تجدید تو ہمیشہ نئے پن کی نوید ہوا کرتی ہے۔ تجدیدِ عہدِ وفا ہو یا تجدیدِ ایمان و عمل… نئے پن کا احساس اچھوتا ہی ہوتا ہے۔ مگر شومیِ قسمت کہ ہم نے ذکر چھیڑ دیا سرکاری اسکولوں کی تجدید کا۔ یہی موضوع اگر بیرونِ ملک کے سرکاری اسکولوں پر ہوتا تو اس موضوع کو بھی امیدوں کے پَر لگ جاتے۔ سرکاری اسکولوں کی تجدید یعنی رو بہ زوال سرکاری حال، کہ جس کا پرسانِ حال بھی کوئی نہیں۔
کام کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ یکے بعد دیگرے کئی مرتبہ سرکاری اداروں میں آنا جانا ہو ہی جاتا ہے۔ ان سرکاری اسکولوں کی بربادیوں کے نوحے تو سب ہی کی زبانی سنا کرتے ہیں۔ نہ تو سنانے والے کے پاس کوئی نئی داستان ہوتی ہے اور نہ ہی سننے والوں کو ان نوحوں سے کوئی سروکار ہوتا ہے۔ جس کے پاس وسائل ہیں اور تعلیم و تربیتِ اطفال کے لیے دھڑکتا ہوا دل بھی ہے تو وہ بلحاظِ ترتیبِ معاشی درجہ بندی ہی سہی، بچوں کو سرکاری اسکولوں کے بجائے نجی اسکولوں میں داخل کروانا زیادہ پسند کرتا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ غریب سے غریب افراد بھی یہ بات سمجھتے ہیں کہ ’’مفت تعلیم‘‘ کے نام پر ان کے بچوں کا قیمتی وقت برباد کرکے بھی ان سرکاری اسکولوں سے انہیں علم حاصل نہیں ہوسکتا، اس لیے ہزاروں نہ سہی ایک دو ہزار دے کر گلی کے نکڑ والے اسکول میں ہی پڑھانا زیادہ بہتر محسوس کرتے ہیں، یا مخیر قسم کے فلاحی اداروں کے اسکول سرکاری اسکولوں سے بدرجہا بہتر ہونے کے باعث ان کی ترجیح ہوتے ہیں۔
آج سے پچیس تیس برس پیشتر سرکاری تعلیمی اسکول روبہ زوال تو تھے لیکن تنزل کا عالم وہ نہیں تھا جو آج ہے۔
قصہ مختصر، ہم سرکاری اسکولوں کی حالتِ زار پر ایک نیا نوحہ لکھنے کے بجائے امید افزا گفتگو کرتے ہیں جس میں کچھ نیا اور اچھا ہونے کے امکانات اجاگر ہوئے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نجی تعلیمی ادارے اب مافیا کا روپ دھار چکے ہیں اور تمام نجی اسکولوں کی حالت دن بہ دن مستحکم ہوتی جا رہی ہے اور ان اسکولوں میں داخل بچوں کے والدین کی معاشی حالت مزید ابتری کا شکار ہے۔ ان کو دیکھ کر جو بات شدت سے محسوس ہوتی ہے وہ بے تحاشا اور بے بہا پیسے کا استعمال ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بوری بھر نوٹ طلبہ و طالبات کی علمی و ذہنی نشوونما پر اتنے نہیں لگتے جتنے ان اسکولوں کے تعارفی پروگرام، عمارتوں کی تزئین و آرائش سمیت اساتذہ کی ظاہری ٹپ ٹاپ پر لگا کرتے ہیں۔
ہم ان اداروں کے اخراجات کے مدارج کا جائزہ لے کر اپنے سرکاری اسکولوں کی تجدیدِ نو ان خطوط پر نہایت ارزاں قیمت میں کرسکتے ہیں۔ ہمارے سرکاری اسکولوں میں ٹائل اور تعمیراتی خوب صورتی بھلے سے نہ ہو مگر ان کے درودیوار سے ٹپکتی یاسیت، گندگی اور غلاظتوں کو صاف کرکے ایک صاف ستھرا بہترین ماحول ضرور دینے کی کوشش کی جائے۔ ان کے کلاس رومز میں گھوڑے، گائیں، بھینسیں، خچر اور گدھے باندھنے کے بجائے ان سب کو حکمران اپنی اوطاقوں میں باندھیں اور ان کلاس رومز کو صاف ستھرا کرکے صفائی والے عملے سے ایمان داری کے ساتھ کام لیا جائے تو اسکولوں کی خستہ حال عمارتیں بھی بیٹھنے کے قابل ہوسکیں گی۔
