پرویز کی اس کارروائی نے ہرقل کو بحیرہ اسود کے ساحل کی طرف ہٹنے پر مجبور کردیا۔ اور یہاں مقامی لوگ ایک اولوالعزم فاتح کی حیثیت سے اس کا خیر مقدم کررہے تھے اور عیسائی قبائل جن کے دل میں پہلی بار مجوسیوں کے آہنی استبداد سے آزاد ہونے کی امید پیدا ہوئی تھی جوق در جوق اس کے جھنڈے تلے جمع ہورہے تھے۔ بحیرئہ اسود کے کنارے پڑائو ڈالنے کے بعد ہرقل کسی نئے حملے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ اپنے عقب میں ایک زبردست جنگی بیڑے کی موجودگی کے باعث اس کے لیے رسد اور کمک کا بحری راستہ محفوظ تھا۔ لیکن ایرانی اب پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آچکے تھے اور حالات کی تبدیلی کے بغیر اسے کسی نئے محاذ پر کامیابی کی توقع نہ تھی۔
ایرانیوں کے مفتوحہ ممالک کے عیسائی باشندے جنہیں ہرقل کی فتوحات نے امید کی روشنی دکھائی تھی زیادہ عرصہ اطمینان کا سانس نہ لے سکے۔ ایرانی جرنیل جسے قسطنطنیہ پر ضرب لگانے کی مہم سونپی گئی تھی۔ خلدون پہنچ چکا تھا اور اس کی پہلی کامیابی یہ تھی کہ سیتھین قبائل کا خاقان جسے رومیوں نے اس امید پر دو لاکھ اشرفیاں نذر کی تھیں کہ وہ ہرقل کی پیش قدمی کے دوران غیر جانبدار رہے گا۔ ایرانیوں کا حلیف بن چکا تھا۔ اور اس کے جھنڈے تلے اسّی ہزار (خاقان کا یہ لشکر آوار قبائل کے علاوہ ان روسی اور بلغاری قبائل پر مشتمل تھا جو اس کے باج گزار اور حلیف تھے)۔ وحشی مضافات کی بستیوں کو تباہ ویران کرنے کے بعد قسطنطنیہ کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔
روم کے دارالحکومت کو اس سے بڑا خطرہ آج تک پیش نہیں آیا تھا۔ شہر کے اکابر خاقان کو صلح پر آمادہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرچکے تھے۔ لیکن ان کی التجائیں بے اثر ثابت ہورہی تھیں۔ جب معززین شہر کا وفد خاقان کی خدمت میں حاضر ہوا تو ایرانی جرنیل کے نمائندے اس کے دائیں بائیں رونق افروز تھے۔ رومی سونے اور چاندی کے تحائف لے کر گئے تھے۔ لیکن خاقان نے ان کی التجائیں سننے کے بعد انتہائی حقارت آمیز لہجے میں کہا۔ ’’تمہاری طرف سے یہ حقیر خراج ہمیں مطمئن نہیں کرسکتا۔ ہمارے لیے صرف قسطنطنیہ کا نذرانہ قابل قبول ہوسکتا ہے۔ تمہارا حکمران اگر کہیں بھاگ نہیں گیا تو وہ اب تک ایرانیوں کی قید میں ہوگا۔ قسطنطنیہ اب ہمارے رحم و کرم پر ہے اور تم اگر پرندے بن کر ہوا میں پرواز نہ کرنے لگ جائو یا مچھلیاں بن کر سمندر میں غوطے نہ لگادو تو ہمارے ہاتھوں سے بچ کر نہیں جاسکتے‘‘۔
جب روم کے ایلچی خاقان کے کیمپ سے باہر نکلے تو ان کے جسم پر اپنی قمیصوں اور زیر جاموں کے سوا کچھ نہ تھا۔
اس کے بعد آوار قبائل کے پے در پے حملوں کے دس دن اہلِ شہر کے لیے قیامت کے دن تھے۔ وہ دبابوں کی مدد سے شہر پناہ پر کئی بار یلغار کرچکے تھے اور لکڑی کے بارہ بلند میناروں سے ان کی منجنیق بے پناہ سنگ باری کررہے تھے۔
آبنائے باسفورس کے پار ایرانی جرنیل ایک بھوکے عقاب کی طرح اپنے نیم مردہ شکار پر جھپٹنے کی کوشش کررہا تھا۔ رومیوں کی قوتِ مدافعت جواب دے چکی تھی۔ اور وہ ولولہ جو ہرقل کی غیر متوقع کامیابیوں کے ملبوث بیدار ہوا تھا بتدریج سرد پڑ رہا تھا۔ اپنے حکمران کے متعلق اب انہیں یہ علم بھی نہ تھا کہ وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے جس تباہی کو وہ برسوں سے ٹال رہے تھے وہ ہر لمحہ ان کے قریب آرہی تھی۔
