مصرع موزوں کرلینے والا ہر شخص شاعر نہیں ہوتا ،ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کا ایک یادگار انٹریو

392

مقبول شاعر ضروری تو نہیں کہ اچھا شاعر بھی ہو۔ اچھا شاعر تو وہی ہے جو مشاعرے کے علاوہ تنہائی میں بھی قاری کا ساتھ دے سکے۔ کتنے ہی شعرا ایسے تھے جو مشآعروں کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے مگر بھُلا دیے گئے۔ جلوت و خلوت کا شاعر ہی واقعی شاعر ہوتا ہے اور یہ دو گونہ وصف کتنے شعرا کو نصیب ہے؟ شاید پیرزادہ قاسم میں کسی درجے پہ یہ خوبی ہو۔ نہ بھی ہو تو اس سے کسے انکار ہوگا کہگ ان کی عمر ساری شعر کہتے اور شعر سنانے کے لیے دنیا گھومتے گزری۔ جیسی نفاست اور سلجھائو شخصیت میں ہے‘ وہ کلام بلاغت نظام میں ہے۔ اللہ نے حُسن ظاہری کے ساتھ آواز میں لوچ اور رس بھی عطا کیا ہے۔ مشاعرے میں ترنم کا راگ چھیڑتے ہیں تو سماں بندھ جاتا ہے۔واہ واہ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔

پیرزادہ قاسم کے کلام کے معیار اور شاعری میں ان کے مقام کی بابت رائے دینا ہمارا منصب ہے نہ اس کے اہل ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان کے دو‘ تین اشعار نے ہماری تہذیب و سیاست کے المیوں کو اس خوب صورتی سے آشکار کیا ہے کہ یہ اشعار شعری و ادبی ذوق رکھنے والوں کو عموماً یاد ہو گئے ہیں:

خون سے جب جلا دیا ایک دِیا بجھا ہوا
پھر مجھے دے دیا گیا ایک دِیا بجھا ہوا

٭

شہر جب کرے تم سے علاجِ تیرگی
صاحبِ اختیار ہو آگ لگا دیا کرو

٭

عجب ہنر ہے کہ دانشوری کے پیکر میں
کسی کا ذہن کسی کی زباں لیے پھریے

ڈاکٹر پیرزادہ قاسم سائنس کے استاد رہے ہیں۔ 1978ء میں نیوکاسل یونی ورسٹی‘ انگلستان سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ لیکن ان کی شناخت شعر و ادب ہی سے ہے۔ سائنس کی تعلیم سے ان کے بہ قول ان کی شاعری کو یہ فائدہ پہنچا کہ ’’تخلیق کے لیے جو حقیقت پسندانہ فکر ضروری ہے‘ اس پر ایسی جلا ہو جاتی ہے کہ دنیا آئینہ خانہ معلوم ہونے لگتی ہے ار اس طرح تخیلی فکر کے بہت سے نایافتہ گوشے بھی گرفت میں آجاتے ہیں۔‘‘

شاعری کے علاوہ خطابت بھی پیرزادہ قاسم کا میدان ہے جس میں ان کی شخصیت اور علم و فکر کے جوہر اصلی کھلتے ہیں۔ اپنی بات‘ اپنے خیالات ایسے سلیقے سے‘ تہذیب و شائستگی اور قادر الکلامی سے پیش کرتے ہیں کہ سامع قائل نہ بھی ہو تو گھائل ضرور ہو جاتا ہے۔ اپنے اس وصف خاص کا انہیں بھی خوب اندازہ ہے۔ چنانچہ اپنی خطابت کو انہوںنے تقاضائے وقت سے ایسا جوڑا کہ وہ جامعہ کے منصب وائس چانسلری پر فائز کیے گئے۔ آٹھ برس تک افسرانہ شان و شوکت کے ساتھ وائس چانسلر رہتے ہوئے انہوں نے اپنی اعلیٰ تعلیمی درس گاہ کو علمی‘ تحقیقی اور انتظامی ترقی کے کن بلند مدارج تک پہنچایا۔ اس باب میں مورخ خاموش ہے‘ میں تو یہ جانتا ہوںکہ شعبۂ ابلاغ عامہ کا جب میںچیئرمین تھا اور ڈاکٹر صاحب وائس چانسلر تو میری استدعا پر انہوں نے شعبے کے ایف ایم ریڈیو کے لیے گرانٹ فراہم کی جس سے شعبے میں ایف ایم ریڈیو قائم ہوا۔ اس کی آج نشریات جاری ہیں۔ پھر انہی کی توجہ اور مساعی سے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے شعبے کی ادھوری عمارت کی تعمیر کے لیے تین ساڑھے تین کروڑ کی امداد دی جس سے عمارت مکمل ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کراچی یونی ورسٹی سے نکلے تو ڈاکٹر عاصم کی ضیا الدین یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بنا دیے گئے۔ تادمِ تحریر وہ اسی منصب پر ہیں۔

ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کا خاندانی پس منظر یہ ہے کہ ان کی ددھیال اور ننھیا دونوں کے خاندان ضلع بجنور کے ایک تاریخی قصبے سیوہارہ میں صدیوں تک آباد رہے۔ ننھیال مولویوں کا خاندان تھا تو ددھیال والے تعلیم و تدریس سے وابستہ تھے۔ والد ماجد ضیا صدیقی دلی میں بیسویں صدی کی دوسری دہائی سے پیشہ صحافت سے وابستہ رہے۔ تحریک پاکستان کے مؤقر اخبار ’’ڈان‘‘ میں بھی کام کیا۔

پیرزادہقاسم نے 8 فروری 1943 کو آنکھ کھولی۔ پانچ سال کی عمر میں کراچی آئے‘ گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن سے میٹرک‘ ڈی جے کالج سے انٹرمیڈیٹ اور 1966ء میں جامعہ کراچی سے حیاتی کییا میں ایم ایس سی کی سند حاصل کی اور بہ حیثیت لیکچرار شعبہ فعلیات میں اپنی ددھیالی روایت سے جڑ گئے۔

پیرزادہ قاسم کے مراسم و تعلقات کا دائرہ وسیع ہے اور اس اعتبار سے ان کی دنیاوی کامیابیوں‘ ترقیوں اور مناصب و اعزازات کی داستان طولانی ہے جس کا ذکر یہاں اس لیے غیر ضروری ہے کہ اردو ادب کا قاری ان کامیابیوں سے نہیں‘ ان اشعار سے یاد رکھے گا جو اشعار گواہی دیتے ہیں کہ شاعر کے معاملات دنیوی خواہ کچھ رہے ہوں مگر شاعری میں اس نے دامن سچائی کا تھامے رکھا۔

پیرزادہ قاسم کے دو شعری مجموعے ’’تند ہوا کے جشن میں‘ اور ’’شعلے پر زباں‘‘ چھپ چکے ہیں۔ ’’مجھے دعائوں میں یاد رکھیے‘‘ (2006ء) ان کے کلام کا انتخاب ہے جس میں غیر مطبوعہ کلام بھی شامل ہے۔

طاہر مسعود: شاعری سے آپ کی پہلی ملاقات کب‘ کہاں اور کیسے ہوئی؟

پیرزادہ قاسم: شاعری تو فطرت کے مظاہر میں سے ہے۔ حسن اور نغمہ‘ خیال اور احساس کو مہمیز کرتے ہیں اس لیے اوّلین تعارف تو ہمارے اطراف میں ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ لیکن شعر کی صورت میں شاعری سے پہلا تعارف میری والدہ کی اپنی کہی ہوئی یا دیگر شعرا کی وہ معروف نظمیں اور گیت وغیرہ تھے جو وہ نہایت مترنم آواز میں ’’لوری‘‘ کے طور پر مجھے سناتی تھیں۔ شعر کے خدوخال کیا ہوتے ہیں‘ اس کا اندازہ اسی وقت ہوا۔ میں نے اپنی والدہ کے فن میں ان کی شعری ادائیگی کی نقل بچپن میں ہی کی۔ یہی شعر کا اوّلین شعور تھا۔

