بیٹیاں گھر کی رونق ہوتی ہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کائنات کی بہار انھی کے دَم سے ہے۔ دل سے اتنی نزدیک کہ جب شوہر کے گھر وداع ہوکر جائیں تب بھی والدین ان سے بے فکر نہیں ہوسکتے۔ اور زمانہ ایسا آگیا ہے کہ شادی کے چند دن بعد ہی دوطرفہ شکایتوں اور دکھوں کے سلسلے شروع ہوجاتے ہیں۔ وہ تعلق جو خوشیوںکے ساتھ جوڑے گئے تھے، غموں اور پریشانیوں کے ساتھ ختم ہوتے یا بگڑتے محسوس ہوتے ہیں۔
لگتا ہے ہماری تربیت میں کچھ کمی ہے کہ ایسا کچھ زیادہ ہورہا ہے۔ ہم مائیں ایسے میں کیا کریںکہ ایسا نہ ہو، خوشیاں دائمی ہوجائیں، سرد و گرم تو زندگی کا حصہ ہیں لیکن گھر اور دل نہ ٹوٹیں۔ کچھ باتیں بچیوں کی تربیت کے لیے ذہن میں آئیں تو وہ لکھ ڈالیں۔ ضروری نہیں کہ پڑھنے والے متفق ہوں، لیکن ایک دفعہ سوچیں ضرور اور لوگوں کو بھی بتائیں۔
1:بچیوںکی فطرت میں اللہ نے گھر اور اس کے کاموں سے اُنسیت رکھی ہے۔ چھوٹی سی ہوتی ہیں کہ آپ کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کے سامنے یہ نہ کہیں کہ بس تم پڑھائی پر دھیان دو سب کام آجائے گا۔
ایک جگہ جانا ہوا۔ گھر میں ایک بچی تھی شاید بائیس تئیس برس کی۔ میں نے خاتونِ خانہ سے پوچھا ’’آپ اکیلی ہوگئی ہیں تو بیٹی کام میں خوب ہاتھ بٹاتی ہوگی؟‘‘
کہنے لگیں ’’کہاں بھئی! بس اسے تو بچپن سے پڑھنے کا شوق ہے اسی میں لگی رہتی ہے۔‘‘
میں سوچنے لگی کہ یہ پڑھنے کا شوق شاید شادی پر ہی اختتام پذیر ہو، اُس وقت پریکٹیکل شروع ہوجائے گا، کیا اس کی تیاری کی ضرورت نہیں!
2: بچیوں کو پڑھنے کے ساتھ گھر اور اپنے آپ کو صاف ستھرا اور سلیقے سے رکھنا، بنیادی سلائی، ہلکا پھلکا کھانا پکانا، مہمان داری کرنا، خراب اور اچھے کھانے میں فرق کرنا، بازار سے آنے والی تیار شدہ اشیا اور دواؤں کی ایکسپائری ڈیٹ چیک کرنا، باورچی خانے اور دیگر استعمال میں آنے والی چیزوں کا دھیان رکھنا سکھائیں۔
میں نے دیکھا ہے کہ بچیوں کو بلامبالغہ بٹن ٹانکنا، ادھڑے کپڑے درست کرلینا، آملیٹ بنانا، خراب ہوجانے والے کھانے کو بو اور ذائقے سے پہچان لینا تک نہیں آتا۔ بجائے الگ سے کوئی بوجھ ڈالنے کے اسکول،کالج، یونیورسٹی کے بعد کے اوقات میں جتنا ممکن ہو اپنے ساتھ ساتھ لگائے رکھیں۔ اس دوران بچی سے اُس کے خوابوں کی باتیں کریں، اس کے منصوبے سنیں، اپنی سنائیں کہ کیسے آپ نے اس کی خاطر اپنے خواب تج دیے۔ کیسی طرح دار، کھلنڈری، خوب صورت زندگی سے بھرپورشخصیت تھی آپ کی۔ اُسے بتائیں کہ یہ سب کرکے آپ نقصان نہیں بلکہ فائدے میں رہیںکہ اب آپ کتنی معتبر، کتنی باوقار اور کتنی پُرکشش ہوگئی ہیں۔ سارا گھر آپ کے گرد گھومتا ہے۔ کنوار پنے کے K-2 کے پہاڑ پر جھنڈا لہرانے کے منصوبے آپ کو یہ سب کچھ نہیں دے سکتے تھے۔ عورت کے اصل مقام کے بارے میں بتائیں، امہات المومنین اور حضرت فاطمہؓ کا اسوہ بتائیے کہ گئی تھیں باپ سے باندی مانگنے اور وہ تسبیح لے کر آئیں جو انھی کے نام سے منسوب ہے۔ بتائیں کہ کتنے ہی کام ہوں یہ چھوٹی سی تسبیح کیسے آسان کردیتی ہے، کتنی جلد کروا دیتی ہے۔
