صحت فراغت دو بڑی نعمتیں

824

نیا اسلامی سال شروع ہوچکا ہے۔ اس کی ابتدا محاسبہ اور منصوبہ بندی سے ہونی چاہیے۔ ان دونوں کے لیے نعمتوں کا ادراک ضروری ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتیں لامحدود ہیں، ان میں کثرت اُن نعمتوں کی ہے جو بن مانگے ہی اللہ نے عطا فرمائی ہیں۔ حدیث ِمبارکہ ہے ’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگ دھوکے میں ہیں: ایک صحت، دوسری فراغت۔‘‘

کسی کو دونوں نعمتیں ایک ساتھ میسر آجائیں تو اللہ کی طرف سے بڑا انعام ہے، مگر اس انعام پر بھی بہت ہی کم لوگ شکر گزار ہوتے ہیں۔ صحت کی حالت میں ہمیں احساس نہیں ہوتا کہ ہم بیمار بھی ہوں گے، جس کے ساتھ بہت تکلیفیں بھی اٹھانی پڑیں گی۔ بیماری میں دنیا بے رنگ اور پھیکی لگتی ہے، کسی طرف دل نہیں لگتا، بے چینی رہتی ہے کہ کسی طرح اس بیماری اور تکلیف سے نجات ملے اور پھر سے صحت مند ہو جائیں۔

بیمار انسان کو زندگی کے اہداف و مقاصد ختم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب یہ نعمت اُس کے پاس ہوتی ہے تو وہ اس سے بے خبر ہوتا ہے۔ صحت کو اپنا مال سمجھ کر اس کی حفاظت کرنی چاہیے، یہ اللہ کی طرف سے ملی ہوئی مفت نعمت ہے، اسے ہم خرید نہیں سکتے۔ ہمارے پاس موجود ہے تو اس کی قدر اور حفاظت کر سکتے ہیں۔ جس چیز کی قدر نہیں کی جاتی وہ ہمارے پاس سے جاتی رہتی ہے۔ صحت نہ ہو تو مسائل میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور نفسیاتی مسائل بھی پلنے لگتے ہیں۔

حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے کرنے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے۔ صحت کے بغیر محنت ممکن نہیں۔ اکثر لوگ صحت سے بیماری کی طرف آ جاتے ہیں اور بعض اپنی جوانی ضائع کرکے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ جب وہ کسی جوان کو دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ کاش جوانی پھر سے مل جائے تو ان کاموں کو محنت و مشقت سے وقت ضائع کیے بغیر بہترین طریقے سے کروں گا، نازونعم اور عیش پرستی سے اپنے آپ کو دور رکھوں گا۔ اکثر لوگ اپنے آپ سے اس طرح کے وعدے کرلیتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ آج کے جوان صحت کا خیال نہیں رکھتے اور بے کار مشاغل میں اپنی فراغت کے وقت کو برباد کردیتے ہیں۔ کچھ بزرگوں کی رائے یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر انہیں پھر سے صحت اور فراغت میسر ہو تووہ اپنے گھر والوں اور معاشرے کے لیے کار آمد شہری بنیں گے۔ جب کہ حالتِ تن درستی میں خیر اور بھلائی کے کاموں کو ٹالتے رہتے ہیں۔

ایسی شخصیتیں معاشرے پر بوجھ ہوتی ہیں جو سرگرم اور فائدہ مند نہ ہوں۔ جوانی کی صحت و فراغت انمول ہے۔ ہدایت کے بغیر کوئی بھی نعمت، نعمت نہیں رہ جاتی۔ اس لیے ہر نعمت کو ہدایت سے جوڑیں گے چاہے وہ دولت ہو، صحت ہو، اولاد اور رزق ہو۔ ہدایت کے بغیر ان نعمتوں کا استعمال زحمت بن جاتا ہے، کیوں کہ انسان کو بامقصد پیدا کیا گیا ہے، انسان کے ذمے خالق و مخلوق کی بہت ذمے داریاں ہیں۔

فارغ اوقات کی منصوبہ بندی کرکے انہیں قیمتی بنادینا چاہیے تاکہ گزرے فارغ وقت کو ضائع کرنے کا پچھتاوا نہ ہو۔ اگر صحت و فراغت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو مہینے میں ایک مرتبہ کسی اسپتال کا چکر لگا آیئے اور وہاں مریضوں سے گفتگو بھی کرلیجیے تو یہ نعمتیں آپ کو واقعی نعمتیں لگیں گی۔

حالتِ صحت ہی اطاعت و فرماں برداری کا وقت ہے۔ ان نعمتوں کے بروقت اور صحیح استعمال سے ہم توشۂ آخرت سمیٹ سکتے ہیں اور ذخیرۂ نیکی کو وزنی کرسکتے ہیں۔

آنے والے وقت کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ عطا کی ہوئی چیز کب واپس چلی جائے۔ حتیٰ کہ نادم ہونے یا پچھتاوے کا وقت بھی میسر نہ ہو۔

فراغت کے دنوں میں ذہن سیر و سیاحت کی طرف جائے تو یہ صحت مندی کی علامت ہے بہ نسبت اس کے کہ اپنا ’’اسکرین ٹائم‘‘ بڑھا لیں۔ ان نظاروں سے خالق و مالک سے تعلق مضبوط ہوسکتا ہے مگر بے مقصد چیزوں اور خرافات میں گم ہوکر وقت کی بربادی کے ساتھ ذہن بھی پراگندہ ہوجاتا ہے، جسم اور ذہن تازہ دم اور چاق چوبند ہونے کے بجائے سست اور بوجھل ہوجاتے ہیں۔

وقت کی تقسیم کا قدرتی فارمولا جو ہمیں عطا کیا گیا وہ رات کو جلد سونا اور صبح جلد بیدار ہونا ہے۔ کوئی اس کی افادیت سے انکار نہیں کرسکتا۔ اپنے وقت کی پانچ نمازوں کے حساب سے منصوبہ بندی کیجیے، آپ کے تمام کام وقت پر انجام پائیں گے، اور صحت کے بنیادی اصول بھی پانچ نمازوں کی پابندی سے ہی جڑے ہیں۔ یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ نظامِ قدرت سے ٹکرانے سے ہماری بامقصد فراغت بھی جاتی ہے اور صحت بھی۔ اس کو اللہ کی نافرمانی میں ضائع مت کریں۔ جوان لوگوں کو پھر بھی فرصت کے اوقات میسر ہوتے ہیں کیوں کہ جب عمر بڑھتی ہے تو ذمے داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ اسی طرح عمر بڑھتے بڑھتے نہ صحت رہتی ہے نہ فرصت۔ بڑھاپے میں ایسی فراغت کو کیا کیجیے کہ بیماری ٔ جاں کو سنبھالے ہوئے ہوں! لہٰذا صحت و فراغت کو غنیمت جانیں کہ بعد میں یہ محاورہ نہ یاد آئے:

’’اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیاں چک گئیں کھیت‘‘۔

حصہ