قیصروکسریٰ قسط(114)

407

باذان نے کہا۔ ’’میں تم سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ اگر ہم مسلمانوں کے نبی کو گرفتار کرنے کے لیے سواروں کا ایک دستہ مدینہ بھیج دیں تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟‘‘۔

بابویہ نے جواب دیا۔ ’’عالیجاہ! مجھے یقین ہے کہ راستے کے تمام قبائل اور مدینہ کے یہودی ہمارا ساتھ دیں گے۔ لیکن مسلمان اپنے نبی کی خاطر جان دینے پر آمادہ ہوجائیں گے‘‘۔

’’تمہارا یہ خیال ہے کہ وہ ہماری اور ہمارے حلیفوں کی طاقت سے قطعاً مرعوب نہیں ہوں گے؟‘‘۔

’’ہاں عالیجاہ! یہ لوگ اپنے خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے‘‘۔

ایک یہودی نے کہا۔ ’’اگر یہ گستاخی نہ ہو تو میں کچھ عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں‘‘۔

’’کہو…‘‘۔

’’عالیجاہ! میرے نزدیک یہ باتیں ایک مذاق سے زیادہ نہیں۔ آپ مدینہ میں چند مسلح سپاہی بھیج کر دیکھ لیں۔ مجھے یقین ہے کہ مدینہ کے کسی ذی شعور انسان کو مزاحمت کی جرأت نہیں ہوگی۔ مسلمان جس بے چارگی کی حالت میں مکہ سے نکالے گئے تھے، اُس سے زیادہ بے چارگی کی حالت میں وہ مدینہ سے بھاگیں گے‘‘۔

ایک عرب رئیس نے کہا۔ ’’عالیجاہ! مسلمانوں کو اگر اُن کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو بھی وہ آپ کے لیے کسی خطرے کا باعث نہیں ہوسکتے۔ اس وقت ہم صرف کسریٰ کی فتح اور ہرقل کی شکست کی خوشخبری سننا چاہتے ہیں۔ نینوا کی جنگ کے متعلق جو اطلاعات یہاں پہنچی ہیں، اُن سے آپ کی رعایا بہت پریشان ہے‘‘۔

باذان نے کہا۔ ’’تم ہماری رعایا کو یہ تسلی دے سکتے ہو کہ ہرقل جس قدر آگے بڑھے گا، اُسی قدر اُس کی تباہی کے اسباب مکمل ہوتے جائیں گے۔ اگر اُس نے دست گرد کی طرف پیشقدمی کا ارادہ بدل نہ دیا تو تم عنقریب اُس کی عبرتناک شکست کی خبر سنو گے‘‘۔

بابویہ نے کہا۔ ’’عالیجاہ! مدینہ کے مسلمانوں کی سادگی کا یہ عالم ہے کہ نوبرس گزر جانے کے بعد بھی اِس مضحکہ خیز پیش گوئی پر اُن کا ایمان متزلزل نہیں ہوا کہ اِس جنگ کا آخری نتیجہ رومیوں کے غلبہ کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ ان لوگوں کے سامنے جب ہم اپنی فوجی قوت کا ذکر چھیڑتے تھے تو وہ سب یہی کہتے تھے کہ اُن کے نبی کی پیش گوئی کے پورا ہونے کے دن قریب ہیں‘‘۔

ایرانی افسر غضب ناک ہو کر بابویہ کی طرف دیکھنے لگے، اور باذان نے اپنا اضطراب چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’اگر سپاہیوں کی تلواریں کسی جنگ کا فیصلہ کرسکتی ہیں تو میں تمہیں یہ اطمینان دلا سکتا ہوں کہ رومیوں کی قسمت کا فیصلہ ایرانی سپاہیوں کی تلواروں سے لکھا جائے گا۔ لیکن اگر ہمارے خلاف کوئی اَن دیکھی اور اَن جانی قوت میدان میں آچکی ہے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘۔

ایک یہودی نے کہا۔ ’’ہمیں ایک ایسے نبی کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دینی چاہیے جس کے مٹھی بھر پیرو مدینہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کررہے ہیں‘‘۔

باذان کچھ کہنا چاہتا تھا، لیکن ایک نوجوان بھاگتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور اُس نے بلند آواز میں کہا۔ ’’عالیجاہ! مدائن سے قاصد آئے ہیں اور وہ اسی وقت باریابی کی اجازت چاہتے ہیں‘‘۔

تین آدمی جن کی قبائیں گرد سے اَٹی ہوئی تھیں، دروازے کے سامنے نمودار ہوئے اور پہریداروں کے احتجاج سے بے پروا ہو کر اندر چلے آئے، ایک نوجوان نے جس کے ہاتھ میں ایک مراسلہ تھا، مسند کے قریب پہنچ کر کہا۔ ’’حضور! ہم اِس گستاخی کے لیے معذرت چاہتے ہیں۔ لیکن ہمارے لیے کسی تاخیر کے بغیر آپ کی خدمت میں حاضر ہونا ضروری تھا۔ ہم مدائن سے ایک اہم پیغام لے کر آئے ہیں، یہ لیجیے!‘‘۔

