سردیاں شروع ہوگئی تھیں، یخ بستہ ہواؤں کا راج تھا، کھڑکی سے آتی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جسم پر کپکپی سی طاری کردیتے۔ ایسے ہُو کے عالم میں فضا میں بکھرتی شکرقندی کی بھینی بھینی خوشبو جب نتھنوں سے ٹکرائی تو اس نے غنودگی سے بھاری ہوتی پلکیں اٹھاکر چاروں جانب دیکھا۔ سامنے والی سیٹ پر بڑے بھائی اپنی فیملی کے ساتھ اونگھ رہے تھے۔ بھائی کی گود میں منی اور وہاج سوئے ہوئے تھے۔ اوپر والی برتھ پر چھوٹے بھائی محوِ استراحت تھے۔ ٹرین کسی اسٹیشن پر رکی تھی، بڑھتی ہوئی گہما گہمی اور شور نے نیند کی دیوی کو دور بھگا دیا تھا اور شکر قندی کی خوشبو نے معدے کے خالی پن کا احساس دلایا تھا۔ وہ چاہ کر بھی بڑے بھائی سے فرمائش نہ کر پائی۔ بھائی تو بچپن سے جانتے ہیں کہ نازو کو شکرقندی کتنی پسند ہے، وہ اکثر یونیورسٹی سے واپسی پر اُس کے لیے شکرقندی ضرور لاتے۔ وہ لمحات اس کے لیے انمول ہوتے۔ اس کے بھائی اس کا مان تھے اور آج اسی مان کی بنا پر وہ دانش کا گھر چھوڑ آئی تھی جو اس کی چھوٹی چھوٹی فرمائشیں پوری نہیں کرسکتا، اور اس نے مانگا ہی کیا تھا بس اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے نوکری کی اجازت… اور اجازت نہ ملنے پر اس نے پہلی فرصت میں اپنے بھائی کو فون گھمایا، اور آج وہ اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جارہی تھی۔ دانش نے کتنا روکا تھا۔ اسے وہ گجرے، کبھی موتیا کے پھول یاد آئے۔ ’’ہونہہ بس اتنی ہی اوقات ہے اس کی۔‘‘ اس نے سر جھٹکا۔ ’’نہ کمرے میں اے سی، نہ گھر میں جنریٹر، نہ گاڑی۔ لیکن وہ نمک پارے اور شکرقندی۔ آفس سے آتے وقت اس کی پسند کی چیزیں لانا‘‘۔ اس کے نین کٹورے بھیگ گئے۔ اس نے سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔
’’خالی پیٹ نیند نہیں آتی مجھے بھائی۔‘‘ وہ کہنا چاہتی تھی لیکن کہہ نہیں پائی۔
کچھ نئے مسافروں کے چڑھنے سے اس کی آنکھ کھلی تو منی اور وہاج شکرقندی سے بھرپور انصاف کرتے نظر آئے، اوپر والی برتھ پر چھوٹے بھائی چپس اور سامنے بھابھی شکرقندی کا ٹکڑا کھاتی نظر آئیں۔ ’’یہ شکرقندی کب لی؟‘‘ اس نے تقریباً خالی ہوتے کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھ کر کہا۔
’’جب آپ سورہی تھیں پھپھو۔‘‘ وہاج نے معصومیت سے جواب دیا اور وہ سیٹ سے ٹیک لگا کر سوتی بن گئی۔
’’میرا مان تم ہو دانش۔‘‘ دل نے بے اختیار پکارا تھا۔