آئی آئی چندر ریگر روڈ پر شام کا ملگجا اندھیرا اتر آیا تھا۔ میں2-K کی بس سے اتر کر دفتر ’’جسارت‘‘ کی سیڑھیاں پھلانگتا مدی جسارت کے ایک چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوا تو انہوں نے زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ میرا استقبال کیا۔ میز صاف تھی‘ شیشہ چمک رہا تھا‘ شیشے میں ان کے پُرسکون چہرے کا عکس بھی لرز رہا تھا۔ لیٹر پیڈ‘ بال پوائنٹ‘ اسٹیشنری کا سامان اور فائلیں ترتیب سے رکھی تھیں۔ میز زبانِ حال سے گویا تھا کہ صاحبِ میز کی زندگی نظم و ضبط اور سلیقے کی مضبوط ڈور سے بندھی ہوئی ہے۔
محمد صلاح الدین مدیر جسارت سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ بھٹو دور میں انہوں نے لمبے عرصے تک جیل کاٹی‘ ضیا دور آیا تو ٹی وی کے پروگرام ’’ظلم کی داستانیں‘‘ میں آپ نے بھی رودادِ ستم سنا کر دیکھنے اور سننے والوں کو آب دیدہ کیا۔ بے شک محمد صلاح الدین میں تاریخ اسلام کے عظیم سپہ سالار صلاح الدین ایوبی ہی جیسی جرأت‘ بے باکی اور بے خوفی تھی۔ وہ عام لوگوں میں گھلتے ملتے ریشم کی طرح نرم و ملائم مگر رزمِ حق و باطل میں فولاد کی طرح سخت اور ناقابل شکست ہو جاتے تھے۔ بھٹو آمریت سے ایم کیو ایم کی فسطائیت تک انہوں نے ڈٹ کر اپنے وقت کے فرعونوں کا مقابلہ کیا اور یہ کہتے ہوئے کہ اس معرکے میں ’’ایک جاں کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں‘‘ ایک دن جان سے گزر گئے۔ مگر یہ سانحہ تب کا ہے جب وہ ’’جسارت‘‘ کو خیرباد کہہ کر ہفت روزہ تکبیر کا اجرا کر چکے تھے۔
جب میں 1978ء میں ان سے پہلی بار انٹرویو کے لیے گیا تھا تو طالب علم تھا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ ایک دن صحافت میں اپنے سفر کا آغاز مجھے ان ہی کی رفاقت و رہنمائی میں کرنا ہے۔ میری کالم نگاری ان ہی کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ تھی۔ ان کی فکر کے بہت سے پہلوئوں سے اختلاف کے باوجود وہ اپنی جرأت و بے باکی اور اصول پسندی میں ہمیشہ میرے لیے منارۂ نور رہے۔ یہی وجہ تھی کہ 1984ء میں ’’جسارت‘‘ میں ان کا استعفیٰ منظور ہوتے ہی میں بھی اس اخبار سے مستعفی ہو گیا۔ پھر ’’تکبیر‘‘ میں انہوں نے بلایا تو کچھ عرصے کے لیے اس ہفت روزہ میں بھی کام کیا۔ انہیں بہت قریب سے دیکھا۔ بلاشبہ وہ بھی ایک انسان ہی تھے‘ انسان جو خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے لیکن ان کی خوبیاں‘ خامیوں پر غالب تھیں۔ وہ سیلف میڈ تھے‘ ترقی اور کامیابی کا سفر انہوں نے بہت نچلی سطح سے شروع کیا تھا‘ وہ گھڑی سازی‘ سائیکلوں کے پنکچر اور پلمبنگ کا کام کرنے میں بھی کبھی جھجکے نہ شرمائے‘ محنت پر یقین رکھا۔ تعلیم بھی ساتھ ساتھ حاصل کی پھر اسکول میں مدرس ہوگئے‘ وہاں سے کوچۂ صحافت میں ایسے داخل ہوئے کہ یہیں کے ہو رہے۔ پہلے ظالم حاکم کے سامنے کلمۂ حق کہنے کے جرم میں پابہ سلاسل ہوئے اور پھر اپنے لہو سے دورِ حاضر کی حکایتِ صحافت رقم کی۔ حق گوئی‘ استقامت اور شہادت۔ وہ اس پیشے میں مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا ظفر علی خان اور مولانا حسرت موہانی کی روشن روایتوں کے امین تھے۔ تحریر و تقریر پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ وقت کے فرعونوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے‘ انہیں للکارتے تھے۔ ہر سچ کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے سو انہوں نے بڑی بے خوفی سے یہ قیمت ادا کی۔ ان کا گھر اور پھر دفتر جلا کر بھسم کیا گیا۔ انہوں نے اثر نہ لیا اور اسی طرح ادائے فرض میں مگن رہے۔ چوں کہ انہوں نے اپنے عصرِ ستم کو عہدِ عدل میں بدلنے کے لیے اپنے قلم اور اپنی جان دونوں کا نذرانہ پیش کیا لہٰذا آج وہ محققوں کی تحقیق کا موضوع‘ پیشۂ صحافت کی آبرو اور رفقائے اہل علم کے لیے سبق کہ حق اور سچ کے ساتھ وابستگی کے بغیر صحافی ہونے کے کوئی معنی نہیں۔ ریڈیو کے ایک پروگرام میں انور مقصود نے ان کے لیے تعارفی کلمات ادا کرتے ہوئے مرزا غالب کا ایک شعر نہایت برمحل پڑھا تھا‘ جو ان کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔
ان آبلوں سے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر
وہ حق گوئی سے ملنے والی اذیتیں نہایت خندہ پیشانی سے جھیلتے تھے‘ لیکن ان اذیتوں میں کیف و اطمینان کا یہ پہلو بھی بہرحال رہتا تو تھا کہ لوگ انہیں ’’ہیرو‘‘ کے مراتبِ بلند پر فائز کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ہیرو کے پائوں میں سچ کے رستے پر چلتے ہوئے آبلے تو پڑیں گے۔ ہیرو کی تکلیف مداحوں کی تکلیف بن جاتی ہے کہ مداح سمجھتے ہیں کہ ہیرو کے سارے مصائب ان ہی کے راحت و آرام کے لیے ہے تو کبھی کبھی ہیرو کو اس یقین کو سچا کر دکھانے کے لیے بھی جان دینی پڑتی ہے۔ وہ دوپہر مجھے نہیں بھولتی جب طارق روڈ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک‘ مسجد کے صحن سے پاس پڑوس کی ساری گلیاں اپنے ’’ہیرو‘‘ کے آخری دیدار اور اسے دکھوں سے معمور اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے الوداع کہنے والوں سے اَٹی پڑی تھیں۔ وہ صحافی اور دانش ور بھی جمع تھے جو ان کے عقیدہ و فکر کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے۔ مگر اس دوپہر معاملہ پسند و ناپسند کا نہ تھا۔ معاملہ یہ تھا کہ کیا اس ملکِ خداداد میں آزادی ٔ اظہار جرم ہے؟ اختلاف کرنے کی جو آزادی قدرت نے انسانی ذہن و ضمیر میں ودیعت کی ہے‘ کیا اس آزادی کو سلب کرنے کی اجازت فاشسٹوں اور دہشت گردوں کو دی جائے یا اپنی جان کی بازی لگا کر تنقید و احتساب کی آزادی کی حفاظت کی جائے؟ تو آنے والے اپنے لیے آئے تھے کہ جن اعلیٰ اقدار حیات کے لیے محمد صلاح الدین نے جان دی تھی‘ وہ صرف ان کی نہیں‘ ہر ایک کی ضرورت تھی۔
میں نے محمد صلاح الدین شہید سے دو انٹرویو کیے تھے۔ دونوں انٹرویو میں ایک دہائی کا طویل زمانی فاصلہ ہے۔ دوسرے انٹرویو کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ادیبوں کے انٹرویو کی کتاب چھپنے کے بعد ارادہ تھا کہ ایسی ہی صحافیوں کے حوالے سے ایک کتاب مرتب کی جائے۔ یہ انٹرویو میں نے گولی مار میں ان کے دو منزلہ مکان کی اوپری منزل کے کمرے میں کیا تھا۔ تھکاوٹ کی وجہ سے وہ نیم دراز ہو کے سوالوں کے جواب دیتے رہے۔ کچھ برس بعد وہ مکان بھی نذر آتش کر دیا گیا جس کے بعد وہ پی ای سی ایچ ایس قبرستان سے متصل گلی کے ایک بنگلے میں منتقل ہو گئے اور پھر یہیں سے قبرستان تک کا‘ کہ سامنے ہی تھا‘ آخری سفر انہوں نے طے کیا۔ دو قدم کا فاصلہ ہے زندگی سے موت تک‘ کس قدر مشکل ہوا ہے دو قدم جانا مجھے۔ دونوں انٹرویو کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انہوں نے پیشہ صحافت کو ہمیشہ مقدس مشن سمجھا اور اس کے ذریعے ملک و معاشرے کی تاریکی کو اپنے لہو کے چراغ سے روشنی میں بدلنے کی جستجو کی۔
طاہر مسعود: اپنے صحافتی کیریئر میں آپ کو بے شمار سیاسی شخصیات سے ملاقات کا موقع ملا ہوگا ان میں کن شخصیتوں نے آپ کو متاثر کیا اور کس سے مل کر آپ مایوس ہوئے؟
محمد صلاح الدین: مجھے اپنی صحافتی زندگی میں ہر طبقۂ خیال کے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا اور ان میں سے ہر شخصیت کے کچھ نہ کچھ پہلو ایسے سامنے آئے جن سے مل کر اچھے یا برے تاثرات قائم کرسکوں۔ مجھے سب سے زیادہ ایسے لوگوں نے متاثر کیا ہے جو اپنے علم اور بلندی ٔ کردار کی وجہ سے معروف تھے۔ ان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی‘ مولانا ظفر احمد انصاری اور جناب خالد اسحاق بہ طور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ اپنے پیشے میں مجھے الطاف حسن قریشی کی تحریر اور فخرِ ماتری مرحوم کی حوصلہ مندی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ رویے نے متاثر کیا۔
طاہر مسعود: سیاست دانوں میں سے کس نے متاثر کیا؟
محمد صلاح الدین: سیاست دانوں میں سے (سوچتے ہوئے) لمبی فہرست بن جائے گی‘ اسے چھوڑیے۔
طاہر مسعود: اور کن شخصیات سے مل کر ان کا سحر ٹوٹا؟
محمد صلاح الدین: ایسے بے شمار لوگ ہیں‘ ان کا تذکرہ بھی چھوڑ دیجیے۔
طاہر مسعود: ایک آدھ کا ذکر کر دیجیے۔
محمد صلاح الدین: یہ مسئلہ فساد کی جڑ ہے اسے نہ لکھیے تو بہتر ہے۔
طاہر مسعود: صحافت اور بلیک میلنگ کا نام بعض اوقات ایک ساتھ لیا جاتا ہے‘ آخر کیوں؟
محمد صلاح الدین: یہ بات صرف صحافت تک محدود نہیں۔ اس کا تعلق ہماری قومی کردار سے ہے۔ بے ایمان‘ دھوکے باز اور خود غرض لوگ صرف اسی پیشے سے منسلک نہیں۔ یہ ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں ملیں گے۔ ہم نے اپنی قوم کو مستحکم اخلاقی اقدار پر تربیت دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اس کے برعکس وہ تمام ذرائع جو کردار سازی کے لیے استعمال کیے جاسکتے تھے‘ کردار کو بگاڑنے کے لیے استعمال کیے گئے۔ ایک فرد کا اخلاقی کردار اگر مضبوط و مستحکم ہو تو وہ چاہے کسی بھی شعبہ زندگی سے وابستہ ہو اپنا کام دیانت داری اور فرض شناسی سے انجام دے گا اور اپنے اختیار اور وسائل کو امانت سمجھ کر برتے گا۔
طاہر مسعود: مگر سوال یہ ہے کہ کردار سازی کا ذریعہ اخبارات بھی تو ہیں اگر ان ہی پر بلیک میلنگ کا الزام آئے تو قوم کی کردار سازی کی توقع کس سے کی جائے؟
محمد صلاح الدین: جی ہاں کردار سازی کا ذریعہ اخبارات ہیں۔ یہ اپنا مؤثر اور تعمیری کردار صرف اسی صورت میں انجام دے سکتے ہیں جب انہیں ایک طرف صاحبِ کردار افرادِ کار میسر ہوں اور دوسری طرف دیگر ذرائع ابلاغ مثلاً ریڈیو‘ ٹیلی ویژن‘ عام لٹریچر اور خود ملک کا نظامِ تعلیم ایک مربوط اور متعین نظام کے تحت ایک دوسرے کے معاون ہوں۔
