صحافت ،خدمت قومی ذمہ داری یا وسیلہ روزگار!

771

صحافت کی تاریخ:
ابتدائی صحافت کی معلوم تاریخ کے مطابق کہا جاتا ہے کہ قدیم روم میں59 قبل از مسیح ایک خبری ٹکڑا (News Sheet)جسے(Acta Diurna)کہا جاتا تھا،اس پرروزانہ کی بنیاد پر اہم واقعات اور عوامی خطابات تحریر کئے جاتے تھے۔جسے یومیہ شائع کیا جاتا تھا اور اسے عوام کی آگہی کے لئے شہروں کے نمایاں مقامات پر آویزاں کردیا جاتا تھا۔اسی طرح قدیم چین میں ٹانگ خاندان(Tang dynesty) کے عہد میں سرکاری حکام ایک عدالتی سرکلر جاری کیا کرتے تھے جسے (bao) یا رپورٹ کہا جاتا تھا۔اس گزٹ کا سلسلہ مختلف صورتوں اور مختلف ناموں سے1911ء میں چنگ خاندان (Qing dynesty) کے عہد کے اختتام تک برابر جاری رہا۔جبکہ جدید دنیا میں پہلے باقاعدہ اخبارات 1609ء میں جرمن شہروں اور انٹیوروپ سے شائع ہوئے۔ انگریزی زبان کا پہلا اخبار ہفت روزہ اخبار دی ویکلی نیوز1622ء میں شائع ہوااور سب سے پہلا روزنامہ The Daily Courant) ( 1702ء میں منظر عام پر آیا۔

صحافت کی تعریف:
صحیفہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی وہ چیزیں جن پر لکھا جاسکے۔ اسی مناسبت سے کاغذ کے ورق کے ایک جانب کے صفحہ کو صحیفہ بھی کہتے ہیں۔ جدید عربی میں صحیفہ بمعنی جریدہ اور اخبار بھی مستعمل ہے ۔آخری الہامی کتاب قرآن مجید میں لفظ ’’صحیفہ‘‘ آٹھ مقامات پر آیا ہے ۔جس سے لفظ صحافت کی تشکیل ہوئی ۔قرآن مجید میں قرطاس وقلم کا ذکر بھی موجود ہے ۔لہذااسی لئے صحافت کو پیغمبری پیشہ بھی کہا جاتا ہے ۔بعد ازاںصحیفہ نگاری یا نامہ نگاری کو ہی اردو میں صحافت کہا جانے لگا۔انگریزی زبان میں یہ لفظ(Journal)سے ماخوذ ہے۔جبکہ آج کل زبان زد عام میں شعبہ صحافت کو میڈیا کہا جاتا ہے ۔

ممتازصحافی، ادیب اور محقق اور سابق صدر شعبہ صحافت جامعہ پنجاب ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اپنی کتاب فن صحافت میں رقم طراز ہیں کہ:

’’ صحافت کا لفظ صحیفہ سے ماخذ ہے ،صحیفہ کے لغوی معنی کتاب یا رسالہ کے ہیں ۔عرصہ دراز سے صحیفہ سے مراد ایک ایسا مطبوعہ ہے جو مقررہ اوقات میں شائع ہوتا ہے ۔ چنانچہ تمام اخبارات اور رسائل صحیفہ میں شمار ہوتے ہیںاور جو لوگ اس کی ترتیب و تحسین اور تحریر سے وابستہ ہیں انہیں صحافی کہا جاتا ہے اور ان کے پیشہ کو صحافت کا نام دیا گیا ہے‘‘۔ انگریزی زبان کی ایک کتاب’’ صحافت: ایک تعارف‘‘ میں لیزی اسٹیفن نے صحافت کی تعریف یوں بیان کی ہے۔

’’ صحافت ان معاملات کو ضبط تحریر میں لاکر استفادہ کرنے کا نام ہے،جن کے بارے میں آپ کچھ نہیں جانتے۔‘‘

