آج یہ روداد میں اس لیے بیان کررہی ہوں کیوں کہ پاکستان کے سیکڑوں نہیں ہزاروں خاندان ان مصائب کو جھیل رہے ہیں جو مجھے اور میری بیٹی کو جھیلنے پڑے۔ یہ بات شروع ہوئی 2017ء کے اختتامِ دسمبر سے، جب میرے قریب ہی رہنے والی ایک خاتون نے اپنے بیٹے کے لیے میری بیٹی کا رشتہ طلب کیا۔ وہ پوری فیملی ہجرت کرکے امریکا جارہی تھی۔ جب یہ بات کھلی تو قریبی رفقا کی مخالفت اور موافقت دونوں سامنے آئیں۔ لوگوں نے کہا غیر فیملی اور باہر کا معاملہ ہے، دھوکے بازی بہت ہے۔ ذہن الجھ گیا کریں، نہ کریں؟ خیر اللہ کا نام لے کر رشتہ منظور کرلیا۔ بہت سوں نے مبارک باد دی، بہت سوں نے ڈراوا دیا کہ امریکا جاکر لڑکا بدل جائے گا۔
امریکا پہنچ کر ان لوگوں کا مطالبہ آیا کہ لڑکی لڑکے سے بات کر لیا کرے۔ میری بیٹی نے انکار کردیا کہ نکاح سے پہلے بات نہیں کروں گی۔ میں نے بیٹی سے کہا کہ میں ہر طرح سے ساتھ ہوں، لیکن اندر ہی اندر دھڑکا لگ گیا کہ اس بات پر رشتہ ختم ہوگیا تو سب تھو تھو کریں گے۔ خیر سوا سال بعد وہ لوگ پاکستان آئے اور نکاح ہوگیا۔ دل کو حوصلہ ہوا کہ چلو اب رشتہ مضبوط ہو گیا۔ خاندان کے بڑوں نے شرط رکھی کہ لڑکی لڑکا نکاح کے بعد گھر سے باہر نہیں ملیں گے۔ اس پر داماد کو اعتراض تو ہوا، مگر اس نے بات رکھ لی۔ وہ دو‘ تین بار گھر میں ہی ملنے آیا اور پھر واپس امریکا لوٹ گیا۔ نکاح کے اگلے ہی دن سے لوگوں کے سوالات شروع ہوگئے کہ امریکا کب جائے گی؟ رخصتی کب ہوگی؟
اس کے بعد ایک نیا سفر شروع ہوا۔ امریکا جانے کے لیے ان کی بارہ شرائط ہوتی ہیں جنھیں پورا کرنا ضروری ہے۔ ڈاکومنٹیشن کے لیے کبھی پاسپورٹ آفس کی خواری، کبھی نکاح نامہ کو میرج سرٹیفکیٹ میں تبدیل کروانا، کبھی پولیس سرٹیفکیٹ، لمبے لمبے آن لائن فارم فِل کرنا۔ دو سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ NVC کی تمام شرائط پوری ہوگئیں، ڈاکومنٹری کوالیفائیڈ ہونے کے بعد امید تھی دو ڈھائی مہینے میں انٹرویو کی کال آجائے گی۔ ہم نے بیٹی کی رخصتی کردی۔ ایک مہینہ رہ کر داماد اور اس کی فیملی واپس چلی گئی۔
لیکن اصل امتحان اس کے بعد شروع ہوا جب پتا چلا کہ کورونا کی وجہ سے انٹرویوز کا سلسلہ رکا ہوا تھا اس لیے پیچھے بے تحاشہ لوگ انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ فیملی کیٹگری کو بالکل پسِ پشت ڈال دیا گیا، رہی سہی کسر افغانیوں نے نکال دی۔ دھڑا دھڑ انہیں انٹرویوز دیے گئے اور پاکستانیوں کو نظرانداز کیا گیا۔ اب یہ بات لوگوں کو کیسے سمجھائیں! رشتے دار، محلے دار، دوست احباب، یونیورسٹی ہر جگہ ایک ہی سوال سن سن کر دل پک گیا کہ رخصتی تو ہوگئی پھر بیٹی کیوں نہیں گئی؟ بیٹی کی نند کی شادی بھی ساتھ ہوئی تھی، اُس کے شوہر کا معاملہ بھی رکا ہوا تھا، وہ امید سے ہوئی تو اس کی ایکسپڈائیٹ قبول ہوگئی اور اس کا شوہر چلا گیا، میری بیٹی نہیں جاسکی۔ اب لوگوں کو مزید باتیں بنانے کا موقع مل گیا کہ دیکھا داماد کو بلوا لیا، بہو کو نہیں بلایا، آپ کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔
اس موقع پر میری بیٹی نے کمال کا صبر کیا۔ لیکنnvc کے گروپ نے اس کی حالت بری کردی جہاں موجود ہزاروں لوگ اسی طرح کے مسائل سے دوچار تھے۔ کسی کا کوئی مسئلہ، کسی کا کوئی۔
کوئی چار سال سے انتظار میں تھی تو کوئی چھ سال سے۔ جن کے بچے ہوگئے ان کے بچوں کا بھی دوبارہ سے پروسس شروع ہوگیا یعنی دگنا ٹائم۔
یہ ساری صورت حال دیکھ کر ہم سخت پریشان ہوئے۔ لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے فیملی گیدرنگز، درس و تدریس کی محفلوں میں جانا چھوڑ دیا، رشتے داروں سے فون پر بات چیت بھی کم ہوگئی۔ بیٹی نے ورچوئل یونیورسٹی جوائن کرلی۔ داماد وہاں پڑھ بھی رہا تھا جاب بھی تھی، اس لیے دو سال میں صرف دو بار ہی آسکا۔ اس پر بھی لوگوں نے جینا حرام کیا کہ یہ یونہی کبھی کبھار پاکستان آئے گا پَر آپ کی بیٹی کو نہیں بلائے گا۔ غرض سو طرح کے وسوسے دل میں ڈالے گئے۔ آئے دنnvc کے گروپ پر رشتے ختم ہوتے دکھائی دیتے رہے۔ داماد نے وزٹ ویزے کے لیے اپلائی کیا، پَر وہ ریجیکٹ ہوگیا، کیوں کہ امیگریشن کا کیس چل رہا تھا۔ دوبارہ ایکسپڈائیٹ ڈالی، پَر وہ بھی ریجیکٹ۔ ایک صورت یہ تھی کہ بیٹی کسی دوسرے ملک چلی جاتی، وہاں سے اپلائی کرتی تو جلدی ویزہ مل جاتا، پَر جوان بیٹی کو تنہا کسی دوسرے ملک بھیجنا بھی سوہانِ روح تھا۔
دن رات دعائیں مانگتے رہے، مگر ہم نہیں سمجھتے رب نے کون سا وقت متعین کیا ہے۔ اللہ اللہ کرکے داماد وہاں سٹیزن ہوا تو کیٹگری فیملی سے چینج ہوکر سٹیزن میں کنورٹ ہوگئی۔ جس دن داماد کی اُوتھ ہوئی اس کے چند دن بعد ہی انٹرویو کی کال آگئی۔
اب دل کو دھڑکا لگا کہ نہ جانے کلیئر ہوگا یا AP میں ڈالیں گے۔ جن کا معاملہ لٹک گیا سو لمبے عرصے کے لیے لٹک گیا۔ خیر انٹرویو کی تیاری شروع ہوئی۔ جنھوں نے جوائنٹ اسپانسر دیا انہوں نے ٹرانسکرپٹس نہیں دیے۔ ڈاکومنٹس کا پلندہ تیار ہوا اور بیٹی والد کے ساتھ اسلام آباد روانہ ہوئی۔ ایمبیسی کے اندر بھی ایک سے بڑھ کر ایک کہانی موجود تھی۔ گھنٹوں انتظار کے بعد سب سے آخر میں بیٹی کا انٹرویو ہوا۔ شروع شروع کچھ لوگوں کو ویزے ملے، اس کے بعد ہر کسی کو ریجیکٹ کیا جاتا رہا۔ بیٹی کی ہمت ٹوٹتی رہی۔ آخری انٹرویو بیٹی کا ہوا، وہ ایمبیسی سے باہر آئی تو ویزہ اپروول کا پروانہ اس کے ہاتھ میں تھا، کیوں کہ جب خدا ’’کن‘‘ کہہ دے تو پھر کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