طاہر مسعود: صحافت سے منسلک افراد خود کو عام لوگوں کے مقابلے میں کچھ برتر محسوس کرتے ہیں اس لیے ان کا رویہ بھی عام لوگوں خصوصاً سرکاری افسروں کے لیے ناپسندیدہ ہوتا ہے‘ کیا خیال ہے؟
محمد صلاح الدین: یہ معاملہ بھی صرف صحافت تک محدود نہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک عام مشاہدہ یہ ہے کہ جو لوگ بھی افرادِ معاشرہ کی بڑی تعداد کے معاملات کے نگراں یا ذمے دار ہیں‘ ان میں بالعموم ایک طرح کی خود سری اور رعونت پائی جاتی ہے۔ یہ مرض ایک عام کلرک سے لے کر اعلیٰ منصب پر فائز بیورو کریٹ تک عام ہے۔ ایک صحافی چوں کہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی دی ہوئی رپورٹ یا اس کا لکھا ہوا کوئی مضمون قارئین کی بہت بڑی تعداد کو متاثر کرے گا یا حکام کی بڑی تعداد تک اس کی رسائی ہوگی‘ اس لیے بھی اس کے اندر اپنی اہمیت کا احساس جائز حدود سے عموماً تجاوز کر جاتا ہے۔ جب کہ ایک مسلم معاشرے میں ہر ایسے فرد کو جس کا تعلق افرادِ معاشرہ کی بڑی تعداد کے معاملات سے ہو زیادہ منکسر مزاج اور جذبۂ خدمت سے سرشار ہونا چاہیے۔
طاہر مسعود: ملکی صحافت میں صحافیوں کی جتنی یونینیں اور فیڈریشنیں ہیں ان سب پر بائیں بازو کے صحافیوںکا قبضہ ہے جب کہ دائیں بازو والے صحافی اپنی اکثریت اور شہرت کے باوجود اس پیشے میں مؤثر اجتماعی قوت بن کر نہیں ابھر سکے‘ اس کی وجوہات؟
محمد صلاح الدین: صحافت پر بائیں بازو کے لوگوں کا تسلط آج سے نہیں گزشتہ پچاس سال سے ہے۔ انگریزوں کے دور میں پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران پروپیگنڈے کے مقاصد کے لیے اخبارات و ریڈیو کو صحافیوں کی ایک بڑی کھیپ درکار تھی۔ جھوٹ کا یہ سارا کاروبار وہی لوگ انجام دے سکتے تھے جو کسی اخلاقی حدود کے پابند نہ ہوں۔ چناں چہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موقع پر ست ملحد اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس پیشے میں داخل ہوگئی۔ اتفاق سے وہ زمانہ ویسے بھی الحاد اور مذہب بیزاری کا زمانہ تھا۔ پڑھے لکھے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کمیونزم کے فلسفے سے متاثر تھی۔ یہ لوگ طویل عرصے سے اخبارات‘ ریڈیو اور ابلاغ عامہ کے دوسرے اداروں میں کام کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے سیاسی مقصد کی خاطر ایسے لوگوںکی پرورش کی جو ان کے نظریات و خیالات سے اتفاق رکھتے تھے۔ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے اس گروہ کی بالادستی قائم رکھی تھی اور اپنے اداروں میں اس نے کسی ایسے فرد کو داخل نہ ہونے دیا جو فکری اعتبار سے اس کا ہم مسلک نہ ہو۔ اسلام سے وابستہ نوجوانوں نے جب اس پیشے کا رخ کیا تو قدم قدم پر انہیں سخت مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے پاس نہ تو یہاں میاں افتخار الدین کا قائم کردہ ادارہ تھا‘ نہ ان کی کوئی پرورش کرنے والا تھا اور نہ ہی انہیں اس پیشے میں پہلے سے موجود لوگوں کا تعاون حاصل ہوسکتا تھا۔ لیکن اسلام اور کمیونزم کی نظریاتی کشمکش میں جوں جوں اسلام کا پلڑا بھاری ہوتا گیا اور تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت الحاد کی بجائے اسلام کے قریب اتر آتی گئی اسی نسبت سے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اسلام پسند لوگوں کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا۔ ایک طرف انہیں ایسے اخبارات میں قدم جمانے کا موقع ملا جن کے مالکان نظریاتی اعتبار سے کمیونسٹ یا ملحد نہ تھے اور کمیونسٹ صحافیوں کی روش سے نالاں تھے۔ انہوں نے نئے آنے والے اسلام پسندوں کی ترجیح دی اور اس طرح انہیں صحافت میں نفوذ کا موقع ملا اور دوسرے یہ کہ اس کے ساتھ ہی اسلام پسند صحافیوں نے اپنے اخبارات و رسائل نکالنے کا بیڑہ بھی اٹھایا‘ اس طرح اردو ڈائجسٹ‘ سیارہ ڈائجسٹ‘ زندگی‘ اسلامی جمہوریہ‘ افریشیا‘ صحافت جیسے پرچے منظر عام پر آئے۔ حریت اور جسارت جیسے اخبارات شائع ہوئے۔ ان میں اسلام پسندوں کی بڑی تعداد کو کام کے مواقع حاصل ہوئے۔ بائیں بازو کو اپنے پچاس سالہ طویل تسلط اور اپنی موقع پرستی اور ہر حکومت کی سرپرستی کے باعث ابھی خاصا غلبہ حاصل ہے لیکن ان کی گرفت بہ تدریج کم زور ہوتی جا رہی ہے۔ اس وقت ملک کی صحافت میں بلاشبہ وہ اقلیت میں ہیں تاہم ٹریڈ یونین محاذ پر ابھی ان کا غلبہ باقی ہے۔ آپ کچھ ہی روز بعد صحافت کو بائیں بازو کی ٹریڈ یونین قیادت سے پاک دیکھیں گے کیوں کہ اس کا بھرم اب کھل چکا ہے اور صحافیوں کی اکثریت اس سے کھلے عام بے زاری کا اظہار کر رہی ہے۔
طاہر مسعود: ابھی حال ہی میں بائیں بازو کے صحافیوں کی جو تحریک چلی تھی اس کے سوائے جماعت اسلامی سے متاثرہ صحافیوں کے تقریباً تمام طبقۂ فکر کے صحافیوں نے حمایت کی اور انہوں نے باقاعدہ گرفتاریاں بھی پیش کیں۔ ملکی صحافت کی تاریخ میں اتنی بڑی تحریک ہمارے علم کے مطابق اس سے قبل کبھی نہیں چلی۔ آپ اس کے اسباب اور پس منظر کے بارے میں کیا کہیں گے؟
محمد صلاح الدین: صحافیوں کی یہ تحریک پی ایف یو جے اور ایپنک کے پرچم تلے چلائی گئی تھی لیکن اب یہ حقیقت منظر عام پر آچکی ہے کہ جن صحافیوں کا جماعت اسلامی یا اس کی ہم خیال جماعتوں سے کوئی تعلق نہیں‘ ان کی اکثریت بھی موجود قیادت کے خلاف عَلم بغاوت بلند کر چکی ہے۔ ملک کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں اخباری کارکنوں کی اکثریت نے اپنی قیادت سے لاتعلقی کا اعلان نہ کر دیا ہو۔ جس چار رکنی کمیٹی نے حکومت سے مذاکرات کیے تھے‘ اس کا کوئی رکن بھی جماعت اسلامی سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ یہ تحریک اب دمِ توڑ چکی ہے کیوں کہ اس کے سیاسی محرکات صحافیوں کے سامنے آچکے ہیں۔ یہ بات بھی محسوس کر لی گئی ہے کہ اس قیادت نے 1970ء میں بھی پیپلزپارٹی کو انتخابات میں مدد دینے کے لیے ہڑتال کرائی تھی اور بعد میں بھی پیپلزپارٹی کو تقویت پہنچانے اور اس کے اخبار کو بحال کرانے کے لیے مہم چلائی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھٹو صاحب کے دور میں بیس سے زیادہ اخبارات و رسائل بند کیے گئے‘ صحافیوں کو جیلوں میں سڑایا گیا۔ اس تحریک سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پی ایف یو جے اور ایپنک کو صحافیوں کے روزگار سے دل چسپی نہیں ہے بل کہ اصل دل چسپی ’’مساوات‘‘ کی انتظامیہ کے تحفظ سے ہے حکومت ’’مساوات‘‘ بحال کرنے اور صحافیوں کو روزگار کی ضمانت دینے پر آمادہ تھی مگر یہ پیش کش اس قیادت کو اس لیے منظور نہیں تھی کہ وہ نصرت بھٹو اور پیپلزپارٹی کو مساوات کے اختیار سے محروم نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔
