روشن مستقبل اور امید کی سرزمین پاکستان

1139

کہا جاتا ہے کہ ناکامی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔ گویا جو ناکامی سہنے کا ہنر جانتا ہے کامیابی بھی اُسی کا مقدر بنتی ہے، جسے ناکامی سہنے کا ہنر آجائے وہ مسائل سے لڑنے کا فن بھی بہ خوبی جان لیتا ہے۔ ہماری عزیز از جان سرزمین بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے مشکلات کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔ خوش آئند پہلو یہ ہے کہ یہ سرزمین یکے بعد دیگرے طوفانوں کے باوجود سنبھلنا جانتی ہے۔ اَن گنت مسائل تاحال سر اٹھا رہے ہیں جنہوں نے قوم کو اُمید اور تذبذب کی ملی جلی کیفیت میں لاکھڑا کیا ہے۔ پاکستان کے مستقبل کے لیے ہر دوسرا شخص ہی فکر میں مبتلا ہے۔ آنے والے وقتوں میں پاکستان کہاں اور کیسا ہوگا؟ پوری قوم یہی جاننا چاہتی ہے۔ اس ضمن میں ’’جسارت سنڈے میگزین‘‘ نے عوامی سروے کیا جو کہ قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

سوالات:
1) پاکستان کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟
2) آپ کے نزدیک مسائل کا واحد حل؟
3) پاکستان کے لیے آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟
ڈاکٹر شائستہ جہاں(ہومیو پیتھک ڈاکٹر، سائیکالوجسٹ، یوگی)

1) غیر یقینی صورتِ حال ہے، لیکن امید ہے کہ مشکل کے بعد آسانی ضرور آئے گی۔ مگر عملی طور پر فی الحال کچھ اچھا نظر نہیں آرہا۔ اگر یہی حکمران اور پالیسیاں رہیں تو پاکستان کا مستقبل بدتر ہوسکتا ہے۔ ایسے حکمران آئیں جو ملک کے لیے بہتر سوچیں تو بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔

2) بروقت انتخابات کا انعقاد کیا جائے، سیاست میں غیر سنجیدہ رویوں کو ترک کرنا ہوگا، ایسی حکمتِ عملی طے کرنا ہوگی جو تمام شعبہ جات کے بجٹ میں بتدریج اضافے کا باعث بنے۔ دوسری اہم بات، تمام تر مسائل کا ملبہ حکمرانوں پر ہی نہیں ڈالنا چاہیے بلکہ عوام کو بھی اپنی ذمہ داری محسوس کرنی ہوگی۔ کرپشن اداروں سے لے کر شاہراہوں تک پھیل چکی ہے، صرف حکمران ہی نہیں بدقسمتی سے عوام بھی اس گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ دنیا میں کہیں کرپشن نہیں، مگر وہاں چونکہ عوام اپنی ذمہ داری سے بہ خوبی آگاہ ہیں اس لیے وہ ترقی بھی کررہے ہیں۔

3 ) اوّل انفرادی طور ہمیں خود کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ ذاتی حیثیت میں صحت کے شعبے میں اپنا کردار ادا کررہی ہوں، لوگوں کی ذہنی اور دماغی صحت اور نشوونما پر توجہ دے رہی ہوں۔ مثبت طرزِفکر ہی مثبت طرزِ زندگی کی جانب لے جاتی ہے۔ اپنے کام سے مطمئن ہوں اور اب بھی بہت کچھ اس ضمن میں کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔

آمنہ یوسف (اتالیق)
1) پاکستان کا مستقبل روشن اور تابناک ہی نظر آتا ہے کیوں کہ یہاں پہ لوگ جو شعوری کوشش کررہے ہیں اس سے تبدیلی ضرور آئے گی۔ شعوری کوشش سے مراد اپنے اندر کی صفائی ہے، اور اسی سے اردگرد کی صفائی کا رجحان بیدار ہوتا ہے۔ آئندہ دنوں میں ہم دیکھیں گے کہ معاشرہ اجلی اور ترقی یافتہ سوچ کے ساتھ نظر آئے گا اور یہی ہمیں منزلِ مقصود تک لے جائے گا۔