پھر ایک دن بحیرئہ اسود کی طرف سے ایک جنگی بیڑا آبنائے باسفورس میں نمودار ہوا۔ اور قسطنطنیہ کی فصیلوں کے تھکے ہارے محافظ چلانے لگے۔ ’’ہرقل آرہا ہے۔ خدا نے ان کی دُعائیں سن لی ہیں‘‘۔ لیکن ہرقل اس بیڑے کے ساتھ نہیں تھا۔ اس نے اپنے محاذ پر موجود رہنا ضروری سمجھتے ہوئے اپنے لشکر کے بارہ ہزار جوان اہلِ شہر کی مدد کے لیے بھیج دیے تھے۔ روم کے اس عظیم بیڑے نے کسی وقت کا سامنا کیے بغیر آبنائے باسفورس میں دشمن کی چھوٹی چھوٹی کشتیاں تباہ کردیں۔
آبنائے باسفورس کے پار ایرانی سپہ سالار ایک بے بس تماشائی کی حیثیت سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اور تاتاری جو گزشتہ حملوں میں شدید نقصانات اُٹھانے کے بعد بددلی کا شکار ہورہے تھے رومیوں کے اس غیر متوقع حملے کی تاب نہ لاسکے۔ اس کے بلغاری اور روسی حلیف مالِ غنیمت میں حصہ دار بننے کی اُمید پر جان کی بازی لگا سکتے تھے۔ لیکن اب انہیں فوری فتح غیر یقینی معلوم ہوتی تھی۔ انہیں یہ بھی شکایت تھی کہ اس جنگ میں ان کے ایرانی حلیفوں کا بال تک بیکا نہیں ہوا۔ چناں چہ خاقان نے انہیں محاصرہ اُٹھانے کا حکم دیا۔ اور وہ منظم طریقے سے پسپا ہونے لگے۔
قسطنطنیہ کی تاریخ کا ایک اور نازک لمحہ گزر چکا تھا۔ لیکن بازنطینی سلطنت کے اُفق پر ابھی تک تاریک آندھیاں مسلط تھیں۔ پرویز کی فوجی قوت کا اب بھی یہ عالم تھا کہ وہ پانچ لاکھ سپاہی میدان میں لاسکتا تھا۔ قسطنطنیہ سے تاتاری قبائل کی واپسی کے باوجود وہ اپنی فتح سے نااُمید نہیں ہوا تھا۔ خلقدون کے پڑائو میں ایرانی فوج کی تعداد آئے دن بڑھ رہی تھی اور یہ فوج کسی وقت بھی ہرقل کے دارالسطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتی تھی۔ قسطنطنیہ سے سیکڑوں میل دور ہرقل کی شکست یا پسپائی رومیوں کے لیے مکمل تباہی کا پیش خیمہ ہوسکتی تھی۔ انہوں نے جو فتوحات حاصل کی تھیں وہ نقصانات کے بغیر نہ تھیں۔ اور ان نقصانات کے بعد وہ کسی میدان میں ایرانیوں کے لاتعداد لشکر کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ اس کے برعکس ایرانیوں پر گزشتہ شکستوں کا اثر ایک مہیب ہاتھی کے جسم پر چند زخموں کے اثرات سے زیادہ نہ تھا۔ ان حالات میں ہرقل کو شمال میں اُمید کی ایک ہلکی سی روشنی دکھائی دی۔ اس نے دریائے والگا کے اُس پار وسیع میدانوں میں پھیلے ہوئے ترک قبائل کے حکمران کی طرف دوستی کا پیغام بھیجا۔ اور یہ لوگ جو خزار کہلاتے تھے اپنے خیموں اور مویشیوں سمیت جارجیا کی طرف چل پڑے۔ ان جنگجو ترکوں کے حکمران کا نام زیبل تھا۔ ہرقل نے طفلس کے قریب اس کا خیر مقدم کیا اور اپنا تاج اُتار کر اس کے سر پر رکھتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ تم میرے بیٹے ہو۔ پھر اس کے ساتھ آنے والے سرداروں کے لیے ایک شاندار دعوت کا اہتمام کیا اور انہیں اپنے ہاتھ سے قیمتی قبائیں اور سونے اور جواہرات کے تحائف تقسیم کیے۔ اس کے بعد اس نے ترکوں کے جواں سال حکمران کے ساتھ تخیلے میں ملاقات کی اور اپنی حسین بیٹی ایڈوسیہ کی تصویر دکھانے کے بعد اس کے ساتھ شادی کا وعدہ کیا۔
ترک سردار اپنے حکمران کی اس غیر متوقع عزت افزائی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کے چالیس ہزار سوار ہرقل کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔ اب ہرقل کے لشکر کی تعداد مجموعی ستر ہزار سپاہیوں تک پہنچ چکی تھی۔ تاہم وہ وسطی ایران کی طرف پیش قدمی کرکے پرویز کے لاتعداد لشکر سے فوری تصادم کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہ تھا۔ چناں چہ وہ کچھ عرصہ تک کبھی آرمینیا اور کبھی شام کی چوکیوں پر حملے کرتا رہا۔ سربار کی قیادت میں باسفورس کے مشرقی کنارے پر ایرانی لشکر کے اجتماع نے ہرقل کے عقب کے لیے ایک مستقل خطرہ پیدا کردیا تھا۔ ان حالات میں اس کے لیے مشرق کی طرف پیش قدمی کرنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ لیکن قدرت نے ایک بار پھر اس کی مدد کی۔
