ابھی وہ آپس میں یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک اور چونکا دینے والی خبر سامنے آئی۔ ملک جہانگیر، جن کی اچھی شہرت نہ صرف بستی میں تھی بلکہ آس پاس کے دیگر علاقوں میں بھی ان کی ساکھ بہت اچھی تھی ان کے نام کوئی آدمی ایک دھمکی آمیز خط ان کے کسی پہرہ دینے والے چوکیدار کے ہاتھ میں تھما کر چلا گیا۔ خط میں لکھا تھا کہ ملک صاحب ہم اتنی صلاحیت رکھتے ہیں کہ آپ کی پوری حویلی کو دھماکے سے اڑا دیں لہٰذا آپ فی الحال دس لاکھ روپوں کا انتظام کر کے رکھیں۔ رقم ہم تک پہنچانے کا طریقہ کار آپ کو بعد میں بتا دیا جائے گا۔ ہاں یا ناں لکھ کر اسی کیس میں خط ڈال کر آپ شمالی دیوار کے بالکل درمیاں میں رکھ دیں۔ آپ کا اقرار یا انکار ہمیں موصول ہو جائے گا۔ بہتر یہ ہے کہ آپ پولیس کو آگاہ نہ کریں لیکن اگر آگاہ کر بھی دیں گے تو پولیس ہمارا سراغ کبھی نہیں لگا سکے گی۔ جواب کے لیے آپ کے پاس کل رات تک کا وقت ہے بصورتِ دیگر ہمارا دوسرا ردِ عمل جلد سامنے آ جائے گا۔
جس کیس میں خط ملک جہانگیر کو موصول ہوا تھا وہ نظر کے بنے بنائے چشموں کے برا بر تھا جس کی لمبائی 5 انچ اور چوڑائی 1 انچ کے برابر تھی۔ اس کا منہ ماسکنک ٹیپ سے بند کیا ہوا تھا اور خط کو دوبارہ بند کر کے اس میں رکھنے کے بعد اس کے منہ کو ماسکنک ٹیپ سے بند کر دینے کی ہدایت درج تھی۔
انسپکٹر حیدر علی نے جب یہ ساری تفصیل جمال اور کمال کو بتائی تو دونوں کے منہ سے بیک وقت نکلا “بہت ہی دلچسپ”۔ اب کیا خیال ہے؟، انسپکٹر حیدر علی نے سوالیہ انداز میں جمال اور کمال کو مخاطب کر کے پوچھا۔
آپ بڑے ہیں آپ زیادہ بہتر فیصلہ کر سکیں گے، ویسے ہماری رائے یہ ہے کہ ان کی ہدایت کے مطابق، خط پر “ہاں” لکھ کر ان کی بتائی ہوئی جگہ پر وہ کیس رکھ کر اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کیس کو وصول کرنے والے آتے کہاں سے ہیں۔ بظاہر تو ان کو دیوار کی پچھلی سمت سے کود کر آنا چاہیے اس لیے کہیں مناسب جگہ سے نگرانی کرائی جا سکتی ہے۔ بے شک ان کی ہدایت کے مطابق کیس کو مہندی کی باڑ میں چھپا کر رکھنا ہے لیکن آخر کوئی تو ان کو لینے آئے گا۔ یہ تو ہماری رائے ہوئی اب آپ کیا کرنا چاہتے ہیں، ظاہر ہے یہ آپ کا کام ہے۔
حیدر علی نے کہا کہ ٹھیک ایسا ہی میں سوچ رہا تھا۔ عام طور پر مجرمان یہ دھمکی دیا کرتے ہیں کہ پولیس کو آگاہ کرنے کے نتائج بہت خطرناک ہونگے لیکن اس مرتبہ ایسا لگتا ہے کہ وہ ہمارے اختیارات کو للکار رہے ہیں اس لیے ہمیں بہت ہوشیار اور محتاط ہو کر کام کرنا ہوگا اور یہ بھی مدِ نظر رکھنا ہوگا کہ کہیں شمالی دیوار کی نگرانی کرنے والا کسی ایسے ہی زہر کا شکار ہو کر نہ رہ جائے جیسے کچھ دن قبل ایک لاش پر اسرار زہر کا شکار ہوئی۔ میں بتاتا چلوں کہ شہر کی تقریباً تمام لیبارٹریوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پائے جانے والے دانتوں کے نشانات اصلی دانوں کے نہیں دھاتی دانتوں ہی کے ہیں۔
انسپکٹر حیدر علی تو جا چکے تھے لیکن جمال اور کمال کافی دیر تک مختلف معاملات پر غور کرتے رہے اور پھر یہی فیصلہ ہوا کہ ملک جہانگیر کے “ہاں” کے جواب میں انھیں پیسے بھجوانے کا کیا طریقہ کار بتایا جاتا ہے۔
خط پر “ہاں” لکھ کر بتائی ہوئی جگہ پر رکھ دیا گیا تھا۔ ساری رات تاریکی میں بھی دیکھ لینے والے کیمرے شمالی دیوار سے مناسب فاصلے پر نصب کر دیئے گئے تھے۔ اور نہایت چابک دست خفیہ کے اہل کار کو مناسب جگہ چھپا کر بٹھا دیا گیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اسے ہر قسم کے خدشے سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ وہ ساری رات آنکھوں آنکھوں میں گزر بھی گئی مگر نہ نگرانی کرنے والے کی آنکھ کسی کو دیکھ پائی اور نہ ہی کیمرے کسی کی عکس بندی کر سکے۔ جس جگہ خط کو کیس میں رکھ کر ڈال دیا گیا تھا جب وہاں کا جائزہ لیا گیا تو کیس کا کوئی نام و نشان تک نہیں تھا۔ پولیس کا پورا ڈپارٹمنٹ حیران تھا اور اپنا سر پکڑ کر بیٹھا ہوا تھا کہ مجرم کہاں سے حویلی میں داخل ہوئے اور کہاں سے ہوا بن کر اڑ گئے۔ پولیس کے پاس جو بھی ذرائع تھے سارے استعمال کر لیے گئے۔ اندر اور باہر کا ہر قسم کے حساس آلات سے جائزہ لیا گیا کہ شاید کسی کے آنے جانے کا کوئی ہلکا سا نشان ہی مل سکے لیکن ذرہ برابر بھی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
جمال اور کمال تک جب یہ اطلاع ملی تو انھوں نے بھی سر جوڑ لیا۔ دونوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ بات تو واقعی بہت حیرت کی اور کسی حد تک خوف زدہ کردینے والی ہے۔ جو مجرم دکھائی ہی نہ دینے والی مخلوق کی طرح ثابت ہو رہے ہیں وہ یقیناً پوری حویلی کو بھی خاک کا ڈھیر بنانے کی صلاحیت رکھتے ہونگے۔ فی الحال تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ اب ان کے دوسرے قدم کا انتظار کیا جائے اور دیکھا جائے کہ وہ مطلوبہ رقم کس طرح وصول کرتے ہیں۔ یہ جب ہی ممکن ہے جب پولیس اور ملک جہانگیر اس خطیر رقم کو ادا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ (جاری ہے)