طاہر مسعود: جسارت‘ جماعت اسلامی کے مؤقف کا ترجمان ہے‘ آپ ’’جسارت‘‘ کے ایڈیٹر ہیں‘ مختلف مواقع پر مختلف تقریبات میں بھی آپ جماعت اسلامی ہی کا دفاع کرتے ہیں‘ اس طرح آپ کی حیثیت جماعت اسلامی کے رہنما کی بھی بنتی ہے لیکن نہ آپ جماعت اسلامی کے رکن ہیں اور نہ کارکن۔ یہ مصلحت کیوں؟
محمد صلاح الدین: جماعت اسلامی ایک سیاسی تنظیم ضرور ہے لیکن وہ جن نظریات و افکار اور خیالات کی علم بردار ہے‘ وہ تو خود اسلام کی تعلیمات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے یہاں اسلام دشمن عناصر کی ایک عام روش یہ ہے کہ وہ اسلام کی بات کرنے والوں دھکیل کر جماعت اسلامی سے وابستہ کرتے ہیں اور جماعت اسلامی کو ایک سیاسی تنظیم کی حیثیت سے اپنی مخالفت کا نشانہ بنا کر دراصل اسلام کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس ملک میں سینکڑوں ایسے افراد موجود ہیں جو جماعت اسلامی سے کوئی تنظیمی تعلق نہیں رکھتے لیکن اس کے نظریات سے اتفاق کرتے ہیں اور محض اسی اتفاق کی وجہ سے جماعت اسلامی کے کھاتے میں شمار کیے جاتے ہیں۔ جناب اے کے بروہی‘ جناب خالد اسحاق‘ جسٹس کیکائوس‘ جسٹس محمد افضل چیمہ اور اسی طرح کی دوسری متعدد شخصیتیں اس روش کا نشانہ بنتی رہیں۔ میں بنیادی طور پر محض ایک صحافی ہوں۔ جماعت اسلامی سمیت کسی سیاسی جماعت سے کوئی تنظیمی تعلق نہیں رکھتا۔ اس کے باوجود اگر محض مسلمانوں کی سی زندگی بسر کروں اور اسلام کے عطا کردہ نظامِ حیات کی تشریح و توضیح اور اس کے عملی نفاذ کی جدوجہد کی بنا پر میرے نکتہ چیں مجھے جماعت اسلامی کے کھاتے میں شمار کرنا چاہیں تو وہ شوق سے ایسا کر سکتے ہیں میرے لیے اس میں تشویش کی کوئی بات نہیں۔
طاہر مسعود: آپ کے اخبار کو جماعت اسلامی فنانس کرتی ہے۔ اس کے اسٹاف بھی جماعت اسلامی کے افراد ہیں۔ اگر جماعت اسلامی کی حکومت کبھی برسر اقتدار آجاتی ہے تو کیا آپ کا اخبار سرکاری ٹرسٹ کی صورت نہیںاختیار کر لے گا؟
محمد صلاح الدین: ’’جسارت‘‘ کو جماعت اسلامی کا اخبار کہنا صریحاً زیادتی ہے۔ جماعت اسلامی کا اخبار ’’تسنیم‘‘ تھا جو بہت عرصہ ہوا بند ہو چکا ہے۔ جسارت‘ مساوات کی طرح کوئی پارٹی پیپر نہیں جس میں صرف ایک شخصیت اور اس کے افرادِ خاندان کی تصویریں شائع ہوتی ہوں اور صرف ان ہی کے بیانات اور مصروفیات کا ذکر ملتا ہو یا ان کے ہم نوائوں کی خبریں شائع ہوتی ہوں۔ جسارت نے خبروں کے معاملے میں کبھی یہ رویہ اختیار نہیں کیا جو عام طور پر پارٹی پیپر کا طرز عمل ہوتا ہے۔ ہم نے بھٹو سمیت سب کی خبریں اہمیت کے لحاظ سے پوری دیانت داری کے ساتھ اپنے قارئین تک پہنچائیں۔ ہم دوست اور دشمن سب کا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔ البتہ ایڈیٹوریل ہمارے اپنے افکار و نظریات کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
