’’جنابِ عالی! وطن کی محبت قرض نہیں جو میری طبیعت کو مضمحل اور دل کو بوجھل کردے۔ یہ تو روح پرور احساس کی وہ روشنی ہے جس سے آسمان کی وسعتوں کو منور کرنا میرا مقصدِ حیات ہے۔ بظاہر میرے کندھے ناتواں ہیں مگر عزم جواں ہے۔‘‘
اسکول میں یومِ آزادی کی تقریب تھی جس کی تیاری کے لیے سدیس بہت جوش و خروش سے تقریر اقصیٰ کو سنا رہا تھا کہ ارحم نے پیچھے سے پرچہ جھپٹ لیا۔
’’بس کردیں مما! کیوں جھوٹی محبت کی کہانیاں رٹواتی رہتی ہیں! ہمارے ملک کی کھوکھلی ہوتی بنیادوں کو نئی نسل کی لفّاظی نہیں بچا سکتی۔‘‘ ارحم نے تقریر کا صفحہ گول مول کرکے کمرے کے کونے میں اچھال دیا اور اقصیٰ کی گود میں سر رکھ کے لیٹ گیا۔
’’بیٹا! تم یہ صفحہ اٹھاؤ اور اندر جاکے یاد کرلو، میں رات میں سن لوں گی۔‘‘ اقصیٰ نے منہ بسورتے سدیس کو اندر بھیجا اور ارحم کی طرف متوجہ ہوئی۔
’’کیا ہوا، اتنے مایوس کیوں ہو؟‘‘
’’ساری زندگی آپ نے وطن کی محبت گھوٹ گھوٹ کے پلائی، صرف ایک ہی مقصدِ حیات رٹوایاکہ بڑے ہوکر ملک و قوم کی خدمت کرنی ہے۔ مگر آج کا نوجوان بے غرض ہوکر اس ملک کے لیے کچھ نہیں کرسکتا کیوں کہ اسے کچھ کرنے ہی نہیں دیا جاتا۔ آپ کو پتا ہے آج میرا ساتواں انٹرویو تھا اور ہر بار کی طرح آج بھی مجھ سے میری قابلیت سے زیادہ میری حیثیت کے بارے میں پوچھا گیا تاکہ وہ جان سکیں میرے پاس اُن کی مٹھی گرم کرنے کی کتنی اہلیت ہے۔ رشوت یا سفارش کے بغیر اس ملک میں کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ ارحم تلخی سے بول رہا تھا۔
’’سات دفاتر پورا ملک ہوتے ہیں کیا؟‘‘ اقصیٰ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے نرمی سے بولی۔
’’مما پلیز…!‘‘ ارحم بے زاری سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ’’اب آپ کہیں گی کہ اچھے برے لوگ سب جگہ ہوتے ہیں۔ برائی سامنے آئے تو اچھائی کی امید نہیں گنوانی چاہیے… وغیرہ وغیرہ۔ مجھے نہیں سننا آپ کا لیکچر، مشاہدے کے چند لوگ ہی ساری قوم کا مجموعی تاثر پیش کرتے ہیں۔ جیسے دادی کہا کرتی تھیں: دیگ کے چند چاولوں کی جانچ ہی پوری دیگ کے کچا یا پکا ہونے کی ضامن ہوتی ہے۔‘‘
’’کوئی بھی ایک مثال ہر صورتِ حال کے لیے مناسب نہیں ہوتی بیٹا! ہیرے کی کان میں ایک ایک ہیرے کو چھان پھٹک کرکے، گِھس کر، چمکا کر انمول بنایا جاتا ہے۔ تم مایوس مت ہو، اللہ بہتر کرے گا… تم منہ ہاتھ دھولو، میں کھانا لاتی ہوں۔‘‘
اقصیٰ کو پتا تھا کہ ابھی وہ پریشان ہے، فی الحال اس پر کوئی بھی مثبت بات اثر نہیں کرے گی، اس لیے وہ بعد میں سمجھانے کا ارادہ کرتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئی۔
اقصیٰ اور افتخار کے دو ہی بیٹے تھے۔ بڑا ارحم تھا جو تازہ تازہ گریجویٹ ہوکر نوکری کی تلاش میں تھا، اور چھوٹا سدیس جو ارحم سے پورے دس سال چھوٹا اور چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ ان دونوں بچوں کے درمیان کئی بار اقصیٰ کے در پہ خوشی نے دستک دی، پَر قدرت نے زندگی نہ لکھی تھی۔
