آخرت کا عقلی ثبوت

(دوسرا اور آخری حصہ)

کفارِ مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس طرح سے باتیں کرتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ ہر زمانے میں اسی طرح سے ہوتا رہا ہے۔ جو نبی بھی آیا اور اس نے لوگوں کو آکر اس بات سے متنبہ کیا کہ اللہ کے سوا کسی کے ہاتھ میں اختیارات نہیں ہیں۔ کوئی ہستی تمھاری قسمت بنانے اور بگاڑنے والی نہیں ہے۔ کوئی دوسری ہستی تمھاری دُعائیں سننے والی اور ان کو قبول کرنے والی نہیں ہے۔ اس پر لوگوں نے یہی کہا کہ یہ ہمیں بے وقوف بنا رہا ہے، یا یہ دیوانہ ہے۔

اسی طرح جب اس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آکر لوگوں کو متنبہ کیا کہ ’’تمھیں مرنے کے بعد اپنے خدا کے سامنے جانا ہے اور جواب دہی کرنی ہے‘‘ تو جس طرح آج یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ رہے ہیں اسی طرح سے پچھلے انبیا ؑ کو بھی کہتے رہے ہیں۔ اس معاملے میں یہ سب ایک جیسے ہیں۔

اَتَوَاصَوْا بِہٖ ج بَلْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ o(۵۱ :۵۳) کیا ان سب نے آپس میں اس پر کوئی سمجھوتا کرلیا ہے؟ نہیں، بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔

اس ایک فقرے میں ایک پوری کی پوری داستان بیان کردی گئی ہے۔ ایک طویل استدلال ہے جو ایک ذرا سے فقرے میں سمیٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ کیا ان لوگوں نے آپس میں کچھ طے کیا ہے کہ انبیا ؑ کو یہ جواب دیں گے؟

مطلب یہ ہے کہ ہر زمانے میں جن انسانوں نے خدا کے رسولوں کے مقابلے میں گمراہی اختیار کی ہے اور اس پر اصرار کیا ہے، وہ ہر زمانے میں ایک ہی طرح سے دلائل کیوں دیتے رہے؟ ہر زمانے میں لوگ ایک ہی طرح سے بات کیوں کرتے رہے؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اگلوں اور پچھلوں کی کوئی کانفرنس ہوئی ہو اور جس میں یہ طے ہوا ہو کہ جو نبی ؑ بھی آئے گا تو ہم یہ جواب دیں گے۔ نہیں، یہ بات نہیں ہے۔

ظاہر بات ہے کہ فرعون کی قوم اور قریش نے ایک وقت میں جمع ہوکر یہ طے نہیں کیا تھا کہ فرعون کی قوم بھی کہے کہ موسٰی ؑ ساحر ہیں اور قریش کے لوگ بھی کہیں کہ محمدؐ ساحر ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی کانفرنس نہیں ہوئی۔آپس میں مل کر یہ طے نہیں کیا گیا تھا کہ انبیا ؑ کو یہ جواب دیا جائے۔

سوال یہ ہے کہ ان کے درمیان یہ مشابہت کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ صدیوں پہ صدیاں گزرتی جاتی ہیں، ہزاروں برس گزرتے جاتے ہیں، قوم پر قوم ایسی آتی ہے کہ جس کے سامنے نبی آکر وہی ایک بات کہتا ہے اور وہ اس کے سامنے جواب میں وہی ایک رویہ اختیار کرتی ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

بَلْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ o فَتَوَلَّ عَنْھُمْ فَمَآ اَنْتَ بِمَلُوْمٍo وَّذَکِّرْ فَاِِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَo(۵۱ : ۵۳-۵۵) نہیں،بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔ پس اے نبیؐ، ان سے رُخ پھیر لو، تم پر کچھ ملامت نہیں۔ البتہ نصیحت کرتے رہو، کیوں کہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔

ابتدا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک سردارِ قریش اور ایک ایک گروہ کے پاس جاتے تھے اور جاکر ان کو نصیحت کرتے تھے۔ خاص طور پر آپؐ کی کوشش یہ تھی کہ ان لوگوں کو سمجھاکر درست کیا جائے تاکہ پوری قوم درست ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سے منہ پھیرلو تمھارے اُوپر اس کی کوئی ملامت نہیں۔

دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمھارے اُوپر اب یہ ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی کہ یہ لوگ اس وجہ سے گمراہ ہوئے کہ تم نے ان کو نصیحت کرنے میں کوئی کوتاہی کی۔ نہیں، تم نے حق بات پہنچانے میں اور اپنی بات سمجھانے میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی ہے۔ ہمیں تمھاری طرف سے کوئی ملامت نہیں ہے۔انھوں نے سرکشی کا جو فیصلہ کیا ہے، تمھارے اُوپر اس کی کوئی ملامت نہیں ہے۔

وَّذَکِّرْ فَاِِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ،البتہ نصیحت کرو کیوں کہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم کلمۂ نصیحت سنانا چھوڑ دو، البتہ خاص طور پر اِن لوگوں کو نصیحت کرنے کی اب حاجت نہیں ہے۔ تم نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ ایک ایک آدمی تک جاکر اس کو سمجھانے کی کوشش کی۔ اب تمھارے اُوپر کوئی ملامت نہیں۔ اب عام نصیحت اور عام دعوت تم پھیلاتے چلے جائو۔ جو ایمان لانے والا ہے، اس کے لیے یہ نافع ہوگی۔ یعنی خاص طور پر بڑے بڑے آدمیوں کو سمجھانے کی کوشش کرنا، ایسی حالت میں، جب کہ دعوتِ عام پہنچ چکی ہو، قطعاً غیرضروری ہے۔ دعوت کے آغاز میں خاص خاص لوگوں کو مخاطب کر کے کہ چونکہ وہ قوم کے سردار ہیں، قوم کے بڑے ہیں، ان کے پاس طاقت اور اقتدار ہے اور لوگ ان کے ساتھ ہیں، تو ان کو سمجھانے کی کوشش کرنا درست ہے۔ کیوںکہ اگر وہ سمجھ جائیں تو پوری قوم سدھر جائے گی۔ لیکن اگر دعوت عام پھیل چکی ہو، عام طور پر معلوم ہوچکا ہو کہ نبیؐ کیا چاہتے ہیں، خدا کے رسولؐ کاہے کے لیے آئے ہیں، خدا کی کتاب کیا تعلیم دیتی ہے اور یہ ساری باتیں پھیل چکی ہوں اور لوگوں کو معلوم ہوچکا ہو، تو اس کے بعد خاص خاص لوگوں کو مخاطب کرنے کی اب حاجت نہیں رہتی۔

اب دعوتِ عام آدمی پھیلاتا چلا جائے۔ اب تم دعوتِ عام پھیلائو کیوں کہ یہ تذکیر ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔ دعوتِ عام میں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کون آدمی ایمان لانے والا ہے اور کون ایمان نہیں لانے والا۔ ان میں جو آدمی ایمان لانے والا ہوگا اس کے لیے یہ تذکیر نافع ہوگی، اور جو آدمی ان میں ایمان لانے والا نہیں ہوگا وہ اپنی گمراہی میں پڑا رہے گا۔ دعوتِ عام پھیلانے والے پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی اگر وہ گمراہی میں پڑا ہوا ہو۔ اس وجہ سے کہ اس نے دعوت پہنچانے کا حق ادا کر دیا ہے اور ادا کرتا چلا جا رہا ہے۔

بندگی کی دعوت
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ o (۵۱ :۵۶) میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔

یہاں خاص طور پر جنوں اور انسانوں کا ذکر کرنے کی کیا وجہ ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

عبادت کے اصل معنی تو ہیں بندگی اور اطاعت کے، اور یہ عبادت پوری کائنات کر رہی ہے۔ کائنات کی ہر چیز کر رہی ہے۔ سورج، چاند، زمین، آسمان، پتھر اور درخت، غرض کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ کی بندگی نہ کر رہی ہو۔ اللہ کی بندگی سے باہر جانے والی کوئی چیز اس کائنات میں پائی ہی نہیں جاتی۔ اب خاص طور پر یہ فرمایا گیا ہے کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہاں عبادت سے مراد سفلی اور پیدایشی عبادت نہیں ہے، بلکہ اختیاری عبادت ہے۔

