ادب اطفال کی نئی جہتیں

392

عیدِ قرباں کی ہنگامہ خیز مصروفیات سے ابھی مکمل طور پر نکل بھی نہ پائے تھے کہ حریمِ ادب کراچی نے پیامِ ملاقات دیا۔ یوں تو حریمِ ادب کی جانب سے لکھاریوں کی تربیت کے پروگرام سال بھر چلتے رہتے ہیں مگر اِس پروگرام کی کچھ خاص بات تھی جس کی وجہ سے ہم اس دن کا انتظار بے صبری سے کررہے تھے۔ یہ پروگرام مستقبل کے معماروں یعنی وطن کے نونہالوں کی ادبی ضروریات کو مدنظر رکھ کر ترتیب دیا گیا تھا۔ حریم ادب کراچی کی ٹیم بہت دنوں سے اس پروگرام کی ترتیب و تیاری میں مصروف تھی۔ گہرے سرمئی بادلوں تلے اہلِ قلم و اہلِ ذوق خواتین کے قافلے ادارۂ نورحق کے خوب صورت کانفرنس ہال میں پہنچے۔ ہمیں چوں کہ میزبانی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لہٰذا وقت سے پہلے پہنچنا ضروری تھا۔ سو حاضری کے رجسٹر میں چند سابقون الاوّلون میں ہم بھی شامل ہوگئے۔

’’ادبِ اطفال کی نئی جہتیں‘‘ کے عنوان سے پروگرام ترتیب دیا گیا تھا۔ مہمانِ گرامی کی آمد بھی ہوچکی تھی۔ ماہنامہ shine we اور ’’جگمگ تارے‘‘ کے مدیر اعلیٰ اور ڈائریکٹر الامام ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جامعۃ الامام نعمان بن ثابت‘ نجیب احمد حنفی تشریف لائے تھے۔ گفتگو کیا تھی گویا اذہان کے کواڑ کھولنے کی جادوئی کنجی تھی۔ ایک کے بعد ایک کواڑ کھلتے چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ لکھاریوں کو جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اطفال کی ذہن سازی کرنی چاہیے۔ بچوں کو کہانی کے ذریعے آنے والے وقت کے لیے تیار کریں۔ ترقی کی راہ پر وہی قومیں چلتی ہیں جو مستقبل کی پلاننگ کرتی ہیں۔ معاشرے کی تشکیل میں لکھاری اہم ذمے داری پر فائز ہیں۔

انہوں نے بچوں کے حوالے سے کہا کہ ہمیں فیصلہ کرلینا چاہیے کہ ہم آنے والے وقت میں اپنے بچوں کو کہاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ترقی یافتہ قومیں اپنے بچوں میں ابتدا ہی سے قائدانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھاتی ہیں۔ ہمیں کہانی کے ذریعے بچوں کو اپنی تاریخ و اقدار سے روشناس کرواتے ہوئے چیلنجز کے مقابلے کے لیے تیار کرنا ہے، کیوں کہ بچپن کی ذہن سازی پوری شخصیت کی بنیاد بنتی ہے۔دنیا میں نئی جہتیں اختیار نہ کرنے والے ترقی کی شاہراہ پر پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ہمیں بحیثیت لکھاری جدید ٹیکنالوجی سیکھتے ہوئے اس کی ضرورت کے مطابق لکھنا ہوگا۔

اس موقع پر ادبِ اطفال کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے وہاں موجود بیشتر خواتین نے بچوں کے لیے نئے زاویوں سے لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس موقع پر نجیب حنفی نے خواتین کے مختلف سوالات کے جوابات بھی دیے۔

بعدازاں پروگرام کے دوسرے حصے میں بچوں کی مصنفہ و صدارتی ایوارڈ یافتہ راحت عائشہ تشریف لائیں۔ انہوں نے اسکرین پر ورک شاپ کے ذریعے کہانی کے خدوخال، بناوٹ اور موضوع کے انتخاب کے حوالے سے بہترین معلومات پہنچائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ادب کی جس صنف پر لکھنا چاہیں اس کا مطالعہ لازمی ہے۔ تحریر کو پُر اثر بنانے کے لیے جملوں میں ربط کے ساتھ غیر ضروری طوالت سے بچنا چاہیے۔ کہانی کو روایتی نصیحتوں کے بجائے دلچسپ و دل پسند پیرائے میں سبق آموز بنانا چاہیے۔ کہانی تخیل کی مرہونِ منت ہوتی ہے، اور تخیل کی بنیاد پر ہی دنیا میں ایجادات ہوتی ہیں۔ہمیں بحیثیت لکھاری انسان دوست خیالات کی آبیاری کرنی چاہیے۔ کہانی کا پلاٹ اردگرد کے واقعات کے اچھوتے پہلو کو اجاگر کرے تو سوچ کے نئے در وا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کہانی کا پلاٹ اردگرد کے اچھوتے واقعات سے اخذ کیا جاسکتا ہے اور اس کے لیے مشاہدہ بہت ضروری ہے۔

گفتگو ابھی جاری تھی کہ موسم کے تیور بگڑنے لگے اور گہرے سرمئی بادلوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ شرکا کی تواضع گرما گرم چائے اور سموسوں سے کی گئی۔

اختتامی کلمات میں عزیز استاد، مربی اور حریم ادب کی نگراں عشرت زاہد نے شرکا کی آمد کا شکریہ ادا کیا اور اس مفید پروگرام کے بعد سب کی جانب سے مزید اچھی اور نئی جہت پر لکھی کہانیاں موصول ہونے کی امید ظاہر کی۔ پروگرام کے اختتام سے پہلے حریم ادب کی ممبر عینی عرفان کی پہلی کتاب ’’مٹی کے مکین‘‘ کی رونمائی کی گئی۔ ان کی کہانیاں اور افسانے حقیقی زندگی کی بہترین ترجمانی کرتے ہیں۔ بعدازاں نگران نشرو اشاعت کراچی ثمرین احمد کی دعا پر پروگرام اختتام پذیر ہوا۔ نمازِ عصر ادا کر کے ادارے سے باہر نکلے تو آسمان نے زرد چادر اوڑھ رکھی تھی، خوب صورت موسم اور ٹھنڈی ہواؤں نے استقبال کیا۔ تمام بہنوں نے مسکراتے چہروں سے ایک دوسرے کو الوداع کہا اور اپنے گھروں کی طرف رختِ سفر باندھا۔

حصہ