اپنے بھرتی کیے گئے اساتذہ کو گھروں میں تنخواہیں پہنچانے کے بجائے انہیں اسکولوں میں بلا کر پابند کیا جائے کہ چاہے کلاس میں چار بچے آئیں آپ پابندی کے ساتھ وقت پر کلاس لیں اور ختم کریں اور اپنی تمام تر علمی استعداد ان بچوں میں منتقل کرنے کی کوشش کریں۔ بچوں میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کے لیے جس طرح نجی اسکولوں میں مسابقت کا رویہ ابھارا جاتا ہے اور اچھی کاوشوں پر تقسیمِ انعامات کا سلسلہ ہوا کرتا ہے، سرکاری اسکولوں میں بھی انہی خطوط پر نہ صرف حوصلہ افزائی کی جائے بلکہ اچھی کارکردگی نہ دکھانے پر طالب علموں کو سرزنش اور تادیب بھی ویسے ہی کی جائے جیسا کہ نجی اسکولوں میں کی جاتی ہے، اور طالب علموں کے لیے استاد کی ناراضی کا تصور ہی سوہانِ روح ہوجائے۔ اس تعلق کی بنیاد پر رکھی جانے والی علمی و فکری بنیادیں اتنی مضبوط ہوں گی کہ انہیں ہلانا ممکن نہیں ہوسکتا۔
ہم جب بھی سرکاری اسکولوں کی تجدید کی بات کرتے ہیں تو ان کے تقابلی جائزے میں نجی اسکولوں کے رویّے اپنانے کی تجویز کبھی نہیں دیا کرتے، بلکہ ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ پیسے زیادہ خرچ کرکے یہ معیار لاتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نجی اسکولوں میں لگایا جانے والا سارا پیسہ مافیا کی جیب میں جاتا ہے اور چھوٹی چھوٹی کلاسوں کے تنگ و تاریک سے ماحول میں اساتذہ سے بھرپور محنت لی جاتی ہے، جس کی بنیاد پر جو تھوڑی بہت بہتری نظر آتی ہے وہ ان محنتی اساتذہ کی مرہونِ منت ہوتی ہے، جب کہ سرکاری اسکولوں کی بلند و بالا عالی شان عمارتیں اساتذہ کی حاضری و توجہ سے محرومی کے باعث وہ نتائج نہیں دے سکتیں جو چھوٹے چھوٹے نجی اسکولوں سے حاصل ہوا کرتے ہیں۔ جن نجی اسکولوں کی عمارتیں کشادہ اور بہتر حالت میں ہیں وہاں کی فیسیں ادا کرنے کی استطاعت عام پاکستانی نہیں رکھتا، جب کہ وہاں کی تعلیم کا معیار بھی ایسا ہے کہ نصف لاکھ کے قریب ماہانہ فیس دینے والے طالب علموں کو ٹیوشن کی مد میں بھی نصف لاکھ کے قریب ہی رقم لگانی پڑتی ہے۔
ایک جاننے والی خاتون کا ذکر کروں گی کہ انہوں نے سرکاری اسکول میں نوکری کے لیے بہت محنت کی۔ انتھک محنت کے ساتھ ساتھ وہ ایک نجی اسکول میں ٹیچر تھیں جہاں جان توڑ محنت کر کے بچوں کو پڑھاتی تھیں۔ بچوں کا کہنا تھا کہ ان سے اچھا حساب اور انگریزی کوئی سمجھا نہیں سکتا، یہاں تک کہ ان کی کوششیں رنگ لائیں اور آخرکار انہیں ایک سرکاری اسکول میں ’’پکی نوکری‘‘ مل گئی۔ اس کے بعد کبھی کسی نے انہیں پڑھاتے نہیں دیکھا، وہ اکثر یہ شکایت کرتی نظر آتی ہیں کہ سرکاری اسکولوں میں ’’حاضری‘‘ ہی نہیں ہوتی وہ کیا پڑھائیں اور کس کو پڑھائیں؟