اسی طرح معروف عالمی جریدہ ٹائم میگزین(Time Magazine) کے ایرک ہوجنز کے خیال میں:

’’ صحافت،معلومات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ دیانت ،بصیرت اور رسائی سے ایسے انداز میں پہنچانے کا نام ہے،جس میں سچ کی بالا دستی ہو ‘‘۔

صحافت کا مفہوم بے حد وسیع ہے۔ آج کی صحافت محض فطری قوت تحریرہی نہیںبلکہ صحافت کے اعلیٰ اصولوں فن طباعت، زبان و بیاں، تاریخ، جغرافیہ، شہریت، ملکی اور بین الاقوامی سیاست، اقتصادیات، علم انتظامیہ، آئین و قانون اور عمرانیات جیسے متنوع موضوعات کا ادراک ہے۔ لہذا صحافت کی علمی قابلیت کے ساتھ ساتھ عملی تربیت اور تحقیق بھی یکساں ضروری ہے۔ صحافت کو ریاست کا ایک اہم ستون قرار دیا جاتا ہے۔ایک ایسا ستون جو دنیا بھر کی حکومتوں ،اداروں اور اہم شخصیات کے شب وروز اور نشیب و فراز میں انتہائی موثر کردار ادا کر رہا ہے۔ دور حاضر کی جدید ٹیکنالوجی ابلاغیات(Media)کو ایک موثر اور منظم سائنس کا درجہ دے چکی ہے۔

انسائیکلو پیڈیا آف امریکانا کے مطابق “Journalism is the collection of periodical dissemination of current news and events or more strictly the business of managing,editing or writnig for journals and newspapers”

برصغیر میں آغاز صحافت:
برصغیر میں برطانوی راج کے دوران صحافت کا باقاعدہ آغاز 29جنوری 1780ء کو کلکتہ میں ایک آئرش باشندہ جیمز آگسٹس ہکیز (1740-1802)کے ’’ہکیز بنگال گزٹ‘‘ نامی مطبوعہ اخبار کی اشاعت سے ہوا۔جبکہ 27مارچ 1822ء کو کلکتہ سے اردو زبان کا پہلا اخبار جام جہاں نما بھی منظر عام پر آیا۔لیکن اگر دیکھا جائے تو اردو زبان کا پہلا خالص اخبارہفت روزہ’’ دہلی اردو اخبار‘‘ تھا۔ جسے مولوی محمد باقر دہلوی (1780-1857)نے1837 ء میںدہلی سے جاری کیا تھا ۔یہ اخبارہندوستانی قوم پرستی کا زبردست حامی تھا اور 1857ء کی جنگ آزادی میں اس کا اہم کردار تھا۔مولوی محمد باقرنے اپنے اخبار دہلی کو جنگ آزادی1857ء کی خبروں کے لئے وقف کردیا تھا۔ اسی لئے انگریزوں کی جانب سے بغاوت پرغلبہ پانے کے بعد مولوی محمد باقر دہلوی تاج برطانیہ کے خلاف بغاوت کے جرم میں معتوب ٹہرائے گئے تھے۔ اور بالآخر انہیں ایک نا کردہ جرم کی پاداش میں کوئی مقدمہ چلائے بغیر توپ کے آگے کھڑا کرکے بارود سے اڑا دیا گیا تھا۔مولوی محمد باقر کو ہندوستان کی تحریک آزادی کے پہلے شہید صحافی کا اعزاز حاصل ہے۔

برصغیر میںایک دور میں معاشرہ پر اخبارات کے اتنے گہرے اثرات ہوا کرتے تھے کہ شائد دنیا کی کوئی طاقت بھی ان کے آگے نہ ٹہر سکتی تھی۔اس دور میں اخبار کو کاغذی دیو بھی کہا جاتا تھا۔اسی لئے اکبر الہ آبادی نے کہا تھا ۔!