جِنّ اور انسان دو مخلوقات ایسی ہیں، کم از کم اس زمین کی حد تک پوری کائنات کے بارے میں ہم نہیں جانتے ہیں، جنھیں یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ تمھیں اس کی آزادی ہے کہ اللہ کی بندگی کرنا چاہو تو کرو اور اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو کرو۔ باقی کسی اور مخلوق کو یہ آزادی اور اختیار حاصل ہی نہیں ہے۔ کوئی دریا، پہاڑ اور درخت کافر نہیں ہوسکتا۔ کافر یا انسان ہوسکتا ہے یا جِنّ۔ اس لیے کہ انھیں یہ آزادی اور اختیار دیا گیا ہے کہ جہاں تک ان کے اپنے دائرۂ اختیار کا تعلق ہے وہ اللہ کی بندگی کرنا چاہیں تو کریں اور نافرمانی کرنا چاہیں تو نافرمانی کریں۔

اس لیے فرمایا گیا کہ ان کو ہم نے اس لیے پیدا نہیں کیا کہ پیدا تو ہم کریں اور یہ بندگی کریں دوسروں کی۔ ان کو اس لیے پیدا نہیں کیا کہ ہم اُن کو رزق دیں اور یہ شکر بجا لائیں دوسروں کا۔ ان کو ہم نے اس لیے پیدا نہیں کیا کہ ان کے سارے وجود کی پرورش تو ہم کر رہے ہیں، ان کو وجود میں بھی ہم لائیں اور یہ بندگی کریں دوسروں کی اور جاکر ماتھا رگڑیں دوسروں کے سامنے، اور اطاعت کریں دوسروں کی اور قانون مانیں دوسروں کا۔ ہم نے انھیں اس لیے پیدا نہیں کیا تھا۔ ہم نے اس لیے پیدا کیا تھا کہ یہ ہمارے بندے ہیں اور ہماری ہی بندگی کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے انھیں اختیار دیا ہے اور یہ اختیار ان کی آزمایش کے لیے ہے۔ یہ ان کے امتحان کے لیے ہے کہ جہاں ہم ان کو اختیارات دیتے ہیں وہاں یہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں یا دوسری ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ اختیار تو انھیں آزمایش کے لیے دیا گیا ہے۔لیکن اس اختیار کا یہ مقصد نہیں ہے کہ یہ ہماری بندگی چھوڑ کر دوسروں کی بندگی اختیار کرلیں۔ ان کو اللہ کی بندگی کے لیے پیدا کیا گیا ہے دوسروں کی بندگی کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہے۔

مَآ اُرِیْدُ مِنْھُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ o اِِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُo(۵۱ :۵۷-۵۸) میں اُن سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تو خود ہی رزّاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست۔

یہ بندگی اور اطاعت کا مطالبہ اس لیے نہیں ہے کہ اگر یہ عبادت نہیں کریں گے تو نعوذباللہ اللہ تعالیٰ بھوکا مرجائے گا، یا اللہ تعالیٰ کی خدائی نہیں چل سکے گی۔ اللہ کی اطاعت اور بندگی کا مطالبہ اس بنا پر نہیں ہے کہ ہمیں ان سے کسی رزق یا کسی سہارے کی حاجت ہے۔ رزق دینے والے تو ہم ہیں۔

اِِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُo، اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے، وہ زبردست طاقت رکھنے والا ہے، کسی کا محتاج نہیں۔

یہ مطالبہ اس لیے ہے کہ یہ ان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ وہ ان کا پیدا کرنے والا ہے، انھیں اس کی عبادت کرنی چاہیے۔ یعنی ان کا خدا کی مخلوق ہونا خود اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس خدا کی عبادت کریں جس نے انھیں پیدا کیا ہے۔ اس وجہ سے انھیں ہماری عبادت کرنی چاہیے ۔ اس لیے نہیں کہ ان کی عبادت کرنے کے ہم محتاج ہیں، ہماری خدائی ان کے عبادت کرنے پر موقوف ہے، یا یہ کہ یہ ہمیں رزق عطا کریں گے تو ہم جئیں گے۔