ویزہ اپروو ہوگیا تو اب ایک اور طرح کا دھڑکا لگ گیا، خدا نخواستہ کوئی حادثہ نہ ہوجائے، کوئی نیا مسئلہ نہ نکل آئے۔ دن رات دعائیں مانگ مانگ ہونٹ سوکھ گئے کہ ساتھ خیریت کے اپنے گھر کو چلی جائے۔ اسلام آباد سے واپسی، شاپنگ، ویزہ لینے کے لیے جانا، ایک ایک قدم پر سو اندیشے۔ اللہ کے فضل سے سب ہوگیا۔ سب سے آخر میں گھر سے ائرپورٹ کے لیے نکلنا بھی ایک مرحلہ تھا۔ رات ڈھائی بجے قرآنی آیات کا مسلسل ورد کرتے گھر سے نکلے۔ راستہ سنسان تھا، ایک ایک منٹ صدی جتنا لمبا ہوتا محسوس ہوا۔ کراچی کے حالات کی وجہ سے دل پتے کی طرح کانپتا ہی رہا۔ بالآخر ائرپورٹ پہنچ گئے۔ آدھے گھنٹے بعد تنہا بیٹی کو اللہ کے سپرد کردیا۔ دنیا کا سمندر اور بیٹی تنہا ہو تو جب تک منزل پر نہ پہنچ جائے جان سولی پر ٹنگی رہتی ہے۔ ایسے ایسے وسوسے ستاتے ہیں جو بیان بھی نہیں کیے جاسکتے۔ جب تک وہ ڈیلس پہنچ کر امیگریشن سے کلیئر نہیں ہوئی اُس وقت تک پورا سانس بحال نہیں ہوسکا۔
اب اس کے پیچھے گھر کاٹ کھانے کو دوڑ رہا ہے، اس کی ایک ایک چیز، ایک ایک کپڑا آنکھوں سے لگا کر چوم رہی ہوں، ہر کونے سے اس کی آواز آرہی ہے۔ بے خیالی میں کتنی ہی بار اسے پکار چکی ہوں۔ ہر لمحہ احساس ہوتا ہے کہ ابھی کمرے سے باہر آکر کہے گی ’’امی اچھا سا ناشتا کروا دیں‘‘۔
اس کے جانے کے بعد جو سوال کرتے تھے چپ ہیں، کچھ مبارک باد دیتے ہیں، کوئی بہت قریبی ہوکر بھی نہیں پوچھتا۔ کوئی جاتے وقت اس سے ملنے کا روادار بھی نہیں ہوا۔ شاید دلوں پر چڑھا زنگ ہی دنیا کا اصل رنگ ہے۔
قومیت سے لے کر خاندان تک امریکا بہت مشکل ہے۔ جس وقت بیٹی محو پرواز تھی اُس وقت دل کی کیفیت کو کچھ اس طرح قلم بند کیا:
اک آہنی طائر
فضائے بسیط کی وسعتوں میں
تند خو ہواؤں کو چیرتا
خدائے لم یزل کے دستِ قدرت پر
میرے وجود کا حصہ
دبوچے لیے جارہا ہے
اس کے پنجوں میں میری روح
خزاں کے خشک پتّوں کی مانند لرز رہی ہے
اس کے جلتے بجھتے سرخ اشارے
میری حسرتوں کو برف آب کیے جاتے ہیں
ان اشاروں میں میری دھڑکن دم توڑ رہی ہے
اس کے آہنی شکم سے میری نگاہ
ٹکرا کے پاش پاش ہوئی جاتی ہے
اے آہنی طائر! تجھے خدا محفوظ رکھے
کہ تیرے رحم میں
میری جان میرا دل
میری بیٹی ہے