ہندوتوا ایک ایسا سفاک، توسیع پسندانہ اور متشدد ہندو قوم پرستی کا نظریہ ہے جو اس پورے برصغیر کو کابل سے لے کر برما تک اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا ہے۔ اس نظریے کی بنیاد ونائیک دامودر ساورکر نے 1883ء میں رکھی جو کٹر ہندو قوم پرست تھا۔ جس نے اس نظریے کا پرچار کیا کہ ’’بھارت میں وہی رہنے کا حق دار ہے جو بھارت کو اپنی ماتر بھومی ( مادر وطن) مانے اور اس کو پوتر بھومی ( پاک زمین) جان کر اس کی پوجا کرے۔‘‘ اس نے یہ پرچار کیا کہ مسلمان غیر ملکی اور قابضین ہیں لہٰذا ان کو بھارت میں رہنے کا حق نہیں۔ یہ وہ شخص تھا جس نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں انگریزوں کا ساتھ دیا کیوں کہ مسلمان اس تحریک میں سب سے آگے تھے۔ اس نے اپنے نظریات کے فروغ کے لیے ہندو مہاسبھا جیسی کٹر قوم پرست تنظیم بنائی اور پورے ہندوستان میں انگریزوں کی سرپرستی میں ’’شدھی تحریک‘‘ یعنی مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی شروعات کی جس سے بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات ہوئے اور آج بہروپ کی صورت میں بھارتیہ جنتا پارٹی جو ایک دہائی سے زیادہ بھارت میں حکمرانی کر رہی ہے‘ شدھی تحریک کو گھر واپسی کے نام پر جبریہ طور پر پس ماندہ مسلمانوں کے علاقے میں چلا رہی ہے۔ اس ہندوتوا کے ایجنڈے کو کامیاب بنانے کی خاطر وشو ہندو پریشد ، ہندو مہاسبھا ، بجرنگ دل ، نیم عسکری تنظیم آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) جیسی فسطائی تنظیم پورے ہندوستان میں اپنا پنجہ گاڑ چکی ہیں۔
بھارت کے تمام بڑے ہندو سرمایہ دار اس تنظیم کے سرپرستی کرتے ہیں۔ ڈالمیا جیسا سرمایہ دار وشو ہندو پریشد کا صدر ہے۔ لتا منگیشکر جیسی گلو کارہ اس کی رکن تھی۔ آر ایس ایس کے رضا کار جو پورے ہندوستان میں لاکھوں کی تعداد میں صبح سویرے ڈرل کرتے ہیں وہ اکھنڈ بھارت کا نقشہ سامنے رکھتے ہیں جس میں کابل سے لے کر برما تک کے علاقے شامل ہیں (جو گوگل پر دیکھا جا سکتا ہے۔) اس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ بھارت کی آزادی سے لے کر اب تک ہندوستان میں حکمرانی کرنے والی کانگریسی رہنماؤں کی بڑی تعداد اس نظریے کی حامی ہے اور اکھنڈ بھارت بنانا چاہتے ہیں۔
تاریخی حقائق کو اگر سامنے رکھا جائے تو کانگریس واحد جماعت تھی جو نہرو کی قیادت میں مسلمانوں کے تعاون سے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے میں متحرک تھی۔ بعدازاں گانگریس کے متعصبانہ رویے کی وجہ سے 1906 میں ’’مسلم لیگ‘‘ کا قیام عمل میں آیا اور گانگریس کے ہی مکارانہ چالوں کی وجہ سے پاکستان کا مطالبہ زور پکڑا۔ گو کہ دیوبند اور دیگر مسلمان علما اس تقسیم کے حق میں نہیں تھے اور مولانا ابوالکلام آزاد بھی اس کے سخت مخالف تھے مگر انہوں نے بھی اپنی کتاب freedom India wins کے وہ آخری 100 صفحات جو 40 سال بعد شائع ہوئے‘ نہرو، پٹیل اور گاندھی کو تقسیم ہند کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ پٹیل جو بھارت کا پہلا وزیر داخلہ تھا اس کی سرپرستی میں پورے ہندوستان میں وسیع پیمانے پر ہندو مسلم فسادات ہوئے جو آج بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کا پسندیدہ لیڈر ہے۔ کانگریس کے دور حکومت میں اتنے بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات ہوئے ہیں کہ اس کا ذکر کرنے سے روح کانپ جاتی ہے۔ 1950 میں دس محرم الحرام کو کلکتہ میں جو فساد ہوا اس میں دس ہزار سے زائد لوگ مارے گئے۔ 1964 میں کشمیر سے موئے مبارک کی چوری کے بعد پورے ہندوستان میں جو خونیں فسادات ہوئے جس میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے اور بڑے پیمانے پر لوگوں نے پاکستان ہجرت کی۔ احمد آباد ، بھیونڈی ، بھساول ، بابری مسجد کے انہدام کے بعد پورے ہندوستان میں ہونے والے فسادات یہ سب کانگریس کا کارنامہ ہے جو سیکولرزم کے نام پر ہندتوا کے مکروہ ایجنڈے کی تکمیل کو آگے بڑھاتی رہی ہے۔ موجودہ ہندتوا اور کانگریس ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔
تقسیم ہند کے بعد بھارتی توسیع پسندی نے جونا گڑھ، حیدرآباد دکن، دمن دیو، گوا، نصف کشمیر، سکم، منی پور، ناگا لینڈ پر قبضہ کیا اور 1971 میں مشرقی پاکستان کو علیحدہ کیا۔
قومی علامتیں قومی بیانیہ اور مستقبل کی پیش گوئی کرتی ہیں۔ بھارت کے قومی پرچم میں اشوک چکر کا نشان جو اشوک سمراٹ کی عظیم سلطنت کا عکاس ہے۔ بھارت کے قومی ترانے میں سندھ شامل ہے۔ پنجاب سندھ گجرات مراٹھا۔ دراویڑ اتکل بنگہ۔ آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی گاندھی کو تقسیم ہند کا ذمہ دار سمجھتی ہے اس لیے ناتھورام گوڈزے نے گاندھی کو قتل کیا جو آر ایس ایس کا شدت پسند کارکن تھا اور آج وہ ہندتوا کے عَلم برداروں کا ہیرو ہے۔ ناتھورام گوڈزے نے پھانسی سے قبل وصیت کی کہ میری راکھ ( خاک) گنگا میں نہیں بہانا بلکہ اس کو دریائے سندھ میں بہانا جب یہ بھارت میں شامل ہو جائے یہی وجہ ہے کہ اس کی راکھ ہریانہ کے میوزیم میں سونے کے طشت میں رکھی ہوئی ہے اور اس کی برسی پر ہزاروں آر ایس ایس کے رضا کار اکٹھے ہو کر اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ وہ سندھ کو بھارت کا حصہ بنائیں گے۔
یاد کریں 16 دسمبر 1971 رات 8 بجے اندرا گاندھی کی وہ تقریر جو اس نے مسلمانوں کے عظمتِ رفتہ لال قلعہ کے برجوں پر کھڑے ہوکر کی تھی کہ ’’آج ہم نے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا اور دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا۔‘‘ یاد کریں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ایڈوانی نے کہا تھا کہ ’’آج ہم نے سوم ناتھ کا بدلہ لے لیا۔‘‘
کانگریس کی حکومت ہو یا آج گجرات کے کسائی نریندر مودی کی‘ مجموعی اعتبار سے اول دن سے ہی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور سقوط سرینگر سے لے کر آج تک بھارت اور پاکستان کے درمیان چار جنگیں ہو چکی ہیں۔ آپریشن جبرالٹل کی ناکامی کے بعد جو پاکستان کی ناقص منصوبہ بندی تھی بھارت نے 6 ستمبر 1965 کو جس بڑے پیمانے پر جنگی جارحیت کا ارتکاب کیا تھا پاکستان کے وجود کو ہی خطرہ لاحق ہو گیا تھا مگر پاکستانی فوج اور عوام کے ایمانی جذبے نے بھارت کے عزائم کو خاک میں ملا دیا اور وہ جب ہماری سرحدوں سے پلٹا تو سفید چادروں میں لپٹی ہوئی اس کے ارمانوں کی لاشوں کا دنیا نے نظارہ کیا اور تاشقند معاہدے کے بعد تو بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری اتنا دل برداشتہ ہوا کے دنیا ہی سے رخصت ہو گیا۔
بنیا کی اولاد اور چانکیہ کے پجاری یہ سمجھ گئے کہ پاکستان کو عسکری برتری کے ذریعہ میدانِ جنگ میں شکست دینا ممکن نہیں لہٰذا انہوں نے مشرقی پاکستان میں بڑھتی ہوئی مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی استحصالی روّیوں کو ہوا دینا شروع کیا اور بنگالیوں کو جو پاکستان کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیے تھے ورغلایا اور اس پر طرفہ تماشا یہ ہوا کے 1970 کے انتخابات میں عوامی لیگ کی برتری کے باوجود یحییٰ خان جیسے بدقماش جرنل اور بھٹو کی ہوس ملک گیری نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور برسوں کی بھارتی اور پاکستان دشمن بین الاقوامی قوتوں نے مل کر ایسے تانے بانے بُنے کے مکتی باہنی بنی اور اندرا گاندھی نے آر کے دھون کے ذریعے پوری دنیا کے حکومتوں کو پاکستان کے خلاف کھڑا کر دیا اور مغربی پاکستان میں بیٹھے اقتدار کے ہوس پرست جرنیلی سرکار بھٹو کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ایسا بد نما کردار ادا کیا کہ 16 دسمبر کو یہ ملک دو لخت ہو گیا۔ ہمارے وجود کو دو ٹکڑے کرنے کے بعد آج بنگلہ دیش بھارت کی ذیلی ریاست بن چکا ہے۔
یہ وہ سازشی کردار ہے جو ہندتوا کا ایجنڈا ہے۔ گو کہ آج کانگریس حزبِ اختلاف میں ہے مگر نریندر مودی اور کوئی بھی ہندو قیادت کے زیر سرپرستی بھارت کی سیاسی جماعت پاکستان دشمنی میں ایک دوسرے سے بڑھ کر نہ صرف کردار ادا کرتی ہے بلکہ مشترکہ طور پر معاونت کرتی ہیں۔ میرے والد محترم اک شعر پڑھا کرتے تھے جو حسب حال ہے۔
اک جھوٹ کا چلتا جھکڑ ہے اک مکر کی چلتی آندھی ہے