3:ایسے کام دیں جن سے اس کی قوتِ کار بڑھے۔ ایک ہی طرح کی مصروفیات اوربیٹھ بیٹھ کر پڑھتے رہنے سے جسم محنت کا عادی نہیں رہتا۔ باورچی خانے کو صاف رکھنا، آٹا گوندھنا، روٹی پکانا، ماں کے لیے لہسن، پیاز اور سبزی کاٹ دینا، گھر کی صفائی، بہن بھائیوں کے چھوٹے موٹے کام، اپنے پیارے بابا کے کپڑے استری کرنا، ان کی چیزیں سنبھالنا، انہیں آتے ہی چائے پانی پوچھنا، موبائیل چھوڑ کر بیڈمنٹن، ٹینس وغیرہ جیسے کھیل کھیلنا، روزانہ چہل قدمی کرنا، گھر میں جگہ ہے تو باغبانی وغیرہ، مستقل چلت پھرت آئندہ زندگی کی شدید مصروفیت میں تھکنے نہیں دے گی۔ جسمانی محنت سے جسم کھلتا ہے، مضبوط ہوتا ہے۔ ہم اکثر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ڈاکٹرز پیسے بنانے کے لیے نارمل ڈلیوری کے بجائے آپریشن کر ڈالتی ہیں۔ تو واقعی حقیقی مسئلہ بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس میں زیادہ قصور ماؤںکا لگتا ہے جنہوں نے بچیوں کو محنت مشقت کی عادت ہی نہیں ڈالی کہ جسم اور اعصاب اس دنیا کی سب سے کڑی مشقت سہہ سکیں۔
جب بچیاں چھوٹی تھیں میں ان کے ساتھ کہیں مہمان گئی۔ خاتونِ خانہ کی نوعمر بچی ان کے ساتھ مستقل باورچی خانے میں مدد کروا رہی تھی جب کہ اس کے بورڈ کے امتحان بھی چل رہے تھے۔ میں نے کہا ’’کتنا کام کرواتی ہو، اس وقت اس کو پڑھنے دو۔‘‘ تو وہ چمک کر بولیں ’’اچھا! ماں بے چاری جس کے اور بھی بچے ہیں وہ اکیلی کام کرتی رہے اور بیٹی بیٹھی پڑھتی رہے! کل اس کو شوہرکے گھر میں بھی تو کام کرنا ہے، تو ماں تو زیادہ مستحق ہے کہ اس کی مدد کی جائے۔ بچیوں کو خوب تھکاؤ تاکہ بعد میں نہ تھکیں۔‘‘ ماشاء اللہ وہ بچی ہمیشہ بہترین نمبر لیتی رہی اور بھرے سسرال کو خوش اسلوبی سے لے کر چلنے والی بھی بنی۔ الحمدللہ بچیوں کی تربیت میں دوست کی اس بات نے بہت مدد دی۔
4: آج کل عمومی طور پر سسرال بہت اچھے ہوگئے ہیں، کام کا زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے اور لڑکے بھی بہت خیال رکھنے والے ہیں۔ لیکن گھر کے معمولی کاموںکے باوجود شوہر کے لازمی حقوق اور بچوں کی ذمے داری (جو اِن بچیوں کو خود ہی ادا کرنی ہے) میں ہی یہ معصوم جانیں ہلکان ہوئی جاتی ہیں۔ تب ان کی پیاری ماؤں پر بہت پیار آتا ہے اور دل چاہتا ہے کہ یہ شعر ان کی نذر کروں:
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دَم نکل جائے
5: زبان کا صحیح استعمال بھی سکھائیں کہ کہاں چپ رہنا ہے اور کہاںبولنا ہے اور کس طرح بولنا ہے۔ کرنا تو ہر ایک کو وہی ہوتا ہے جو اسے صحیح لگے لیکن ’’جی اچھا، ٹھیک ہے، کوشش کرتی ہوں‘ ان شاء اللہ‘‘ کہنے سے دوسرے کو تسلی ہو جاتی ہے۔
6: ہر گھر کے کچھ اصول اور طریقے ہوتے ہیں۔ کچھ عرصے تک لازمی انہیں لے کر چلنا ضروری ہے۔ ساس یا سسر گھر کے سربراہ ہیں۔ ان کی سربراہی کو تسلیم کرنا دراصل شہ کا مصاحب بننا ہے۔ ان کی بڑائی اور طریقوں کو خوش دلی سے تسلیم کرنے کی تعلیم دیں گی تو اِن شاء اللہ آپ کی بیٹی پر غالب کا یہ شعر صادق آئے گا:
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
