انسانی تاریخ سے مثالیں دینے کے بعد سورۂ ذاریات کے آخر میں آخرت کے حق میں آفاقی دلائل پیش کیے جا رہے ہیں، اور غوروفکر اور تدبر کی دعوت دی جارہی ہے۔
وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍ وَّ اِِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ o(الذٰریٰت۵۱ :۴۷) آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں۔
عربی زبان میں ید کے معنی صرف ہاتھ کے نہیں ہوتے بلکہ یہ لفظ طاقت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ فلاں معاملہ فلاں شخص کے ہاتھ میں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کی مٹھی میں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے اختیار اور طاقت میں ہے۔
وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍکا مطلب یہ ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنی طاقت سے پیدا کیا ہے۔ وَّ اِِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ ’’اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں‘‘۔ موسِعون کے کئی معنی ہیں۔ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ ہم اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ یہ کام کرسکیں۔ دوسرے معنی موسِع کے وسیع کرنے اور پھیلانے والے کے بھی ہوسکتے ہیں۔ قدیم زمانے میں اس کا یہ مطلب ہوسکتا تھا کہ ہم وسیع ذرائع رکھنے والے ہیں۔ موجودہ زمانے میں اس کا ایک اور تصور بھی پیدا ہوا ہے، اور وہ یہ ہے کہ یہ کائنات صرف یہی نہیں کہ ایک حالت پر جم کر رہ گئی ہے بلکہ یہ کائنات پھیل رہی ہے۔ پہلے نظریے کے مطابق اس کے اندر وسعت کا مفہوم تھا۔ اگر قدیم زمانے کا نظریہ اپنی جگہ صحیح ہو تو بِاَیْدٍکا لفظ اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ ہم نے اس آسمان کو بنایا ہے، اس کو تخلیق کیا ہے، اور ہم اس کو پھیلا رہے ہیں۔
یہاں اس کا بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی شخص کا یہ خیال کرنا کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کا نظام درہم برہم کرنے کے بعد دوبارہ اس کو نہیں بنا سکے گا ، اور انسانوں کو موت دینے کے بعد دوبارہ ان کو پیدا نہیں کرسکے گا، انسانی جسم جب زمین میں بوسیدہ ہوکر ،اس کا ذرہ ذرہ منتشر ہوچکا ہوگا تو اس کو دوبارہ جمع کرنے پر اللہ تعالیٰ قادر نہیں ہے، جو شخص یہ خیال رکھتا ہے وہ غلط کہتا ہے۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ کائنات کا نظام کس طرح بنا ہے؟ کس میں اتنی طاقت تھی کہ وہ اسے بناسکے؟ اور جس نے اسے بنایا ہے اس کے لیے کیا بعید ہے کہ وہ دوبارہ انسان کو پیدا کرسکے۔ اس کے لیے کیا بعید ہے کہ وہ دوبارہ اس نظام کو درہم برہم کرکے نئے سرے سے ایک دوسرا نظام بنادے۔
بَنَیْنٰھَاسے مراد صرف ایک عالم نہیں ہے بلکہ اس سے مراد پورا عالمِ بالا ہے جو ہماری زمین کے اُوپر قائم ہے۔ دوسرے الفاظ میں عالم بالا سے مراد پوری کائنات ہے۔ چنانچہ جس کائنات کو ہم نے بنایا ہے ہم اس کی طاقت رکھتے ہیں کہ پھر اسے بنائیں۔ ہم یہ طاقت رکھتے تھے کہ اس کو بنایا اور ہم یہ طاقت رکھتے ہیں کہ پھر اسے بنائیں۔
وَالْاَرْضَ فَرَشْنٰھَا فَنِعْمَ الْمٰہِدُوْنَ o(۵۱ :۴۸) زمین کو ہم نے بچھایا ہے اور ہم بڑے اچھے ہموار کرنے والے ہیں۔