طاہر مسعود: شاعر اتنی کثرت سے کیوں ہوتے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ شاعر کم ہوں لیکن اچھے ہوں؟

پیرزادہ قاسم: معاشرے میں کوئی بھی قدر نشوونما نہیں پا سکتی اگر اس کا کلچر موجود نہ ہو۔ ہمارے معاشرے میں شاعری کا کلچر موجود رہا ہے اسی لیے شاید شعرا کی تعداد زیادہ اور نمایاں ہوسکی۔ ویسے مصرع موزوں کرنا ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں۔ جو لوگ یہ کام کرسکتے ہیں ان کی تعداد عام لوگوں یا ان لوگوں کے مقابلے میں جو یہ کام نہیں کرسکتے بہت ہی کم ہے۔ البتہ ہر مصرع موزوں کر لینے والا شخص شاعر نہیں ہوتا۔ اس بھیڑ میں جس کا ذکر آپ کے سوال میں ہے۔ شاعر اور غیر شاعر سب کو یک جا کر دیا گیا۔ اچھا شاعر کے لیے تو اس بنیادی شرط سے ہٹ کر بھی بہت سی اور بھی شرائط ہو سکتی ہیں مثلاً اچھے شاعر کے لیے لازمی ہے کہ وہ اعلیٰ درجوں میں باخبر ہو‘ حساس ہو اور اس کی فطرت بلا کی اظہار طلب ہو۔

طاہر مسعود: بچپن کی کوئی یاد جو آپ کی شاعری کا تجربہ بنی ہو؟

پیرزادہ قاسم: اس وقت ایسی کوئی ایک بات ذہن میں نہیں آرہی ہے۔ بے شمار باتیں ہوسکتی ہیں۔ شخصی نفسیات اور خارجی شخصیت سب شاعری کا تجربہ بنتے ہیں۔

طاہر مسعود: کیا آپ کے لیے ممکن ہوگا کہ تین ناپسندیدہ شعرا کے نام آپ بتا سکیں؟

پیرزادہ قاسم: ایسے شعرا کی تعداد صرف تین نہیں ہے‘ بہت سے ہیں اس لیے تین کے نام لینا مناسب نہیں۔ مثلاً اختیر شیرانی کو کبھی دل چسپی سے نہیں پڑھ سکا۔

طاہر مسعود: کیا مشاعرے کی واہ واہ شاعری کے معیار کو متاثر کرنے کا سبب نہیں ہے؟

پیرزادہ قاسم: جان لینا چاہیے کہ مشاعرہ کوئی دقیع ادبی حوالہ ہرگز نہیں ہے۔ ستائش یا ناستائش مقبولیت یا کم مقبولیت مشاعرے کے حوالے سے اہم ہوسکتی ہے‘ شاعری اور ادبی قدوقامت کے لیے اہمیت نہیں رکھتی۔ مشاعرے کا ایک غیر مقبول شاعر اپنے ادبی قد و قامت کے بلند مقام پر ہو سکتا ہے۔ اسی طرح مشاعرہ کا ایک مقبول شاعر ادبی حیثیت سے کم تر بھی ہوسکتا ہے۔ شعر کی خوبی یہی ہے کہ وہ سماعت میں رہ کر بھی اور کاغذ پر چھپ کر بھی بامعنی گفتگو کرتا ہو اور متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

طاہر مسعود: کیا کبھی ایسا ہوا کہ جس شعر کو آپ نے حاصلِ غزل سمجھا ہو‘ مشاعرے میں اس پر داد نہ ملی ہو اور اس کے برعکس یہ بھی ہوا ہو کہ جس شعر کو آپ نے اہمیت نہ دی ہو‘ اس شعر نے مشاعرہ لوٹ لیا ہو؟