طاہر مسعود: لیکن آپ اس حقیقت سے کیسے انکار کریں گے کہ ’’جسارت‘‘ کی انتظامیہ کے دو سرکردہ افراد براہِ راست جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں۔
محمد صلاح الدین: کون سے دو افراد؟
طاہر مسعود: محمود اعظم فاروقی جو جماعت اسلامی کے رہنما اور قومی اسمبلی کے ممبر رہے ہیں۔ دوسرے زاہد حسین بخاری جنہوں نے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا تھا۔
محمد صلاح الدین: اس میں شک نہیں کہ اس اخبار کی انتظامیہ کے ارکان جماعت اسلامی کے معروف لوگ ہیں لیکن اخبار میںان کا کردار وہ نہیں جو مساوات میں بھٹو‘ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو ادا کرتے ہیں۔
طاہر مسعود: آپ نے اخبار میں فلمی صفحات کا بالکل بائیکاٹ کر رکھا ہے‘ آپ نہ فلم میگزین چھاپتے ہیں نہ فلمی اشتہارات جب کہ آپ فلمی دنیا پر تعمیری تنقید کا رویہ اختیار کر سکتے تھے کیوں کہ بہرحال آپ کے بائیکاٹ سے ہمارا معاشرہ فلم اور فلمی اثرات سے محفوظ تو نہیں ہو رہا؟
محمد صلاح الدین: فلمی صنعت کے دو پہلو ہیں ایک کاروباری‘ دوسرا معاشرتی۔ ہم جن اخلاقی اقدار کے عَلم بردار ہیں ان کے پیش نظر ہم فلموں کے اشتہارات شائع نہیں کرتے اور ماہانہ ایک بڑی رقم کی آمدنی سے خود کو محروم کرتے ہیں۔ ہم اپنے اخبار کو مجموعۂ اضداد بنانا نہیں چاہتے جہاں صورت یہ ہو کہ ایک صفحے پر درسِ قرآن و حدیث ہو‘ اخلاقی حدود پر زور دیا گیا ہو اور ورق الٹتے ہی دوسرے صفحے پر اخلاقی حدود کی دھجیاں اڑائی گئی ہوں۔ برہنہ اور نیم برہنہ تصاویر اور مخرب الاخلاق مضامین کے ذریعے ان تعلیمات کی نفی کی گئی ہو جن کا درس دوسرے صفحات پر دیا گیا ہو۔ فلم کے بارے میں ہم اپنا نقطہ نظر مسلسل پیش کرتے رہے ہیں کہ اسے اسلام کی مقرر کردہ اخلاقی حدود کا پابند کیا جائے اور فحاشی و بے حیائی کے فروغ کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ جہاں تک تعمیری تنقید کا سوال ہے وہ ہمارے ادارتی کالموں کا ایک مستقل موضوع رہا ہے۔ فلم صرف سنیما کے اسکرین ہی پر نہیں دکھائی جاتی بلکہ ٹیلی ویژن کے پردے پر بھی دکھائی جاتی ہے۔ ٹیلی ویژن کے پروگراموں پر ہم بہت تفصیل سے اظہار خیال کرتے رہے ہیں جس کا اطلاق پوری فلمی صنعت پر ہوتا ہے۔
طاہر مسعود: صلاح الدین صاحب! ادارتی کالموں میں کبھی کبھار فلمی صنعت یا ٹیلی ویژن کو تنقید کا موضوع بنالینے سے بات کہاں ختم ہو جاتی ہے آخر صحافت کے تین بڑے مقاصد میں سے ایک مقصد انٹرٹینمنٹ بھی ہے۔ آپ کا اخبار اس مقصد کو کہاں تک پورا کر رہا ہے؟ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ ایک انٹرٹینمنٹ کا صفحہ نکالیں اور اسی میں یہ ساری چیزیں سمیٹ لیں؟
محمد صلاح الدین: ادبی صحفے یا طالب علموں اور بچوں کے صفحات کی طرح ہم فلمی صفحہ فی الحال اس لیے شائع نہیں کرتے کہ اس کی اشاعت سنیما بینی کے رجحان کو فروغ دینے کا باعث بنتی ہے اور چوں کہ ہماری فلموں کی اکثریت ان حدود کی پابند نہیں جن کی میں پہلے ہی نشان دہی کر چکا ہوں اس لیے اس صنعت کی تطہیر ہوئے بغیر ہم اس میں دل چسپی پیدا کرنے کا ذریعہ نہیں بننا چاہتے۔(جاری ہے)