ٹیکنالوجی کی بحث
(دوسرا اور آخری حصہ)
درحقیقت موبائل ٹیکنالوجی کا اصل مقصد یہ ہے کہ آپ انٹرنیشنل مارکیٹ سے رابطے میں ہیں۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے مقصد سے بھی آپ اسے استعمال کر سکتے ہیں لیکن بنیادی طور پر اس کے لیے بنا نہیں۔ تو ٹیکنالوجی جو ہوتی ہے اپنی ویلیوز کے اندر پھلتی پھولتی ہے۔ اگر آپ اس موبائل سے وہ کام لیتے ہیں جس کے لیے یہ بنا ہے تو آپ زیادہ Effective ہوں گے‘ اس موبائل کے اسٹینڈرڈ کو اپنانے اور چلانے میں زیادہ کامیاب ہوں گے۔ اس سے بہتر موبائل خریدنے کے لیے اس موبائل کا وہ استعمال کرنا پڑے گا جو کہ اس کی ویلیو سے مطابقت رکھتا ہو۔ اس سے اگر آپ لوگوں کے گھروں کے اوپر اذانیں دیتے رہتے ہیں یا نماز کے لیے اٹھاتے رہتے ہیںتو یہ آپ کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے آپ کو کارڈ خریدتے رہنے کے لیے رقم کی ضرورت ہوگی لیکن اگر اس سے آپ جائنٹ اسٹاک مارکیٹ میں پیسے لگاتے ہیں تو پھر آپ کو کچھ اور سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔
تو یہ بات آپ یاد رکھیں کہ ٹیکنالوجیکل ترقی کے لیے مارکیٹ سب سے مؤثر میکانزم ہے اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ چارلس ٹلی (Charies Tilly) اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ٹیکنالوجی کیوں Value Laiden ہوتی ہے‘ کہتا ہے کہ ماڈرن ٹیکنالوجی جو آپ کے سامنے ہے اس نے بدترین بربریت کو چھپا دیا ہے۔ اس کی مثال وہ یوں دیتا ہے کہ فرض کرو تمہارے پاس ایک تلوار ہے‘ جیسے ہمارے ہاں بڑے بوڑھے تلوار کی باتیں کرتے تھے کہ تلوار سے تم اپنا گلا بھی کاٹ سکتے ہو اور کسی دوسرے کا بھی۔ مطلب یہ کہ ٹیکنالوجی اپنی کوئی ویلیو نہیں رکھتی اس کا اچھا یا برا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے لیکن چارلس ٹلی کہتا ہے کہ ان کو پتا نہیں ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ جب میں تلوار استعمال کرتا ہوں تو فرض کریں کہ میں تلوار سے انسانوں کے ایک جتھے کے اوپر حملہ آور ہوتا ہوں اور جو نہتے اور بے بس ہیں وہ نہتے بھی ہیں اور وہ بے بس بھی ہیں اور مجبور بھی ہیں کہ بھاگ نہیں سکتے اور میں ان کو تلوار سے مارنا شروع کروں تو چارلس ٹلی کہتا ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے براہِ راست وہ شخص متاثر ہوگا جو یہ تلوار چلا رہا ہے۔
میرا ہاتھ کسی بزرگ پر پڑے گا‘ کسی عورت پر پڑے گا‘ کسی بچے پر پڑے گا اور جب وہ چیخیں گے تو اس کا اثر میرے ذہن پر بھی پڑے گا‘ میری روح پر بھی پڑے گا اور میرے وجود پر پڑے گا اور ہو سکتا ہے کہ میری پوری اخلاقی زندگی اس بہیمانہ عمل کے بعد تبدیل ہو جائے۔ کیوں؟ کیوں کہ جو عمل میں کر رہا ہوں‘ جس ٹیکنالوجی کے ذریعے کر رہا ہوں اور میں جس میں براہ راست ملوث ہوں جو بربریت میں کر رہا ہوں کیا میں اس سے متاثر نہیں ہوگا؟ جب وہ سارے مر جائیںگے اور ان کی لاشیں اور کھلی آنکھیںجو مجھے گھور رہی ہوںگی مجھ پر کیوں اثر انداز نہیں ہوگی؟ ہو سکتا ہے یہ منظر دیکھنے کے بعد میں اپنے آپ کو چھرا مار لوں۔
