شاید یہ کم لوگوں کو معلوم ہو کہ ڈاکٹر اقبال مرحوم ایک صوفی خاندان میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد مرحوم ایک خوش مزاج صوفی تھے، اور ان کے یہاں آنے والے دوستوں کا مذاق بھی یہی تھا اور اسی ماحول میں اقبالؒ کی پرورش ہوئی۔ سفرِ کابل کی واپسی میں قندھار کا ریگستانی میدان طے ہوچکا تھا، اور سندھ و بلوچستان کی پہاڑیوں پر، ہماری موٹریں دوڑ رہی تھیں۔ شام کا وقت تھا، ہم دونوں ایک ہی موٹر میں بیٹھے تھے، روحانیات پر گفتگو ہو رہی تھی، اربابِ دل کا تذکرہ تھا، کہ موصوف نے بڑے تاثر کے ساتھ اپنی ابتدائی زندگی کے دو واقعے بیان کیے۔ میرے خیال میں یہ دونوں واقعے، ان کی زندگی کے سارے کارناموں کی اصل اور بنیاد تھے۔ فرمایا: جب میں سیالکوٹ میں پڑھتا تھا تو صبح اٹھ کر، روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا تھا۔ والد مرحوم اپنے اوراذکار و وظائف سے فرصت پاکر آتے، اور مجھے دیکھ کر، گزر جاتے، ایک دن صبح کو میرے پاس سے وہ گزرے تو مسکراکر فرمایا: کبھی فرصت ملی تو میں تم کو ایک بات بتاؤں گا۔ میں نے دو چار دفعہ بتانے کا تقاضا کیا، تو فرمایا کہ جب امتحان سے دے لوگے تب، جب امتحان دے چکا اور لاہور سے مکان آیا تو فرمایا: جب پاس ہوجاؤ گے تب، جب پاس ہوگیا اور پوچھا تو فرمایا بتاؤں گا۔ ایک دن صبح کو حسبِ دستور قرآن کی تلاوت کر رہا تھا تو وہ میرے پاس آئے اور فرمایا: بیٹا کہنا یہ تھا کہ جب تم قرآن پڑھو تو یہ سمجھو کہ یہ قرآن، تم ہی پر اترا ہے، یعنی اللہ تعالٰی خود تم سے ہم کلام ہے!” آہ! کیا بات کہی اور کیسی بات فرمائی، لوگ قرآن کو نقالی سے پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس میں خدا ان سے ہم کلام نہیں، “یا ایہا الناس” اور “یا ایہا الذین آمنوا” صرف تیرہ سو برس (اب ساڑھے چودہ سو برس) پہلے کا قصہ ہے، جس سے ان کو سروکار نہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ قرآن کی تلاوت میں ان کا دل تاثر سے خالی رہتا ہے۔ ڈاکٹر اقبالؒ کہتے تھے کہ ان کا یہ فقرہ، میرے دل میں اتر گیا اور اس کی لذت دل میں اب تک محسوس کرتا ہوں۔
یہ تھا وہ تخم، جو اقبالؒ کے دل میں بویا گیا، اور جس کی تناور شاخیں، پنہائے عالم میں، ان کے موزوں نالوں کی شکل میں پھیلی ہیں۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ باپ نے ایک دن بیٹے سے کہا کہ میں نے تمہارے پڑھانے لکھانے میں جو محنت کی ہے، میں تم سے اس کا معاوضہ چاہتا ہوں۔ لائق بیٹے نے بڑے شوق سے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ باپ نے کہا کسی موقع سے بتاؤں گا، چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ کہا کہ بیٹا میری محنت کا معاوضہ یہ ہے کہ تم اسلام کی خدمت کرو، بات ختم ہوگئی۔ ڈاکٹر اقبالؒ کہتے تھے، اس کے بعد میں نے امتحان وغیرہ دیکر اور کامیاب ہوکر لاہور میں کام شروع کیا۔ ساتھ ہی میری شاعری کا چرچا پھیلا، اور نوجوانوں نے اس کو اسلام کا ترانہ بنایا اور دوسری نظمیں لکھیں اور لوگوں نے ان کو ذوق و شوق سے پڑھا، اور سامعین میں ولولہ پیدا ہونے لگا، تو ان ہی دنوں میں میرے والد، مرض الموت میں بیمار ہوئے، میں ان کے دیکھنے کو لاہور سے آیا کرتا تھا، ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ والد بزرگوار! آپ سے جو میں نے اسلام کی خدمت کا عہد کیا تھا، وہ پورا کیا یا نہیں؟باپ نے بسترِ مرگ پر شہادت دی کہ جانِ من! تم نے میری محنت کا معاوضہ ادا کردیا۔
کون انکار کر سکتا ہے کہ اقبالؒ نے ساری عمر، جو پیام ہم کو سنایا، وہ ان ہی دونوں متنوں کی شرح تھی۔
(’’جوہر‘‘ دہلی، اقبال نمبر1938‘صفحہ:1-2)