’’ہمیں افسوس ہے کہ کمپنی چوں کہ خسارے میں جا رہی ہے اس لیے ہم آپ کے ساتھ مزید کام نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں افراد کم کرنے ہوںگے، اس لیے امید ہے کہ آپ ہماری مجبوری سمجھ سکیں گی۔‘‘
فریحہ یہ سن کر ساکت بیٹھی رہ گئی۔ یہ جاب اس کی ضرورت تھی، وہ شوقیہ نوکری نہیں کررہی تھی۔ اسے اس کمپنی میں آئے ابھی سال بھر ہی ہوا تھا۔ چار بہنوں میں وہ سب سے بڑی تھی۔ والد ریٹائر اور بھائی سب سے چھوٹا تھا۔ اس کی نوکری سے کم از کم گھر کی دال روٹی عزت سے چل رہی تھی۔ اس کے ساتھ کچھ اور بھی لڑکیاں تھیں جو اپنی تعلیم اور ٹیلنٹ کے باوجود کم تنخواہ اور کنٹریکٹ کی بنیاد پر رکھی گئی تھیں تاکہ ان کو مستقل ایمپلائز والی سہولتیں دیے بغیر کام لیا جاسکے۔ اس کے علاوہ بھی کبھی اگر کام زیادہ ہوتا تو لڑکیوں کو ہی روکا جاتا تھا، کیوں کہ ان کو اوور ٹائم وغیرہ بھی نہیں دیا جاتا تھا، جب کہ مرد حضرات اگر دیر تک کام کرتے تو انہیں اوورٹائم دینا پڑتا تھا۔ ان سب چیزوں کے باوجود چھانٹی میں بھی سب سے پہلے خاتون کی ہی قربانی دی گئی۔ فریحہ صدمے میں تھی، کیوں کہ ایک تو اس کمپنی کا ماحول خواتین کے لیے سازگار تھا، دوسرے کمپنی کے مالک بھی خاصے تمیزدار تھے اور عموماً خواتین کو نوکریوں میں جس قسم کے حالات اور افراد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ ماحول یہاں نہیں تھا۔
یہ صرف ایک فریحہ کی کہانی نہیں ہے بلکہ اکثر جگہوں کا یہی مسئلہ ہے کہ جہاں خواتین مجبوری میں کام کرنے نکلتی ہیں وہاں ان کے لیے مسائل کا انبار منہ کھولے کھڑا ہوتا ہے جس میں اوّلین مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔ اگر کمپنی کی طرف سے پک اینڈ ڈراپ نہ ہو تو خود سے آنا جانا ایک گمبھیر مسئلہ ہے جس کی وجہ سے بہت سی خواتین ہمت ہار جاتی ہیں، کیوں کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی ناگفتہ بہ حالت سب کو معلوم ہے۔ پرائیویٹ وین لگوائی جائے تو اس کے کرائے میں ہی آدھی تنخواہ چلی جاتی ہے۔ اسی لیے اکثر والدین بھی لڑکیوں کی نوکری کی مخالفت کرتے ہیں۔ جن اداروں میں ان کی اپنی پک اینڈ ڈراپ ہو، وہاں اکثر خواتین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ جب کہ مردوںکے ساتھ ایسا مسئلہ نہیں ہوتا، وہ موٹر سائیکلوں پر ایک دوسرے کے ساتھ لفٹ لے کر یا بس کی چھتوں پر بھی چڑھ کر چلے جاتے ہیں، لیکن لڑکیاں ایسا کچھ نہیں کرسکتیں، یا کم از کم انڈیا کی طرح ہمارے ہاں بھی خواتین میں اسکوٹی کی سواری عام ہوجائے تو یہ مسئلہ بہت حد تک کم ہوسکتا ہے، کیوں کہ نوکریوں کے علاوہ اسکول، کالج اور جامعات پہنچنے کے لیے بھی لڑکیاں جس طرح دھکے کھاتی ہیں،وہ افسوس ناک ہے۔
