(یہ تقریر لکھنؤریڈیواسٹیشن سے ۵دسمبر ۱۹۴۶ء(مطابق ۱۰محرم) کی شام کو نشرہوئی۔اس میں مولانامرحوم نے بڑے بلیغ اورحکیمانہ اندازمیں واقعۂ کربلااوراس کے اثرات پرروشنی ڈالی ہے نیزاس کے پس منظر اورنتائج کوعام فہم اندازمیں پیش کیاہے، جس سے حضرت حسینؓ کی بے مثال قربانی اورصبروہمت کی تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔)
چشم تصوّر کے سامنے تاریخ عرب کے ایک قدیم بہت قدیم دورکولائیے، تاریخ اسلام سے بھی قدیم تر،اسمٰعیل ؑ پیمبرکی نسل میں ایک زبردست مرکزی شخصیت عبدالمناف کی ہے۔ چاربیٹوں کے باپ۔ ان چارمیں دوکے درمیان نفاق اورشقاق کی بنیاد پڑی۔ بڑے کا نام عبدشمس چھوٹے کانام ہاشم، اورباپ کی وفات کے بعد مخالفت کی آگ اوربڑھتی اور پھیلتی ہی گئی۔ بھائی بھائی کی مخالفت معاذاللہ !عبدشمس نے کہناچاہیے کہ قابیل کی سنگ دلی کی داستان زندہ کردی! ضدیہ تھی کہ ہاشم نے چھوٹے ہوکر اپنی صلاحیت سے اور اپنی بے پناہ دادودہش سے قوم کی سرداری اورپیشوائی کیسے حاصل کرلی۔ فردجرم کی دوسری دفعہ یہ تھی کہ ہاشم نے روم کے قیصر اورحبشہ کے نجاشی سے مل ملاکر اوران کے درباروں میں رسوخ پیدا کرکے تجارتی مراعات عربوں کے لیے کیوں حاصل کرلیں۔اورتیسرا عنوان یہ تھاکہ خانہ کعبہ کے انتظامات قوم نے اس کے سپردکیسے کردیے ۔
عرب کاکینہ’’ شترکینہ‘‘(وہ شخص جس کا کینہ اور کپٹ کبھی نہ نکلے۔ دلی عداوت، دشمنی) کی طرح ضرب المثل کی شہرت واہمیت رکھتاہے ۔ جب چھڑتی تو بس نسلوں تک چھڑی ہی رہتی ۔ عبدشمس کی وفات پرجب ان کے دلبند امیّہ جانشین ہوئے توہاشم کے ساتھ یہ عداوت بھی ورثہ میں پائی۔ نوبت یہ پہنچی کہ ایک دن بھتیجے نے چچا کو چیلنج ہی دے دیا۔ اورباقاعدہ مناظرہ ومقابلہ کی ٹھہرگئی۔ جج یاثالث قبیلۂ خزاعہ کے ایک کاہن تھے۔ فیصلہ امیّہ کے خلاف ہوا۔ چلیے اس دن سے عداوت کی جڑاورمضبوط ہوگئی، اور امیّہ کو شرائط کے مطابق نہ صرف پچاس اعلیٰ درجہ کے اونٹ ہارنے پڑے بلکہ خود بھی دس سال کے لیے جلاوطن ہوکرشام کوجاناپڑا۔ ان ہی ہاشم کی چوتھی پشت میں ولادت باسعادت ہمارے اورعرب کے سردار، سرورکائنات ﷺکی ہوئی، اورامیّہ کے صلب سے جو سلسلہ چلا اس میں دوپشتوں کے بعدتیسری پشت میں امیرمعاویہؓ پیداہوئے۔
رنجشیں اورعداوتیں ختم نہیں ہوئیں چلتی رہیں اوربڑھتی رہیں۔ رسول ہاشمی کی شخصیت کایہ اعجازتھاکہ یہ طوفان زری کی زری رُکااوربنی ہاشم سب نے آپ کی سرداری و پیشوائی کے آگے گردن جھکادی، بنی ہاشم نے عموماً اول اول اوربہ شوق، اوربنی امیہ نے عموماً رک رک کراورآپ ﷺکی فتوحات مشاہدہ کرلینے کے بعد۔ اس آفتاب عالمتاب ﷺ کا افق شہودسے غائب ہوناتھاکہ وہی تاریکیاں پھربڑھیں اورابھریں اوراب اورزیادہ شدومد سے تاریخ کے راوی کابیان ہے کہ آں حضرت ﷺکی زندگی ہی میں خاندان ہاشم کے ایک زبردست حریف نے کھلم کھلا کہہ ڈالاتھاکہ ’’بنی ہاشم نے تجارت میں ہم سے بڑھنا چاہا ہم نے مقابلہ کیا ۔شجاعت میں نام پیداکرنا چاہاہم نے اپنی جانوں کی بازی لگادی۔ اب یہ محمدﷺنے نبوت کاجودعویٰ شروع کردیا ہے اس کاہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔‘‘