کھینچوں نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
مقابل ہو توپ تو اخبار نکالو

رئیس الاحرار اور کامریڈ اور ہمدرد کے ایڈیٹرمولانا محمد علی جوہر(1878-1931) کی رائے میں’’ صحافی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ واقعات کو پوری صحت سے درج کرے اسے خیال رکھنا چاہئے کہ واقعاتی صحت کا معیار اس قدر بلند ہو کہ آنے والا مورخ اس کی تحریر کی بنیاد پہ تاریخ کا ڈھانچہ کھڑا کرسکے ۔صحافی رائے عامہ کا ترجمان ہی نہیں رہنما بھی ہوتا ہے۔ اسے صرف عوام الناس کی تائید اور حمایت نہیں کرنی چاہئے بلکہ صحافت کے منبر سے عوام کو درس بھی دینا چاہئے۔‘‘

اسی طرح گیا(بہار) ہندوستان کے ایک سابق آئی پی ایس افسراور مصنف معصوم عزیز کاظمی(ولادت1946ء) کے صحافت کے موضوع پرایک تحقیقی مقالہ کے مطابق ’’ صحافت خلاء میں جنم نہیں لیتی، بلکہ صحافت معاشرہ ،مملکت کی سچائیاں، تلخیاں، خوشگوار و ناخوشگوار واقعات، سیاست، مذہب، حادثات اور تجربات سماج کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں سب کچھ عیاں ہوتا ہے۔‘‘

صحافت کے بنیادی اصول:
صحافت کا پیشہ آزدی اظہار اور ریاست کے چار بنیادی ستونوں میں سے ایک ستون ہے ۔ماہرین نے صحافت کے چار بنیادی اخلاقی اصول متعین کئے گئے ہیں۔ اطلاع ، تنقید،اصلاح اور تحسین ۔کہتے ہیں کہ صحافت آزاد ہوتی ہے لیکن صحافی کبھی آزاد نہیں ہوسکتا کہ صحافی مصلح ہے۔ چنانچہ اخلاقیات کا سب سے اولین پابند صحافی ہی ہوتا ہے۔اگرچہ صحافت کا کوئی عالمی ضابطہ اخلاق مقرر نہیں، لیکن اس کے باوجود دنیا بھر کے خطوں میں صحافت کے تقریبا 242 مختلف ضابطہ اخلاق موجود ہیں ۔

اسلامی تعلیمات میں انسانی زندگی کے تمام شعبہ حیات بشمول صحافت کے لئے رہبری کا سبق موجود ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

’’ باطل کا رنگ چڑھاکر حق کو مشتبہ نہ بنائو اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو‘‘( القرآن، سورۃ البقرۃ42)

اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

’’جب تمارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لائے تو اچھی طرح چھان بین کرلیا کرو ،کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں تمہیں ندامت اٹھانی پڑے‘‘۔ (القرآن، سورۃ الحجرات6)

صحافی کی تعریف: صحافی سے مراد ایسا فرد جو کسی بھی معاملہ میں تحقیق اور پھر متن ،خبر، صوتی ، سمعی،بصری مواد اور تصاویر کی شکل میںجمع کرکے بڑے پیمانے پر قارئین، سامعین اور ناظرین تک پہنچائے،ایسے فرد کو صحافی اور اس عمل کو صحافت کہا جاتا ہے۔صحافتی امور میں تحریر، رپورٹنگ،پروف ریڈنگ، تصویر کشی،صدا بندی، فلمبندی،تدوین، ادارت، کالم نگاری،فیچر نگاری اور دستاویزی فلم بندی وغیرہ شامل ہیں۔

صحافت کی اقسام :
خبروں کے لحاظ سے صحافت کو دودرجات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔یعنی سخت خبریں (Hard News) اور نرم خبریں (Soft News) ۔