کیوں؟ کیوں کہ جو ٹیکنالوجی میں نے استعمال کی وہ مجھے زندگی اور اس کے حقائق سے الگ نہیں کرسکی‘ روایتی ٹیکنالوجی کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ آپ کو اٹیچ کرتی تھی۔ ماڈرن ٹیکنالوجی Detach کرتی ہے۔ فرض کریں کہ یہاں کچھ آدمی بیٹھے ہوئے امریکا کے بارے میں کچھ بری باتیں سوچ رہے ہیں اور ان سے امریکا کے مفادادات کو کچھ نقصان پہنچنے کا احتمال ہے تو ایک امریکی فلاڈلفیا میں میں اپنے ائر کنڈیشنڈ کمرے میں کافی پیتے ہوئے فیصلہ کرے کہ یہ کیا بدمعاشی ہو رہی ہے اور ایک کانٹی نینٹل میزائیل کا بٹن دبا دے اور اس کے بعد ٹیلی ویژن کھول کے گانے سنتا رہے اور وہاں سے بیلسٹک میزائل آئے اور یہاں پر ایک لمحے میں بے شمار بچوں‘ بوڑھوں اور نوجوانوں کہ دھجیاں اڑ جائیں۔ اس آدمی کی جو شعوری کیفیت ہوگی اور اس آدمی کی جس نے تلوار سے لوگوں کو مارا تھا دونوںکی شعوری کیفیت ایک جیسی ہوگی یا ہوسکتی ہے؟
آپ کے ہمسائے میں عراق کے اندر پانچ سال میں 12 لاکھ انسان قتل ہوئے کسی کے کان پر جوں تک رینگی؟ پاکستان میں 36 ہزار لوگ مر چکے ہیں‘ لوگ دیکھ رہے ہیں لیکن Digitally constructed world نے ہر چیز کو کیموفلاج کر دیا ہے۔ بظاہر آپ کو یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ Connect ہوگئے ہیں لیکن درحقیقت آپ Disconnect ہوتے ہیں۔ جب بالا کوٹ میں زلزلہ آیا اور ٹیلی ویژن پر ہم نے اس کے مناظر دیکھے تو میں اور میرا بڑا بھائی اور اس کے دوست ہم لوگ حسب استطاعت وہاں لوگوں کی مدد کے لیے پہنچے۔ تو ہمیں ایک فوجی پلاٹون کے ساتھ لگا دیا گیا۔ ہم ان کی مدد کرتے تھے اور جو وہ کہتے تھے وہ کرتے تھے۔ وہ اٹھا کر لے آئوں‘ یہاں سے کھودو‘ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کام۔ ہم اٹھارہ دن وہاں رہے۔ میں وہاں پر ابتدائی تین دن کھانا نہیں کھا سکا۔ جب میں وہاں پہنچا تو زلزلہ آئے چھ یا سات دن گزر چکے تھے۔ وہاں پر انسانوں کے جسموں کی بدبو تھی جو میں نے زندگی میں کبھی نہیں سونگھی تھی۔
میں کوئی محلوں میں رہنے والا آدمی نہیں ہوں۔ میں ان لوگوں میں سے جو ناظم آباد میں پیدا ہو کر پاپوش نگر کے قبرستان میں دفن ہو جاتے ہیں‘ تو کوئی High profile life نہیں ہے میری۔ لیکن میں کھانا نہیں کھا سکتا تھا اور مجھے الٹی ہوجاتی تھی۔ اتنی بدبو پھیلی ہوئی ھی پورے بالا کوٹ کے اندر۔ زلزلے کے بعد جو بھی بالا کوٹ گیا ہے وہ میری بات کی تصدیق کرے گا۔ وہاں میں نے ایک سپاہی سے پوچھا کہ بھائی یہ اس قدر بو کس چیز کی ہے؟ تو اس نے کہا یہ انسانوں کے جسموں میں سے آرہی ہے جو اندر پھنسے ہوئے ہیں‘ مر گئے ہیں۔ تو میں کھانا کھانے کے لیے پہاڑ سے نیچے اترتا تھا‘ کافی نیچے اترتا تھا‘ تب بھی مجھ سے کھانا نہیں کھایا جاتا تھا۔ وہاں پر ایک پودا ہوتا تھا اس کا پتا توڑ کر ہاتھوںپر ملنے سے اس میں سے تیز دھنیے جیسی خوشبو آتی تھی تو پھر میں کھانا کھاتا تھا۔ لیکن ٹی وی پر بیٹھ کر جو لوگ دیکھتے تھے کہ کچھ لوگ وہاں پر جاتے تھے غبارے اور کیک لے کر بچوںکے کیمپوں میں۔ ایک بچے کی ماں مر گئی‘ اس کے باپ‘ بھائی سارے مر گئے۔ وہ بچہ کانپتا سسکتا وہاں بیٹھا ہے۔ یہ اس کی برتھ ڈے منانے کے لیے آگئے کیک لے کر‘ بڑی بڑی ٹوپیاں اور غبارے لے کر‘ کیمرے پر ان کی تصویریں بن گئیں‘ دنیا دیکھ رہی ہے۔
بھئی! یہاں انسان سے روٹی نہیں کھائی جا رہی اور تم کیک لے کر آگئے ہو؟ تم انسان کے بچے ہوں‘ کون ہو تم؟ کوئی نہیں ہم ان کی خوشیوں میں شریک ہونے آئے ہیں خوشی کی کیا بات ہے؟ کون سی خوشی منانے کا وقت ہے یہ؟ اس کا پورا خاندان مر گیا‘ تم خوشی منانے آگئے‘ تمہیں شرم نہیں آتی۔ تصویریں کھینچوانے کے لیے میک اَپ کرکے آگئے ہو؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ٹی وی پر سنتے اور دیکھتے تھے یہ چیزیں ان کو بدبو تھوڑی آتی تھی؟ انہوں نے ٹھنڈے انسانی جسموں کی گانٹھیں اٹھائی ہیں؟ مرے ہوئے آدمی کو اٹھانے کا تجربہ کیا ہوتا ہے؟ ہاتھ کانپ جاتے ہیں بڑے بڑے مضبوط لوگوں کے۔ ایک بچہ تھا جس کا ایک ہاتھ باہر رہ گیا تھا‘ دھڑ دب گیا تھا‘ ہم نے نکالنا شروع کیا وہ پتا نہیں کس Structure میں دبا پڑا تھا۔ صبح سے میں نے کھودنا شروع کیا‘ شام تک کھودتا رہا اور میں وہ نہیں نکال سکا بچے کو کھینچنے کی کوشش تو اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں آگیا۔ میں جب ہاتھ لے کر واپس آیا تو وہاں ایک آرٹسٹ تھی جو ٹوپی پہن کر بچوں کو لطیفے سنا رہی تھی۔ بتانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ ٹی وی پر دیکھتے تھے۔ اس طرح دیکھنے کا تجربہ اور ہوتا ہے اور محسوس کرنے کا تجربہ کچھ اور۔ خلاصہ یہ کہ جب آپ Technological driven life گزارتے ہیںتو وہ آپ کو Detach کرتی ہے۔
ٹیکنالوجی کے خلاف ہم جب بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہبیں ہوتا کہ تمام پاکستانی پتھر کے زمانے میں چلے جائیں۔ کیوں کہ جب آپ ٹیکنالوجی پر تنقید کرتے ہیں تو پاکستانیوں کو اونٹ کی پیٹھ نظر آجاتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ آپ خود جا کر اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ جائو! تو آپ کو اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھنے کو کوئی نہیں کہہ رہا لیکن آپ اس ٹیکنالوجی کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے۔ یہ قدر نہیں ہے کیوں کہ ٹیکنالوجی کی قدر کا تعین مارکیٹ کرتی ہے‘ یہ آپ کو کس نے بتایا کہ یہ مہنگا ہے اور جو مہنگا ہوگا وہ زیادہ اچھا ہوگا۔ یہ جو مہنگا ہوگا تو وہ اچھا ہوگا‘ کی قدر کا تعین کون کر رہا ہے؟ قدر کا تعین کر رہی ہے مارکیٹ۔