پیرزادہ قاسم: دراصل مشاعرے کے اکثر سامع ادب و شعر کا عمومی ذوق رکھنے والے اشخاص ہوتے ہیں۔ کوئی بہت گہری تہہ دار بات ابلاغ کی سطح پر مؤثر انداز میں ان تک نہیں پہنچ سکتی۔ جب کہ ایک پڑھا لکھا‘ بیدار خیال اور مفکرانہ طرز احساس رکھنے والا شاعر خاص طور پر غزل کے اشعار میں ’’گہری بات‘‘ کرتا ہے جس کا ابلاغ فوری اور سرسری نہیں ہوسکتا۔

طاہر مسعود: مادہ پرستی کے اس زمانے میں شعر و ادب کیا اب بھی بامعنی سرگرمی ہے؟

پیرزادہ قاسم: شعر و ادب تو اپنی اصل میں ایک بہت بامعنی اور ارفع کیفیت ہے‘ اس کا یہ منصب تو معنوی طور پر بھی کبھی کبھی تبدیل یا کم تر نہیں ہوسکتا۔ ہاں یہ ہوا ہے کہ ماضی قریب میں معاشرے نے ذرا تیزی سے اپنی ترجیحات بدلی ہیں۔ اس سے ادب کے مقام میں فرق پڑا ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اس زمانے میں اور آنے والے زمانے میں یا کسی بھی زمانے میں اگر ہم اچھے انسان‘ اچھی شخصیتیں‘ انسانی اقدار اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کرنے والے لوگ پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے تربیتی پروگراموں میں ادبیات کا حصہ ضرور ہوگا۔ ہمیں انسان چاہئیں نہ کہ مشینیں یا روبوٹ۔

طاہر مسعود: آپ نقاد کو کتنی اہمیت دیتے ہیں؟

پیرزادہ قاسم: تخلیق کار قاری اور نقاد کا گہرا رشتہ ہے۔ تنقیدی ادب کسی بھی ادبی سرمایہ کا اہم ترین حصہ ہوتا ہے۔ میرے نزدیک نقاد کی بہت اہمیت ہے اور بعض صورتوں میں تو ہمیں اسے تخلیق کار سے بھی زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ وہ اس لیے کہ تخلیق کار تو اپنے فن کے حصار میں رہتے ہوئے ایک بات کہتا ہے لیکن تنقید نگار کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس کہی گئی بات کی ہم رشتگی ایک وسیع سطح پر ڈھونڈے اور بیان کرے۔ اس کے لیے وسیع المطالعہ ہونا ضروری ہے۔ وہ تمام انسانی عوامل‘ نفسیاتی ضابطوں اور عالمگیر سطح پر تمام تحریکوںسے و اقف ہو اور اپنے اطراف پھیلی ہوئی دنیا اور ادب کی سطح پر تمام معاصر ادب پر نظر رکھتا ہو۔ اگر نظر دوڑائیں تو اس سطح کے نقاد نظر نہیںآتے۔ اس کام کو آسان سمجھ لیا گیا ہے۔ سرسری تجزیے اور تبصرے کو تنقید سمجھا جانے لگا ہے۔

طاہر مسعود: کیا شعر کہہ کر بھی آپ کو تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ خیال کہ آپ جو کچھ کہنا چاہتے تھے نہ کہہ سکے؟

پیرزادہ قاسم: تشنگی کا احساس تو رہتا ہے اور یہ ایک اچھی علامت ہے۔ یہ نہ ہو تو تخلیقی عمل رک جائے۔ تخلیق کار جس سطح پر سوچتا ہے اور پھر الفاظ کے پیراہن میں فکر کے خدوخال واضح ہوتے ہیں اس میں تخلیقی قوت اظہار میں ڈھلتے ہوئے ناکارگی (Entrophy) سے بھی گزرتی ہے اور یہی تشنگی کو برقرار رکھتی ہے۔ لیکن اگر ناکارگی بہت بڑھ جائے تو بات مجرد (Abstract) ہوتی چلی جاتی ہے جو کچھ کہنا چاہیں اور نہ کہا جاسکے تو پھر وہی بات کسی بدلی ہوئی شکل میںچہرہ نمائی کرتی ہے۔

