فنا نظامی کانپوری

467

بڑے گھیر والا سفید پاجامہ ،کالے رنگ کی شیروانی، سر پر کانپوری ٹوپی، خوب صورت سے چہرے پر کالی داڑھی، پُروقار شخصیت کے مالک فنا نظامی کانپوری کا اپنا ایک دور تھا‘ مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے ایک تو کلام اچھا دوسرے ترنم لاجواب۔ جب غزل سرا ہوتے تو مشاعرہ گاہ میں ہر شخص ہمہ تن گوش ہوتا مصرع ثانی کے بعد واہ واہ اور تالیوں کے شور سے مشاعرہ گاہ گونج اٹھتی ۔ میںنے پہلی بار فنا کو انہی کے شہر کانپور میں دیکھا بھی اور سنا بھی تھا۔ غزل تھی ’’جب میرے راستے میں کوئی میکدہ پڑا‘‘

اس غزل کے سارے ہی اشعار کیا خوب ہیں ذرا اس شعر کی شگفتہ بیانی تو ملاحظہ کیجیے جو انسانی نفسیات کی صحیح عکاسی کرتی ہے۔

اک تیرے دیکھنے کے لیے بزم میں مجھے
اوروں کی سمت مصلحتاً دیکھنا پڑا

مشکل ردیف والی اس غزل کا ایک اور خوبصورت شعر:

ترکِ تعلقات کو ایک لمحہ چاہیے
لیکن تمام عمر مجھے سوچنا پڑا

پاکستان منقسم ہو گیا‘ بنگلہ دیش وجود میں آگیا۔ ایسا کیوں ہوا تاریخ کے اوراق گواہ ہیں اور پشیماں بھی‘ مجھے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ فنا کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے جس میں شاعر نے فقط دو مصرعوں میں وہ سب کچھ کہہ دیا جس کے لیے تاریخ دان کو بہت سارے صفحات استعمال کرنے پڑتے ہیں:

ایک تشنہ لب نے چھین لیا بڑھ کے جام ِمے
ساقی سمجھ رہا تھا سبھی کو گرا پڑا

جب بھی وطن ِ عزیز میں اعلانِ جنگ معاف کیجیے گا اعلان ِبجٹ ہوتا ہے تو بقول شاعر ’’برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر‘‘ ہمیشہ غریب عوام ہی زیرِ عتاب آتے ہیں اور انہی کو صبر کی تلقین بھی کی جاتی ہے۔ سالانہ بجٹ کا اعلان ہوا۔ اُس وقت ’جسارت‘ اخبار کے مدیرِ اعلیٰ محترم اطہر ہاشمی نے سنڈے میگزین کے سرورق پر فنا نظامی کا ایک ایسا شعر جلی حروف میں لگایا جو غریب عوام کی طرف سے ایک سوال تھا ان حکمرانوں سے جو بجٹ کا معجون تیار کرتے ہیں:

رودادِ فصلِ گُل نہ سنا تو حساب دے
اے باغ باں بتا مرے حصّے میں کیا پڑا

مقطع کہنے سے قبل فرمانے لگے کہ میرے اس شعر کا مفہوم مجھے اُس وقت سمجھ میں آیا جب میں امرتسر راجندر سنگھ بیدی سحرؔ کے گھر گیا اور ان کے ڈرائنگ روم میں اپنا یہ شعر کافی بڑے حروف میں کتابت کیا ہوا اور ایک بڑے سے فریم میں لگا ہوا دیوار پر آویزاں دیکھا ۔

یوں جگمگا رہا ہے ترا نقشِ پا فناؔ
جیسے ہو راستے میں کوئی آئینہ پڑا

فتح پور میں مشاعرہ تھا یہ بات آج سے کوئی پچپن سال قبل کی ہے سارے ملک سے شعرا کرام تشریف لائے تھے فنا نظامی بھی مشاعرے میں مدعو تھے چوں کہ میں انہیں کانپور کے مشاعرے میں سن چکا تھا لہٰذا مجھے دوبارہ انہیں سننے کا اشتیاق تھا۔ رات کے کوئی دو بجے ناظمِ مشاعرہ نے فنا کا ایک خوب صورت سا شعر پڑھ کر انہیں دعوتِ سخن دی۔شعر ہے:

داستان ِترکِ عشق کچھ اتنی پرانی ہو گئی

پہلے ایک حادثہ پھر واقعہ پھر اک کہانی ہو گئی

فنا صاحب مائیک پر تشریف لائے اور اپنے مخصوص ترنّم میں غزل سرا ہوئے۔

اندھیرے کو نکالا جا رہا ہے
مگر گھر سے اجالا جا رہا ہے
ذرا سی بات ہے عرضِ تمنا
جسے اتنا اُچھالا جا رہا ہے

اس وقت ہندوستان میں کانگریس کی حکومت تھی اندرا گاندھی وزیرِاعظم تھیں الیکشن قریب تھے لہٰذا مسلمانوں سے ووٹ لینے کے لیے اندرا گاندھی مسلمانوں سے کچھ زیادہ ہی اظہارِ ہمدردی کر رہی تھیں یہ ساری باتیں ذہن میں رکھیے گا تو شعر کا مفہوم خود بخود سمجھ میں آجائے گا:

چبھوئے جائیں گے تلووں میں نشتر
ابھی کانٹا نکالا جا رہا ہے

علی گڑھ میں مشاعرہ تھا فنا نظامی نے غزل پڑھنی شروع کی:

گھر ہوا گلشن ہوا صحرا ہوا
ہر جگہ میرا جنوں رسوا ہوا
میں تو پہنچا ٹھوکریں کھاتا ہوا

منزلوں پر خضر کا چرچا ہوا
حسن پر بھی تھی زمانے کی نظر

وہ تو کہیے عشق ہی رسوا ہوا

اگلا شعر پڑھنے سے قبل قریب بیٹھے ہوئے جگر مراد آبادی کو مخاطب کر کے کہنے لگے’’ جگر یہ شعر خصوصاً آپ کے لیے ہے‘‘ جگر صاحب اس سے قبل جب کبھی علی گڑھ کے مشاعرے میں تشریف لاتے تو عالمِ مدہوشی اتنی ہوتی کہ کسی کے سہارے کے بغیر اسٹیج تک پہنچنا مشکل ہوتا تھا لیکن اب الحمدللہ مولانا اشرف علی تھانوی سے بیعت ہو چکے تھے چہرہ داڑھی سے مزیّن ہو چکا تھا دخترِ رز سے ناتا توڑ چکے تھے غرضیکہ مکمل طور پر اپنے ہوش و حواس میں تھے فنا نے جگر صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شعر پڑھا…

یہ عمارت تو عبادت گاہ ہے
اس جگہ اک مے کدہ تھا کیا ہوا

1977ء کی بات ہے نشتر پارک کراچی میں جماعت ِ اسلامی کے زیر ِاہتمام ایک شاندار مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ اس مشاعرے میں پاکستان کے نامور شعرائے کرام تشریف لائے تھے۔ حفیظ جالندھری صدارت فرما رہے تھے‘ فنا نظامی بطور مہمان شاعر انڈیا سے تشریف لائے تھے۔ فنا نے وہی غزل پڑھی جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے‘ صرف ایک اضافی شعر کے ساتھ یہ کہتے ہوئے کہ کراچی والو! یہ شعر تمہارے لیے ہے :

غیرتِ اہلِ چمن کو کیا ہوا
چھوڑ آئے آشیاں جلتا ہوا

اعجاز رحمانی ماشااللہ اُس وقت جوان تھے اور اس مشاعرے میں موجود تھے۔ اعجاز بھائی کا ترنم بھی کیا خوب تھا فنا سے پہلے وہ اپنا کلام پڑھ چکے تھے‘ مگر جیسے ہی فنا نے غزل مکمل کی اعجاز بھائی فوراً اسٹیج پر پہنچ گئے یہ کہتے ہوئے کہ صدرِ محترم سے اجازت کے ساتھ صرف ایک شعر اور پڑھنا چاہتا ہوں شعر ہے:

غیرت ِاہلِ وطن کے واسطے
چار تنکے جل گئے تو کیا ہوا

یہ کہہ کر واپس ہو لیے اور سامعین کی تالیاں بجتی رہیں۔ فنا نظامی کی ایک غزل کے چند اشعار:

ساقیا تو نے مرے ظرف کو سمجھا کیا ہے
زہر پی لوں گا ترے ہاتھ سے صہبا کیا ہے
میں چلا آیا ترا حسنِ تغافل لے کر
اب تری انجمنِ ناز میں رکھا کیا ہے
نہ بگولے ہیں نہ کانٹے ہیں نہ دیوانے ہیں
اب تو صحرا کا فقط نام ہے صحرا کیا ہے
ہو کے مایوسِ وفا ترکِ وفا تو کر لوں
لیکن اس ترکِ وفا کا بھی بھروسا کیا ہے
کوئی پابندِ محبت ہی بتا سکتا ہے
ایک دیوانے کا زنجیر سے رشتہ کیا ہے

فنا نظامی کا شمار اپنے وقت کے استاد شعرا میں ہوتا تھا‘ کسی مشاعرے میں فنا کی شمولیت مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی تھی۰ بنگلور میں مشاعرہ تھا چونکہ وہاں کے وزیراعلیٰ بھی تشریف لائے تھے لہٰذا پولیس کی اچھی خاصی نفری تعینات تھی۔ فنا نے کئی غزلیں پڑھیں سامعین نے داد اور تالیوں سے خوب نوازا۔ اگلے دن ایک اخبار کی سرخی مشاعرے کے بارے میں کیا خوب تھی‘ ملاحظہ فرمائیے ’’سینکڑوں پولیس والوں کی موجودگی میں فنا نامی ایک شخص کانپور سے آیا اور مشاعرہ ’لوٹ‘ کر چلا گیا پولیس والے اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔‘‘

حصہ