سخت خبروں اور نرم خبروں کی درجہ بندی اطلاعات کی فراہمی اور خبر کی نوعیت کی بنیادسے کی جاتی ہے۔سخت خبریں عموما سنجیدہ حقائق پر مبنی اسٹوریز یعنی سیاست، حالات حاضرہ ،حکومت کی کارکردگی، جرائم اور کاروبار پر مشتمل ہوتی ہیں۔

سخت خبریں (Hard News) :
تحقیقاتی صحافت: تحقیقاتی صحافت (Investigative Journalism) کا تعلق کسی خاص موضوع،، فرد ، ادارے،دلچسپی کے کسی موضوع یا کسی اہم واقعہ سے متعلق پوشیدہ سچائی یا حقائق کی بنیاد پردہ اٹھانا ہے۔تحقیقاتی صحافی (Investigative Journalist) حقائق کی تلاش کے لئے ان معاملات اور جملہ دستاویزات کا بغور مطالعہ کرتا ہے۔تحقیقاتی صحافی کو خبر کے حقائق کا کھوج لگانے کے دوران مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔پھر تحقیقات مکمل ہونے کے بعدصحافی اس تحقیقاتی خبر کوخصوصی خبر کی شکل دے کر جلی سرخیوں کے ساتھ اسکینڈلز کی صورت میں بے نقاب کرتا ہے۔لیکن متعلقہ دستاویزات تک رسائی اور حقائق کی تصدیق کے پیچیدہ طریقہ کار کے باعث بعض اوقات کسی ایک کیس کو مکمل کرنے میں مہینے اور سال تک لگ جاتے ہیں۔لہذا اس مقصد کے لئے کسی بھی تحقیقاتی صحافی کے پاس ٹھوس معلومات اور دوران تحقیق صبروتحمل اور استقامت کی ضرورت ہوتی ہے۔

سرکاری اداروں کی صحافت:
وفاقی،صوبائی اور مقامی حکومتوں اور دیگر سرکاری اداروں کے متعلق رپورٹنگ کو ایک انتہائی ذمہ دارانہ صحافت میں شمار کیا جاتا ہے۔بیشتر سینئر صحافی وفاقی ، صوبائی اداروں اور دیگر سرکاری اور خود مختار محکموں کی رپورٹنگ(Govt. Department Reporting) سے وابستہ ہیں۔ جو اپنی رپورٹوں ،خصوصی رپورٹوں اور خبروں کے ذریعہ عوامی محصولات کے ذریعہ چلنے والے ان قومی سرکاری اداروں کی خدمات اور کار گزاری اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان سرکاری اداروں کی کوتاہیوں، ناقص کارکردگی،اعلیٰ افسران کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال ،بے قاعدگیوں،غبن اور بدعنواینوں کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔ سرکاری اداروں کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں پر لازم ہے کہ وہ ملک کے آئین و قوانین ، مختلف وفاقی ،صوبائی اور خود مختارسرکاری اداروں کے قواعد و ضوابط، ان اداروں اورمحکموں کے فرائض اور ان اداروں اور محکموں کے افسران اعلیٰ کے فرائض و خدمات کے متعلق درکار معلومات رکھتے ہوں ۔

سیاسی شعبہ کی صحافت:
سیاسی صحافت(Political Journalism) کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔جن میں بین الاقوامی سیاست ، ملکی سیاست اور مقامی سیاست کی خبریں شامل ہیں۔ جو صحافی (Political Reporting) کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ انہیں آئین پاکستان، برصغیر کی سیاسی تاریخ، ملک کی سیاسی تاریخ، سیاسی جماعتوں،اہم سیاسی واقعات، سیاسی شخصیات، عام انتخابات کا طریقہ کار، سیاسی پالیسیوں اور ان کے اثرات و نتائج کی گہری سمجھ بوجھ ہونی چاہئے اور پھر ان خبروں میں اپنی ذاتی رائے شامل کئے بغیر بالکل غیر جانبدارانہ انداز میں ان سچی خبروں کو اپنے قارئین اور ناظرین تک پہنچانا چاہئے۔ یہاں یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ سیاسی رپورٹنگ ایک نہایت محتاط اور ذمہ دارانہ رویہ کی متقاضی ہے ۔ جس میں اگر آپ کی ذاتی رائے اثر انداز ہوگئی تو اپنے قارئین اور ناظرین کی نظروں میںآپ کی ساکھ بری طرح متاثر ہوسکتی ہے ۔