ایک دن پرویز کا ایلچی (خلقدون کے ایرانی لشکر کا سپہ سالار) سربار کے نائب کے نام یہ حکمنامہ لے کر پہنچا کہ تم اپنے بزدل اور غدار سپہ سالار کا سر اُتار کر ہمارے پاس بھیج دو اور لشکر کی قیادت خود سنبھال لو۔ لیکن ایلچی نے پرویز کا یہ خط غلطی سے یا دیدہ و دانستہ سربار کے ہاتھ میں دے دیا۔ سربار کو اپنے بے رحم آقا کے متعلق پہلے بھی کوئی خوش فہمی نہ تھی۔ چناں چہ اس نے پرویز کی طرف سے ایک جعلی حکمنانہ تیار کیا اور اس میں فوج کے چار سو چیدہ چیدہ افسروں کے نام لکھ دیے۔ پھر اس نے اپنے افسروں کا اجلاس بلایا اور بھری مجلس میں پرویز کا حکم نامہ سنانے کے بعد اپنے نائب سے سوال کیا۔ ’’کسریٰ نے تمہیں ان چار سو افسروں کے سر قلم کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیا تم اس کام کے لیے تیار ہو؟‘‘۔
سربار کا نائب کوئی جواب نہ دے سکا۔ اور فوج کے سرداروں نے متفقہ طور پر اپنے ظالم حکمران کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن سربار نے ان کا جوش و خروش ٹھنڈا کرنے کے بعد کہا۔ ’’ہم اب رومیوں کے ساتھ شامل ہو کر اپنے ملک پر چڑھائی نہیں کریں گے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ ہم اس جنگ میں غیر جانب دار ہوجائیں‘‘۔ ایرانی سرداروں نے اپنے سپہ سالار کی یہ تجویز مان لی۔ اور سربار نے ہرقل کو یہ پیغام بھیج دیا کہ میرے سپاہی تمہارے خلاف آئندہ کسی جنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔ (بعض روایات کے مطابق یہ ایلچی پرویز کی طرف سے نہیں آیا تھا، بلکہ ہرقل نے ایرانی لشکر کو پرویز سے بدظن کرنے کے لیے ایک کامیاب سازش کی تھی)
خدائے رحمن و رحیم کے نام سے
محمدؐ پیغمبر کی طرف سے کسریٰ (رئیس فارس) کے نام
سلام ہے اُس شخص پر جو ہدایت کا پیرو ہو اور خدا اور اُس کے نبی پر ایمان لائے۔ اور یہ گواہی دے کہ خدا صرف ایک خدا ہے اور اُس نے مجھے ساری دُنیا کا پیغمبر مقرر کرکے بھیجا ہے، تا کہ وہ ہر زندہ شخص کو خدا کا خوف دلائے۔ تو اسلام قبول کر تو سلامت رہے گا، ورنہ مجوسیوں کا وبال تیری گردن پر ہوگا۔
کجکلاہ ایران کو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خط اُس وقت ملا جب کہ وہ اپنی شان و شوکت کے ساتھ دریائے کرسو کے کنارے پڑائو ڈالے ہوئے تھا۔ شام اور آرمینیا سے اُسے رومیوں کی پیش قدمی کے متعلق تشویش ناک خبریں آرہی تھیں، تاہم جنگ کے آخری نتائج کے متعلق اُسے کوئی پریشانی نہ تھی وہ دن کے وقت سیرو شکار سے اور رات کے وقت رقص و سرور اور مے نوشی کی محفلوں سے دل بہلاتا تھا اور اُس کے مصاحب ہر تشویش ناک خبر کے بعد اُسے یہ یقین دلانے کی کوشش کیا کرتے تھے کہ ہرقل اب ہلاکت کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ اور جب کسی کھلے میدان میں فیصلہ کن معرکہ ہوگا تو رومی لشکر کو مکمل تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور پرویز کی خود اعتمادی بلاوجہ نہ تھی۔ ایک فیصلہ کن جنگ کے لیے اُس کی محفوظ افواج کی تعداد رومیوں سے کئی گنا زیادہ تھی۔ میدانی علاقوں میں صرف اُس کے ہاتھیوں کی تعداد ہی ہرقل کے لشکر کو روندنے کے لیے کافی تھی۔ اس لیے وہ رومیوں کو اپنی آبائی سلطنت کی شمال مغربی حدود سے دو روکنے کی بجائے انہیں آگے بڑھنے کا موقع دے کر کسی ایسے میدان میں گھیرنا چاہتا تھا جہاں سے اُس کے لیے پیچھے ہٹنے کے تمام راستے مسدود ہوجائیں۔ (جاری ہے)