اک کا نام ساورکر ہے دوسرے کا نام گاندھی ہے
تاریخ قومی چہرے کے پردے عیاں کرتی ہے۔ اس واقعے سے مزید حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ جب دس محرم الحرام 1950 میں کلکتے کے فساد میں ایک محتاط اندازے کے مطابق دس ہزار کے قریب مسلمان مرد و زن اور بچے شہید ہوئے تو کلکتہ ذکریہ اسٹریٹ کے محمد علی پارک میں جلسہ منعقد ہوا جس میں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور ابو الکلام آزاد آئے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’اگر نہرو اور پٹیل یہ کہہ دیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا حصہ نہیں تو ہم ایک اور پاکستان بنا لیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر جب وہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں شریک ہوئے تو گانگریسیوں نے ان کی شیروانی پھاڑ دی۔
کانگریس کا دور ہو یا آج بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت‘ کبھی بھی پاکستان کے خلاف بھارت کی جارحیت بند نہیں ہوئی۔ سندھ کے علیحدگی پسند ہوں یا بلوچستان کے کراچی میں ایم کیو ایم کی دہشت گردی ہو یا پورے ملک میں بم دھماکے TTP کی فنڈنگ سے لے کر قوم پرستی، مسلکی فساد یا علاقائی نفرت سب کے پیچھے بھارت کی سرمایہ کاری اور پاکستان میں ’’را‘‘ کا نیٹ ورک جس کے ذریعے پاکستان کی سالمیت ہر وقت خطرے سے دوچار ہے افغانستان میں امریکی موجودگی کے دوران سیکڑوں سفارتی مشنوں کے ذریعے پاکستان میں دراندازی جس کا ادراک اور تفصیلی کارروائی ملک کے حساس اداروں نے کیا اور کلبھوشن کی گرفتاری نے پردہ چاک کر دیا۔ اس کے علاوہ بھارت عالمی فورم میں پاکستان کو ایک دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والا ملک ثابت کرنے کی ہر محاذ پر کوششیں کرتا ہے جس کا ثبوت FTAP کی پابندی عائد ہے جس سے ہم آج بھی پوری طرح نہیں نکل سکے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں پاکستان کے اندر ہوائی حملے میں ناکامی اور پاکستان کا منہ توڑ جواب دینے کے بعد بھارتی حکمران یہ جان چکے ہیں کہ عسکری اعتبار سے پاکستان کو شکست دینا ممکن نہیں لہٰذا پاکستان میں لسانی، علاقائی ، فرقہ وارانہ فسادات برپا کرانے کے لیے بڑے پیمانے پر بھارت را کے ذریعے فنڈنگ کرتا ہے اور سیاسی جماعتوں سے لے کر میڈیا پرسنز میں اپنے ایجنٹوں کو پیدا کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام کے ذریعے بھارت اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ کسی ملک کو تباہ کرنے کے لیے یہ کافی ہے کہ عوام ریاست کے متعلق تمام اداروں کی کارکردگی سے مایوس ہو کر نفرت کرنے لگیں۔ اور بنگلہ دیش کے قیام میں یہی فضا قائم ہوئی۔ مشرقی پاکستان کے لوگ مغربی پاکستان کو اپنے استحصال کا ذمہ دار گرداننے لگے جس سے بغاوت پھوٹ پڑی اور بھارت پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ملک آج بھارت کی کھلی جارحیت سے اس لیے محفوظ ہے کہ ہم بھارت کے مقابلے میں زیادہ ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ملک آج شدید ترین معاشی اور عوامی خلفشار سے دوچار ہے۔ بھارتی میڈیا ہر وقت ہمارے خلاف پروپیگنڈا میں مصروف ہے۔ سوشل میڈیا ایکٹویسٹ بیرونی اور اندرونی طور پر بھارتی ایجنڈے کو کامیاب بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ یہ ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے کہ ملک میں عوامی مایوسی اور بے چینی پیدا کی جائے۔ لہٰذا ملک کے تمام مقتدر اداروں اور ریاست کے سلامتی کے ذمہ داروں کو سیاسی، مذہبی جماعتوں کو مل کر بھارت کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے مشترکہ جد وجہد کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہماری داستاں نہ ہوگی داستانوں میں۔ اللہ پاکستان کو تا قیامت سلامت رکھے۔
اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ
ٹوٹا ہے ایشیا میں یہ سحر فرنگیانہ
تعمیر آشیاں سے میں نے یہ راز پایا
اہل نواں کے حق میں بجلی ہے آشیانہ
پاکستان زندہ باد ، پاکستان پائندہ باد۔