جرائم کی صحافت:
جرائم کی رپورٹنگ سے وابستہ صحافی(Crime Reporter) اپنے اخبار یا نیوز ٹی وی چینل کے لئے معاشرہ میں وقوع پذیر ہونے والے مختلف نوعیت کے جرائم، چوری، ڈکیتی ،قتل، اغواء ،حادثات اور اسمگلنگ وغیرہ کے واقعات اوراہم وارداتوں کی رپورٹنگ کرتا ہے۔ ملزمان کی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری، عدالتوں میں پیشی، مقدمات کی سماعت کے دوران عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ اور قیدیوں کے ساتھ غیر قانونی سلوک اور انہیں درپیش مسائل پر انٹرویو کرتا ہے۔ کسی انسان کے بہیمانہ قتل سے لے کر اسٹاک مارکیٹ میں شیئرز کی ہیرا پھیری تک جو بھی عمل خلاف ضابطہ اور خلاف قانون ہو وہ فوجداری جرم کے زمرہ میں آتا ہے۔ جرائم کا رپورٹر پراسرا رطور سے ہونے والے انسانی قتل یا کسی ادارہ میں رقوم کے غبن اور ہر نوعیت کے جرائم اور سزائوں کی خبروں کی بھی رپورٹنگ کرتا ہے۔ ایک جرائم رپورٹر کو ملک کے آئین و قانون، تعزیرات پاکستان ،قواعد و ضوابط، سمیت فوجداری قوانین کی دفعات، ایف آئی آر کے اندراج کا طریقہ کار اور دیوانی قوانین پر عبور ہونا چاہئے۔ ُٓں؁ کے مختلف واقعات کی رپورٹنگ کرتا ہے

عدالتی صحافت:
ملک میں ایک عرصہ سے جاری آئینی بحران اور سنگین بدعنوانیوںکے کیسوں کے باعث سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائی کورٹوں میں آئے دن کسی نا کسی اہم مسئلہ پرسماعت کی جاتی ہے ۔سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائی کورٹوں ،خصوصی احتساب عدالتوں میں پولیس، نیب اور ایف آئی اے کی جانب سے سنگین مالی بدعنوانیوں میں ملوث اہم سیاسی شخصیات اعلیٰ سرکاری افسران، اورسابق وزراء کوبے شمار مقدمات کا سامنا ہے۔ لہذا اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی اخبارات اور نیوز ٹی وی چینلز کی جانب سے عدالتوں میں زیر سماعت ان اہم مقدمات کی کارروائیوں کی رپورٹنگ کے لئے عدالتی رپورٹروں(Court Reporter) کو بھی تعینات کیا جانے لگاہے۔ عدالتی رپورٹروں کو آئین پاکستان، مجموعہ تعزیرات پاکستان کی متعلقہ قانونی دفعات، عدالتی طریقہ کار، نیب اور ایف آئی اے کے تادیبی کارروائیوں کے قوانین سے واقفیت ہونا لازمی ہے۔

سفارتی صحافت:
بعض قومی اخبارات کے سینئر اور تجربہ کار رپورٹرسفارتی رپورٹر(Diplomatic Reporter) کی حیثیت سے ملک میں غیر ملکی قائم سفارت خانوں،قونصل خانوں اور سفارت کاروں کی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ سفارتی رپورٹر کی ذمہ داریوں میں سفراء کرام اور سفارت کاروں کے انٹرویوز، دونوں ممالک کے باہمی تعلقات، دو طرفہ تجارت، در آمدات و برآمدات، دونوں ممالک کے عوام میں خیرسگالی اور دوروں اور ان ممالک کے قومی دن کی تقریبات کی رپورٹنگ شامل ہے ۔ سفارتی رپورٹنگ کا شمار رپورٹنگ کے اہم شعبہ میں کیا جاتا ہے۔