باذان نے اپنا ہاتھ بڑھا کر مراسلہ پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’معلوم ہوتا ہے کہ مدائن سے تم کوئی اچھی خبر لے کر نہیں آئے‘‘۔

قاصد نے سر جھکا دیا۔ ’’باذان نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے مراسلہ کھولا اور حاضرین دیر تک سکتے کے عالم میں اُس کے چہرے کا اُتار چڑھائو دیکھتے رہے۔ بالآخر اُس نے ایک لمبی سانس لینے کے بعد حاضرین مجلس کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’مسلمانوں کے نبی کی پیش گوئی پوری ہوچکی ہے۔ دست گرد تباہ ہوچکا ہے‘‘۔

دربار میں چند ثانیے ایک سکوت طاری رہا، بالآخر یمن کے مجوسی کاہن نے جو باذان کے دائیں ہاتھ رونق افروز تھا کہا۔ ’’یہ خبر بہت بُری ہے، لیکن دست گرد کے فتح ہوجانے سے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ فیصلہ کن جنگ مدائن کی گلیوں میں لڑی جائے گی اور ہمارا شہنشاہ دشمن کو ایک عبرت ناک شکست دینے کے بعد قسطنطنیہ کے محل تک قیصر کا پیچھا کرے گا۔

باذان نے کہا۔ ’’ایران کا وہ شہنشاہ جس کا نام پرویز تھا، مرچکا ہے، اور تمہارے نئے حکمران کا نام شیرویہ ہے‘‘۔

پھر وہ قاصد سے مخاطب ہوا۔ ’’یہ خط بہت مختصر ہے، اس لیے میں تمہاری زبان سے ساری تفصیلات سننا چاہتا ہوں‘‘۔

قاصد نے باذان کے حکم کی تعمیل کی اور حاضرین دم بخود ہو کر دست گرد کی تباہی اور پرویز کے عبرتناک انجام کی تفصیلات سننے لگے۔

یہ واقعات جس قدر ناقابل یقین تھے اُسی قدر عبرت ناک تھے۔ پرویز کو نینوا کی شکست کے بعد دست گرد کی طرف ہرقل کی پیش قدمی کی اطلاع ملی تو اس کے خوف و اضطراب کا یہ عالم تھا کہ وہ رومیوں کی آمد سے نو دن قبل اپنے وزیروں اور جرنیلوں سے مشورہ کیے بغیر رات کے وقت ایک چور دروازے سے نکل کر مدائن کی طرف چل دیا۔ اُس کی سراسیمگی کا یہ عالم تھا کہ شاہی حرم کی تین ہزار عورتوں میں سے شیریں اور صرف تین لونڈیاں اُس کے ساتھ تھیں۔ باقی رات اُس نے دست گرد سے کچھ فاصلے پر ایک کسان کے جھونپڑے میں گزاری، تیسرے دن وہ مدائن میں داخل ہوا اور اُس کے بعد اُسے اپنی افواج اور اپنے خزانے جمع کرنے کی فکر ہوئی۔

دست گرد کی فوج نے اپنے بزدل حکمران کی اطاعت سے زیادہ رومیوں کے خوف کے باعث اُس کے احکام کی تعمیل کی۔ اور افراتفری کے عالم میں جو خزانہ اُن کے ہاتھ لگا اُس کو لے کر مدائن کی طرف چل پڑی۔ شاہی حرم کی تین ہزار کنیزیں بھی مدائن کے قریب ایک قلعے میں پہنچادی گئیں۔

