خاندان ۔۔۔سائبان

362

’’سدرہ بیٹا! آؤ میں تمہیں اپنے ہاتھ سے کھچڑی کھلا دوں، صبح سے تم نے کچھ نہیں کھایا۔‘‘ سلیمہ خاتون جو کہ سدرہ کی تائی امّاں تھیں، سدرہ ان سے بہت مانوس تھی۔ اس کی امی تو اس کے بچپن میں ہی اس کے بھائی کی ولادت کے دوران وفات پا گئی تھیں۔ بھائی کو بڑے تایا تائی نے گود لے لیا تھا۔ چھوٹی تائی کی کوئی اولاد نہ تھی، وہ مامتا کی ترسی ہوئی اس کی پرورش میں لگ گئیں۔ اللہ نے سدرہ کو ماں کا بہترین نعم البدل دے دیا تھا۔

ان کے علاوہ دادی بھی اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھیں۔ ماں کے بچھڑ جانے کی وجہ سے سدرہ ان کی لاڈلی پوتی تھی۔ اوپر کے فلور پر چچا کی فیملی اور برابر میں پھپھو رہتی تھیں، چچا روز شام کو اپنے بچوں کے ساتھ اسے بھی گھر کے نزدیکی پارک میں لے جاتے اور واپسی پر کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان دلاتے۔ پھپھو الگ صدقے واری جاتیں۔ ان کی بیٹیاں جو کہ سدرہ سے عمر میں کافی بڑی تھیں، جب بھی کسی دوست یا کالج کے فنکشن میں جاتیں سدرہ اُن کے ساتھ ہوتی۔

’’پھپھو! بھوک لگ رہی ہے، مجھے گھی اور گڑ ڈال کے میٹھی روٹی بنا دیجیے۔‘‘ اور پھپھو گھڑی کی چوتھائی میں اس کی فرمائش پوری کردیتیں۔ اُسے تِل کے لڈو اور سنگھاڑے بہت پسند تھے، سو وہ جب بھی سودا سلف لینے جاتیں اس کی من پسند چیزیں ضرور لاتیں۔ پھپھو کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ صبح جب وہ آفس جانے کے لیے تیار ہوتے تو سدرہ ان کو خداحافظ کہنے پہنچ جاتی، اور اکثر ناشتا ان ہی کے ساتھ کرتی۔ پھپھو کے ہاتھ کا بنا ناشتا عجب مزا دیتا، شاید اس لیے کہ اس میں اُن کا پیار بھی شامل ہوتا۔

بچپن میں اسے ماں کی بہت یاد آتی، ان کی کمی بھی محسوس ہوتی تھی اور وہ اکثر گھر والوں سے چھپ چھپ کے رویا بھی کرتی تھی، مگر جیسے جیسے وہ بڑی ہورہی تھی اس میں اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کے جذبات پروان چڑھ رہے تھے۔ اتنے قریبی رشتوں کا موجود ہونا اور ان کا بے تحاشا محبتیں نچھاور کرنا، سدرہ کو خود پر ناز کرنے پر مجبور کردیتا تھا۔ اس کی سہیلیاں اکثر اپنے گھر کے جھگڑوں کے بارے میں ذکر کرتی تھیں، بعض دوستوں کے تو امی ابو کے درمیان ہی اَن بَن رہتی تھی۔ تو وہ سوچتی کہ امی موجود نہ سہی ابو تو ہیں اور ایک ماں کی جگہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنی ساری ماؤں کی محبت سے نوازا ہے، مجھے تو واقعی اللہ کا شکرگزار ہونا چاہیے۔

وقت کے دھارے میں بہہ کر سدرہ کا بچپن جوانی کی دہلیز کو چھونے لگا۔ پڑھائی ابھی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ اپنوں اور غیروں سب طرف سے اس کے رشتے آنے لگے… آخر اس کے سب بڑوں نے آپس کے مشورے سے اس کے ہمسفر کا انتخاب کر ہی لیا۔

سعد بہت ہی محبت کرنے اور خیال رکھنے والے شوہر ثابت ہوئے۔ سدرہ کے ساس سسر تو حیات نہ تھے، صرف ایک جیٹھ کی فیملی ساتھ رہتی تھی۔ ان کے دو بچے تھے جو کہ ابھی کم عمر تھے۔ سدرہ کی شادی کو ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ اس کی جیٹھانی شوگر بڑھ جانے کی وجہ سے فالج کا شکار ہوگئیں۔ بچوں کی نگہداشت کا مسئلہ سامنے کھڑا تھا، مگر اتنے پیار کرنے والوں کے درمیان پل کر بڑی ہونے والی سدرہ کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ محبتیں کیسے بانٹی جاتی ہیں۔ اتنا عرصہ تمام رشتے داروں سے پیار سمیٹنے کے بعد اب پیار لوٹانے کی اس کی باری تھی، اور جب تک اس کی جیٹھانی پوری طرح صحت یاب نہیں ہوجاتیں اسے ان بچوں کے لیے ماں کا نعم البدل بننا تھا۔

حصہ