طاہر مسعود: شاعری کے لیے مطالعہ کتنا ضروری ہے؟

پیرزادہ قاسم: شاعری کے لیے یا کسی بھی صنف سخن کے لیے مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ مطالعہ سے نہ صرف پوری روایت سے واقفیت ہوتی ہے بلکہ عصری شعور سے آگاہی کی بھی یہی ایک صورت ہے۔ لوگ صرف اور صرف قوتِ شعری کی بنیاد پر شعر کہہ سکتے ہیں اور فطرت و مشاہدات جو کچھ مہیا کرتا ہے اس سے کام چلا سکتے ہیں لیکن یہ سب کچھ سطحی اور محض فنی کارکردگی (Craft) ہی ہو سکتا ہے۔

طاہر مسعود: وہ نئے شعرا جن میں آپ کو امکانات نظر آتے ہوں؟

پیرزادہ قاسم: امکان نظر آنا بہت سطحی بات ہے اور یہ بات بہت سوں کے لیے کہی جاسکتی ہے۔ شاعری کا اصل جوہر کچھ اور ہے ہمیں اسی پر نظر رکھنی چاہیے۔

طاہر مسعود: جدید عہد کے پے چیدہ زندگی اور اس کے تجربات کا اظہار شاعری میں کس حد تک ہو رہا ہے؟

پیرزادہ قاسم: نئی شاعری یا آج کی شاعری کا یہ مقدر ہے کہ وہ بدلتی ہوئی زندگی اور ماہیت پذیر معاشرے کا پورا بوجھ اپنے کاندھوں پر سہار سکے اور وہ سہار رہی ہے۔ ہمارے شعرا خاص طور پر نئے اور تازہ کار شعرا کی نسل اپنے لمحۂ موجود کا اچھا احوال لکھ رہی ہے۔

طاہر مسعود: کیا آپ کو سائنس اور شاعری میں کوئی تضاد محسوس ہوا؟

پیرزادہ قاسم: سائنس اور شاعری بہر حال دو مختلف کیفیات ہیں۔ سائنس اشیا کے بارے میں‘ حیات کے بارے میں‘ کائنات کے بارے میں اپنے معنی اور اپنے مفاہیم رکھتی ہے۔ یہ حقائق تجربات سے ثابت اور سائنسی تفہیم کی کسوٹی پر کسے ہوئے ہوتے ہیں۔ شعر میں یہ صورت حال بہت Flaxable ہوتی ہے اور یہی اس کی خوش نمائی ہے اور اس سے وسعتِ فکر اور معنی آفرینی کا عمل جڑا ہوا ہے۔ لیکن میں ذاتی طور پر سائنس کی تعلیم و تربیت کو شعری فکر کی معاونت کرتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ اس سے نیا نقطۂ نظر اور ایک نیا منظر نامہ ترتیب پاتا ہے جو شعری فکر کو وسعت دیتا ہے۔

طاہر مسعود: سنا ہے عشق کا تجربہ شاعرانہ جذبات کو مہمیز کرتا ہے تو کیا شاعر کا ہمہ وقت اس تجربے سے گزرنا ضروری ہے؟

پیرزادہ قاسم: جذبۂ عشق شاعرانہ جذبات کو مہمیز کرتا ہے۔ لیکن صرف جذبہ عشق ہی نہیں اور بھی بہت کچھ ہے دیدۂ بینا‘ حساس ذہن اور اظہار طلب فکر ہو۔ البتہ عشق دل گدازی‘ محبت‘ ایثار اور درد مندی سب ہمارے ضمیر میں موجود ہوتے ہیں۔ ماحول ان کی نشوونما کرتا ہے اور انہیں نمایاںکرتا ہے۔ ذات کی گہرائیوں میں موجود ان جذبوں کی ہمیں محافظت کرنا چاہیے۔