یعنی زمین کو بچھانا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ یہ زمین جس طرح سے بنائی گئی ہے، جس طرح سے اس کے اُوپر ایسے مادوں کی سطح جمائی گئی ہے جس کی بدولت اس میں نباتات پیدا ہوتی ہیں۔ جس طرح اس زمین کو اس قابل بنایا گیا ہے کہ اس پر انسان اور حیوانات وجود میں آسکیں۔ پھر یہاں ہوا کا انتظام کیا گیا ہے، درجۂ حرارت کو ایک خاص حد کے اندر رکھا گیا ہے، جس طرح نظامِ شمسی میں، اسے سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے، جس طرح اس زمین پر جگہ جگہ پہاڑ پیدا کیے گئے ہیں، جگہ جگہ میدان بنائے گئے ہیں اور دریا جاری کیے گئے ہیں۔ یہ سارا نظام اگر آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ کیسے اسے بنایا گیا ہے اور اس کرئہ خاکی کو کس طرح اس قابل بنایا گیا ہے کہ اس کے اُوپر زندگی وجود میں آسکے تو اسے اندازہ ہوگا کہ کتنے اعلیٰ درجے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی اس زمین پر جو موجودات ہیں، اس نے ان کو پیدا کیا اور انھیں باقی رکھنے کا انتظام کیا ہے۔ جتنی مخلوقات زمین میں آتی جاتی ہیں ان کے رزق کا سامان زمین سے نکلتا چلا آتا ہے۔ انسان نے جتنی ترقی کی ہے اس کی قابلیت اللہ تعالیٰ نے اس کے دماغ اور جسم میں رکھی ہوئی ہے۔ اس نے اپنی قابلیتوں اور صلاحیتوں کو استعمال کرکے وہ سروسامان پیدا کیا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے تمدن اور تہذیب کو ترقی دے سکے۔
آدمی میں خدا نے اگر یہ صلاحیت پیدا کی تھی کہ وہ کسی وقت جاکر موٹر بنا دے تو اس نے زمین کے اندر پٹرول بھی مہیا کر رکھا تھا۔ جس طرح سے اللہ تعالیٰ نے زمین کو بنایا ہے اگر آدمی اس کو دیکھے تو اسے واقعی معلوم ہوگا کہ بڑا ہی عظیم الشان حکیم تھا اور بڑی ہی زبردست قدرت رکھنے والا اور حکمت رکھنے والا تھا جس نے اس زمین کو بچھایا اور اس قابل بنایا کہ اس میں مختلف مخلوقات پیدا ہوسکیں۔
اس کو دیکھنے کے بعد اگر کوئی احمق یہ سمجھتا ہے کہ جس خدا نے یہ عظیم الشان زمین بنائی ہے اور عالم بالا میں اتنی عظیم الشان کائنات بنائی ہے وہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہ کرسکے گا، اس سے زیادہ تنگ دماغ کا آدمی اور کون ہوسکتا ہے، الا یہ کہ وہ ضد میں مبتلا ہو یا یہ کہ اس کی عقل اتنی تنگ ہو کہ وہ یہ تصور نہ کرسکے کہ جس خدا نے اتنا کچھ پیدا کیا ہے وہ دوبارہ بھی اسے پیدا کرسکتا ہے۔
وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَo(۵۱ :۴۹) اور ہرچیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں، شاید کہ تم اس سے سبق لو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پوری کی پوری کائنات میں ہر شے کا جوڑا ہے۔ ہر طرف آدمی کو یہ معلوم ہوگا کہ یہاں زوجیت کا قانون عمل پیرا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک چیز کے مقابلے میں ایک دوسری چیز ایسی رکھی جائے کہ ان کا جوڑ بنے اور ان کے ملنے سے نتائج پیدا ہوں۔
انسانوں میں عورت اور مرد کا جوڑا بنایا گیا ہے اور اس کی بدولت نسلِ انسانی چل رہی ہے۔ اسی طرح حیوانات میں نر اور مادہ کو ایک دوسرے کا جوڑا بنایا گیا ہے جس سے ان کی نسلیں چل رہی ہیں اور ہرنوع کو باقی رکھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اسی طرح نباتات میں اللہ تعالیٰ نے ایسے جوڑے بنائے ہیں، جن کے ملنے سے ان کی پیداوار ہوتی ہے۔ مختلف عناصر میں ایک دوسرے کا جوڑ ہے اور ان کے ملنے سے ہنگامۂ وجود نظر آرہا ہے۔ یہ سب مختلف عناصر کے ملنے سے ہے۔ بعض عناصر (elements) کے ملنے سے اور جوڑ لگنے سے ہی نئی چیزیں پیدا ہوتی ہیں، اور بعض عناصر آپس میں نہیں ملتے تو نئی چیزیں نہیں بنتی ہیں۔ اسی طرح نیگٹیو اور پازیٹو ایک دوسرے کا جوڑ ہیں۔ جب یہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کوئی نتیجہ پیدا ہوتا ہے۔ غرض اس پوری کائنات کو اگرآدمی دیکھے تو اسے محسوس ہوگا کہ اس قادرِ مطلق اور حکیم نے اس کائنات میں نئی نئی چیزوں کے بننے میں اور بے شمار اشیا کے وجود میں آنے کے لیے یہ انتظام کیا ہے۔ یہ قانون زوجیت ہے۔ مختلف چیزوں کو ایک دوسرے کا جوڑ بنایا ہے جن کے ملنے سے نئی نئی صورتیں وجود میں آتی ہیں، نئے نئے انتظام پیدا ہوتے ہیں۔
لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o، شاید کہ تم اس سے سبق لو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اس بات پر غور کرو تو تمھیں خود معلوم ہوگا کہ دنیا کی یہ موجودہ زندگی کا بھی کوئی جوڑ ہونا چاہیے۔ دنیا کی یہ موجودہ زندگی ایک جنس ہے۔ اگر اس کا دوسرا جنس آخرت نہ ہو تو یہ قطعاً بے نتیجہ ہوکر رہ جائے۔ تمھیں اس سے سبق لینا چاہیے۔ قانونِ زوجیت خود اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ ایک آخرت ہو، ورنہ خود یہ دنیا بے نتیجہ رہ جائے گی۔
فَفِرُّوْٓا اِِلَی اللّٰہِ ط اِِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌo(۵۱ :۵۰) پس دوڑو اللہ کی طرف، میں تمھارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبر دار کرنے والا ہوں۔
یہ تمام دلائل بیان کرنے کے بعد اب فرمایا ہے کہ پس اللہ کی طرف آئو۔ مطلب یہ ہے کہ انسان آخرت سے غافل ہوتا ہے تو اللہ سے بے نیاز اور اللہ کا باغی بنتا ہے۔ آدمی آخرت کا انکار بھی اس بنا پر کرتا ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت نہیں کرنا چاہتا اور جب آخرت کا انکار کرتاہے تو پھر اللہ کا مطیع نہیں رہتا اور نہیں رہ سکتا۔ یہ ایک اصولی بات ہے۔
انسان کو جو چیز آخرت کا انکار کرنے پر آمادہ کرنے والی ہے، وہ کیا ہے؟
اگر ایک انسان محض عقل کا بندہ ہو اور اس کے ساتھ خواہش لگی ہوئی نہ ہو تو وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ آخرت ہوگی یا نہیں ہوگی۔ لیکن جب وہ یہ کہتا ہے کہ آخرت نہیں ہوگی تووہ عقل کی بنا پر نہیں کہتا۔ دنیا کا کوئی فلسفہ اسے یہ نہیں بتاتا۔ کوئی سائنس اسے یہ نہیں بتاتی کہ آخرت نہیں ہے۔ اگر آخرت نہیں ہوگی تو وہ اس کی کوئی عقلی یا سائنسی دلیل نہیں دے سکتا۔ زیادہ سے زیادہ آدمی یہاں تک جاسکتا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ آخرت ہوگی۔
اب جب وہ یہ کہتا ہے کہ آخرت نہیں ہوگی تو دراصل اس کا جی نہیں چاہتا کہ آخرت کے ہونے سے اس پر جو اخلاقی پابندیاں عائد ہوتی ہیں ان کو وہ قبول کرے۔ پھر اخلاقی پابندیوں کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی اس قانون کو مانے جو اخلاقی پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اس قانون کو ماننے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی اللہ کو مانے۔ اس وجہ سے انسان خدا کی بندگی نہیں کرنا چاہتا اور اس کا مطیع بن کر نہیں رہنا چاہتا۔ اس لیے وہ آخرت کا انکار کرتا ہے اور جب وہ آخرت کا انکار کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جاتا ہے تو وہ ایک حالت پر نہیں ٹھیرتا۔ پھر وہ مسلسل گرتا ہے اور جتنا بھی گرتا جاتا ہے اتنا ہی زیادہ وہ اللہ سے دُور ہوتا چلا جاتا ہے۔
فَفِرُّوْٓا اِِلَی اللّٰہِ ط اِِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌo، پس دوڑو اللہ کی طرف، میں تمھارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔
اب آخرت کے دلائل دینے کے بعد یہ جو فرمایا ہے کہ ’’دوڑواللہ کی طرف‘‘ تو یہ بات خود اس بات کو بیان کرتی ہے کہ آخرت کو ماننے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت آپ سے آپ آجاتی ہے، اور آخرت کا انکار کرنے کے ساتھ ہی انسان اللہ سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا کیا جا رہا ہے۔ رسولؐ اللہ فرما رہے ہیں کہ:دوڑو اللہ کی طرف۔ میں تو اللہ کی طرف سے تمھارے لیے صاف صاف متنبہ کرنے والا ہوں، یعنی ڈرو اس وقت سے جب وہ آئے۔ قبل اس کے کہ وہ آخرت برپا ہوجائے اور مرنے کے بعد تم جاکر دیکھو کہ جن چیزوں کا تم انکار کرتے تھے وہ یہاں سامنے موجود ہیں۔ لہٰذا اس سے پہلے اللہ کی طرف رجوع کرلو۔
