے جگمگا رہے ہوں گے پس جو شخص اپنے نور کو بڑھانا چاہے بڑھالے‘‘۔ (بخاری ، مسلم)
-14 پابندی کے ساتھ مسواک کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے کہ اگر مجھے امت کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر وضو میں ان کو مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ ایک مرتبہ آپؐ کے پاس کچھ لوگ آئے جن کے دانت پیلے ہورہے تھے۔ آپؐ نے دیکھا تو تاکید فرمائی کہ مسواک کیا کرو۔
-15 ہفتہ میں ایک بار تو ضرور ہی غسل کیجیے۔ جمعہ کے دن غسل کا اہتمام کیجیے اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر جمعہ کی نماز میں شرکت کیجیے، نبیؐ نے فرمایا، امانت کی ادائیگی آدمی کو جنت میں لے جاتی ہے۔ صحابہؓ نے پوچھا یا رسولؐ اللہ! امانت سے کیا مراد ہے؟ فرمایا ناپاکی سے پاک ہونے کے لیے غسل کرنا اس سے بڑھ کر خدا نے کوئی امانت مقرر نہیں کی ہے پس جب آدمی کو نہانے کی حاجت ہو جائے تو غسل کرے۔
-16 ناپاکی کی حالت میں نہ مسجد میں جایئے اور نہ مسجد میں سے گزریئے، اور اگر کوئی صورت ممکن ہی نہ ہو تو پھر تمیم کرکے مسجد میں جایئے یا گزریئے۔
-17 بالوں میں تیل ڈالنے اور کنگھا کرنے کا بھی اہتمام کیجیے، داڑھی کے بڑھے ہوئے بے ڈھنگے بالوں کو قینچی سے درست کرلیجیے، آنکھوں میں سرمہ بھی لگایئے، ناخن ترشوانے اور صاف رکھنے کا بھی اہتمام کیجیے اور سادگی اور اعتدال کے ساتھ مناسب زیب و زینت کا اہتمام کیجیے۔
-18 چھینکتے وقت منہ پر رومال رکھ لیجیے تاکہ کسی پر چھینٹ نہ پڑے چھینکنے کے بعد ’’الحمدللہ‘‘ خدا کا شکر ہے، کہیے، سننے والا یرحمک اللہ خدا آپ پر رحم فرمائے، کہے اور اس کے جواب میں بھدیک اللہ خدا آپ کو ہدایت بخشے کہیے۔
-19 خوش بو کا کثرت سے استعمال کیجیے، نبیؐ خوش بو کو بہت پسند فرماتے تھے۔ آپؐ سوکر اٹھنے کے بعد جب ضروریات سے فارغ ہوتے تو خوش بو ضرور لگاتے۔
(2)
صحت کے آداب:
-1 صحت خدا کی عظیم نعمت بھی ہے اور عظیم امانت بھی، صحت کی قدر کیجیے اور اس کی حفاظت میں کبھی لاپرواہی نہ برتیے۔ ایک بار جب صحت بگڑ جاتی ہے تو پھر بڑی مشکل سے بنتی ہے جس طرح حقیر دیمک بڑے بڑے کتب خانوں کو چاٹ کر تباہ کر ڈالتی ہے، اسی طرح صحت کے معاملے میں معمولی سی خیانت اور حقیر بیماری زندگی کو تباہ کر ڈالتی ہے۔ صحت کے تقاضوں سے غفلت برتنا اور اس کی حفاظت میں کوتاہی کرنا بے حسی بھی ہے اور خدا کی ناشکری بھی۔
انسانی زندگی کا اصل جوہر عقل و اخلاق اور ایمان و شعور ہے اور عقل و اخلاق اور ایمان و شعور کی صحت کا دارومدار بھی بڑی حد تک جسمانی صحت پر ہے، عقل و دماغ کی نشوونما، فضائل اخلاق کے تقاضے اور دینی فرائض کو ادا کرنے کے لیے جسمانی صحت بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ کمزور اور مریض جسم میں عقل و دماغ بھی کمزور ہوتے ہیں اور ان کی کارگزاری بھی نہایت ہی حوصلہ شکن۔ اور جب زندگی امنگوں، ولولوں اور حوصلوں سے محروم ہو اور ارادے کمزور ہوں، جذبات سرد اور مضحمل ہوں تو ایسی بے رونق زندگی جسم ناتواں کے لیے وبال بن جاتی ہے۔
زندگی میں مومن کو جو اعلیٰ کارنامے انجام دینا ہیں اور خلافت کی جس عظیم ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا ہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ جسم میں جان ہو، عقل و دماغ میں قوت ہو، ارادوں میں مضبوطی ہو، حوصلوں میں بلندی ہو، اور زندگی ولولوں، امنگوں، اور اعلیٰ جذبات سے بھرپور ہو، صحت مند اور زندہ دل افراد سے ہی زندہ قومیں بنتی ہیں اور ایسی ہی قومیں کارگاہ حیات میں اعلیٰ قربانیاں پیش کرکے اپنا مقام پیدا کرتی ہیں اور زندگی کی قدر و عظمت سمجھاتی ہیں۔
-2 ہمیشہ خوش و خرم، ہشاش بشاش اور چاق و چوبند رہیے۔ خوش باشی، خوش اخلاقی، مسکراہٹ اور زندہ دلی سے زندگی کو آراستہ، پرکشش اور صحت مند رکھیے، غم، غصہ، رنج و فکر، حسد، جلن، بدخواہی، تنگ نظری، مردہ دلی اور دماغی الجھنوں سے در رہیے۔ یہ اخلاقی بیماریاں اور ذہنی الجھنیں معدے کو بری طرح متاثر کرتی ہیں اور معدے کا فساد صحت کا بدترین دشمن ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’سیدھے سادے رہو، میانہ روی اختیار کرو اور ہشاش بشاس رہو‘‘ (مشکوٰۃ)
ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے دو بیٹوں کا سہارا لیے ہوئے ان کے بیچ میں گھسٹتے ہوئے جارہا ہے۔ آپؐ نے پوچھا، اس بوڑھے کو کیا ہوگیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ اس نے بیت اللہ تک پیدل جانے کی نذرمانی تھی۔ نبیؐ نے ارشاد فرمایا ’’خدا اس سے بے نیاز ہے کہ یہ بوڑھا خود کو عذاب میں مبتلا کرے اور اس بوڑھے کو حکم دیا کہ سوار ہوکر اپنا سفر پورا کرو‘‘۔
حضرت عمرؓ نے ایک بار ایک جوان آدمی کو دیکھا کہ مریل چال چل رہا ہے۔ آپؐ نے اس کو روکا اور پوچھا تمہیں کیا بیماری ہے؟‘‘ اس نے کہا ’’کوئی بیماری نہیں ہے‘‘۔ آپ نے اپنا درہ اٹھایا اور اس کو دھمکاتے ہوئے کہا ’’راستہ پر پوری قوت کے ساتھ چلو‘‘۔
نبیؐ جب راستے پر چلتے تو نہایت جمے ہوئے قدم رکھتے اور اس طرح قوت کے ساتھ چلتے کہ جیسے کسی نشیب میں اتر رہے ہوں‘‘۔
حضرت عبداللہ بن حارثؓ کہتے ہیں ’’میں نے نبیؐ سے زیادہ مسکرانے والا کوئی شخص نہیں دیکھا‘‘ (ترمذی) (جاری ہے)