انسان فطرتاً خیر و شر کا مجموعہ ہے سوائے انبیا اور رسولوں کے‘ جو معصوم پیدا کیے گئے۔ ہر انسان کے ساتھ اس کا شیطان قرین (ہمزاد) بھی پیدا ہوتا ہے اور اس کے کاندھوں پر دو فرشتے مامور ہوتے ہیں۔ ہر انسان اپنے موروثی اور خاندانی جبلت کے زیر اثر پرورش پاتا ہے اور اسے سن طفلی میں اچھی اور بری عادتوں کی لت پڑ جاتی ہے اور یہی عادتیں زندگی بھر اس کے ساتھ لگی رہتی ہیں۔ یعنی وہ ان عادتوں کا اسیر اور عادی ہو جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔‘‘ ’’پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آتے ہیں۔‘‘ یہ مثل مشہور ہے کہ ’’باپ پہ پوت پِتا پہ گھوڑا کچھ نہیں تو تھوڑا تھوڑا۔‘‘ یہ ضرب الامثال صدیوں کے انسانی عادات کے مشاہدے کے بعد کہے گئے جو بالکل درست ہیں۔ کچھ بری عادتیں بچپن میں لگ جاتی ہیں جس کی وجہ والدین کی عدم توجہی ہوتی ہے یا پھر والدین کے اندر ہی پائی جاتی ہیں۔ مجھے اپنے تدریسی عمل کے دوران ایک تجربہ ہوا، یہ غالباً 1990 کے اپریل کا واقعہ ہے‘ میں الحرا سیکنڈری اسکول میں سینئر استاد کے طور پر پڑھا رہا تھا۔ ایک دن پرائمری کی میڈم نے مجھے کہا کہ یہ کے جی کی بچی ہے اپنے کلاس کی بچیوں کے ساتھ جھگڑا بھی کرتی ہے اور گالیاں بھی دیتی ہے۔ سر! آپ سے بچے ڈرتے ہیں ذرا آپ اس کو سمجھایئے۔
میں نے بچی کو پیار سے اپنے پاس بلایا ایک چاکلیٹ دی اور اس سے پوچھا کہ‘’’ بیٹی! آپ گالی کیوں دیتی ہو؟‘‘
بچی نے رو کر کہا سر میرے ابو میری امی کو ایسی ہی گالیاں دیتے ہیں۔ اس واقعے سے آج بھی اس بات کو سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں ہوئی کہ بچوں کی عادت بگاڑنے میں والدین کا کتنا بڑا عمل ہے۔ اگر ایک باپ اپنے بیٹے سے سگریٹ منگواتا ہے تو بچہ لازمی سگریٹ پینے کا عادی ہوگا۔ گھر پر کوئی آیا اور باپ نے بیٹے یا بیٹی سے کہا کہ جاؤ کہہ دو ابو گھر میں نہیں ہے تو یہ عمل لازمی طور بچوں کو جھوٹ بولنے کا عادی بنا دے گا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جا رہے تھے آپ نے دیکھا کہ ایک بوڑھی صحابیہؓ مٹھی بند کرکے اپنے چھوٹے سے پوتے یا نواسے کو بلا رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ آئو میں تم کو ایک چیز دوںگی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا ’’تم کیا دوگی؟‘‘ صحابیہؓ نے کہا میں کھجور دوںگی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اگر تم نہیں دیتیں تو جھوٹ بولتیں۔‘‘
بچے کی پانچ سال تک گھر آنگن میں پرورش دراصل مابعد الطبیعیات تعلیمی بنیاد ہے (Meta Physical bases of education) اس دوران بچے مشاہدہ، سماعت، گھر والوں کے گفتگو کا انداز و لہجہ ، کھانے پینے کی نشست و برخواست ، بڑے بوڑھوں کے ساتھ ادب و آداب کا روّیہ سب کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔ اگر بچہ پیر پر پیر رکھ کر بیٹھتا ہے تو اس کی یہ عادت زندگی بھر لگی رہتی ہے جیسا کہ بڑے لوگوں کو بھی اس طرح بیٹھتے دیکھا گیا ہے۔ پیر ہلانا، دانتوں سے ناخن کاٹنا، چیخ چیخ کر بات کرنا، بائیں ہاتھ سے پانی پینا، کھاتے وقت منہ سے چپڑ چپڑ کی آوازیں نکالنا، چلتے وقت پیر گھسیٹنا، دائیں ہاتھ سے ناک صاف کرنا، کھڑے ہو کر پانی پینا، راہ چلتے کھانا پینا، بڑوں کے سامنے پیر پھیلا کر بیٹھنا۔ یہ سب وہ ناپسندیدہ عادتیں ہیں جو بچپن میں لگتی ہیں اور زندگی بھر انسان اس کا عادی ہو کر محفلوں، دفتروں اور مجالس میں سبکی اٹھاتا ہے۔
انسان کی اچھی اور بری عادتوں کو سنوارنے اور بگاڑنے کے دیگر دائرے اسکول، کالج ، یونیورسٹی، نوکری کرنے کی جگہ ، کاروباری مراکز ، ذاتی دوستیاں ہیں جہاں آدمی چوبیس گھنٹے کا اک بڑا وقت گزارتا ہے۔
