ثمینہ رحمت منال کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی پائی جاتی ہے‘ وہ جواں فکر شاعرہ ہیں‘ انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے ادبی منظر نامے میں جگہ بنائی ہے‘ ان کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے بارگاہِ ادب انٹرنیشنل اور مشاعرے میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا انہوںنے مزید کہا کہ ثمینہ رحمت منال نے اپنی شاعری میں زندگی کے تمام روّیوں کو برتا ہے انہوں نے معاشرتی‘ سماجی اور سیاسی حالات پر بھی قلم اٹھایا ہے‘ وہ خواتین کے حقوق کی بات بھی کرتی ہیں۔ وہ نسائی ادب کی سفیر ہیں‘ ان کی کتاب میں غزلیں بھی ہیں اور نظمیں بھی۔ ان کی شاعری زندگی کے مختلف عنوانات کی آئینہ دار ہے۔ اس پروگرام میں ریحانہ روحی اور محمود احمد خان مہمانان خصوصی تھے۔ عقیل عباس جعفری‘ اقبال لطیف‘ اختر سعیدی اور بشیر نازش مہمانانِ اعزازی تھے۔ مہمانانِ توقیری میں طارق جمیل‘ نفیس احمد خان‘ آفتاب ملک ایڈووکیٹ‘ وقار زیدہ اور عابد شیروانی ایڈووکیٹ امل تھے۔ شاہدہ عروج نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ زیفرین صابر نے حمد باری تعالیٰ پیش کی۔ ثبین سیف نے نظامت کے ساتھ ساتھ کلماتِ استقبالیہ بھی ادا کیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ تمام شعرائے کرام اور سامعین کی ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے آج کے پروگرام میں شرکت کی۔ آج ہم ثمینہ رحمت منال کی کتاب ’’محبت کے بعد‘‘ کی تعارفی تقریب بھی کر رہے ہیں۔ وہ ایک جینوئن شاعرہ ہیں انہوں نے زندگی کے سفر میں بہت سے تلخ و شیریں تجربات حاصل کیے‘ وہ ہر مشکل وقت پر ثابت قدم رہیں اور ہمت نہیں ہاری۔ انہوںنے سادہ الفاظ میں شاعری کی تاکہ ابلاغ کے مسائل پیش نہ آئیں‘ وہ سہل ممتنع کی شاعری ہیں ان کی غزلوں اور نظموں میں بامقصد اشعار ہیں‘ ان کے یہاں قنوطیت اور مایوسی نہیں‘ وہ مثبت روّیوں کی ساتھ شاعری کر رہی ہیں۔ زاہد حسین جوہری نے کہا کہ ثمینہ رحمت منال کی شاعری میں غنایت موجود ہے انہوں نے جدید لفظیات اور جدید استعاروں سے اپنی شاعری سجائی ہے‘ انہوں نے معاشرتی روّیوں کا تجزیہ کیا ہے‘ وہ شاعرات کی صف میں ایک معتبر شاعرہ ہیں۔ انہوں نے اپنے اردگرد کے ماحول کو بھی نظم کیا ہے اور اپنے حالاتِ زندگی بھی بیان کیے ہیں۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ثمینہ رحمت منال ایک کہنہ مشق شاعرہ ہیں‘ ان کے ہاں عروضی سقم نہیں ہے‘ سارے مصرع رواں ہیں‘ ان کے اشعار پڑھ کر ذہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ ریحانہ روحی نے کہا کہ ثمینہ رحمت منال نے پاکستان سے برطانیہ ہجرت کی‘ وہ عصر حاضر کے سیاسی‘ سماجی اور معاشرتی مسائل سے گزر رہی ہیں‘ ان کی شاعری میں زندگی کے بے ثباتی اور بے یقینی نمایاں ہے کہ انسان کسی بھی وقت اس دنیا سے کوچ کر سکتا ہے۔ ان کی شاعری میں انسانی شعور بیدار ہے۔ مشاعرے میں پروفیسر قاسم رضا صدیقی‘ زاہد حسین جوہری‘ ریحانہ روحی‘ عقیل عباس جعفری‘ اختر سعیدی‘ سہیل ثاقب‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ وقار زیدی‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ بشیر نازش‘ آئرین فرحت‘ ثبین سیف‘ یاسر سعید صدیقی‘ ڈاکٹر ساجدہ پروین‘ منصور ساحر‘ سعدیہ سراج‘ کشور عروج‘ عاشق شوکی‘ ہما بیگ‘ علی کوثر‘ عشرت حبیب‘ شاہدہ خورشید‘ ڈاکٹر شاہد صدیقی‘ تاجور شکیل‘ فرحانہ اقشرف‘ عفت مسعود‘ نکہت عائشہ‘ اعجاز خان اور شاہدہ عروج نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔
موجِ سخن ادبی فورم کا مشاعرہ
گزشتہ ہفتے ادارے کے سربراہ نسیم شیخ کی رہائش گاہ میں ایک مشاعرہ منعقد کیا جس کی صدارت سلمان صدیقی نے کی تلاوتِ کلام مجید کے بعد ڈاکٹر عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے نعت رسول پیش کی۔ اس مشاعرے میں سلمان صدیقی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ حنیف عابد‘ نسیم شیخ‘ کاوش کاظمی‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ رانا خالد محمود قیصر اور سید شائق شہاب نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ صاحبِ صدر نے خطبۂ صدارت میں کہا کہ شاعری ودیعت الٰہی ہے‘ ہر شخص شاعری نہیں کر سکتا۔ شعرائے کرام معاشرے کے اہم لوگوں میں شمار ہوتے ہیں معاشرے کی ترقی اور تنزلی میں ان کا کردار ہے‘ ہر شاعر معاشرے کا نباض ہے‘ وہ اپنے ماحول کو دیکھتا ہے اور معاشرتی اقدار کی ٹوٹ پھوٹ پربھی زبان کھولتا ہے‘ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں اور ہماری منزل کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری کے فروغ میں مشاعرے بڑی اہمیت کے حامل ہیں‘ مشاعروں سے ہم ذہنی آسودگی حاصل کرتے ہیں‘ ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ نسیم شیخ نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ وہ اردو زبان کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں‘ ان کی تنظیم موجِ سخن ادبی فورم ایک غیر سیاسی ادارہ ہے جس کے تحت ہم ادبی پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ ہم اردو زبان کے شیدائی ہیں ہم چاہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے کے روشنی میں اردو سرکاری زبان بن جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے جو محکمے زبان و ادب کی ترقی کے لیے بنائے ہیں وہاں پر سو فیصد ایمان داری سے کام نہیں ہو رہا۔ من پسند افراد کو پروموٹ کیا جارہا ہے‘ بہت سے جینوئن قلم کاروں کی حق تلفی ہو رہی ہے۔ تقریب میں ایک قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ میوزک اکیڈمی کے لیے کسی لائبریری کو تباہ نہ کیا جائے بلکہ حکومتِ سندھ میوزک اکیڈمی کے لیے الگ سے عمارتیں تعمیر کرے۔ اس موقع پر ڈاکٹر عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ اردو زبان و ادب کے لیے ہم سب کو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا۔ دبستانِ کراچی میں بہت عمدہ شاعری ہو رہی ہے اس معیار کو آگے بڑھانے کے لیے بھی ہمیں اتحاد کرنا ہوگا‘ ہمیں چاہیے کہ ہم شعر و سخن کو پروموٹ کریں‘ آپس کے اختلافات بھول جائیں۔