7: میکے سے کوئی آنے والا ہو تو ساس کو اطلاع کرنے کی عادت ڈالیں۔ گھر میں بھی تو آپ کی اجازت سے اور آپ کے اوقات، مصروفیات اور سہولت دیکھ کر ہی کسی کو بلاتی تھی، کبھی یہ نہ سوچا کہ میرا گھر ہے، امی سے کیوں پوچھوں؟
بچی آپ سے شکایت کرے کہ ’’میں تو کسی کو بلا بھی نہیں سکتی‘‘ تو اسے سمجھائیں، جذبات کی رو میں بہہ کر یہ نہ کہیں کہ ’’بھئی تمہارے ہاں تو بڑی پابندیاں ہیں، اعلیٰ حکام اجازت دیں تو آؤ ورنہ نہیں، گھر تو تمھارا بھی ہے۔‘‘
اسی طرح اگر اسے میکے آنا ہو اور مشترکہ خاندانی نظام ہو تو پہلے سے گھر کے بڑے کو مطلع کر نے کی عادت ڈالیں تاکہ روزانہ کے کام کسی اور طرح یا کسی اور سے کروالیے جائیں۔ اگر شادی سے پہلے کوئی معمول تھا کہ ساری بہنیں ایک دن جمع ہوتی تھیں یا سب مل کر نانی کے ہاں جاتے تھے تو ضروری نہیں کہ اس معمول کو اسی طرح برقرار رکھا جائے۔ گھر بدل گیا تو سب بدل جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے وہاں بھی اس کی نندیں اسی دن آتی ہوں، وہ موجود ہوگی تو ان کو خوشی ہوگی۔ اگر جانا بہت ضروری ہے تو ایک دن پہلے ان کے لیے کچھ پکا کر، بیک کرکے، یا کچھ پھل، کیک، نمکو وغیرہ منگواکر رکھ دے، ان کے بچوں کے لیے خوشی کا کوئی سامان کردے۔ طریقے سے بتادے کہ آج میری سب بہنیں بھی جمع ہورہی ہیں۔ دعا بھی کرے۔ دلوں میں محبت ہوگی تو وہ لوگ خیال کریں گے اور فوراً نہ سہی کچھ دن بعد اجازت مل جائے گی۔
8: یہ بھی بتائیں کہ زیادتی سہنے اور خود ساختہ مظلوم بننے میں کیا فرق ہے۔ آج کل یہ بہت دیکھنے میں آرہا ہے کہ ظلم تو لوگ آرام سے برداشت کررہے ہیں لیکن چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل کا آزار، زندگی اور موت کا مسئلہ بنایا ہواہے۔
قرآن کلاس کی ایک طالبہ کہنے لگیں ’’میری بیٹی تو پتھروں سے سر پھوڑ رہی ہے۔‘‘ میں نے یاد کرایا کہ ہم نے پڑھا تھا کہ پتھروں سے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں۔ کبھی کوئی انھی میں سے اللہ کے خوف سے گر پڑتا ہے۔ بیٹی سے کہیں اپنے فرائض پورے کرتی رہے اور دعائیں کرتی رہے۔
اِن شاء اللہ انھی پتھروں سے محبت کے چشمیں پھوٹیں گے۔ بس کام اپنی پیاری کے دل میں محبت اور نرمی کی فصل اگانا ہے۔ اس فصل کو ہرا بھرا کرنا اللہ نے اپنے ذمے لیا ہے۔
مجھے سورہ حم السجدہ کی آیت34 بہت پیاری لگتی ہے:
(ترجمہ) ’’برائی اور بھلائی برابر نہیں ہوسکتے، تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، پس جس کے اور تمہارے درمیان عداوت تھی وہ دلی دوست بن جائے گا۔‘‘ آ گے کا ترجمہ بھی پڑھ لیں، مفہوم ہے ’’نہیں نصیب ہوتا یہ ظرف مگر صبر کرنے اور بڑے رتبے والوں کو۔‘‘
