نظر اکبر ابادی سے معزرت کے ساتھ
دنیا میں سائنسداں ہے، سو ہے وہ بھی شاگرد
اور ڈاکٹر و انجینئر ہے، سو ہے وہ بھی شاگرد
بے پرواہ، بزدل، گستاخ ہے، سو ہے وہ بھی شاگرد
جماعت میں کرسیوں پہ جو بیٹھا ہوا ہے، سو ہے وہ بھی شاگرد
اور مکتب کے میدان میں جو کھیل رہا ہے سو ہے، وہ بھی شاگرد
طلبہ کو مکتب میں جو پڑھارہا ہے سو ہے، وہ بھی شاگرد
کوئلے تراش کر جو ہیرے بنا رہا ہے سو ہے، وہ بھی شاگرد
حساب کے سوالوں میں جو الجھا ہوا ہے سو ہے، وہ بھی شاگرد
جغرافیہ کے نقشوں میں جو کھویا ہوا ہےسو ہے، وہ بھی شاگرد
صوبے میں جو بھٹک رہا ہے سو ہے، وہ بھی شاگرد ہے