2 ) بدقسمتی سے ہم خودی سے محروم قوم ہیں۔ خودشناسی کی کمی ہمیں بغیر مقصد جینے پر مجبور کررہی ہے۔ خودی کا فقدان ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم قرضوں کے بوجھ پر بھی شرمسار نہیں ہیں۔ خودی کی کمی نے ہمیں بہتر فیصلہ کرنے سے روکے رکھا، ہم اپنے تئیں فیصلہ کرنے کے اہل نہیں رہے۔ جس روز ہمیں اقبال کا خودی کا فلسفہ سمجھ میں آگیا ہم بہت سے مسائل کی جڑ تک پہنچ جائیں گے۔

3) ابتدائی عمر کے بچوں پہ مزید کام کرنا چاہتی ہوں، ان کی ذہن سازی اور تربیت کے لیے مربوط پروگرام بنانے کی خواہش ہے۔ مجموعی طور پر لوگوں کو جینا سکھانا چاہتی ہوں، انہیں بتانا چاہتی ہوں کہ مشن اور ویژن کے راستے کا مسافر کیسے بنا جاتا ہے؟

ثانیہ مشتاق (اسکول پرنسپل)
1 ) فی الوقت پاکستان اضطرابی کیفیت سے دوچار ہے، بے چینی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ اگرچہ پاکستان جب سے معرضِ وجود میں آیا، کٹھن حالات ہی دیکھے اور وطنِ عزیز کی سلامتی داؤ پہ لگنے کی بازگشت سنتے رہے۔ اصل بات یہی ہے کہ ہمارا مستقبل ہمارے ہی ہاتھ میں ہے۔ موجودہ حالات سے نبرد آزما ہوئے تو امید افزا راستے پہ ہی ملک گامزن ہوگا۔

2) پاکستان کے روشن مستقبل کے راستے میں مسائل کا انبار آڑے آتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہر مسئلہ ہی خوش حالی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ نامناسب صحت، لاقانونیت، حکومتوں کا مدت پوری نہ کرنا اور دیگر بہت سے مسائل ہیں۔ مگر میرے نزدیک سب سے اہم مسئلہ ناخواندگی ہے۔ جس طرح بچے کے لیے اچھی خوراک اچھی صحت کی ضامن ہوتی ہے اسی طرح بڑھتی شرح خواندگی کسی بھی ملک کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کرتی ہے۔ ایک پڑھا لکھا شخص اپنے قومی فرائض سے بہ خوبی آگاہ ہوتا ہے۔ پڑھے لکھے عوام ہی حقوق کے لیے کھڑا ہونا جانتے ہیں، وہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے کے بجائے غلط اور صحیح کا ادراک کرسکتے ہیں۔

3) میری وابستگی چوں کہ شعبہ تعلیم سے رہی۔ سرکاری اور غیر سرکاری دونوں اداروں میں توجہ کی ضرورت ہے۔ خواہش ہے کہ ماہرینِ تعلیم افہام و تفہیم سے یکساں نصاب لائیں، علاوہ ازیں ایسا نظامِ تعلیم متعارف کروا سکوں جو محض بلند بانگ دعووں پہ مبنی نہ ہو، اسلامی اصولوں کے زیر سایہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہو۔ اساتذہ کے لیے ایسا ماحول ترتیب دیا جائے جہاں وہ اپنی ذمے داری بطور روحانی والدین سرانجام دے سکیں۔

سعدیہ خان (طالبہ)
1) محب وطن پاکستانی ہونے کے ناتے کسے پاکستان کا درد نہیں ہوگا؟ کون اپنی سرزمین کوچھوڑنا پسند کرتا ہے؟ نامساعد حالات ہی ہر کسی کو فکر میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ کسی بھی محب وطن کی ترجیح اُس کا ملک ہی ہوتا ہے۔ ملک کی بہتری کے لیے اپنے تئیں جو کرسکتا ہے، وہ کرتا ہے۔ سیاسی طور پہ لوگوں کے ذہن منتشر ہوگئے ہیں۔ خوف ہے کہ یہ انتشار مستقبل میں اس ملک کو کوئی بڑا زخم نہ دے جائے۔

2) ایسا لیڈر آئے جس کے اندر بدلے کی آگ نہ ہو، جس کی نگاہ مسائل کے حل پہ ہو۔ معیشت کی بڑھوتری پہ دھیان دے، سب کو ساتھ لے کر چلے۔ معیشت کے لیے باہم اتفاق سے اقدامات کرے تو یقیناً ملک دن دونی رات چوگنی ترقی کرے گا۔