10:ہم کلاس میں اس آیت پر غور کررہے تھے۔ ہماری ایک طالبہ، جن کی بچی کی شادی ہونے والی تھی، غیر حاضر ہوگئیں۔ خیال ہوا کہ تیاریوں میں مصروف ہوں گی۔ لیکن ہفتے بعد وہ آئیں تو چہرہ بڑا مطمئن اور خوش۔ سبق کے بعد انہوں نے اس خوشی کا راز بیان کیا کہ جب یہ آیت پڑھی، سمجھی تو سوچا بچی کے جہیز میں دینے کے لیے تو سب سے قیمتی چیز اب ملی۔ خاندانی اختلافات اور دوریاں بہت تھیں، سب کو معاف کیا، سب سے ملی، سب کو کھانے پر الگ سے بلایا اور آپس میں دل صاف کیے۔ وہ بچی جو دل پر ددھیال والوں کی زیادتیوں کا بوجھ لے کر جارہی تھی ہلکی پھلکی ہوگئی۔ ہر طرف خیر ہی خیر نظر آنے لگی۔ بس بیٹیاں بڑی ہوجائیں یا رخصت ہونے لگیں تو اپنے دل کو سب کے لیے محبت اور نرمی سے بھر لیں، تمام گلے شکوے نکال دیں، ’’جانی دشمنوں‘‘ کو معاف کردیں۔ یہ چیز آپ کی بیٹیوں میں بھی منتقل ہوجائے گی، اور وہ اسے آگے بڑھائیں گی۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو پناہ بھی مانگی ’’سخت دلوں میں محبت کی فصل نہیں اگتی، جھاڑ جھنکاڑ ہی اُگتا ہے۔‘‘
11: سکھائیںکہ عمومی مسائل کو خودکیسے حل کرتے ہیں۔ آج کل تو گوگل، فیس بک اور واٹس ایپ ہے۔ موبائل کی وجہ سے ماں، بہنوں، دوستوں سے فوری رابطہ ہوجاتا ہے، لیکن یہ معصوم جانیں دنیا بھر کا علم حاصل کرکے بھی انسانی روّیوں اور قسموں کو سمجھنے میں بالکل کوری ہیں۔ مسئلہ جہاں پیدا ہوتا ہے وہیں رہتے ہوئے سلجھتا بھی ہے۔ باہر والا اس کی نوعیت کو، بتانے والے کی جذباتی کیفیت کے تحت سنتا سمجھتا ہے۔ اگر بیٹی ایسی کوئی بات کرے تو سب سے پہلے اپنے جذبات قابو میں رکھیں، اس سے کہہ دیں کہ سوچ کر بتائوں گی، تم بھی سوچو کیا کرسکتی ہو؟ دعا کریں کہ وہ خود مسئلہ حل کرلے، اور اگر وہ نہ کرسکے تو سوچ سمجھ کر کوئی حل بتائیں۔ اپنے آپ کو دوسروں کی جگہ رکھ کر دیکھیں۔
12: ہم دعائیں مانگتے ہیں کہ بیٹی کو قدردان لوگ ملیں۔ اسے یہ بھی سکھائیں کہ لوگوں، محبتوں اور نعمتوں کی قدر کیسے کی جاتی ہے۔ ’’ھل جزاؤلاحسا ن الا الاحسان‘‘کا مطلب بتائیں۔ ہم اور ہمارا میڈیا لڑکیوں کو صرف حقوق بتا رہا ہے، لینا سکھا رہا ہے چاہے جس طرح لیں۔ لیکن اللہ کا اور لوگوں کا شکر کرنا، نعمتوں کی قدردانی، قریبی لوگوں، نئے بننے والے رشتوں کی عنایتوں، محبتوں کو دل سے کیسے سراہا جاتا ہے، تسلیم کیا جاتا ہے، یہ کوئی نہیں بتاتا۔ تو یہاں بھی آپ کو ہی آگے آنا ہوگا۔
13: ان سب سے اوپر بچی کا قرآن سے رشتہ بنانا۔ زندگی جتنی مختصر ہو اس کے لوازمات لامحدود ہیں۔ اس میں اپنی ذاتی پہچان، اپنے وقار، اپنے ذہنی سکون کو برقرار رکھتے ہوئے ایک مسلمان عورت کو کس طرح اپنا کردار ادا کرنا ہے، کہاں کھلنا، کہاں بند ہونا‘ کہاں اٹھنا‘ کہاں جھکنا ہے‘ قرآن سے تعلق جڑا ہو تو درست رہنمائی ملتی ہے۔ ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ اور یہ ماں کی اوّلین ذمے داریوں میں سے ایک ہے کہ قرآن سے اپنا اور اُس کا رشتہ مضبوط کرے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم وہ آخری نسل ہیں کہ جو اُن پہلوؤںکی فکر کرتی ہے جو ایک اچھی خاندانی زندگی کے لیے میں نے بیان کیے، اور ہماری بچیاں بھی آنے والوں اورگزر جانے والوں کے درمیان ایک آخری کڑی ہیں۔ اس کے بعد جو وقت آرہا ہے اس میں شاید نہ یوں خاندان ہوں گے، نہ رسم و رواج۔ نہ اخلاص ہوگا، نہ مصلحتیں۔ تو اس آنے والے وقت اور ہمارے درمیان کی اس کڑی کو ہم کیوں نا ایسا کچھ دے جائیں کہ جو وہ آئندہ مسلمان نسل کو منتقل کرسکے۔