خلافت یاجانشینیٔ رسول کے وقت قریب تھاکہ دبے دبائے فتنے پھرسے بھڑک اٹھیں، بزرگان قریش کی حکمت ودانائی کام آئی اورخلافت اول ودوم دونوں کے موقع پرانتخاب ایسے حضرات کاہوا، جوقریشی ہونے کے باوجودنہ ہاشمی تھے نہ اموی ۔تیسری خلافت کے موقع پر میدان انتخاب تنگ ہوکرایک ہاشمی اورایک اموی کے درمیان رہ گیا، اور دونوں کے تعلقات قرابت بھی رسول اللہ ﷺسے تقریباً یکساں ۔رسولﷺکے عہدسے اب بُعدبھی ۱۳سال کاہوچکا تھا۔ لیکن علی مرتضیٰ ؓکے صبروتحمل تسلیم ورضانے اب کی بھی جو بات بگڑچلی تھی اسے بنائے رکھا، اس پربھی جوواقعات اورحادثات پے درپے خلافت راشدہ کے دورسوم وچہارم میں پیش آتے رہے خواہ ان کے اسباب کچھ بھی ہوںاورذمہ داری جس حدتک جس فریق پربھی آتی ہو بہرحال ان سے یہ فتنہ خوب اچھی طرح پرورش پاتارہا اوراس عہد کے بعدتویہ قابوسے بالکل ہی باہر ہوگیا۔
اب ہجرت کے سنہ ۲۰ و۲۱میں آجائیے۔ حکومت وحاکمیت کوخاندان امیّہ کے ہاتھ میں آئے ہوئے سالہاسال ہوچکے ہیں۔ اوروسیع وعریض دنیائے اسلام اب دومستقل کیمپوں میں بٹ چکی ہے۔ ایک کامرکز عراق اوراس کاشہرکوفہ، دوسرے کامستقرشام اور اس کا شہردمشق ۔صوبۂ حجاز اورارض حرمین بین بین میں۔ تخت حکومت پرقابض ایک ایسا شخص جس کاماضی جو کچھ بھی رہاہو حال ومستقبل دونوں اخلاقی اعتبارسے دوست ودشمن سب کے نزدیک ایک ناقابل اطمینان، اورجس کی زندگی کوایک معیاری جانشینِ رسولؐ کی زندگی سے نسبت دور کی بھی نہیں ۔عین اسی فضااوراسی ماحول میں ایک قافلہ ارض حجاز سے سرزمین عراق کی طرف سفر کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ سالارقافلہ بنی ہاشم کے سرداراعظم، رسولؐکے محبوب نواسہ اورنورعین۔ خودسے نہیں آرہے ہیں، اہل عراق کی مسلسل درخواستوں پرمتواتر عرض داشتوں پرتشریف لارہے ہیں۔ قافلہ فوجیوں کا لشکر نہیں اورنہ ساتھ سامانِ جنگ ۔افراد قافلہ سالارقافلہ کے خاندان کی بیویاں ،کچھ قریب کے اعزاء اور کچھ مخلص رفیق اورجانثار خادم۔ مردچھوٹے بڑے سب ملاکر ۷۲۔ حکمرانِ وقت کے پیادے اورسوارراہ میں راستہ روک کرکھڑے ہوجاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ جب تک عہداطاعت نہ کروگے آگے قدم اٹھانے کی اجازت نہیں۔ رسولؐکے نواسہ جواب دیتے ہیں کہ ’’جنگ ومحاربہ میراہرگز مقصودنہیں۔ کوئی جنگ جو حریف بھلااس بے سروسامانی کے ساتھ بھی گھرسے نکلتاہے؟میں توصرف اس غیرعادلہ اورفاسقانہ نظام حکومت کی اطاعت اور تسلیم وقبول سے معذورہوں۔ اب ممکن تین صورتیں ہیں۔ یاتواپنے بادشاہ کے پاس لے چلو کہ میں اس سے سوال وجواب کرلوںگا۔ یہ نہیں منظورہے تومجھے ارض حجاز واپس جانے دو، میں سیاست سے الگ گوشہ نشین ہوکرعبادت اوردینی مشغلوں میں مصروف رہوںگا۔ اوریہ بھی گوارہ نہ ہوتومجھے مملکت اسلامی کی سرحدوں سے چلاجانے دو، میں منکروں اور کافروں سے مقابلہ وجہاد کرتارہوںگا۔‘‘ دنیاکی تاریخ میں اس سے زیادہ مصالحانہ و منصفانہ پیام کسی ایک فریق نے کسی دوسرے فریق کو کیوں دیا ہوگا؟
