لیکن ان حالات میں اللہ کے اُس برگزیدہ رسول نے اُس کے پاس اپنا ایلچی بھیجا تھا جس کی ظاہری حکمرانی ابھی تک مہاجرین مکہ اور انصارِ مدینہ کے قلوب تک محدود تھی، اُسے ایک ایسے فرمانروا نے اطاعات کی دعوت دی تھی جس کے جاں نثاروں کو پیٹ بھر کر دو وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا۔ جس کے پاس کوئی ناقابلِ تسخیر قلعہ یا کوئی باقاعدہ فوج نہ تھی۔ اور جو مال و دولت کے اُن تمام ظاہری وسائل سے محروم تھا جو ایک انسان کو دوسرے انسان پر بالادستی عطا کرتے ہیں۔ پھر آج تک دنیا کے کسی انسان نے اپنے خط میں کجکلاہِ ایران کے نام سے پہلے اپنا نام لکھنے کی جسارت نہیں کی تھی۔
جب شاہی مترجم اِس خط کا مضمون سنا رہا تھا تو حاضرین دربار جن کے لیے یہ تحریر ایک مذاق سے زیادہ نہ تھی، بڑی مشکل سے اپنے قہقہے ضبط کررہے تھے۔ کسریٰ کچھ دیر غصے اور اضطراب کی حالت میں قاصد کی طرف دیکھتا رہا۔ اچانک اُس نے مترجم کے ہاتھ سے حضور کا نامہ مبارک چھین کر اُسے پُرزے پُرزے کردیا اور پھر یمن کے حاکم باذان کے نام یہ فرمان لکھوایا کہ نبوت کے اس مدعی کو جس نے ہمارے ساتھ مخاطب ہونے کی جسارت کی ہے گرفتار کرکے ہمارے پاس بھیج دو۔
ایران کے مغرور اور جابر حکمران کے لیے محمدؐ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا خط اِس قدر غیر اہم تھا کہ حضور کے قاصد کو سزا دینے میں بھی اُسے اپنی توہین محسوس ہوتی تھی۔ لیکن اُسے کیا معلوم تھا کہ جس خط کو اُس نے چاک کیا تھا، اُس کی تحریر لوح محفوظ پر منتقل ہوچکی تھی۔ اور جب حضور کا قاصد بے سرو سامانی کی حالت میں واپس جارہا تھا تو اُس وقت یہ کون کہہ سکتا تھا کہ اُس کے پائوں کے نشان عنقریب اُن مجاہدوں کی گزرگاہ بننے والے ہیں جو مدینے کی گلیوں میں جہانبانی کے نئے آداب سیکھ رہے ہیں۔
پرویز اور اُس کے درباری صرف اتنا جانتے تھے کہ جب یمن کے گورنر کا ایک معمولی قاصد اہل مدینہ کو یہ پیغام دے گا کہ تم اگر اپنی خیریت چاہتے ہو تو محمدؐ کو ہمارے حوالے کردو تو عرب کے کسی خاندان یا قبیلے کو مزاحمت کی جرأت نہیں ہوگی۔
ہر قتل اور اس کے ترک اتحادیوں کے لشکر نے دریائے آراس کے آس پاس کے علاقوں میں تباہی مچانے کے بعد جنوب کی طرف پیش قدمی کی اور دجلہ کے کنارے اُس وسیع میدان میں ڈیرے ڈال دیے، جہاں ابھی تک نینوا کے کھنڈرات دکھائی دیتے تھے۔ اِس عرصہ میں ایرانی لشکر کے سپہ سالار کو جس کی کارگزاری ابھی تک معمولی حملوں کے بعد دشمن کا تعاقب جاری رکھنے تک محدود تھی، ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے کا حکم مل چکا تھا۔
چناں چہ ایک صبح روم اور ایران کے لشکر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے۔ پھر سواروں اور پیاروں کی صفیں حرکت میں آئیں اور نینوا کا میدان گردوغبار کے بادلوں میں چھپ گیا۔ اس خونریز معرکے میں ہرقل کی ذاتی شجاعت اُس کے دوستوں اور دشمنوں کے لیے یکساں حیران کن تھی، وہ جاں نثاروں کے ایک دستے کے ساتھ دشمن کی صفیں چیرتا ہوا اُن کے قلب تک جا پہنچا۔ ایرانی لشکر کے سپہ سالار کے علاوہ دو مشہور سردار اُس کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ایک ایرانی کا نیزہ لگنے کے باعث اُس کا ہونٹ کٹ چکا تھا۔ اُس کے مشہور گھوڑے کی ایک ٹانگ زخمی ہوچکی تھی، تاہم وہ دشمن کا گھیرا توڑ کر واپس اپنے لشکر سے آملا۔ اور رومی جو ایرانیوں کے سپہ سالار کی ہلاکت کی خبر سن کر شیر ہوگئے تھے، بے تحاشا دشمن پر ٹوٹ پڑے اور ایرانی جن کے نزدیک اپنے سپہ سالار کی موت ایک بدترین شگون تھا، سراسیمگی کی حالت میں پیچھے ہٹنے لگے۔
