دنیا کی ہر شہ عشق سے عبارت ہے‘ سارے ربط عشق سے شروع ہو کر عشق پر اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ عشق کا رنگ مرد اورعورت کے درمیان جھلکتا ہے جب وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں۔ عشق کی یہی خوشبو اس وقت محسوس ہوتی ہے جب ایک عورت ماں بنتی ہے‘ عشق کی جھلک دوسرے خونی رشتوں میں دکھائی دیتی ہے۔ جیسے بھائیوں کی آپس میں ایک دوسرے سے رغبت یا دو بہنوں کا ایک دوسرے پر مان بھی عشق کا ایک اور روپ ہے۔
اگر عشق کا وجود نہ ہوتا تو دنیا کی ہر چیز بے رنگ اور بے نور ہوتی۔ دنیا کی ہر شے چاہے آسمانوں میں ہے یا زمین پر ہے‘ سب اللہ کے عشق میں اپنے اپنے کام سر انجام دے رہے ہیں۔
بادلوں میں سے پانی کی بارش کی روپ میں برسنا عشق کی ایک کڑی ہے۔ اسی طرح دریاء وں کا بہنا‘ چڑیوں کا چہچہانا عشق کے روپ ہیں۔ اسی طرح سورج‘ چاند‘ ستارے اللہ کے عشق سے سرشار نظر آتے ہیں۔
آسمانوں اور زمین کے بیچ میں انسان اللہ کے نائب کا کام سرانجام دیتے ہیں مگر دنیا کی بندشوں سے انسان کو آسانی سے آزادی نہیں ملتی۔ انسان اللہ کی طرف اللہ کا مکمل بن کر رجوع بہت مشکل سے کرتا ہے۔ جب تک انسان کے وجود کی کرچیاں نہیں ہوتی وہ اس وقت تک دل سے اپنے خالق کی طرف نہیں مڑتے۔ جب کوئی عورت اپنے ہی شریک حیات کے ہاتھوں شکست کھاتی ہے‘ جب اسے کم تر سمجھ کر حقارت کے تحفے دیے جاتے ہیں وہ ٹھوکر عشق مجازی سے پانے والی ہوتی ہے جو اسے موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے سوچ کے زاویوں میں اس ہستی کو زیادہ معتبر بنائے جس نے اسے تخلیق کیا ہے۔
پھر جب دو بھائیوں میں محبتوں کی بجائے حسد کے پہاڑ کھڑے ہو جائیں وہ بھی موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ شخص اپنے اس تعلق پر مان رکھنے کے بجائے اپنی ذات اور زندگی کو اپنے رب کے لیے وقف کرے۔
اسی طرح وہ بچے جنہیں بدقسمتی سے ماں باپ کے ساتھ رہنے کا موقع تو ملتا ہے مگر ان کی محبت اور شفقت نصیب نہیں ہوتی‘ یہ رویے کسی بھی انسان کو توڑنے کے لیے کافی ہیں۔ مگر ہر انسان اپنے وجود کو جوڑنے کے لیے اپنے خالق کی طرف بڑھتا ہے۔
زندگی کے ہر گزرتے پل کے ساتھ انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ سب رشتے اس لیے ہیں تاکہ ہم اپنے روابط کو اللہ سے مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جائیں۔ اگر کسی انسان پر غربت کے کالے بادل چھا جائیں تو اس لمحے دنیا کے سارے رشتے منہ پھیر لیتے ہیں۔ ہر انسان ایسی کیفیت سے گزرتا ہے جس میں اسے اپنے درد کی دوا صرف اپنے خالق سے نصیب ہوتی ہے۔
ہر بچہ جو کسی بھی روپ میں اپنے گھر والوں کی مدد کرتا ہے‘ چاہے وہ اخبار بیچے‘ ہوٹل پر برتن دھوئے‘ جوتے پالش کرے‘ پٹرول پمپ پر گاڑیاں صاف کرنے میں اسے روز و شب حقار بھری نظریں دیکھتی ہیں۔ لوگ مضحکہ خیز نظروں سے ان بچوں کو گھورتے ہیں اور بہت سختی کرتے ہیں۔ لوگوں کے یہ حقارت بھرے رویے ان بچوں کو مکمل طور پر ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں۔ پھر اگر عشق مجازی سے عشقِ حقیقی کا سفر اگر ان بچوں کا منتظر ہوتا ہے تو وہ اس ماحول سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘ انہیں تاریکیوں میں روشنی کی کرنیں دکھائی دیتی ہیں۔
آگے بڑھتے ہوئے میں معاشرے کے اس سنگین پہلو کو نظر انداز نہیں کرسکتی جس میں بچے جنسی طور پر ہراساں کیے جاتے ہیں۔ جنسی طور پر ہراساں کیا جانا عشق مجازی کے زمرے میں اس لیے آتا ہے کہ انسان سے انسان کا ٹوٹنا ہی انسان کو اللہ سے جوڑتا ہے۔ اس کا اللہ سے تعلق گہرا ہوتا ہے۔
اسی طرح اگر کسی لڑکی کا رشتہ نہیں ہوتا تو رشتے دار اسے طعنے دینا شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی عورت کو طلاق ہو جانے خلا لے تو تب بھی معاشرہ اس کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے۔ مگر یہی نفرت اس کو مضبوط کرتی ہے۔ اس عورت کو سوچنے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ اس کو اپنے لیے جینا ہے۔ اللہ سے ربط اور اس پر یقین اس کو یہ موقع دیتا ہے نا کہ اسے اپنی ذات کے بکھرے پہلوئوں کو خود سمیٹنا ہے‘ اس کو اپنی ہستی کی تلاش کرنی ہے اور یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ بے کار نہیں ہے۔
زندگی میں کسی بھی تعلق کے ہاتھوں انسان کا ٹوٹنا ہو وہ اللہ کی طرف سے ایک انعام ہوتا ہے۔ یہ سب اس وقت ہی ہوتا ہے جب ہم اپنے رشتوں میں توازن برقرار رکھنا بھول جاتے ہیں‘ جب ہم میانہ روی نہیں رکھتے تو ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اللہ کو بھی یہ بات پسند نہیں کہ اس کے بندے اس کے علاوہ کسی اور معتبر رکھیں۔ جب ہم اپنے رشتوں میں حد سے زیادہ تجاوز کرتے ہیں تو ہم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی ٹوٹ پھوٹ ہمیں اپنے خالق حقیقی سے جوڑتی ہے‘ ہمارا بہت گہرا تعلق اپنے رب سے پھر یہی دعا کے ذریعے جوڑتا ہے جو ہمارے رب کی اصل چاہت ہے۔