حکومت کے ایک نمائندہ ،صوبہ عراق کے اموی گورنر نے (جواپنی بدذاتی کے لیے ہی مشہورتھا) شریفانہ شرائط کویکلخت ٹھکرا دیا۔قوت کانشہ بھی سخت نشہ ہوتاہے اور پھر یہاں تونسلی عصبیت اورخاندانی منافرت کاجذبہ بھی پوری طرح کارفرماتھا۔ ان بے بصیرتوں نے حق وباطل کے سوال پر خالی الذہن ہوکرغورہی کب کیا؟ انھوںنے توصرف یہ دیکھاکہ پشتینی دشمنوں ہاشمیوں کامٹھی بھرگروہ اتفاق سے ہاتھ لگ گیاہے اوران کاسب سے بڑا لیڈر بھی ان کے ساتھ ہے۔ چلوموقع اچھاہے خطرہ کوہمیشہ کے لیے ختم نہ کردو۔ بہرحال جنگ کا اگراسے جنگ کہاجاسکے نتیجہ وہی نکلا جوسیکڑوں ہزاروں کے مجمع میں گنتی کے چندافرادکے گِھر جانے کا ہمیشہ ہی اس آب وگِل کی دنیامیں نکلاکرتاہے ۔واقعات، دردناک واقعات، آپ سب کے علم میں ہیں۔ نہ ان کے دہرانے کی حاجت نہ وقت میں اتنی گنجائش ۔ کام کی بات ہمارے آپ کے سب کے لیے تیرہ سوسال کی طویل مدت گزرجانے کے بعد بھی یہ ہے کہ (۱)مومنین متقین کے اس سردار نے جنگ ومحاربہ میں اپنی طرف سے کوئی پیش قدمی یاعجلت ہرگز نہیں کی، بلکہ ہرممکن کوشش اس کی کی کہ اپنی خودداری کے تحفظ کے ساتھ فضاامن وآشتی ہی کی قائم رہے۔ سیاسی گوشہ نشینی وطن سے ہجرت یہ سب چیزیں گواراکرلیں پرحتی الامکان کشت وخون کی راہ کوقبول نہ کیا۔ صحیح واصلی شجاعت کے معنی بھی یہی ہیں۔
(۲)جب جنگ کے سواچارہ نہ رہااور شمشیرزنی ناگزیرہوگئی توپھروہ دادشجاعت دی کہ دوست تودوست دشمن اورمخالف بھی اعتراف کیے بغیرنہ رہ سکے، حق پرجان دینا گوارہ کرلیا پرحکومتِ غیرعادلہ کی اطاعت کوقبول نہ کیا۔ توکل ایثار استقامت کے صحیح سبق دینے والی درس گاہ میدان کربلاہے۔
حادثہ نے تاریخ امت پرجوجواثرات ڈالے ان کی تفصیل توایک لمبے وقت کی محتاج ہے، مختصرلفظوں میں بس اتنا سن لیجیے کہ بنی امیّہ کی حکومت جن کی بنیادیں یوں بھی اپنی زیادتیوں کے باعث چندروزبعدہل جانے والی تھیں اس کے زوال وفنا کی رفتار اس حادثہ سے اورزیادہ تیز ہوگئی۔ اور دنیائے اسلام پریہ روشن ہوگیاکہ کوئی کلمہ گواگرکسی طریقہ سے تخت حکومت تک پہنچ جائے تویہ لازم نہیں آتاکہ وہ حق پرہے اوراس کی حکومت واجب الاطاعت بھی ہے۔
سیدنا حضرت حسینؓ نے اگراز خودکہیں حملہ کردیاہوتاتومخالفین کویقیناً یہ کہنے کا موقع مل جاتاکہ فوج کشی ملک گیری اورحصول سلطنت کے اغراض سے ہوئی، اور اگرکہیں حکومت فاسقہ کے مطالبۂ بیعت کومان لیاہوتاتودوسری طرف امت کے لیے ایک سند اور نظیر قائم ہوجاتی کہ مردحق پرست کے لیے باطل کی اطاعت اورفسق سے مفاہمت جائز و درست ہے۔ حسینؓ نے افراط وتفریط دونوں سے بچ کر وہ راستہ اختیارکیا جوعین عدل و اعتدال کی راہ تھا، اسوئہ حسینی ہمیشہ کے لیے امت کے حق میں دلیل راہ بن گیا۔ اورسنہ اسلامی کے پہلے عشرہ نے تقویم امت میں رُشد وہدایت کے نمونہ کے طورپرایک مستقل مقام حاصل کرلیا۔ ایک کہنے والے نے یہ بھی کہہ دیاتھاکہ حسنؓ اورحسینؓدونوں جوانانِ جنّت کے سردارہوںگے (عن ابی سعیدٍ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الحسنُ والحسینُ سیدا شباب اھل الجنّۃِ۔ (ترمذی شریف، باب المناقب، مناقب ابی محمدالحسن بن علیّ بن ابی طالب والحسین بن علی ابی طالبؓ)
ترجمہ:روایت ہے ابوسعیدؓ سے کہ رسول خدا ﷺنے فرمایاکہ حسنؓ اورحسینؓ دونوں سردارہیں جنت کے جوانوں کے۔ یہ حدیث حسن ہے۔ صحیح ہے۔)اوراس کہنے والے کی زبان ہمیشہ سچ ہی کھلتی تھی۔ پھرجوانانِ جنّت کی سرداری کیا بغیر اتنی عظیم الشان قربانی کے اتنے بڑے جہادنفس کے بے مثال ایثار و بے نفسی کے کیایوں ہی مل جاتی؟