جب آہستہ آہستہ نینوا کے میدان سے گردوغبار چھٹنے لگا، تو وہ جو اپنی تعداد اور اپنے اسلحہ کی برتری کو اپنی فتح کی ضمانت خیال کرتے تھے، اپنے پیچھے لاتعداد لاشیں دیکھ رہے تھے۔ اور وہ جنہیں کمزور اور حقیر خیال کیا گیا تھا اُن کے بکھرے ہوئے پرچم روند رہے تھے۔ ایرانیوں نے کئی بار جوابی حملے کیے، لیکن رومیوں کے جوش و خروش نے انہیں پائوں جمانے کا موقع نہ دیا۔
غروب آفتاب کے وقت وہ میدانِ کارزار سے ایک طرف ہٹ کر ازسرنو صفیں باندھ رہے تھے، جنگ کے میدان میں تلواروں کی جھنکار اور لڑنے والوں کے نعروں کے بجائے دم توڑنے والے زخمیوں کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ رومیوں کو اب بھی اس بات کا یقین تھا کہ ایرانی راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے پھر قسمت آزمائی کریں گے لیکن جب آسمان پر ستاروں کا قافلہ نمودار ہونے لگا تو کسریٰ کی شکست خوردہ فوج اچانک اپنے پڑائو کی طرف ہٹنے لگی۔ ہرقل کے سپاہی رات بھر جنگ میں کام آنے والے ساتھیوں کی لاشیں دفن کرنے اور زخمیوں کی مرہم پٹی میں مشغول رہے اور علی الصباح انہیں یہ معلوم ہوا کہ دشمن کا پڑائو خالی ہوچکا ہے۔ تھکے ہوئے رومیوں کو اِس غیر متوقع فتح کے بعد آرام کی ضرورت تھی لیکن انہوں نے دشمن کا پیچھا کرنا زیادہ ضروری خیال کیا۔
رومی لشکر پہلی بار آسریا کے زرخیز میدانوں میں فتوحات کے جھنڈے گاڑتا ہوا آگے بڑھا۔ چند دن بعد دست گرد کا عظیم شہر ایک عبرتناک تباہی کا سامنا کررہا تھا۔ شاہی محل آگ کا ایک مہیب الائو نظر آتا تھا اور پرویز جو رومیوں کی آمد سے نو دن قبل وہاں سے رفوچکر ہوچکا تھا، مدائن کا رُخ کررہا تھا۔
ایک دن یمن کے ایرانی گورنر باذان کے دربار میں سرکاری عہدہ داروں کے علاوہ چند مقامی عرب اور یہودی رئوسا جمع تھے۔ ایک فوجی افسر اندر داخل ہوا اور اس نے مسند کے قریب پہنچ کر کہا۔ ’’جناب والا! مدینہ سے ہمارے ایلچی واپس آگئے ہیں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہتے ہیں‘‘۔
باذان نے قدرے مضطرب ہو کر کہا۔ ’’انہیں فوراً حاضر کرو‘‘۔
افسر ادب سے سلام کرنے کے بعد واپس چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد دو آدمی جن میں سے ایک کا نام بابویہ اور دوسرے کا خرخسرہ تھا، کمرے میں داخل ہوئے اور آداب بجا لانے کے بعد سہمی ہوئی نگاہوں سے باذان کی طرف دیکھنے لگے۔
باذان نے کہا۔ ’’تمہاری صورتیں بتارہی ہیں کہ تمہیں اپنی مہم میں کامیابی نہیں ہوئی‘‘۔
بابویہ نے جواب دیا۔ ’’عالیجاہ یہ درست ہے کہ ہمیں اپنی مہم میں کامیابی نہیں ہوئی لیکن آپ کا یہی حکم تھا کہ اگر ہماری دھمکیاں بے اثر ثابت ہوں تو ہمیں اِس نبی کے حامیوں کے ساتھ اُلجھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے‘‘۔
باذان نے سوال کیا۔ ’’تم نے اس سے یہ کہا تھا کہ ہم تمہیں شہنشاہِ عالم کے حکم سے گرفتار کرنے آئے ہیں؟‘‘۔
بابویہ نے جواب دیا۔ ’’ہاں، عالیجاہ! ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر تم نے اِس حکم کی تعمیل نہ کی تو ہمارے شہنشاہ کا ایک اشارہ پورے عرب کی تباہی کے لیے کافی ہوگا‘‘۔
’’پھر اُس نے جواب دیا؟‘‘۔
بابویہ نے پریشانی اور اضطراب کی حالت میں اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد جواب دیا۔ ’’عالیجاہ آپ کا غلام بھرے دربار میں اُس کے الفاظ دہرانے کی جرأت نہیں کرسکتا‘‘۔
باذان نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ ’’ہم اُس کے الفاظ سننا چاہتے ہیں‘‘۔