اس میں ایک لطیف تعریض (چوٹ) مشرکین کے معبودوں پر بھی ہے۔ مشرکین کے جتنے معبود ہیں ان کی خدائی ان کے بندوں کی عبادت کی بدولت چلتی ہے۔ جن انسانوں کی بندگی کی جارہی ہے، ان کی بندگی کیسے چل رہی ہے؟ ایک فوج ظفر موج ان کی اطاعت کر رہی ہے۔ پولیس ان کی اطاعت کر رہی ہے۔ عدالتوں کے اختیارات کی بدولت ان کی خدائی چل رہی ہے۔ عام لوگ انھیں ٹیکس دے رہے ہیں جن کی بدولت ان کو روپیہ ملتا ہے۔ اگر یہ سب لوگ ان کی اطاعت نہ کریں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ کسی آمر کی آمریت نہیں چل سکتی، کسی بادشاہ کی بادشاہی نہیں چل سکتی۔ کسی ایسے طاقت ور شخص کے بارے میں جس کے متعلق آدمی سوچتا ہے کہ یہ بڑا زورآور ہے، اگر وہ قوتیں جن کے بل بوتے پر وہ اپنی خدائی چلا رہا ہے وہی قوتیں اس کے خلاف ہوجائیں تو وہی صاحب خاک اور خون میں لوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اسی طرح سے مُردہ معبود ہیں۔ ان کے مجاورین اور معتقدین دنیا میں چل پھر کر اور دنیا میں دوڑدھوپ کرکے لوگوں کو یہ یقین نہ دلاتے پھریں کہ یہاں سے مرادیں بَر آتی ہیں، یہاں سے بیٹا ملتا ہے، روزگار ملتا ہے، تو کوئی ان کی بندگی کرنے والا نہ ہو۔ اگر لوگ وہاں منّتیں اور نذرانے نہ چڑھانے جائیں تو کوئی ان کا مقبرہ تعمیر کرنے والا نہ ملے۔ جن کے پیچھے دوڑنے والا کوئی نہیں ہے، وہ بھی زمین میں پڑے ہوئے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ ان کی خدائی اُن کی بدولت چل رہی ہے جو ان کے بندے بنے ہوئے ہیں، ان کے اپنے بل بوتے پر نہیں چل رہی۔ اگر اس طرح خدائی چلنے والی ہوتی تو ہرمرنے والا اپنی خدائی چلا رہا ہوتا۔

ایسے ہی دوسرے معبود ہیں جو انسان نے بنا رکھے ہیں۔ کوئی معبود بھی ایسا نہیں ہے جو انسان نے بنا رکھا ہو اور اس کی خداوندی اپنے عبادت گزاروں کے بغیر نہ چل رہی ہو۔ یہاں بہت سے مندر ہیں جو ہندوئوں کے چھوڑ جانے سے ویران پڑے ہیں۔ اب وہاں کون سی کرامت ہے اور کون ہے جو وہاں گھنٹیاں بجاتا ہے۔ جب تک وہاں گھنٹیاں بجانے والے تھے اس وقت تک ان کی خداوندی چل رہی تھی۔

اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ میری خداوندی تمھارے چلانے سے نہیں چلتی۔ دوسروں کی خداوندی تمھارے چڑھاوے چڑھانے، نذرانے دینے اور ان کی بندگی کرنے سے چلتی ہے۔ لیکن مَیں وہ خدا ہوں جو رزق دینے والا ہے۔ میں خود اپنی طاقت کے بل پر حکومت کر رہا ہوں۔ میری خدائی تمھارے رزق دینے سے نہیں چل رہی۔ یہ تمھارے نذرانے چڑھانے کی محتاج نہیں ہے۔

یہ سب کچھ فرمانے کے بعد آخر میں فرمایا جا رہا ہے:
فَاِِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوبًا مِّثْلَ ذَنُوبِ اَصْحٰبِھِمْ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنِo (۵۱ :۵۹) پس جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حصے کا بھی ویسا ہی عذاب تیار ہے جیسا انھی جیسے لوگوں کو اُن کے حصے کا مل چکا ہے، اس کے لیے یہ لوگ مجھ سے جلدی نہ مچائیں۔

