حسبِ سابق وہ عصر کی نماز کے بعد چہل قدمی کے بہانے ایک بار پھر ان بلوں کو دیکھنا چاہتے تھے اور از خود بھی اس بات کی تصدیق کرنا چاہتے تھے کہ لاش کہاں پر پائی گئی تھی۔ میدان میں کافی افراد موجود ہوتے ہیں۔ لاش کی خبر کیونکہ کافی پھیل چکی تھی اس لیے اس بات کا امکان تھا کہ کوئی نہ کوئی لاش کے پائے جانے والے مقام سے آگاہ ہوگا۔ وہ براہِ راست کسی سے کریدا کرادی بھی نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ کسی صورت ہر ایک کے سامنے نہیں آنا چاہتے تھے اس لیے جمال اور کمال نے فیصلہ کیا کہ وہ لوگوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کو کچھ اس انداز سے سننے کی کوشش کریں گے جیسے وہ سن ہی نہ رہے ہوں۔ انھیں یقین تھا کہ کیوںکہ واقعہ غیر معمولی نوعیت کا ہے اس لیے کچھ نہ کچھ افراد ایک دوسرے سے اس سلسلے میں ضرور بات کرتے پائے جائیں گے۔ ہوا بھی ایسا ہی، میدان میں کافی افراد لاش کے تذکرے کے ساتھ ساتھ اشاروں اشاروں میں لاش پائی جانے والی سمت اشارہ کرتے نظر آئے اس طرح اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ لاش لگ بھگ اسی مقام پر ہی پائی گئی تھی جدھر چوہوں کے بل جمال اور کمال کو نظر آئے تھے۔ جمال اور کمال لاش پائے جانے والے مقام کے ارد گرد پولیس کی لگائی گئی مخصوص اسٹرپس کو پہلے ہی دیکھ لیا تھا اور وہ بورڈ بھی پڑھ لیا تھا جس پر لکھا تھا کہ برائے مہربانی اسٹرپس کی حدود میں داخل نہ ہوں۔ اس مقام کو جہاں انھوں نے بل دیکھے تھے، آج انھیں کافی تبدیلی سی نظر آئی۔ اتنے فاصلے سے بل تو انھیں نظر نہیں آ سکتے تھے لیکن مٹی کے وہ ڈھیر جو انھیں بلوں کے دہانوں پر نظر آیا کرتے تھے وہ بالکل بھی دکھائی نہیں دیئے جس ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ کیونکہ اس علاقے میں پولیس کا پہرہ ہے اس لیے چوہوں نے اپنا کام بند کر دیا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ جہاں تک بھی چوہوں کو بل کھودنا تھا وہاں تک کھود چکے ہیں اور اب وہ اس میں صرف رہائش اختیار کرنے پر ہی اکتفا کر رہے ہوں۔ ایک خیال دونوں نے یہ بھی قائم کیا کہ ممکن ہے یہاں انسانوں کی آمد و رفت کی وجہ سے اپنا راستہ ہی بدل لیا ہو۔ بات جو بھی رہی ہو فی الحال محکمہ شاہراہ نے (چوہوں نے) اپنا ترقیاتی کام کچھ عرصے کے لیے بند کر دیا تھا۔
جمال اور کمال کی خواہش جان کر رات کو حیدر علی خود ان سے ملاقات کیلیے آئے۔ ڈرائنگ روم میں بٹھا کر جمال اور کمال واپس آکر بیٹھے تو حیدر علی نے کہا کہ سنا ہے آپ دونوں مجھ سے کچھ اطلاعات شیئر کرنا چاہتے ہیں جس پر دونوں نے کہا جی انکل لیکن پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ کو لاش ٹھیک کس جگہ ملی تھی۔ حیدر علی نے نقشہ بنانے کے بعد اس مقام پر ایرو کا نشان بنایا جہاں لاش ملی تھی۔ گویا یہ لاش آپ کو کچھ بلوں کے پاس ملی تھی۔ حیدر علی نے کہا کیا مطلب، کیا تم دونوں یہ کہنا چاہتے ہو کہ لاش کے قریب ہی کچھ بل بھی موجود ہیں۔ ہاں انکل، جس مقام کو آپ نقشے میں ظاہر کر رہے ہیں وہاں آس پاس 5 بل موجود ہیں۔ یہ کہہ کر حیدر علی کے بنائے ہوئے نقشے پر انگلی رکھتے ہوئے جمال اور کمال نے کہا کہ ان 5 مقامات پر بل ہیں اور وہ چوہوں کے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ایک چوہا ہم نے دیکھا بھی تھا لیکن نہ صرف چوہا جسمانی لحاظ سے غیر معمولی سا لگتا تھا بلکہ اس کی آنکھوں میں بھی ہمیں ایسی خاص بات محسوس ہوئی جس کا ابھی تک ہم کوئی نام نہ دے سکے۔ کچھ دیر ہم دونوں اسے دیکھتے رہے لیکن تھوڑی دیر بعد اس نے اپنا راستہ بدل لیا اور قریب کی جھاڑیوں میں جا چھپا۔ کچھ ہی دیر بعد ہمیں دور سے تین آدمی آتے دکھائی دیئے تو ہم نے واپسی کا ارادہ کیا لیکن جلد ہی انھوں نے ہمیں آ لیا اور کہا کہ وہ ادھر نہ آیا کریں اس لیے کہ یہاں کوئی عجیب سی مخلوق ہے جس نے ہمارے ایک ساتھی کو کاٹ لیا تھا۔ اس کو ہم نے یہاں کے سرکاری ہسپتال میں داخل کرا دیا ہے لیکن اس کی حالت اچھی نہیں ہے۔ ہاں انکل حیدر علی صاحب، کیا آپ یہاں کے سرکاری ہسپتال سے کسی ایسے شخص کے متعلق معلومات کر سکتے ہیں جس کو کسی سانپ یا ایسی ہی کسی زہریلے جانور نے کاٹا ہو۔ ان تینوں میں جو انھیں پہچانا ہوا سا لگا تھا فی الحال اس کا تذکرہ انھوں نے حیدر علی سے نہیں کیا البتہ یہ ضرور بتایا کہ ان میں سے دو یہاں کی آپس پاس کی بستیوں کوئی تعلق نہیں رکھتے تھے جس پر حیدر علی نے کہا کہ کیا تم یقین سے کہہ سکتے ہو کہ وہ یہاں کی بستیوں میں سے کسی بستی کے نہیں تھے۔ دونوں نے کہا کہ انکل آپ کو ہماری “پہچان” والی اللہ کی عطا کے متعلق تو جانتے ہی ہیں۔ یہ سن کر حیدر علی خاموش ہو گئے۔
کیا آپ دونوں اور کچھ بھی بتانا چاہتے ہیں؟، نہیں دونوں نے جواب دیا، بس آپ ہسپتال کی معلومات کو ضرور شیئر کیجیے گا اور اگر وہ بندہ اب ہسپتال میں نہ ہو تو لاش کی پہچان ہسپتال کے متعلقہ عملے سے ضرور کرایئے گا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ لاش اسی آدمی کی ہو جس کے متعلق ان تین افراد میں سے کسی ایک نے ہمیں آگاہ کیا تھا۔
اگلے روز ان کا آخری پرچہ تھا۔ فارغ ہو کر جب وہ گھر پہنچے تو ان کے علم میں یہ حیران کن خبر آئی کہ یہاں کے سرکاری ہسپتال میں تو کیا کسی بھی ہسپتال میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ایک مریض بھی ایسا داخل نہیں کیا گیا جس کے متعلق لانے والوں نے یہ بتایا ہو کہ اسے کسی موذی نے ڈس لیا یا کاٹ لیا ہو۔ یہ خبر سن کر جمال اور کمال نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ جس وقت اچانک وہ تین آدمی نکل کر ان کے قریب آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ وہ ان بلوں کے آس پاس نہ آیا کریں تو ان کے لہجے چغلی کھا رہے تھے۔ یہ بات انھوں نے اسی وقت محسوس کر لی تھی لیکن ہر بات کی تصدیق ضروری ہوا کرتی ہے۔ آج کی خبر سے یہ بات ثابت ہوئے کہ لہجے کے اتار چڑھاؤ سے کافی حد تک جھوٹ اور سچ کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔ یہ جان کر دونوں کو بہت خوشی ہو رہی تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انھوں نے یہ جھوٹ کیوں بولا تھا۔ گویا اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ ہم بچے ڈر جائیں، مگر کیوں؟۔ اس کے علاوہ اور کیا مقصد ہو سکتا تھا کہ ہم بلوں قریب نہ جائیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ بلوں کا اور ان افراد کا ان بلوں سے کوئی نہ کوئی تعلق جڑتا ضرور ہے لہٰذا ضروری ہو گیا تھا کہ ان اجنبیوں کا ان بلوں سے جو بھی تعلق ہو، وہ سامنے ضرور آنا چاہیے۔(جاری ہے)