وَلَا تَجْعَلُوْا مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا اٰخَرَ ط اِِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌo (۵۱:۵۱) اور نہ بنائو اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود، میں تمھارے لیے اُس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔
دنیا میں انسان کی طرف سے اللہ کے ساتھ جو بڑی گمراہی رہی ہے، وہ شرک ہے، دہریت نہیں۔ دنیا میں دہریے پہلے بھی براے نام رہے ہیں، آج بھی براے نام ہیں۔ دنیا میں موجودہ زمانے میں دہریوں کی جو بڑی سے بڑی تعداد پائی جاتی ہے، میں نہیں سمجھتا کہ دنیا میں اس وقت بھی دہریے ایک فی ہزار بھی ہوں گے۔ اصل بُرائی جس میں انسان مبتلا رہا ہے وہ دوسرے الٰہ ہیں۔ کہیں دوسرے انسانوں کو الٰہ بنایا گیا، کہیں زندہ انسانوں کو الٰہ بنایا گیا، کہیں مُردہ انسانوں کو الٰہ بنایا گیا ہے، کہیں تاروں کو الٰہ بنایا گیا ہے، کہیں دریائوں کو الٰہ بنایا گیا ہے، غرض یہ کہ انسان نے اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بنائے۔ یہی اصل گمراہی ہے۔
اس چیز کا تعلق بھی آخرت کے انکار سے بڑا گہراہے۔ آخرت کا منکر کوئی ایسا سہارا چاہتا ہے کہ اللہ کے علاوہ بھی کوئی دوسری ہستیاں ہوں، تاکہ اگر آخرت ہو جیساکہ انبیاے کرام ؑ اس بات سے برابر مطلع کرتے رہے ہیں، تو وہ اس سے بچ سکے۔ جب سے انسان دنیا میں پایا جاتا ہے، انبیا ؑ بھی آتے رہے ہیں اور انبیا ؑ خبردار کرتے رہے ہیں کہ تمھیں مرنا ہے اور مرنے کے بعد خدا کو جواب دینا ہے۔ انسان کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں واقعی دوسری زندگی ہوئی اور وہاں جواب دہی کرنی پڑی تو کیا کریں گے؟ یہ چیز اس بات کا جواز بنتی رہی کہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بھی بنائے جائیں جو انسان کا سہارا بنیں۔ ان کی بندگی کی جائے اور وہ انھیں اللہ کی پکڑ سے بچا سکیں۔ گویا آخرت کا انکار اس چیز کا ایک بہت بڑا سبب رہا ہے، واحد سبب نہیں ہے، دوسر ے اسباب بھی ہیں۔ اس کے ساتھ فرمایا کہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ مت بنائو، میں اللہ کی طرف سے تمھیں متنبہ کرنے والا ہوں۔
کَذٰلِکَ مَآ اَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ o(۵۱ :۵۲) یونہی ہوتا رہا ہے، ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انھوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون۔
اسی طرح (یونہی) کا لفظ خود بتا رہا ہے کہ اس کے پس منظر میں کوئی چیز ہے۔ یعنی پس منظر میں لوگ رسولؐ اللہ کو کبھی ساحر یا جادوگر کہتے تھے اور کبھی مجنون۔کبھی یہ کہتے تھے کہ ان کے اُوپر کسی جِنّ کا سایہ ہے، یہ دیوانے ہوگئے ہیں (معاذاللہ)اور اس وجہ سے یہ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ کوئی پختہ دماغ شخصیت ہو اور وہ یہ کہے کہ تمھیں مرنے کے بعد اللہ کو جواب دینا ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ کوئی بعید از عقل آدمی ہی کھڑے ہوکر یہ بات کہہ سکتا ہے کہ فلاں آستانہ جہاں سے ہماری آج تک مرادیں بَر آتی ہیں وہاں کچھ نہیں ہے، اور سارے کے سارے اختیارات اللہ تعالیٰ کے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ اس چیز کا نتیجہ ہوسکتا تھا کہ یہ شخص لوگوں کو بے وقوف بنا رہا ہے، یا اگر یہ بات نہیں ہے کہ تم جان بوجھ کر لوگوں کو بے وقوف نہیں بنا رہے ہو تو تم دیوانے ہو۔