دفاتر کی نوکری میں ایک اور بڑا مسئلہ ان کے اوقاتِ کار کا ہے۔ اکثر اداروں میں صبح آٹھ یا نو بجے سے شام چھ یا سات بجے تک کی ٹائمنگ ہوتی ہے جس کی وجہ سے خواتین کو گھر پہنچتے پہنچتے رات ہوجاتی ہے۔ یہ وہ اوقات ہیں جن پر آج بھی ہمارے معاشرے میں انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں حالانکہ سب جانتے ہیںکہ باہر ٹریفک کا رش،آفس کے اوقات اور راستے کی طوالت کی وجہ سے دیر سویر اب معمول کی بات ہے۔ لیکن کسی بھی ادارے میں بہ حیثیت خاتون کے، کام کے اوقات کو کم نہیں کیا جاتا جو کہ خواتین کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے، کیوں کہ اگر غیر شادی شدہ لڑکیاں نوکری سے تھک کر گھر پہنچیں تو والدین ان کے ساتھ رعایت کردیتے ہیں اور گھر کا کوئی کام نہیں کرواتے، لیکن اگر کوئی خاتونِ خانہ کام پر سے واپس آئے تو اس کے لیے گھر، بچوں اور شوہر کے کاموں کا ایک انبار ہوتا ہے جنہیں نمٹانا بھی اس کا ہی فرض سمجھا جاتا ہے اور وہ اللہ کی بندی بھی اس فرض کو نبھانے کے لیے تن، من، دھن سے جت جاتی ہے۔ یہ بھی ایک ایسی وجہ ہے جو خواتین کو بہت جلد تھکا دیتی ہے۔ جب کہ مرد کام پر سے آکر صرف آرام کرنا پسند کرتے ہیں کہ میں کام پہ سے آیا ہوں۔ لیکن عورت کی نوکری کو کوئی اہمیت نہیںدی جاتی۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر عورت کام پر سے واپس آئی ہے تو وہ شاید وہاں آرام کی غرض سے گئی تھی۔
ایک اور اہم مسئلہ اداروں کا ماحول ہے۔ اکثر اداروں میں خواتین کے لیے سازگار ماحول فراہم نہیں کیا جاتا، وہاں ساتھ کام کرنے والے افراد خواتین کے ساتھ تعاون کرنا نہیں چاہتے، انہیں یہ اپنی توہین لگتی ہے، یا اگر تعاون کرتے ہیں تو اس کے بدلے ان کا رویہ ہتک آمیز ہوجاتا ہے، یا اگر خاتون اُن سے زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہے تو یہ ان حضرات کی انا کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ ایسا سب اداروں میں نہیںہوتا لیکن اکثر اداروں میں یہ سب دیکھا گیا ہے۔ کچھ اداروں میں خواتین سے تعاون کے بدلے میں غلط قسم کے فیور بھی مانگے جاتے ہیں، اور نہ دینے پر ان کو طرح طرح سے تنگ کیا جاتا ہے۔ کچھ بہت مشہور اور اچھے اداروں میں بھی خواتین کے ساتھ نازیبا سلوک کی شکایات سننے میں آتی ہیں اور پھر ان کو بلیک میل کرکے نوکری کرتے رہنے پر مجبور کردیا جاتا ہے، اور وہ خواتین اپنی عزت کی خاطر خاموشی سے ظلم سہتی چلی جاتی ہیں۔
میرٹ کا قتل بھی خواتین کا ایک گمبھیر مسئلہ ہے۔ زیادہ تر اداروں میں خواتین کو ان کی قابلیت اور صلاحیت کے لحاظ سے نہ سیٹ ملتی ہے اور نہ ہی تنخواہ۔ جب کہ اسی قابلیت اور صلاحیت کے حامل مردوں کو اعلیٰ پوسٹ بھی مل جاتی ہے اور ان کو مختلف مراعات بھی دے دی جاتی ہیں۔ اسی لیے اگر دیکھا جائے تو کلیدی عہدوں پر خواتین ایک یا دو فیصد نظر آتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انہیں ان کی صلاحیت اور قابلیت کے حساب سے عہدے اور مراعات نہیں دی جاتیں، اس کے علاوہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے خواتین زیادہ دیر تک اپنی جاب جاری نہیں رکھ پاتیں۔