ایسا کہتے ہوئے وہ نجی اسکول کی اپنی نوکری کو بھول جاتی ہیں کہ جب عید کے فوری بعد چار بچوں کی حاضری پر بھی پڑھانا پڑتا تھا اور ہفتے کے روز اکثر اضافی کلاسز کے نام پر ’’ورک لوڈ‘‘ کے مراحل بھی طے کرنا پڑتے تھے، اور یہی اس اسکول کی کامیابی کا باعث بھی تھے۔
نکات تو بہت ہیں کہ جو سرکاری اسکولوں میں تجدیدی نہج پر اپنائے جائیں تو بہتری کے غالب امکانات موجود ہیں۔ ذیل میں چند نکات درج کیے جارہے ہیں:
-1 طالب علموں کی بہترین کردار سازی کے لیے ضروری ہے کہ سفارشی بھرتیوں کے بجائے اہلیت کے مطابق بھرتیاں کی جائیں۔
2۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ عموماً ایک بڑے رقبے پر سرکاری اسکول کی عمارت ہوا کرتی ہے جو عدم توجہی اور بے ترتیبی کے باعث مطلوبہ معیار سے محروم ہوتی ہے۔ اس ضمن میں اسکول کی عمارت کی کشادگی اور وسعت کو طالب علموں کے وسیع تر مفاد کی خاطر استعمال میں لایا جائے۔ کھیل کے میدان اور ہم نصابی سرگرمیوں کے لیے آڈیٹوریم کی موجودگی اسکول کی جانب والدین اور طالب علموں کو متوجہ کرے گی۔
3۔ فنڈ کی عدم دستیابی کا رونا رونے کے بجائے اگر سربراہِ ادارہ کے ساتھ مل کر سب اساتذہ مالی ،جسمانی ،ذہنی اور عددی صلاحیتوں کو استعمال کرکے ادارے کی بنیاد مضبوط کرنے کی کوشش کریں تو یہ بہت اہم کاوش ثابت ہو سکتی ہے۔
4 ۔ طالب علموں کو تعلیم کی طرف عموماً اور اسکول کی طرف خصوصاً رغبت دلانے کے لیے ہم نصابی سرگرمیوں کا باقاعدہ نہ صرف آغاز کیا جائے بلکہ اس کی تشہیر بھی کی جائے تاکہ معیاری سرکاری اسکول ڈھونڈنے والوں کی نظرِ انتخاب کا باعث بنے۔
5 ۔ تمام اساتذہ پر نظر رکھنا تو مشکل ہے لیکن کوشش کی جائے کہ کم از کم سربراہِ ادارہ جسے منتخب کیا جائے اس کی شخصیت وکردار ایسا ہو جس کے آئینے میں اساتذہ اپنے لیے ضابطہ اخلاق مرتب کر سکیں۔
6۔ طالب علموں کے لیے بھی ہر خاص و عام کو دعوتِ عام کا معیار نہ ہو بلکہ داخلہ ٹیسٹ کا معیارمقابلے کے امتحان جیسا ہی ہو، تاکہ سرکاری اسکولوں کے بچے بھی اس امتحان کو خواب سمجھنے کے بجائے نجی اسکولوں کے بچوں کی طرح حقیقت میں دینے کی تیاری کے لیے تیار رہیں۔
7۔-نیلے اور پیلے اسکولوں کے فرق کا زمانہ بھلا کر ایک نئی جہت سے آگہی حاصل کرنے کی کوشش سرکاری اسکول اور بچوں کے والدین کے درمیان دوطرفہ ہو۔
8۔ ’’مالِ مفت دلِ بے رحم‘‘ کے مصداق من حیث القوم کہیں یا من حیث الانسان، جہاں ہمارا مال ہوتا ہے وہیں ہماری جان کھپتی ہے۔ چنانچہ یہ سرکاری اسکول بھلے سے مفت تعلیم دینے کی کوشش کر رہے ہیں مگر للہ ادھر کام کرنے والے اور ان سے فیض یاب ہونے والے سب افراد اپنی جانوں کو کھپا کر تو دیکھیں، مثبت نتائج سامنے نہ آئیں تو پھر کہیے گا۔ جدیدیت کا زمانہ ہے، سرکاری اسکولوں کے حوالے سے اپنے رویوں کی تجدید سے ہی سرکاری اسکولوں کی تجدید ہوگی۔