طاہر مسعود: جدید شعرا بالعموم احساس کی شاعری کرتے ہیں جب کہ بڑی شاعری بڑے خیال سے پیدا ہوتی ہے۔ خیال کی شاعری نہ ہونے کی وجہ؟

پیرزادہ قاسم: یہ کہنا مناسب نہیں کہ جدید شعرا احساس کی شاعری ہی کرتے ہیں اگر احساس سے مراد Emotions یا جذبات سے ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ انسانی زندگی کے تمام تر عوامل جذبات کے ہی زیر اثر ہوتے ہیں‘ اس سے الگ کچھ نہیں اس لیے ذات اور شخصی سوچ کا زاویہ تو رہتا ہی ہے۔ اب زیادہ اہم معاملہ ذات اور بیرون ذات یا خارج سے تعامل یا Interction کا ہے اس سے شاعری میں Shades یا منظر نامے بنتے ہیں۔ اب رہی بات بڑی شاعری کی تو یہ بھی تفصیل طلب معاملہ ہے۔ بڑی شاعری کسے کہتے ہیں۔ خیال اور موضوع یقینا بڑا حوالہ ہیں لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ بعض شعرا نے چھوٹے موضوعات پر بڑی نظمیں لکھی ہیں اور بعض نے بڑے بڑے موضوعات پر نہایت چھوٹی نظمیں لکھیں۔ یہ بات بھی ہے کہ زمانے نے بہت ترقی کر لی ہے۔ علم کی وسعت بڑھ گئی ہے‘ نامعلوم سے معلوم کی جانب سفر نئی اور بہت برکتوں کے ساتھ ہمارے درمیان آیا ہے اور ابھی آگہی کی رونقیں بڑھیں گی ایسے میں بڑا خیال ہاتھ آجانا کئی معنوں میں مشکل بھی ہو گیا ہے۔

طاہر مسعود: نثری نظموں کی اب ایک شکل متعین ہوگئی ہے لیکن اسے قبول عام ابھی حاصل نہ ہوسکا ہے۔ اب بھی ایک بڑا طبقہ ایسا موجود ہے جو اسے شاعری تسلیم کرنے سے منکر ہے۔ آپ کا اس بارے میں کیا نقطہ نظر ہے؟

پیرزادہ قاسم: جب بھی نئے تجربات کسی ادب میں ہوتے ہیں یا نئی صنف سخن کو رواج دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایسی ہی صورت حال پیش آتی ہے۔ اس تمام پیش رفت کے باوجود بہ قول ڈاکٹر ابوالخیر کشفی نثری نظم ابھی اپنے ن۔م۔راشد کے انتظار میں ہے۔ ابھی نثری نظم تھکی تھکی گفتگو کر رہی ہے‘ اسے اس کیفیت سے نکلنا ہوگا۔

طاہر مسعود: اپنی شاعری کے بارے میں آپ کی رائے؟

پیرزادہ قاسم: میں نے اپنی زندگی اور اپنی شاعری میں تین باتوں کا خیال رکھنے کی کوشش کی ہے یعنی خیر کثیر‘ درد مندی اور شائستگی شاید اسی وجہ سے میری شاعری کو لوگ دل چسپی اور محبت سے پڑھتے اور پسند کرتے ہیں۔

طاہر مسعود: کسی نے لکھا ہے کہ شاعر اس وقت شعر کہتا ہے جب خاموشی اس کے لیے ناقابل برداشت ہو جائے‘ آپ کا کیا معاملہ ہے؟

پیرزادہ قاسم: شاعری صرف خاموشی یا ان کہی کا ردعمل نہیں ہے۔ شعر کے لیے کچھ اور بھی ہوتا ہے۔ مگر یہ بات آسانی سے بیان نہیں کی جاسکتی۔ Edmund Burke نے ایک جگہ عمدہ بات کہی ہے۔

An event has happened upon which it is difficult to speak and immpossible tobe silent event

یہاںجس “Event” کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ محض خاموشی نہیں ہے۔

حصہ