تعلیمی زندگی میں اساتذہ کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے اس لیے کہ اساتذہ قوم کے معمار ہیں۔ طلبا اپنے اساتذہ کے کردار، علمی صلاحیتوں کے پَرتو ہوتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے اساتذہ تعلیم کا کاروبار کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ بے قدر ہو چکے ہیں۔ دیگر تعلقات جسے عرفِ عام میں صحبت یا یارانہ کہتے ہیں‘ اس کا اندازہ مولانا رومیؒ کے اس شعر سے بہ خوبی ہوتا ہے۔
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالع ترا طالع کند
یعنی ’’نیک لوگوں کی صحبت نیک بنا دیتی ہے اور برے لوگوں کی صحبت برا بن دیتی ہے۔‘‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم عطر فروش کے پاس بیٹھو گے تو عطر کی خوشبو محسوس ہوگی اور لوہار کے پاس بیٹھو گے تو گرمی لگے گی۔‘‘ آج کا نوجوان چاہے جس شعبے سے تعلق رکھتا ہے نہ صرف بری عادتوں کا شکار ہے بلکہ اس کا عادی ہو چکا ہے۔ نشے کی لت، اخلاقی زوال کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ سب سے زیادہ اموات سگریٹ نوشی سے ہوتی ہیں‘ سگریٹ بنانے والی کمپنیاں تو کینسر زدہ پھیپھڑے کی تصویر سگریٹ کے ڈبے پر شائع کرتی ہیں مگر سگریٹ کے عادی اس کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور سالانہ لاکھوں افراد لقمۂ اجل بنتے ہیں۔ ہیروئن، شراب، گٹکا جیسے ہلاکت خیز نشے کے عادی باز نہیں آتے اور کینسر میں مبتلا ہو کر عبرت ناک انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ ہر آدمی گندگی اور غلاظت سے نفرت کرتا ہے مگر بھنگی کو اس لیے برا نہیں لگتا کہ وہ اس کا عادی ہو چکا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں اس طرح کے نشہ آور چیزوں پر پابندی ہونے کے باوجود اس کے عادی افراد کسی نہ کسی طرح اس کو حاصل کر ہی لیتے ہیں۔
ایک اور بری عادت بد زبانی ہے۔ ہر عمر کے لوگوں کی اکثریت بات بات میں ناشائستہ انداز گفتگو اور زبان درازی کی عادی ہو چکی ہے۔ بسوں میں بازاروں میں حتیٰ کے نجی محفلوں میں عام بات چیت کرتے ہوئے گالیاں دینا برا نہیں سمجھتے بالخصوص شہر کے رہنے والے نوجوانوں کا سخن تکیہ بن چکا ہے حتیٰ کہ مذاق میں بھی ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیاں دینے میں شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔
اس کے علاوہ لوگوں کو ایک اور نہ چھوٹنے والی بیماری کی لت لگ چکی ہے جس میں ہر عمر کے مرد و زن حتیٰ کہ تین‘ چار سال کے بچے اور بچیاںشامل ہیں اور وہ ہیں سوشل میڈیا کے مختلف version جس نے نسل نو کو نہ صرف اخلاقی برائیوں اور جنسی بے راہ روی میں پوری جکڑ لیا ہے بلکہ اخلاقی، جسمانی اور روحانی بیماریوں میں بھی مبتلا کردیا ہے۔ نت نئے جرائم کے طریقے اور ’’ہنر‘‘ کو عام کر دیا ہے۔ انسانی اقدار پامالی کی سرحد کو عبور کر رہا ہے۔ اس بری لت نے نے جنسی دیوانگی اور جرائم کو تیزی سے فروغ دیا ہے۔ انسانی اقدار، حیا اور رشتوں کے تقدس کو پامال کر دیا ہے۔ آج اس برائی کو فروغ دینے والوں کو مالی منفعت بھی حاصل ہو رہی ہے لہٰذا ہر کوئی اس مقابلے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی دوڑ میں شامل ہو رہا ہے۔ ان تمام بری خصلتوں اور عادتوں کی بیخ کنی کے لیے قرآن مجید کی اس ہدایت پر مسلم معاشرے کو عمل کرنا ہوگا۔
سورۃ التحریم آیت6 ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی اس آگ سے جس کا ایندھن پتھر اور انسان بنیں گے جس پر تند خُو فرشتے متمکن ہیں‘ جو اللہ کے حکم کی بجا آوری میں رو رعایت نہیں کرتے۔‘‘ آج انسان دنیا کے ہر وسائل اور زندگی کے تمام اعلیٰ ترین ذرائع رکھنے کے باوجود بے سکون اس لیے ہے کہ اس کا جسم آسودہ ہے مگر روح بیمار۔ لہٰذا آدمی کا دشمن آدمی ہے۔
آسائشِ حیات تو مل جائے گی مگر
لیکن سکون قلب مقدر کی بات ہے
بچپنا سنور جائے تو جوانی سدھر جائے اور جوانی سدھری ہو تو بڑھاپا آرام سے گزر جاتا ہے۔اللہ اچھی صحبت اور اچھی عادتوں کا عادی بنانے۔