سید مشتاق علی علم و عمل کے پیکر

1264

پیدائش: مئی 1930ء نارائن پور اَلور راجستھان انڈیا
انتقال : 29جولائی 2023ء حیدرآباد پاکستان

نابغہ روز گار، ماہر ِتعلیم ،بہترین منتظم ،صابر و شاکر،قناعت پسند اوردردِ دل رکھنے والے، سید مشتاق علی کاظمی بھی علم کے موتی بکھیر کر ملک ِ عدم رخصت ہو گئے ، وہ طویل سے صاحبِ فراش تھے لیکن علم کا چراغ تھے جو10محرم الحرام 1445ء کو باوقتِ ظہر کو بجھ گیااور وہ ہزاروں چاہنے والوں کو اُداس چھوڑ کر اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے ،بعض لوگوں کا تبصرہ تھا کہ وہ شہدائے کربلا سے جاملے ،مشتاق صاحب سلسلہ اہلِ بیت سے تھے ان کے بعض رشتہ دار اہلِ تشیع ہیں تاہم وہ سنی العقیدہ اور داعی الی اللہ تھے بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کچھ عرصے سے عاشورہ کو پاکستان میں عوامی رابطے کے ذرائع معطل کردیئے جاتے ہیں اور نقل و حمل بھی محدود ہو تی ہے لیکن اس کے باوجود سید مشتاق علی کی نمازجنازہ و تدفین میں سینکڑوں افراد کی شرکت اور تادیر تعزیت کا سلسلہ، قبر پر گل افشانی،ان کے احترام و محبت اور اللہ سے سفارش کرنے والوں کی گواہی دے رہا ہے ۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورَستہ،اس گھر کی ناگبانی کرے

سید مشتاق علی کاظمی اپنے والد سید یوسف علی کے تیسرے بڑے بیٹے تھے بڑے بھائی مرحوم سید گل شیر علی (ستارہ جرات) رینجرز میں کمانڈر رہے یونٹ نمبر9لطیف آباد میں رہائش پذیر تھے دوسرے بھائی مرحوم سید شوکت علی حیدرآباد میں زمینداری کرتے تھے اور چھوٹے بھائی سید افتخار علی کاظمی حیدرآباد کے معروف مدرس اورایک سرکاری اسکول، سیٹھ کمال الدین حیدرآباد میں طویل عرصے ہیڈ ماسٹر رہے جبکہ ان کی ایک بہن رئیسہ بیگم ہیں انہوںنے بیوہ زبیدہ بیگم کے علاوہ پانچ صاحب زادے اور دو بیٹاں ورثاء میں چھوڑے ہیں سب سے بڑا بیٹا سید حسن آفاق اے پی ایس حیدرآباد میں لیکچرارہے دوسرا سید حسن اقبال گورنمنٹ ڈگری کالج لطیف آبادمیں اسسٹنٹ پروفیسرہے تیسرا سید حسن آفاق اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ڈائریکٹر چوتھا سید حسن خالد پاک فضائیہ میں گروپ کیپٹن اور پانچوں بیٹا سید حسن بلال نیب میں ڈپٹی ڈائریکٹرہے تینوں بڑے صاحب زادے اسلامی جمعیت طلبہ میں فعال رہے ہیںحسن آفتاب رکن تھے بڑی صاحب زادی سیدہ صالحہ کاظمی بھی جمعیت سے وابستہ رہی ہیں اور جماعت اسلامی کی رکن ہیںان کے شوہر ڈاکٹر جنید جعفری اسلامی جمعیت طلبہ حیدرآباد کے ناظم رہے ہیں اورسب سے چھوٹی بہن سیدہ سعدیہ کاظمی بھی جمعیت سے وابستہ رہی ہیں ان کے شوہر نوید احتشام بھی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک ڈائریکٹر ہیں گویا تعلیم سے وابستہ یہ علم دوست گھرانا ہے مشتاق صاحب کے بچوں نے بھی نہایت صبر و استقامت اورسادگی و قناعت پسندی سے زندگی گزاری اور اپنی محنت و ایمانداری سے ایک اچھا مقام بنایا ہے اللہ انہیں نظر ِبد سے محفوظ فرمائے ، آمین

