میری شادی ہوئی تو ہمارے گھر میں ایک ماسی کافی عرصے سے کام کر رہی تھی‘ میری شادی کے دو مہینے بعد اس نے کام چھوڑ دیا‘ اس کی جگہ دوسری ماسی رکھ لی گئی۔
ایک مہینے بعد ایک دن میں امی کے ہاں گئی تو ایک بھاری بھرکم آواز سنائی دی‘ وہ ماسی کی آواز تھی‘ اُس آواز کو میں پہچان گئی کیوں کہ وہ ماسی اکثر پانی لینے آتی تھی۔ میں کپڑے دھونے والے حصے میں گئی تو وہ مجھے پہچان گئی اور ہماری بھابھی سے کہنے لگی ’’ارے اسی باجی کے بارے میں تو میں پوچھ رہی تھی میں پانی لینے آتی تھی۔‘‘
پھر بھابھی نے بتایا کہ اس کا ایک لڑکا ہے دس ،گیارہ سال کا وہ بیمار ہے تھیلیسیمیا کا مریض ہے اور یہ گود میں اٹھا کر سرکاری اسپتال لے جاتی ہے‘ اس کے ہاتھوں اور کندھوں میں درد ہو جاتا ہے۔ میں نے بھائی سے کہا کہ امی کی وہیل چیئر اوپر رکھی ہے وہ اس کو دے دو صدقہ جاریہ ہوگا، بھائی نے اس کو دے دی، وہ بہت خوش ہوئی۔
اللہ کس طرح کسی کو وسیلہ بناتا ہے اور کس طرح مدد کرتا ہے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا۔ ہوا یوں کہ ہماری بھابھی ایک مارننگ شو دیکھ رہی تھی حالاں کہ وہ بہت کم ٹی وی دیکھتی ہیں اس دن اللہ کو ان کو وسیلہ بنانا تھا اس لیے وہ شو دیکھ رہی تھی اس میں ایک ڈاکٹر صاحب آئے اور کہا کہ ہمارا اسپتال گلشن اقبال میں ہے جہاں تھیلیسیمیا کے مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے اور ساری سہولیات بتائیں کہ وہاں خون چڑھانے کے علاوہ فزیو تھراپی، دودھ وغیرہ بھی مفت فراہم کیا جاتا ہے اور اپنا فون نمبر اور پتا بھی ٹی وی اسکرین پر چلایا جو بھابھی نے نوٹ کر لیا اور دوسرے دن ماسی کو دے دیا۔
ماسی اپنے شوہر کے ساتھ گئی تو ڈاکٹر نے اس بچے کا تفصیلی معائنہ کیا اور اس کا علاج شروع کیا، خون چڑھنے کے علاوہ اس بچے کی فزیو تھراپی بھی ہوتی ہے۔ ائر کنڈیشن کے ٹھنڈے کمرے میں دودھ کے ڈبے بھی دیے جاتے ہیں اور اس بچے کو اسپیشل جوتے دیے گئے اور کہا کہ اس کو باغ میں چہل قدمی بھی کروایا کرو۔
آج اللہ کے کرم سے وہ بچہ تیز قدموں سے چلتا ہے جو نیچے قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔ ماسی اور اس کا شوہر ہر نماز میں شکر ادا کرتے ہیں اور بھائی اور بھابھی کو دعائیں دیتے ہیں، کہ کس طرح اللہ نے بھابھی کو وسیلہ بنایا۔ ان کا ٹی وی دیکھنا، فون نمبر نوٹ کرنا، ماسی کا ہمارے گھر میں کام لگنا۔ سبحان اللہ واقعی اللہ کے کام اللہ ہی جانے۔