جب آپ Technological driven life world میں جاتے ہیںتو آپ کی قدر بنتی ہے سرمایہ۔ معیارِ زندگی کی بہتری اور جمع سرمایہ باہمی لازم و ملزوم ہیں اسی لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ فی زمانی Technologicallyu driven life world اور احیائے اسلام کو جو لوگ مربوط اور جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ ایک دوسرے کو contradict کرتے ہیں اور جو ویلیوز اس کے نتیجے میں پروموٹ ہوتی ہیں وہ بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ ویلیوز ہوتی ہیں۔ سرمائے کی بڑھوتری کو بنیادی ویلیو کے طور پر قبول کیے بغیر ٹیکنالوجیکل گروتھ ہو ہی نہیں سکتی۔
اور یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ ٹیکنالوجی انسانوں کی زندگیوں میں کوئی بہتری لاتی بھی ہے یا نہیں؟ کیوں کہ ہوزے ماریہ سبرٹ یا سٹیلس سٹیریو وغیرہ جیسے ٹیکنالوجی کے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ تیسری دنیا کے ممالک تو ٹیکنالوجیکل ڈویلمنٹ کے پروسیس میں پڑے ہی نہیں۔ وہ ٹیکنالوجی میں ڈویلپمنٹ نہیں کرتے ہیں بلکہ ری ڈویلپمنٹ کرتے ہیں یعنی ایک ایسی چیز کو ڈویلپ کرتے ہیں جو مغربی دنیا میں تیس سال پہلے ڈویلپ ہو چکی تھی اور اب وہاں متروک ہو چکی ہے لیکن یہ اسے ڈویلپمنٹ کے نام سے اپنے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ جب وہ کوئی ٹیکنالوجی اپنے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تو کہتے ہیں اعلیٰ‘ جدید اور طویل تحقیق کا نچوڑ حالانکہ وہ مغرب میں متروک ہو چکی ہوتی ہے۔ جب ایک کمپیوٹر تیسری دنیا میں مارکیٹ میں آرہا ہوتا ہے تو اس وقت مغرب میں اس کی ٹیکنالوجی متروک ہوچکی ہوتی ہے کیوں کہ اس کے بعد کا جو ماڈل ہوتا ہے وہTechnology consistant ہوتا ہے۔
کچھ لوگ یہ کہتے ہیںکہ ٹیکنالوجیکل گروتھ نے انسانوں کی زندگی کے مسائل کو حل کیا ہے۔ کوپن ہیگن میں دسمبر 2009ء میں ایک کانفرنس ہوئی اس کے احوال پر میں بات ختم کروں گا۔ا س کانفرنس میں بہت سارے پوسٹ ماڈرن مفکرین نے مل کر یہ مسئلہ اٹھایا کہ ٹیکنالوجی پروڈیوس کرنے کی وجہ سے دنیا کا جو ٹمپریچر بڑھ رہا ہے اس کی وجہ سے فطرت کی تباہی اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ اگلے پچاس سال کے اندر دنیا انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہے گی؟ لہٰذا ان لوگوں کا یہ خیال تھا کہ دنیا کی تمام ریاستوں کو مل کر Over all Temprature کو چار ڈگری نیچے لانا چاہیے تاکہ انسانوں کو مزید پچاس سال مل جائیں جس میں وہ Sustainable development کے کوئی دوسرے متبادل میکانزم ڈویلپ کرسکیں۔ اس کانفرنس میں امریکا بھی تھا‘ یورپ بھی تھا‘ چین اور بھارت وغیرہ سب تھے۔ اس معاہدے پر کسی نے بھی دستخط نہیں کیے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا اگر تباہ ہوتی ہے تو ہو جائے کیوں کہ ٹمپریچر چار ڈگری نیچے لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنی ٹیکنالوجیکل ترقی کے پراسس کو آہستہ کرنا پڑے گا اور اگر ہم ایسا کریںگے تو ہم نے جو سرمایہ اس پر لگایا ہوا ہے وہ ہمیں کون دے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ چین اور بھارت دونوں کے پاس انتہائی ردی قسم کی ٹیکنالوجی (Obsoleted technology) ہے جو بہت آلودگی پیدا کرتی ہے۔ تو چین نے کہا ٹھیک ہے ہم اپنی ٹیکنالوجی بند کر دیتے ہیں آپ ہمیں اتنے بلین ڈالر دیں جو ہم سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ اس پر مغربی ممالک نے کہا ہم تو نہیں دیں گے۔ انہوں نے جواب میں کہا تو ہم بند نہیں کریں گے‘ دنیا جائے بھاڑ میں ہمیں اس سے کیا سروکار؟ ویسے بھی اس ایوان کے اندر جتنے لوگ ہیں وہ پچاس سال تک زندہ نہیں رہیں گے لہٰذا اس کے بعد دنیا میں کیا ہوتا ہے اس کی ہمیں کوئی پروا نہیں۔
جو پوسٹ ماڈرن دانشور کوپن ہیگن کانفرنس کی صدارت کر رہی تھی اس نے وہ مسودہ پھاڑا اور کانفرنس سے اٹھ کر چلی گئی ا ور اس نے کہا کہ لوگوں نے ترقی کو انسانیت کے مستقبل پر ترجیح دی ہے لہٰذا اس دنیا کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اور یہ بات اس نے ہی نہیںکہی ایک مشہور ملحد فلسفی تھا ہائیڈیگر اس نے 1926ء میں ایک کتاب لکھی تھی ‘Essay Conceming Technology’ اس سے کسی نے پوچھا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی کا جو عفریت کھڑا ہوگیا ہے اس کا کوئی حل ہے یا نہیں؟ تو اس نے کہا کہ ’’اس ٹیکنالوجی کے عفریت سے دنیا کو صرف خدا بچا سکتا ہے۔‘‘ حالانکہ وہ خود خدا کو نہیں مانتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کو کوئی نہیں بچا سکتا کیوں کہ یہ برائی کا ایسا چکر ہے جس میں پڑنا تو آسان ہے لیکن اس سے نکلا نہیں جاسکتا۔ یہ ایسا کمبل ہے جس کو اوڑھنا تو آسان ہے لیکن پھر یہ کمبل آپ کو چھوڑتا نہیں ہے۔
ہمارے ہاںکچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو ٹیکنالوجیکل ترقی میں شامل ہی نہیں یہ تو یورپ Participate کر رہا ہے لہٰذا ہمیں کیا؟ ہم تو ہمیشہ محکوم ہی رہیںگے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں ٹیکنالوجیکل ترقی کے پروسیس کو Slow down کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ برے consumer بن جائیں۔ اگر آپ ایک برے Consumer بن جاتے ہیںتو انٹرنیشنل گلوبل اکانومی ڈوب جائے گی۔ ایک بڑا مشہور اکانومسٹ کہتا ہے کہ اگر ایک مہینے تک بڑی تعداد میں لوگ consumption کے پروسس سے اپنے آپ کو Detach کر لیں تو پروڈکشن کا عمل تو مستقل پروڈیوس کیے جا رہا ہے ناں! یہ مرغیاں جو آپ نے پال رکھی ہیں ایک خاص قسم کی ٹیکنالوجی کی وجہ سے وہ مسلسل انڈے دیتی رہتی ہیں۔ اگر آپ چاہیں کہ یہ انڈے دینا بند کر دیں تو یہ نہیں ہوسکتا وہ انڈے دیتی رہیں گی۔ جو بھی ٹیکنالوجی پروسیس کے اندر ہے اس کو اگر آپ نے slow down کرنے کی کوشش کی تو اس کے Price mecanism ڈسٹرب ہو جائیں گے اور پوری انٹرنیشنل مارکیٹ بیٹھ جائے گی۔