سید مشتاق علی کا گھرانا ہندوستان سے ہجرت کرکے حیدرآباد سندھ میں قیام پذیر ہوا انہوں نے اپنی محنت شاقہ او ر خود انحصاری سے معاشرے میںلائقِ احترام رُتبہ پایامشتاق صاحب نے بی اے ،بی ٹی کے علاوہ بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کیا تھا وہ دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن بن گئے وہ حیدرآباد جمعیت کے بانی و پہلے ناظم پروفیسر شفیع ملک کی بتدائی ٹیم بلکہ حیدرآباد جمعیت کے بانی اراکین میں سے تھے وہ سیشن 1954-55ء میں حیدرآباد جمعیت کے ناظم منتخب ہوئے غالباً دو سال وہ اس ذمہ داری پر فائز رہے تعلیم سے فارغت کے بعد جماعت اسلامی کے رکن بن گئے بلدیاتی انتخاب ہو ئے تو بی ڈی ممبر منتخب ہو ئے اسی کے ساتھ وہ درس و تدریس سے بھی منسلک ہو گئے الفاروق ہائی اسکول ریشم گلی حیدرآباد کے10سال تک صدر مدرس رہے پھر جماعت اسلامی حیدرآباد نے غزالی کالج لطیف آباد کی کامیابی کے بعد علامہ اقبال ہائی اسکول قائم کیا تو غزالی کالج کے بانی پرنسپل پروفیسر شفیع ملک اس کے پہلے صدر مدرس رہے بعد ازاں یہ ذمہ داری سید مشتاق علی پر عائد کردی گئی پیپلز پارٹی کی ملک میں حکومت مسلط ہوئی تو ذوالفقار علی بھٹو نے کارخانے ،بینک اورنجی تعلیمی ادارے قومیانے کا فیصلہ کیا جس کے ملک پر نہایت مضر اثرات مرتب ہوئے پھر جنرل ضیاء الحق اقتدار پر قابض ہوئے تو انہوں نے اداروں کی نجی کاری شروع کردی اور بھٹو کی بیٹی شہید بے نظیر نے بھی اپنے والد کے غلط فیصلے کا ازالہ کرتے ہوئے نجکاری کی پالیسی اپنائی بہرکیف سید مشتاق علی بھی خودبخود سرکاری ملازم بن گئے ایک پالیسی کے تحت جماعت اسلامی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا لیکن وہ ریٹائرمنٹ تک علامہ اقبال اسکول ہی کے ہیڈ ماسٹر رہے ان کا شمارتنظیم اساتذہ پاکستان کے بانی اراکین بھی ہوتا ہے وہ اساتذہ کی اس ملک گیر تنظیم کے مرکزی جوائنٹ سکریٹری اور حیدرآباد کے صدر بھی رہے انہیں پروفیسر عنایت علی خان کی قربت بھی حاصل تھی اور پروفیسر ڈاکٹر احمد اقبال قاسمی ، پروفیسر امجد اسلام ، پروفیسر عزیز ، پروفیسر ادریس خان،پروفیسر ایاز اور پروفیسر خلیل احمد خان جیسے عظیم اساتذہ کی مخلص ٹیم بھی میسر آئی جس نے تنظیم اساتذہ کو حیدرآباد میں فعال رکھااس کے بعد تنظیم اساتذہ کا خواتین ونگ بھی قائم ہوگیا جس کی پہلی بانی صدر راقم کی اہلیہ پروفیسر عفت شاہد بنیں جو مرکزی صدر بھی رہی ہیں اور آجکل اس کے ترجمان شعاع ِ فکر کی مدیرہ ہیں ۔