3) فی الحال بحیثیت شہری قوانین کی پاس داری کی کوشش کررہی ہوں اور دوسروں کو بھی یہی ترغیب دیتی ہوں۔ مستقبل میں خواہش ہے کہ اپنی ڈگری کے ذریعے صنعتی شعبے میں ایسا قابل ِقدر کام کروں جو پاکستان کے لیے سود مند ہو۔

مسز کامران ( بزنس وومن)
1) یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ہمارا مستقبل کوئی نہیں چھین سکتا۔ پاکستان کا مستقبل بہت روشن ہے، پاکستان کے پاس جو جغرافیائی اور تاریخی مضبوطی ہے وہی اس کی مضبوطی کی ضامن ہے۔ پاکستان بہت مشکلات سے یہاں تک پہنچا ہے، اس کے بعد کسی اور مشکل سے گھبرانے کی گنجائش نہیں رہتی۔

2) نوجوانوں کو تعلیم اور ہنر سے آراستہ کرنا، یہی ہمارا مستقبل ہے۔ نوجوان اگر مضبوط ہو اورکچھ کر گزرنے کی امنگ رکھتا ہو تو وہ اپنے لیے راستے خود بنا لیتا ہے۔ کوئی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا، ہنرمند نوجوان پرچون کی دکان کو بھی بڑے اسٹور میں تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ نوجوانوں کا اپنی صلاحیتوں پر بھروسا ہی قوموں کو آگے لے کر جاتا ہے اور اسی کی ضرورت ہے۔

3 ) معیشت کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے اور معیشت تب ہی پنپتی ہے جب کاروبار بڑھے۔ میری خواہش بھی یہی ہے کہ میں اپنے کاروبار کو وسعت دوں۔ میرے کام کے ذریعے زیادہ سے زیادہ خواتین نہ صرف ہنرمند بنیں بلکہ خودمختار ہوجائیں۔ بے روزگاری کے مسائل حل ہوں گے، خوش حالی کی راہیں کھلیں گی اور یہی میری ادنیٰ خواہش ہے۔

یاسرہ چوہدری (ریٹائرڈ افسر )

1) پاکستان کے مستقبل سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ پاکستان پیداواری لحاظ سے بہترین ملک ہے جو معدنیات سے مالامال اور نعمتوں سے بھرپور ہے۔ وسائل کی کمی کے باعث یہ کام نہیں ہورہا۔ بے جا اثر رسوخ کے باعث مسائل حل نہیں ہورہے۔ ان پر اگر توجہ دی جائے تو پاکستان ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوجائے۔

2) قیادت کا فقدان ہے، اگر اچھی قیادت میسر آجائے جو ترجیحی بنیادوں پر سود کا خاتمہ کرے۔ سود کے خاتمے کے لیے وسائل ہیں مگر اس کا سدباب نہیں کیا جاتا اور بیشتر مسائل یہیں سے جنم لے رہے ہیں۔

3 ) عام آدمی کر ہی کیا سکتا ہے! مگر بطور پاکستانی کوشش رہتی ہے کہ قائداعظم کے اصولوں کو فراموش نہ کروں۔ ان پر نہ صرف خود عمل پیرا رہوں بلکہ نسلِ نو کو بھی ان سے روشناس کرواتی رہوں۔

…٭…
سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان اگرچہ بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے مگر مسائل میں گھری یہ سرزمین آج بھی اُمید اور روشن مستقبل کی نوید سناتی ہے۔ یہاں موجود قدرتی ذخائر و جغرافیائی اہمیت کسی طور پہ نظرانداز نہیں کی جاسکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ وسائل کو استعمال میںلا کر کارگر بنایا جائے۔ ہر ادارہ، صاحبِ اقتدار اور عوام ذاتی حیثیت میں اپنی ذمے داری محسوس کریں اور مستقل مزاجی، لگن، دیانت داری سے اور متحد ہو کر ملک و قوم کے لیے کردار ادا کریں۔یقیناً یہی ہماری ترقی کے لیے ہتھیار ثابت ہوں گے۔

حصہ