تو جولوگ غلط امریکی پالیسی کی وجہ سے اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے شکست دینا چہتے ہیں انہیں سمجھنا چاہیے کہ اس کے لیے انہیں امریکا پر میزائل اور بم مارنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس پر اس پہلو سے حملہ کرنا چاہیے جس کا وہ دفاع بھی نہ کرسکے اور وہ یہ ہے کہ آپ اس کی سرمایہ دارانہ ویلیوز کی پیروی کرنا چھوڑ دیں اور اس کی ٹیکنالوجی مصنوعات کی خرید بند کر دیں۔ دیکھیے! امریکا آپ سے یہ نہیں کہتا آپ Pizza hut میں جا کر ہزار روپے کی روٹی کھائو جب کہ آپ کے ملک میں پانچ روپے کی روٹی مل رہی ہے‘ وہ آپ سے یہ نہیںکہتا کہ ڈیڑھ کروڑ روپے کی گاڑی میں بیٹھو۔
جب آپ یا تیسری دنیا کے کسی ملک کا کوئی شہری 1600cc کی گاڑی خریدتا ہے تو چارلس ٹلی کہتا ہے کہ اس کی لوکل آبادی‘ اگر وہ زراعت پر مبنی معیشت رکھتی ہے جیسے کہ پاکستان کی ہے‘ تو سو گھرانے ڈھائی من گندم کی بوری سے محروم ہو جائیںگے۔ سو خاندانوں کو آٹے سے محروم کرنے کے بعد وہ گاڑی خریدتا ہے۔ اگر وہ کہے کہ میں نے ان پر ڈاکا تھوڑی ڈالا ہے۔ تو بے شک آپ نے ڈاکہ نہیں ڈالا لیکن آپ ایک ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں جو آپ نے نہیں بنائی تو آپ اس کی قیمت کہاں سے ادا کرو گے؟ اپنے لوگوں کا گلا کاٹ کر ہی تو ادا کرو گے۔
اگر آپ کہیں کہ اس میں حرج ہی کیا ہے؟ تو سمجھیے کہ گاڑی کوئی آم کے پیڑ پر نہیں اُگتی کہ آپ جا کر توڑ لائیںگے۔ گاڑی بنانے کے لیے انسان کو ہزاروں طرح کی آلودگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ کے لیڈر سے کوئی پوچھے کہ میاں جنت کا تصور کیا ہے تو وہ کہے گا جنت کا تصور یہ ہے کہ موٹر وے ہو بہت بڑی سی اور میں اس میں لیموزین چلاتے ہوئے جا رہا ہوں۔ اگر اُس کا دماغ اس طرح کام کر رہا ہے تو ظاہر ہے کہ عام آدمی کا دماغ کس طرح سے کام کرے گا؟
خلاصہ یہ ہے کہ مغرب کی ٹیکنالوجیکل ترقی کے میکانزم کو اگر آپ اسلحے کی بنیاد پر شکست دینا چاہتے ہیں اور اسلحے کے میدان میں ٹیکنالوجیکل پر کام کرنا چاہتے ہیںتو وہ بھی آپ کر سکتے ہیں لیکن بنیادی طور پر مغرب کو شکست دینے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس کی ویلیوز کی نقل کرنا چھوڑ دیں۔ اگر آپ کی ویلیوز وہی ہیں‘ اگر آپ بھی وہ چاہتے ہیںجو وائٹ ہائوس کے اندر بیٹھا ہوا آدمی چاہتا ہے تو پھر لڑائی کس بات کی ہے؟ پرابلم کیا ہے؟ لیکن اگر آپ فرعون کا طرزِ زندگی اور موسیٰؑ کی آخرت چاہتے ہیںتو یہ دونوں چیزیں ناممکن ہیں۔ دونوں ایک ساتھ نہیں ملیںگی۔ حضرت شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہو اور یوں بھی‘ یہ نہیں ہوسکتا۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ موجودہ ٹیکنالوجی کا استعمال فوراً بند کر دیں اور اسے توڑ کر پھینک دیں اور مجھے کہیں کہ سوری صاحب! آپ خود پنکھے کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں اور اس کے خلاف وہی پرانے اور گھسے پٹے دلائل دہرا رہے ہیں۔ بھائی! اگرچہ موسیٰ علیہ السلام نے اسی چکی کا آٹا کھایا تھا جو فرعونی تہذیب کی پیداوار تھی لیکن انہوں نے فرعون کی طرزِ زندگی کو آئیڈلائز نہیں کیا تھا اور جب ان کو موقع ملا انہوں نے اس طرزِ زندگی کو الٹا کے رکھ دیا۔ انہوں نے اہرام مصر نہیں توڑا لیکن انہوںنے یہ بھی نہیں کہا کہ چلو ہم اسے لائبریری بنا دیتے ہیں۔