بابویہ نے جھجکتے ہوئے جواب دیا۔ ’’عالیجاہ اُس نے یہ کہا تھا کہ تم ہماری طرف سے یہ پیغام لے جائو کہ مسلمانوں کی حکوتم عنقریب کسریٰ کے پایہ تخت تک پہنچنے والی ہے‘‘۔
دربار میں ایک سناٹا چھا گیا۔ پھر حاضرین آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے اور اُن کی حقارت آمیز مسکراہٹیں قہقہوں میں تبدیل ہونے لگیں۔ لیکن باذان ایک غیر متوقع سنجیدگی کے ساتھ اپنے ایلچیوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اہل دربار کو اُس کی حوصلہ شکن نگاہوں نے زیادہ دیر ہنسنے کا موقع نہ دیا۔ اور دربار میں پھر ایک بار سناٹا چھا گیا۔
باذان نے ایلچیوں سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’تم نے مدینہ کے سرکردہ لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش نہیں کی کہ شہنشاہ کا عتاب اُن کے لیے عبرت ناک تباہی کا باعث ہوگا‘‘۔
بابویہ نے خرخسرہ کی طرف دیکھا اور اُس نے جواب دیا۔ عالیجاہ جو لوگ اِس نبی کی صداقت پر ایمان لاچکے ہیں، اُن پر ہماری باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ اِس بات پر خوشیاں منارہے تھے کہ اُن کی حکومت ایران تک پہنچنے والی ہے۔ ہمیں زیادہ تعجب اس بات پر تھا کہ جب اُس نے بھری مجلس میں یہ اعلان کیا تو کسی نے یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ ہم کس قوت کے بل بوتے پر روئے زمین کی عظیم ترین سلطنت پر فتح حاصل کریں گے۔ ہمیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اگر وہ یہ دعویٰ کردے کہ میں آسمان کے ستارے نوچ کر تمہارے سامنے ڈھیر کرسکتا ہوں تو بھی کوئی یہ سوال کرنے کی جرأت نہیں کرے گا کہ آپ کے ہاتھ ستاروں تک کیسے پہنچ سکتے ہیں‘‘۔
بابویہ نے کہا۔ ’’عالیجاہ! ہم نے انہیں مرعوب کرنے کے لیے اپنے لاتعداد لشکر اور اپنے مہیب ہاتھیوں کا ذکر کیا، لیکن اُن کی باتوں سے ہمیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ انہیں بھیڑ، بکریوں سے زیادہ حیثیت نہیں دیتے، اُن کے بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کی ایک ہی آواز ہے کہ ہم خدا کی زمین پر اُس کے نبی کے دین کا بول بالا کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں، اور جب ہمارا ہادی ہمیں جہاد کا حکم دے گا تو دُنیا کی کوئی طاقت ہمارا مقابلہ نہیں کرسکے گی‘‘۔
باذان نے پوچھا۔ ’’تم نے مدینہ کے مسلمانوں سے یہ نہیں پوچھا کہ تمہارے ہاتھیوں، گھوڑوں اور اسلحہ خانوں کی تعداد کیاہے اور ایران فتح کرنے کے لیے تم نے جو سپاہی تیار کیے ہیں وہ کہاں ہیں؟‘‘۔
بابویہ نے جواب دیا۔ ’’عالیجاہ! ہمیں یہ پوچھنے کی ضرورت نہ تھی۔ ہم اپنی آنکھوں سے اُن کی غربت کا نظارہ دیکھ آئے ہیں، ہم نے اُن کے آقا کو کھجور کی چٹائی پر آرام کرتے دیکھا ہے۔ اور ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ اہل مکہ نے دوسری جنگ میں انہیں شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اور اب اگر قریش کے ساتھ چند اورقبائل متحد ہوگئے تو مسلمانوں کے لیے عرب کی زمین میں سانس لینا ناممکن ہوجائے گا۔ واپسی پر نخلہ اور طائف کے مقامات سے گزرتے ہوئے ہمیں اِس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ عربوں کے سینے میں مسلمانوں کے خلاف غصے اور نفرت کی جو آگ سلگ رہی ہے اُسے مسلمانوں کے گھروں تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی۔ ہم یثرب کے یہودیوں سے بھی ملے تھے اور ہمیں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مدینہ سے مسلمانوں کے اخراج کے لیے تنہا اُن کی طاقت بھی کافی ہے‘‘۔
(جاری ہے)