اندر کا آسمان

333

شام کے ٹھیک ساڑھے پانچ بجے انا مجھے وہیل چیئر پر بٹھا کر برآمدے تک لے آتی ہے ایسا روز ہی ہوتا ہے۔ دریچے سے آنے والی کرنیں نت نئے منظر بناتی ہیں۔ میں آسمان کی وسعتوں میں گم ہو جاتا ہوں۔ دور افق پر آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہوئے پرندے مجھے اپنے ساتھ کسی انجانے سفر پر نکل پڑنے کا پیغام دیتے ہیں۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے میری روح کو سہلاتے ہیں اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں آہستہ آہستہ فضاؤں میں تحلیل ہوتا جا رہا ہوں۔ سورج شفق کی لالی بکھیرتا ہوا اپنے گھر لوٹ رہا ہے۔ سارا آسمان تمتما اٹھا ہے۔ نارنجی شعاعوں نے ماحول کو خوابناک بنا دیا ہے۔

ایسے میں آسمان کے شمالی گوشے میں قرمزی بادل کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اڑتا ہوا چلا آ رہا ہے اب وہ قریب آ چکا ہے اور نگاہوں کے بالکل سامنے ہے۔ بڑا شریر ہے، دیکھتے ہی دیکھتے اس نے کئی آکار بنائے، کئی روپ بدلے، پہلے بلی؟ پھر بکری؟ پھر خرگوش اور اب ہرن!

آہا، کس قدر پیارا ہرنوٹا ہے۔

کیسی آزادی سے قلانچیں بھر رہا ہے۔ کاش اس کی طرح میں بھی اپنے بنگلے کے لان میں کھیل سکتا۔ مگر میری دنیا تو بس وہیل چیئرتک ہی محدود ہے۔

میراجی چاہتا ہے، اپنے ہم جولیوں کی طرح میں بھی کھیلوں کودوں یا ان میدانوں کی طرف جانکلوں جہاں جھرنے کے پاس وہ ہرنوٹا کلیلیں کر رہا ہے۔

اوہ، یہ ہرنوٹا اپنی چال کیسےبھول گیا؟ شاید وہ کسی خطرے کی بو سونگھ رہا ہے۔ تبھی تو ہراساں ہوکر ادھر ادھر دیکھ رہا ہے اور اپنی کنوتیاں رہ رہ کر گھما رہا ہے۔ اب سمجھا ہر نوٹا واقعی مصیبت میں پڑ گیا ہے۔ اس کی طرف لپکتا سرمئی غبار سیاہ دھبے میں تبدیل ہو رہا ہے۔ یا خدا، سیاہ دھبے نے بھیڑیے کی شبیہہ اختیار کر لی۔ بھیڑیا اپنی لپلپاتی زبان نکالے ہرنوٹے کے تعاقب میں ہے۔

اب کیا ہوگا؟ ہرنوٹا بھاگ رہا ہے اور وحشت زدہ نگاہوں سے پیچھے مڑ کر دیکھتا جا رہا ہے۔ بھیڑیا اعتماد کے نشے میں چور ہے۔ وہ اسے پلک جھپکتے میں جا لےگا۔ ہرنوٹا بے بس ہے۔ وہ آخر کب تک اپنی جان بچائےگا۔ اف، اس کی ٹانگیں تو ابھی سے جواب دینے لگی ہیں۔ بھیڑیے کی ایک نپی تلی جس۔۔۔ اور۔۔۔نہیں۔۔۔ میں یہ منظر اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکوں گا۔

اے خدا، اس سے پہلے کہ بھیڑیا اپنے ناپاک ارادے میں کامیاب ہو، تو غیب سے ہرنوٹے کی مدد کر۔ لگتا ہے دعا قبول ہوئی ہے۔

ابھی کچھ ہی دنوں پہلے مجھے بورڈنگ اسکول میں بھجوانے کے سارے انتظام مکمل کر لیے گئے تھے۔ لیکن ابو نے سختی سے منع کردیا اور میں بورڈنگ اسکول میں جھونکے جانے سے بچ گیا تھا۔

وہاں اس کنارے سے نیلے بادل کا ایک ہیولا سا نمودار ہوا ہے۔ کوئی اس طرف آ رہا ہے۔ دھویں کے مرغولے چھوڑتا وہ تیزی سے دوڑ رہا ہے۔ ہاں اب صاف نظر آنے لگا ہے۔ وہ ایک نرسنگھا ہے۔ اس کی رفتار لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی ہے۔ بھیڑیے نے اسے مڑ کر دیکھا ہے اسے زعم ہے کہ وہ اپنے نوکیلے دانتوں سے شکار کی گردن دبوچ سکتا ہے۔ ادھر ہرنوٹے کی بھی امید بندھ گئی ہے۔ اس کےپیروں میں جان سی پڑ گئی ہے۔ اے خدا تیرا لاکھ لاکھ شکر۔ اب میں اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں گا۔ شاباش میرے ہرن۔ بھیڑیا جب مغلوب ہونے لگتا ہے تو بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ جھپٹو، تمہارے مضبوط سینگ اس کے غرور کو چھیدنے کے لیے کافی ہیں۔ حملہ کرو، اسی طرح ڈٹے رہو۔۔۔ اچھال پھینکو اسے اپنےسینگوں سے۔ واہ، تم نے تو کمال ہی کردیا۔ میں نے کہا تھا نا، بھیڑیے نے آخر اپنی ہار مان لی۔

اب ذرا ہرنوٹے کی خبر، بھاگتے بھاگتے بے دم ہوچکا ہے۔ خوب چاٹو اس کا بدن۔۔۔ وہ دیکھو بھیڑیا دور بھاگا جا رہا ہے۔۔۔ اب تو غائب ہی ہو گیا۔

ارے، یہ کیا؟ تم بھی چل دیئے۔

تاریکی بڑھنے لگی ہے۔ انا نے ایک ایک کر کے، برآمدے کے سارے بلب روشن کر دیئے ہیں۔
شکریہ بہادر ہر۔۔۔ الوداع پیارے ہرنوٹے۔۔۔ اب میں بھی رخصت ہوتا ہوں۔
میرے ابو دفتر سے بس آتے ہی ہوں گے۔ اچھا خدا حافظ!

حصہ