مسلمان جب بحیرۂ روم کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا یہ کس طرح کے لوگ تھے جو پہاڑوں میں اس طرح کی محفو ظ زندگی گزارنے کے باوجود مارے جا رہے ہیں۔ تو اس سے وہ یہ سمجھے کہ تحفظ کے لیے پہاڑوں کے اندر رہنا بھی بی کار ہے اور یہ طے کیا کہ وہ میدانوں کے اندر رہ کر ہی اپنا تحفظ کریں گے اور دشمن کو شکست دیں گے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر وہی طرزِ زندگی اختیار کرنا چاہتے ہیں جو امریکا اور یورپ اختیار کیے ہوئے ہیں تو پھر آپ کو ان کے ساتھ پرابلم کیا ہے؟
ہم یہ کہتے ہیںکہ ٹیکنالوجی اپنے ساتھ اپنی ویلیوز لے کر آتی ہے۔ یہ دیکھیے کہ مشرقی اور مغربی یورپ میں اتحاد کی تحریک کیسے چلی! جب مشرقی یورپ کے لوگوں نے دیکھا کہ مغربی یورپ کے لوگوں نے خوب ترقی کر لی ہے تو انہوں نے سوچا کہ ہم بھی ان کی ٹیکنالوجی کو اپنا لیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمارے ہاں بھی ایسی ہی ترقی ہو جائے گی۔ اس کے لیے انہوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی ان سے لی۔ انہوں نے جیسے ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی مغربی یورپ سے لی تو انہوں نے کہا کہ آپ کے پاس ایسے مالی ادارے ہونے چاہئیں جو اس ٹیکنالوجی ٹرانسفر میں مدد دیں تو مشرقی یورپ والوںنے سوچا کہ چلو چند ایک مالی ادارے بنا لیتے ہیں جو مشرقی اور مغربی یورپ کے مابین ٹیکنالوجی ٹرانفرمیشن کو ممکن کر سکیں۔ لیکن ان اداروں کے ذریعے بالآخر پوری سوسائٹی ٹرانسفر ہو گئی اور انہوں نے کمیونسٹوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ مشرقی یورپ کی آبادی کا اوسط طرزِ زندگی 1924ء یعنی پہلی جنگِ عظیم کے بعد سے لے کر 1982ء تک صرف چودہ فیصد بڑھا تھا۔ انہوںنے جب مغربی یورپ کو دیکھا تو سوچا کہ ہمیں بھی ایسی ترقی چاہیے۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ ترقی تمہیں ملے گی Competitive lif world کی بنیاد پر۔ چنانچہ وہ مان گئے کہ انہیں Free competition چاہیے۔ میں کیوں لائن میں لگ کے انتظار کروں؟ بلکہ جس میں دَم ہے وہ لے لے۔ یوں انہوں نے کہا کہ ہمیں اصولِ مساوات کی بنیاد پر ٹیکنالوجی نہیں چاہیے بلکہ Efficiency کی بنیاد پر چاہیے۔ Efficiancy تو سب کے اندر برابر نہیں ہوتی‘ جس کی جتنی Efficiency ہو وہ اتنی ٹیکنالوجی مغربی یورپ والوں سے لے لے۔ اس کے نبتیجے میں کیا ہوا؟ مشرقی یورپ اور مغربی یورپ ایک ہی نتیجے پر جمع ہوگئے۔ اگر آپ بھی وہی ٹیکنالوجی استعمال کرنا چاہتے ہیںتو آپ کو بھی انہی ویلیوز پر جمع ہونا ہوگا۔