سید مشتاق علی کاظمی نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تعلیمی میدان میں نمایاں کام کیااگرچہ ان کی شہرت ، معاشرے میں عزت وتکریم سے فائدہ اٹھاتے ہو ئے جماعت اسلامی نے انہیں2001ء میں ناظم اور 2002ء میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑایا لیکن قوم پرستی و تعصب کی لہر میں جب معاشرہ اندھیروں کا انتخاب کررہا ہوتو علم کی روشنی پھیلانے والوں کو عوام کو اس عذاب سے بچانا مشکل تر ہو جاتا ہے الا یکہ وہ خود ٹھوکر کھا کر واپس لوٹ آئیں تاہم سید مشتاق علی مایوس ہونے والوں میں نہیں تھے انہوں نے ترویج علم کی جدوجہدجاری رکھی اور حیدرآباد میں علم دوست لوگوں نے غریب ومتوسط بچوں کو سستی و معیاری تعلیم دینے کا عَلم اٹھایا اس نیک مقصد کے حصول کے لیے مشہور روحانی شخصیت ڈاکٹر غلام مصطفی خان رحمہ اللہ کی سرپرستی میں اہلِ صفہ سوسائٹی قائم کی گئی جس کے صدر ماہر امراضِ اطفال ڈاکٹر عین الدین اور سکریٹری سید مشتاق علی کو بنایا گیا جنہوں نے شبانہ روز محنت کرکے ,الفلاح اسکول ،کی داغ بیل ڈالی اور دیکھتے ہی دیکھتے پرائمری سے لیکر کالج تک گرلز و بوائز تعلیمی ادارے قائم ہو گئے لطیف آباد یونٹ نمبر5,6,7,9,10,11میں ان تعلیمی اداروں کا معیاراور اہمیت اتنی ہو گئی کہ والدین سفارش لگواکر یہاں اپنے بچوں کے داخلہ کراتے تھے ان اداروں کی کامیابی میں سید مشتاق علی کی مساعی جمیلہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے تاہم جوں جوں تعلیم مقاصد سے ہٹ کر کاروبار بنی ہے تو اس کمرشلائزیشن کا مقابلہ ، نوپروفٹ نو لاس ، کے اصول سے کرنا مشکل تر ہوتا گیاخود محکمہ تعلیم کرپشن کا گڑھ بن گیاجو نجی تعلیمی اداروں سے آئے دن تحفہ و تحائف اور مٹھائی کا مطالبہ کرتا ہے دوسری طرف اہلِ صفہ ایجوکیشنل سوسائٹی فنڈنگ کرنے والے اہلِ خیر اراکین و سرپرست بھی آہستہ آہستہ دنیا سے رخصت ہو گئے اساتذہ و ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی ، بجلی و پانی کے بلز اور عمارتوں کا کرایہ دردِ سر بن گیا بعض مالک مکان حد سے بڑھ گئے کرایہ بڑھاؤ یا چلتے ہو ئے اسکول و کالج کی عمارتیں خالی کرو ،کے مطالبہ کی طلب بڑھ گئی بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سید مشتاق علی اپنی کل پینشن ،خسارے میں چلنے والے ان اداروں کی نذر کردیتے تھے وہ مقروض بھی ہوئے اور آہستہ آہستہ یہ ادارے بند ہو تے چلے گئے اب صرف ایک چھوٹا اسکول لطیف آباد نمبر5میں قائم ہے جس کی عمارت ایک شخص نے عطیہ کی تھی کمرشلائزیشن کے اس دور میں کوئی ادارہ بغیر فنڈنگ اب چلانا ناممکن ہے مشنری تعلیمی ادارے بھی بھاری فیسوں اور فنڈنگ کے ساتھ زندہ ہیں ہمیں سوچنا ہو گا کہ تعلیم کو تجارت بنانے والوں نے ملک و قوم کو کیا دیا ہے ؟سید مشتاق علی جیسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہو تے وہ خالصتاً للہیت کے جذبہ سے علم کے موتی بکھیر رہے تھے ریٹائرمنٹ کے بعد اگرچہ وہ جماعت اسلامی کے ایک بار پھر رکن ہو گئے لیکن وہ عملی سیاست سے زیادہ نوجوان نسل کی تربیت اور فروغِ علم کے لیے کوشاں تھے میری ان سے گاہے بگاہے ملاقات رہتی تھی وہ اکثر کہتے کہ نوجوان نسل کو مثبت وبامقصد سرگرمیاں دینا ہو نگیں ہم نے حیدرآباد میں جماعت اسلامی کو سید مودودی ؒ کے قرآن و سنہ ؐ کی روشنی میں لکھے گئے لٹریچر ،رابطہ عوام اور خدمت الناس کو بنیاد بناکر قائم کیا اور شہر کی بڑی جماعت بنادیا اب بھی اسے نظریاتی فکر، اخلاقی خوبیوں اور مسلسل جدوجہد سے بڑا مقام دلایا جاسکتا ہے اسلامی انقلاب کے لیے فکری ونظریاتی ٹیم کا فعال رہنا اور حالات کے تقاضوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔

سید مشتاق علی کاظمی نہایت قناعت پسند تھے سادہ لباس ، سادہ غذا اور آمد و رفت کے لیے ففٹی موٹر سائیکل استعمال کرتے تھے ایک سو پچاس گز کے گھر لطیف آباد نمبر5میں رہائش پذیر تھے جو ان کے سسر نے اپنی بیٹی کو دیا ہے انہوں نے خود کو بنانے کے بجائے اپنی اولاد کو عمدہ تعلیم و تربیت پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی انہوں نے اپنی عمر کے آخری کئی سال بستر علالت پر گزارے بعد میں ان کی قوتِ سماعت صفر ہو گئی جب وہ باآسانی سنتے تھے تو سناتے بھی بہت تھے وہ اپنے شاگردوں کے لیے سخت گیر رویہ کے حامل استاد تھے لیکن انہیں وہ اپنی اولاد کی طرح دیکھتے اورکامیابی سے ہمکنا رکرنا چاہتے تھے ان کے شاگرد ملک و بیرون ِ ملک مختلف شعبوں میں سرگرم ہیں اسلامی تحریک میں بھی ان کی کمی نہیں ان ہونہار شاگردوں میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر انجینئر حافظ نعیم الرحمن بھی شامل ہیں وہ اپنے استاد محترم کے انتقال کی خبر سن کر کراچی سے دوڑے چلے آئے انہوں نے نماز جنازہ کے اجتماع سے مختصر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ،، سید مشتاق علی ایک سخت لیکن دردِ دل رکھنے والے انسان تھے عملی زندگی میں آکر ان کی تعلیم و تربیت کا احساس ہوتا ہے وہ نوجوان نسل کے اخلاق و کردار کی تعمیر کے لیے کوشاں رہتے تھے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیتے ہو ئے کہا کہ،، آپؐ نے فرمایا کہ ، جب انسان مرجاتا ہے اس کے سارے کاموں کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے مگر تین کاموں کا ثواب بند نہیں ہوتا صدقہ جا ریہ ، علم جس سے نفع حاصل کیا جائے اور نیک اولاد جو مرجانے کے بعد اس کے حق میں دعا کرتی رہے ۔،،

سید مشتاق علی کاظمی کی نماز جنازہ محمدی مسجد یونٹ نمبر10کے باہر ادا کی گئی ان کے بچوں کی خواہش تھی کہ حافظ نعیم الرحمن والد کی نمازِ جنازہ پڑھائیں لیکن انہوںنے مرحوم کے درمیانے صاحب زادے سید حسن آفتاب سے امامت کرائی عاشورہ کے دن اطلاعات کے نظام کی معطلی کے باوجود ان کی جنازہ و تدفین میں سینکڑوں افراد شریک ہو ئے جن میں نمایاں طور پر جماعت اسلامی کے صوبائی رہنما عبدالوحیدقریشی ، حافظ طاہر مجید ،حیدرآباد کے امیر عقیل احمد خان، سابق امیرمشتاق احمد خان، و دیگر ذمہ داران کے علاوہ گلشن اقبال ٹاؤن کراچی کے چیئرمین ڈاکٹر فواد احمد، ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی صلاح الدین ، رکن سندھ اسمبلی ندیم صدیقی ، سابق اراکین سندھ اسمبلی عبدالرحمن راجپوت ،اسلم پرویز ایڈوکیٹ و دیگر سیاسی و مذہبی زعما کے علاوہ مرحوم کے بھائی افتخار احمد ، پروفیسر خلیل احمد خان ،تنظیم اساتذہ کے رہنماؤں پروفیسر مفتی رئیس منصوری ، پروفیسر ڈاکٹر مجیب اللہ منصوری ، اسلم قریشی اور کراچی سے پروفیسر فرید جعفری ،تحریک اسلامی حیدرآباد کے امیر پروفیسر عبدالطیف انصاری ،قدید الاسلام،ڈاکٹر سید فصیح ہاشمی ،ڈاکٹر ظفر الاسلام،پروفیسر عتیق جیلانی و دیگر نے شرکت کی جبکہ دوسرے دن ان کی رہائش گاہ پر درسِ قرآن و تعزیتی اجتماع ہوا تو اس میں بھی ڈاکٹرز ، پروفیسر ز ، اساتذہ اور دوست و احباب کے علاوہ نیشنل لیبر فیڈریشن کے سابق صدراور وی ٹرسٹ کے بانی صدر پروفیسر شفیع ملک صاحب اپنی پیرانہ سالی کے باوجود کراچی سے خاص طور پر آئے انہوں نے اپنے خطاب میں کہاکہ سید مشتاق علی ہمارے اوالین ساتھیوں میں سے ہیں وہ تحریک کا سرمایہ اور نہایت مخلص انسان تھے وہ ہر طرح کے حالات میں ثابت قدم رہے مجھے ذاتی طور پر ان کے جانے کا دلی صدمہ ہوا ہے میرے ان سے ہندوستان کے زمانے سے تعلقات تھے ہم ایک مخلص و ایماندار ساتھی سے محروم ہوگئے ہیںان کی خدمات اور قربانیوں کو تادیر یاد رکھا جائے گامجھے یقین ہے کہ نوجوان اور ان کی اولاد مرحوم کے مشن کو جاری رکھیں گے۔

حصہ