یہاں ظلم سے مراد دوسرے انسانوں پر ظلم کرنا نہیں بلکہ حقیقت اور صداقت پر ظلم کرنا اور خود اپنی فطرت پر ظلم کرنا ہے۔ لوگوں کو سمجھا دیا جائے پھر نہ سمجھیں تو اس کے معنی ہیں کہ وہ حقیقت پر ظلم کر رہے ہیں۔ لوگوں کو خدا کی طرف سے کوئی آدمی متنبہ کرنے والا اور حقیقت بتانے والا ہو، اس کے جواب میں اسے کہا جائے کہ تو ساحر اور مجنون ہے، تو یہ ظلم ہے۔ جو لوگ یہ ظلم کرتے ہیں وہ اپنے خدا کے حق میں دوسروں کی خدائی مانتے ہیں۔ یہ آخرت کا انکار کرکے فاسق بن رہے ہیں۔ یہ سمجھانے والے کی بات نہیں مانتے، اُلٹا اسے ملامت کرتے ہیں، اس کے اُوپر الزامات رکھتے ہیں، تہمتیں دھرتے ہیں، یہ ظالم ہیں۔ اس طرح کا ظلم کرنے والوں کے نصیب میں عذاب کا حصہ ہے جس طرح کہ ان سے پہلے ظلم کرنے والوں کے لیے عذاب کا حصہ تھا۔ یہ لوگ جو ظلم کرتے ہیں یہ اپنے خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی خدائی کو مانتے ہیں۔ یہ آخرت کا انکار کر کے فاسق بن رہے ہیں۔

ذنوب کا لفظ ڈول کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عربی زبان میں بڑے ڈول کے لیے ذنوب بولا جاتا ہے۔ یہ عرب کا ایک محاورہ ہے۔ یہ اس طرح پیدا ہوا کہ جب کوئی قافلہ کسی مقام پر جاکر اُترتا ہے جہاں پانی یا کوئی کنواں ہو تو اس جگہ قافلے کے پانی دینے والے سقّے ہوتے تھے جو ڈول لے کر ہر ایک کے حصے کا پانی نکالتے جاتے تھے کہ یہ ڈول فلاں کے حصے کا ہے اور یہ ڈول فلاں کے حصے کا۔ اس طرح سے ڈول نکالتے جاتے تھے اور لوگوں کو دیتے جاتے تھے۔

یہاں ذنوبکا لفظ ڈول کے لیے استعمال ہوا ہے کہ ان کے حصے کا بھی ڈول ہے جیساکہ ان سے پہلے والوں کے حصے کا ڈول تھا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان سے پہلی قوموں کو عذاب مل چکا، اِن کے عذاب کا حصہ بھی محفوظ ہے جو انھیں ملنے والا ہے۔ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنَ، ’’یہ جلدی نہ کریں‘‘ یعنی قریش کے لوگ نبی کریم ؐ کو باربار کہتے تھے کہ تم جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے؟ تو فرمایا گیا کہ جلدی نہ کرو، تمھارا حصہ بھی تیار ہے۔

فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ یَّوْمِہِمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ o(۵۱ :۶۰) آخر کو تباہی ہے کفر کرنے والوں کے لیے اُس روز جس کا انھیں خوف دلایا جارہا ہے۔

یعنی اگر اس دنیا میں عذاب نہ بھی آئے، اس دنیا میں پکڑ نہ بھی ہو، تب بھی وہ دن تو آنا ہے جس میں یقینا ہر ایک کی پکڑ ہوگی۔ یہاں سے بچ بھی نکلا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کامیاب ہوگیاکہ سب مزے بھی کیے، ظلم و ستم بھی کیا اور یہاں سے اطمینان سے بخیریت بھی گزر گیا۔ نہیں، ایک دن ضرور ایسا آنا ہے جب اس کے معاوضے میں ہر اس شخص کو جس نے کفر کا رویہ اختیار کیا اسے اپنے کیے کی سزا بھگتنا ہوگی۔
(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، مرتب: امجد عباسی)