قیصر کا لشکر ایک آتشیں طوفان کی طرح دست گرد پر نازل ہوا۔ اور کسریٰ کے محلات آگ کے مہیب الائو دکھائی دینے لگے۔ دست گرد میں رومی فوج کے حصہ کا بیشتر کام ہرقل کی آمد سے پہلے ختم ہوچکا تھا۔ وہ ہزاروں غلام جنہیں مغرب کے مفتوحہ ممالک سے ہانک کر دست گرد میں جمع کیا گیا تھا اور جو برسوں سے انتہائی بے چارگی کی حالت میں یوم حساب کا انتظار کررہے تھے انہوں نے ایرانی لشکر کے نکلتے ہی شہر میں لوٹ مار اور قتل و غارت کا طوفان بپا کردیا۔ جب ہرقل کا لشکر شہر میں داخل ہوا تو اس کی گلیوں اور بازاروں میں اُن بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں، جنہیں اپنے عیسائی غلاموں سے بچ کر بھاگنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ ایرانی دست گرد کی بیشتر دولت نکال کر لے گئے تھے۔ لیکن اِس کے وجود جو سونا اور چاندی ہرقل کے ہاتھ لگا وہ اُس کی توقع سے کہیں زیادہ تھا۔ (ہرقل نے دست گرد کا مالِ غنیمت بحیرئہ اسود کے راستے قسطنطنیہ روانہ کیا تھا، لیکن وہ جہاز جس پر یہ سونا اور چاندی لادا گیا تھا، طوفان کے باعث سمندر میں غرق ہوگیا) دست گرد کے آتش کدے کو پیوند زمین کرنے اور شاہی محلات کو آگ لگانے کے بعد ہرقل نے مدائن کا رُخ کیا۔ لیکن اِس عرصہ میں ایرانیوں کو سنبھلنے کا موقع مل چکا تھا۔ مشرقی علاقوں کی افواج ساسانیوں کے قدیم دارالحکومت کو بچانے کے لیے جمع ہورہی تھیں۔ مدائن کے قریب پہنچ کر ہرقل کو اس بات کا احساس ہونے لگا کہ اُس کا لشکر کئی ہفتوں کی مسلسل بے آرامی کے باعث نڈھال ہوچکا ہے اور اس میں اُس کے لیے یاران کے اُس عظیم شہر پر یلغار کرنا خطرے سے خالی نہیں، جس کے باشندے فوج کی اعانت کے بغیر بھی کئی دن تک اُس کے لشکر کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ دست گرد میں اسے جو غیر متوقع کامیابی حاصل ہوئی تھی، اُس کی وجہ پرویز کی بزدلی تھی، لیکن مدائن کی آبادی پر پرویز سے زیادہ اُن مغرور سرداروں اور مجوسی کاہنوں کا اثر تھا جو اس کی بقا اور سلامتی کو پورے ایران کی بقا اور سلامتی کا مسئلہ سمجھتے تھے اور جن کی قدیم روایات سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ اپنے حکمران کو بزدلی اور بے غیرتی کا ایک اور مظاہرہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ہرقل اتنی عظیم فتوحات کے بعد کسی ناکامی یا شکست کا معمولی خطرہ مول لینے کے لیے بھی تیار نہ تھا۔ چناں چہ اُس نے مزید تیاریوں کے بعد ایران پر آخری ضرب لگانے کی نیت سے اپنے لشکر کو واپسی کا حکم دیا۔ اب اُس کی منزلِ مقصود تبریز کا علاقہ تھا، جہاں پڑائو ڈال کر وہ اطمینان کے ساتھ ایک نئے حملے کے لیے تیاریاں کرسکتا تھا۔ جب وہ آسریا کے میدانوں سے نکل کر پہاڑی علاقوں میں داخل ہوا تو برف باری شروع ہوچکی تھی، لیکن فاتح لشکر نے قریباً پانچ ہفتے انتہائی عزم اور استقلال کے ساتھ برف باری کے شدید طوفانوں میں اپنا سفر جاری رکھا اور تبریز کے قریب ڈیرے ڈال دیے۔

مدائن میں پرویز کی فوج اور رعایا کو ایک فوری خطرے نے اپنے حکمران کے جھنڈے تلے جمع کردیا تھا لیکن اب یہ خطرہ ٹل چکا تھا اور یہ لوگ انتہائی نفرت اور حقارت کے ساتھ اُس حکمران کی طرف دیکھ رہے تھے جس کی بزدلی اور بے تدبیری نے ایران کی عظیم ترین فتوحات کو عبرت ناک شکستوں میں تبدیل کردیا تھا۔ نوشیرواں کا پوتا اب وہ دیوتا نہیں تھا، جس کی سلامتی، عزت اور اقبال کے لیے ایران کے آتش کدوں میں دعائیں مانگی جاتی تھیں، بلکہ ایک ایسا انسان تھا جس کی نحوست سے نجات حاصل کرنا اہل ایران کے لیے وقت کا ایک اہم ترین مسئلہ بن چکا تھا۔ مدائن کی گلیوں اور بازاروں میں صبح و شام اِس قسم کے نعرے سنائی دیتے تھے۔ پرویز سین کا قاتل ہے۔ پرویز نینوا کی شکست اور دست گرد کی تباہی کا ذمہ دار ہے۔ سربار اور اُس کے لشکر نے پرویز کی شرمناک سازشوں سے تنگ آکر جنگ سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ ایران کے لاکھوں جوان جنگ میں کام آچکے ہیں، اب ہم ایک سفاک بادشاہ کی تسکین کے لیے زیادہ خون مہیا نہیں کرسکتے۔ ایران کو امن کی ضرورت ہے۔ سین ہرقل کی طرف سے صلح کی پیش کش لے کر آیا تھا لیکن پرویز نے اُسے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ ہمارا دشمن ہرقل نہیں پرویز ہے۔ رومی نئے حملے کی تیاریاں کررہے ہیں اور اب اُن کے ساتھ مصالحت کی یہی صورت ہے کہ ہم پرویز سے نجات حاصل کرلیں۔ (جاری ہے)

حصہ