شادی شدہ خواتین چاہے وہ کتنی ہی قابل کیوں نہ ہوں، ان کے ساتھ گھر، بچوں، شوہر اور سسرال کے مسائل اتنے ہوتے ہیں کہ ان کا کام کرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ بہت کم خواتین ایسی ہوتی ہیں جن کو ان کے گھر سے مکمل سپورٹ اور تعاون ملتا ہو۔ وہ خوش نصیب خواتین ہوتی ہیں جو شادی کے بعد بھی اپنی تعلیم اور قابلیت کو استعمال میں ل کر صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر پاتی ہیں، ورنہ زیادہ تر خواتین کو ٹیچنگ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے چاہے ان میں یہ صلاحیت ہو یا نہ ہو۔ ہم بھی کتنی ہی ایسی خواتین کو جانتے ہیں جو اپنی اپنی فیلڈ کی ماہر تھیں لیکن وسائل نہ ہونے کے سبب گھر بیٹھ گئیں یا پھر ٹیچنگ شروع کردی کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔
اس کے علاوہ خواتین کی صحت کے مسائل بھی اکثر ان کے کام کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں، ان میں ایک ان کی زچگی کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ اکثر پرائیویٹ سیکٹر میں میٹرنٹی چھٹیاں دو ہفتوں سے زیادہ نہیں دی جاتیں، اس کے علاوہ ایسے تسلی بخش ڈے کیئر سینٹر بھی موجود نہیں جہاں آپ اپنے بچے کو بے فکری سے چھوڑ سکیں۔ لے دے کر نانی، دادی رہ جاتی ہیں جہاں اپنے بچوں کو چھوڑا جاسکتا ہے، لیکن وہاں بھی آپ کچھ عرصے ہی چھوڑ سکتے ہیں، کیوں کہ تیرے میرے گھر میں رہتے بچے کی تربیت ہونا بہت مشکل ہوجاتی ہے جس کا سارا الزام بھی صرف ماں ہی سہتی ہے۔ اسی لیے اکثر خواتین ہمت ہارکر بیٹھنا زیادہ بہتر سمجھتی ہیں (ہماری اپنی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے)۔
مختلف فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کو کوئی تقرر نامہ نہیں دیا جاتا جس کی وجہ سے وہ قانونی طور پر ورکر تصور نہیں کی جاتیں۔ فارماسیوٹیکل کمپنیز (دوا ساز ادارے)، کپڑے کی صنعت، ملبوسات کی فیکٹریوں، کھیلوں کے سامان کی صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرنے کے باوجود اکثر ٹریڈ یونینز بھی ملازمت پیشہ خواتین کی محنت کو نظرانداز کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہی وہ مسائل اور ایسی بہت سی دوسری مشکلات ہیں جن کا باہر نکلنے والی خواتین کو دن رات سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے تو خواتین بھی صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار بہ خوبی نبھا سکیں گی۔ یہ مسائل اتنے بڑے ہرگز نہیں کہ انہیں حل نہ کیا جاسکتا ہو، اداروںکی سطح پر بھی اگر کوشش کی جائے تو بہتری آسکتی ہے لیکن شرط دیانت داری ہے، کہ اگر دیانت داری سے کوشش کی جائے اور خواتین کے لیے اوقات میں کچھ رعایت دے دی جائے تو بہت سوںکا بھلا ہوسکتا ہے۔