اقصیٰ کو بچپن سے ہی اپنے ملک سے بہت محبت تھی۔ دادی سے ہجرت کی داستانیں سن سن کر وہ اپنے قومی ہیروز کی دل سے قدردان تھی، اور یہی محبت اس نے اپنے بچوں میں منتقل کی تھی۔ پَر ارحم موجودہ حالات کی وجہ سے دل برداشتہ تھا۔
کوئی نیا دفتر بنا تھا… ارحم کی ان سے فون پہ بات ہوئی۔ تھوڑی امید بندھی تھی۔ رشوت، سفارش کچھ نہیں مانگ رہے تھے مگر تنخواہ کم تھی۔ بابا نے سمجھایا کہ ’’شروعات تو کرو، محنت کرو گے تو ترقی کے راستے کھل جائیں گے۔‘‘
ارحم کل دفتر لے جانے کے لیے کچھ ضروری کاغذات اکٹھے کررہا تھا۔ ’’مما! یہ فائل تو میز کی دوسری دراز میں ہی پڑی تھی۔ میں نے کتنی دفعہ فون پہ بتایا مگر آپ کو نہیں ملی۔ مجھے اب دوبارہ جانا پڑے گا فوٹو اسٹیٹ کرانے۔ اگر آپ تصویر کھینچ کر واٹس ایپ کردیتیں تو میں ہاتھ کے ہاتھ کاپی نکلوا لاتا۔‘‘ ارحم جھنجھلا کر کمرے سے ہاتھ میں فائل لیے نکلا اور ماں سے شکوہ کرنے لگا۔
’’یقین کرو ارحم میں دو دفعہ گئی تمہارے کمرے میں فائل دیکھنے، مگر اتنا اندھیرا تھا کہ مجھے کچھ نظر ہی نہیں آیا۔‘‘
ماں کے جواب پر ارحم حیران رہ گیا۔ ’’کیا مطلب مما! اگر اندھیرا تھا تو آپ لائٹ جلا لیتیں، لائٹ نہیں تھی تو موبائل، ٹارچ، موم بتی کچھ بھی جلا لیتیں۔ اندھیرا ہونا کوئی جواز تو نہیں ہے، جب اندھیرا ہوجائے تو روشنی خود ہی کرنی پڑتی ہے۔‘‘
ارحم کی بات پر اقصیٰ کی آنکھوں میں چمک ابھری تھی۔’’ہاں واقعی صحیح کہا تم نے بیٹا! اندھیرا ہونا کوئی جواز تو نہیں ہے۔ اندھیرا ہوجائے تو روشنی خود ہی کرنی پڑتی ہے۔‘‘ اس نے ارحم کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے اس کی تائید کی تو وہ چونک کر ماں کو دیکھنے لگا۔ ماں کی نگاہوں میں چھپا پیغام اسے بہ خوبی سمجھ میں آرہا تھا، وہ نظر چراتا ہوا واپس پلٹ گیا۔
سدیس کب سے ارحم کے پیچھے پڑا تھا کہ اسے چودہ اگست پہ گھر سجانے کے لیے جھنڈیاں اور ایک بڑا سا جھنڈا دلا لائے، مگر وہ مستقل انکاری تھا۔
’’تمہارے گھر سجانے سے ملک و قوم کا کون سا فائدہ ہوگا؟ ایک دن جھنڈا لہرانے سے کیا محب وطن بن جاتے ہیں؟ اور ہمارے مذہب میں کہاں لکھا ہے کہ یومِ آزادی ضرور منانا چاہیے؟‘‘ ارحم کی جرح پر سدیس روہانسا کھڑا تھا۔ اسے کوئی جواب نہیں سوجھا تو اقصیٰ اس کی مدد کو آگے بڑھی:
’’یہ کوئی مذہبی تہوار نہیں ہے ارحم! جو تم فتویٰ مانگ رہے ہو۔ یومِ آزادی جوش و خروش سے منانا ہماری روایت ہے اور ہر علاقے کی اپنی مخصوص روایت و ثقافت ہوتی ہے جو اس قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ ویسے بھی نئی نسل کا مزاج جدا ہے، وہ اظہار کرنے کی عادی ہے۔ ایسے میں اگر تم ان سے وطن کی محبت کا یہ اظہاریہ چھین لو گے تو وہ آزادی کی قدر سے بالکل ہی غافل ہوجائیں گے۔ ایک دن ہی سہی، پَر وہ محبت کی تجدید تو کرتے ہیں نا۔‘‘
