٭نام کتاب :قطرہ قطرہ زندگی (افسانے)
٭مصنف: نسیم انجم
٭تبصرہ نگار: ملکہ افروز روہیلہ
محترمہ نسیم انجم کی ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ انہوں نے ادب کئی اصناف میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ افسانہ، ناول ، کالم تبصرہ تنقید اور ادب کے میدان ان کی ذہانت و صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ نسیم انجم صاحبہ کی اب تک درجن بھر کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور ہر کتاب اپنی جگہ ایک شاہکار ہے۔ آج ہمارے سامنے نسیم انجم کے افسانوں کا مجموعہ ’’قطرہ قطرہ زندگی‘‘ رکھا ہے‘ اسے ہم نے ایک بار نہیں کئی بار پڑھا اور ہر مرتبہ ایک نیا رنگ اور آہنگ ہمیں افسانوں میں نظر آیا۔
نسیم انجم کے ناولوں اور افسانوں کے موضوعات بہت دل چسپ‘ منفرد اور انوکھے ہوتے ہیں۔ ان کا اسلوب بہت سادہ اور دل میں گھر کرنے والا ہے‘ وہ لفظوں سے محض اس لیے نہیں کھیلتیں کہ پڑھنے والے پر رعب ڈالیں‘ اسے لفظوں کے سحر میں جکڑ لیں بلکہ وہ موضوع اور کردار کے حوالے سے لفظوں کا ایسا چناؤ کرتی ہیں جو پڑھنے والے کو کتاب سے جوڑے رکھتا ہے۔ ان کی کہانیوں اور افسانوں کے تراجم دیگر زبانوں میں بھی شائع ہو ئے ہیں۔ پڑوسی ملک کے اخبار و رسائل میں بھی ان کی کہانیاں افسانے چھپتے رہے ہیں۔
نسیم انجم صاحبہ نے قطرہ قطرہ زندگی کا انتساب اپنے رب کے نام کیا ہے جس نے مجھے لکھنے کی قوت عطا فرمائی۔ معروف ادیب اکرم کنجاہی کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ’’اُن کے افسانے فنی قدروں کے ہی حامل نہیں بلکہ انہوں نے اپنے کردار اور موضوعات اپنے عہد اور گردوپیش کی زندگی سے کشید کیے ہیں جو حقیقت کیش ، زندگی آمیز ہیں اور ہمارے عہد کی مبنی بر حقائق دستاویزات ہیں۔‘‘
کتاب کا سرورق سخر نسیم انجم کے حوالے سے مشاہیر ادب کی آرا سے مزین ہے پروفیسر سحر انصاری، غلام عباس، احمد ہمدانی، شعکت صدیقی، اسلم فرخی ، اخلاق احمد، ڈاکٹر مصطفیٰ کریم جیسی شخصیات نے مصنفہ کے فن و ادبی خدمات پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ ایک بہترین تخلیق کار زندگی کے جزو و کل کے ساتھ مقصد زندگی کو بھی موضوع بناتا ہے۔ نسیم انجم نے بھی اپنے افسانوں میں اس رنگ کو مخصوص انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کے قلم کا یہ روپ قاری کو زندگی کی بصیرت سے روشناس کرتا ہے۔
آخر میں جناب اکرم کنجاہی کے ان جملوں سے اس تبصرے کا اختتام کروں گی کہ ’’افسانہ نگار کا قلم سے رشتہ نیا نہیں ہے‘ اپنے طویل ادبی سفر میں وہ اپنے گردوپیش بکھرے غیر مرتب مشاہدات اور خیال محض کو زود حسی ، احساس کی شدت ، درد مندی ، اور جذبے کے اخلاص کے ساتھ افسانوں کی صورت میں ایسا تخلیقی اظہار دینا سیکھ چکی ہیں جو تاثر سے مملو ہے اور وسری کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔‘‘