ماں کی بات سن کر ارحم شرارت سے مسکرایا ’’پھر تو میں اس کو بڑا والا باجا بھی دلادوں گا تاکہ پوں… پوں کرکے پورے محلے کی ناک میں دَم کرتا پھرے۔ جتنا زور سے بجائے گا اتنی وطن سے محبت ظاہر ہوگی۔‘‘
ارحم کو کھڑا ہوتے دیکھ کر اقصیٰ نے اطمینان کا سانس لیا۔ وہ سدیس کو لے جانے کے لیے تیار ہوگیا تھا۔
’’باجے بجانا لاکھ برا سہی، پَر یہ گانے، باجے گاجے سب ہم نے ہی اپنے بچوں کو دیے ہیں۔ ان کا باجا بجانا ہمیں نظر آتا ہے، برابھی لگتا ہے، مگر وہ کیوں بجا رہے ہیں یہ ہم سوچتے بھی نہیں۔ اپنے تئیں ہر بچہ باجا بجا کر وطن سے محبت کا اظہار کررہا ہوتا ہے، آزادی کا جشن منا رہا ہوتا ہے۔ اگر ہم غصہ کرکے ان سے باجا چھین لیں گے تو ان کے دل میں یومِ آزادی سے بے زاری پیدا ہوگی۔ سوشل میڈیا کا دور ہے، بچوں کو وطن سے محبت پہ چھوٹے چھوٹے خاکے، ٹک ٹاک، وڈیوز بنانے پر لگا دو۔ گلی محلوں میں تربیتی پروگرام رکھو تو ان کے ذہن بھی کھلیں گے اور ان کو یہ سرگرمیاں باجا بجانے سے زیادہ دل چسپ لگیں گی۔‘‘
اقصیٰ چادر اوڑھتی ہوئی ان دونوں کے پیچھے آئی تو ارحم نے اچنبھے سے دیکھا۔ ’’آپ کہاں چل رہی ہیں؟‘‘
’’مجھے بھی ہرا اور سفید دوپٹہ لینا ہے، چودہ اگست کے دن جھنڈے کے ساتھ میچنگ کرکے اس کو بتانا ہے کہ مجھے بھی تم سے محبت ہے۔‘‘ اقصیٰ کے لہجے میں شوخی تھی۔
’’مما! نانو صحیح کہتی ہیں آپ کبھی بڑی نہیں ہوسکتیں۔‘‘ سدیس نے ماں کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا تو تینوں ہنس دیے۔
سدیس نے جھنڈیاں، بیجز، چشمہ اور نہ جانے کیا کچھ خرید لیا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سارا بازار خرید ڈالے۔ ارحم جزبز ہورہا تھا مگر اقصیٰ سدیس کا پورا ساتھ دے رہی تھی۔ سدیس نے اپنا سارا سامان ایک بڑے سے خاکی رنگ کے گتے کے ڈبے میں رکھوا لیا تھا جو اس نے خود ہی پکڑا ہوا تھا۔ ارحم نے ڈبہ لینا چاہا تو اس نے منع کردیا۔ وہ لوگ بازار سے باہر نکلے تو شام ہوچکی تھی۔ رکشا کے انتظار میں کھڑے تھے کہ ایک بائیک قریب آکر رکی جس پر دو بندے سوار تھے۔ ایک نے پستول نکال کر ان تینوں پر تانی اور دوسرا بائیک سے اتر کر ان کے قریب آگیا۔ ارحم نے خاموشی سے اپنا موبائل اور والٹ اس کی طرف بڑھا دیا، اقصیٰ نے بھی سدیس کو اپنی آڑ میں کرتے ہوئے اپنا پرس اور موبائل دے دیا۔ اس شخص نے اقصیٰ کو دائیں طرف دھکیل کر سدیس کے ہاتھ سے ڈبہ جھپٹا۔ اقصیٰ اور سدیس دونوں کے منہ سے ایک ساتھ چیخ نکلی۔ ارحم کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ اس بدبخت شخص نے ڈبے کا اوپری حصہ بے دردی سے پھاڑ کر ڈبہ زمین پر الٹ دیا۔ سب سامان اس کے قدموں کے پاس ڈھیر ہوگیا۔ اطراف میں بہت ساری ہری جھنڈیاں بکھر گئیں۔ اپنے مطلب کی کوئی خاص چیز نہ پا کر وہ بائیک کی طرف مڑا تو پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اس کے جوتوں تلے روندتا چلا گیا۔ ارحم کی آنکھوں میں جھنڈے کی اتنی بے عزتی پر خون اتر آیا۔ بچپن سے دل میں بسی ہوئی محبت اپنی پوری تابناکی سے بیدار ہوئی تھی۔ وہ ایک دم اس ڈاکو پر پل پڑا۔ وہ دوسرے شخص سے ٹکراکر بائیک سمیت زمین بوس ہوگیا۔ اطراف کے لوگ خوف کی وجہ سے نظر چرائے کھڑے تھے۔ لڑکے کی اتنی جرات پر ان کو بھی حوصلہ ملا اور وہ بھی ان دونوں رہزنوں کو مارنے لپکے۔ ان میں سے ایک ڈاکو ان کے قابو میں آگیا اور انہوں نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا، جب کہ بائیک پر سوار شخص بائیک اٹھاکر اسے اسٹارٹ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ بوکھلاہٹ میں اس نے پستول کا رخ ارحم کی طرف کرکے فائر کیا اور اپنے ساتھی کو چھوڑ کر اپنی جان بچاکر بھاگ گیا۔ گولی سیدھی ارحم کے جسم میں پیوست ہوئی تھی۔ سب کچھ چند لمحوں کا کھیل تھا۔ سدیس ہچکیوں کے درمیان بھائی بھائی چلّا رہا تھا اور اقصیٰ ساکت و جامد کھڑی پھٹی آنکھوں سے ارحم کو دیکھ رہی تھی جو اس کے سامنے الٹا پڑا تھا اور گاڑھا سرخ خون سڑک پر دور تک پھیلتا چلا جا رہا تھا۔
اس حادثے کو چار دن ہوچکے تھے۔ اقصیٰ صوفے پر اداس بیٹھی تھی اور سدیس اس کی گود میں سر رکھے غائب دماغی سے فرش پر انگلیاں پھیر رہا تھا۔
’’اتنی افسردہ کیوں ہیں مما! آپ کو تو خوش ہونا چاہیے، اگر آپ کا بیٹا اپنے پرچم کے تقدس کے لیے بازو پر گولی کھا سکتا ہے تو وطن کی حفاظت کی خاطر تو اپنے سینے پر وار سہے گا۔‘‘ ارحم اقصیٰ کے برابر صوفے پر آکر بیٹھا تو اس نے خالی نظروں سے اس کے زخمی بازو کو دیکھا۔
’’پریشان اس لیے ہوں بیٹا کہ سچ مچ اندھیر ہوگیا ہے، ایک ایسی تاریکی جو ملک کو جکڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔‘‘
’’مما! آپ کوتو پتا ہے کہ اندھیرا ہونا حوصلہ ہار دینے کا جواز نہیں ہوتا۔ جب اندھیرا ہوجائے تو روشنی خود ہی کرنی پڑتی ہے، اور جب تک آپ جیسی مائیں اپنی اولاد کو گھٹی میں وطن کی محبت کی شیرینی چٹاتی رہیں گی تب تک ہر ظلمت کو زیر کرنے کے لیے جگنو پیدا ہوتے رہیں گے۔ کل یومِ آزادی ہے، آپ ایسے ناامید نہ بیٹھیں، مجھے اچھا نہیں لگ رہا۔‘‘ ارحم نے مسکرا کے کہا اور سدیس کے بالوں میں انگلیاں پھنسائیں۔
’’تم کیوں اتنے سست بیٹھے ہوئے ہو بھئی! کل بابا جو جھنڈا لائے تھے وہ اب تک منتظر نظروں سے ہمیں دیکھ رہا ہے، چلو اسے بالکونی میں لگاتے ہیں۔ جب محبت ہے تو اس کا اظہار بھی ہونا چاہیے نا۔ اس کے بعد مجھے اپنی تقریر بھی سناؤ۔ اپنے بھائی کی طرح تم کو بھی کل اسکول میں پہلی پوزیشن لینی ہے۔‘‘
ارحم سدیس کا ہاتھ پکڑے باہر نکل گیا۔ امید کا ٹمٹماتا ہوا معمولی دِیا مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو خاکستر کرنے کا ہنر رکھتا ہے۔ اقصیٰ نے آنکھ کے کونے پر ٹھیرا آنسو صاف کیا اور دل سے مسکرادی۔