پارلیمانی صحافت:
پارلیمانی رپورٹر(Parliamentary Reporter)پارلیمنٹ ،سینیٹ آف پاکستان، قائمہ کمیٹیوں اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاسوں اور کارروائیوں،قانون سازی کے متعلق خبروں کی رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں اور ارکان سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کی مختلف اہم سرگرمیوں کے متعلق رپورٹنگ اور سیاسی تجزیئے پیش کرتے ہیں۔

بزنس/کامرس کی صحافت:
بزنس یا کامرس رپورٹر ملک کے بزنس اور کامرس کے شعبہ کی رپورٹنگ پر مامور ہوتے ہیں ۔کیونکہ اقتصادیات کا شعبہ کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملک کی اقتصادیات میں تجارت ،در آمدات و برآمدات کے اہداف،محصولات، اسٹاک مارکیٹ ، خام تیل و سونے کا بھائو،سالانہ بجٹ، سرکاری ترقیاتی منصوبوں ،سرمایہ کاری ، صنعت تعمیرات، رئیل اسٹیٹ، صنعتی پیداوار ،اشیائے صرف ،بینک دولت پاکستان دیگربینک، کاروباری اور تجارتی ادارے کلیدی حیثیت کے حامل ہیں۔بزنس کے شعبہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں انگریزی کا ایک قدیم روزنامہ بزنس ریکارڈر کراچی اور روزنامہ بیوپار کراچی اقتصادیات کے شعبہ پر خصوصی روزناموں کی منفردحیثیت رکھتے ہیں۔ بزنس رپورٹر کے لئے ملک کی اقتصادیات کے بنیادی امور، سرکاری تجارتی اور کاروباری پالیسیوں، مالیاتی اداروں، کرنسی کے اتار چڑھائو، اسٹاک مارکیٹ کے نظام اور شیئرز کے روز مرہ سودوں، بینک دولت پاکستان کی مالیاتی اور تجارتی پالیسیوں ،شرح سود، محصولات ،ملک کے تجارتی اہداف ، سالانہ وفاقی اور صوبائی بجٹ کے متعلق ٹھوس معلومات ہونا بے حد ضروری ہیں۔

نرم خبریں (Soft News)
فنون /(Arts)کلچرل صحافت:
فنون اور کلچرکے شعبہ کی رپورٹنگ فن اور ثقافت کے مختلف شعبوں رقص،موسیقی، ، فلم ،تھیئٹر، ادب ،مصوری ،ڈرامہ اور شاعری کا احاطہ کرتی ہے ۔ فنون اور کلچر کا رپورٹر شائقین فنون کے لئے تازہ ترین خبریں مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ فنون اور ثقافت کی دنیا میں رونما ہونے والی سرگرمیوں، نت نئی پیش رفت اور معاشرہ میں جنم لینے والے نئے رحجانات کی رپورٹنگ اور تجزیہ پیش کرتا ہے ۔

شو بزشخصیات (Celebrity) کی صحافت:
نامور شو بزشخصیات (Celebrity) کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں اور فوٹو گرافروں کی ذمہ داری نامور اور مقبول شو بزشخصیات کے متعلق ان کی نجی زندگی ، رومان،اسکینڈلز، ان کی ذاتی سرگرمیوں، آنے والی فلموں اور پبلک پروگراموں میں شرکت کی تازہ ترین خبریں جمع کرنا ہے۔ شوبز صحافی ان شو بز شخصیات کے لاکھوں مداحوں کے لئے ان کے ذاتی انٹرویو،سرگرمیوں اور گپ شپ کی بھی رپورٹنگ کرتا ہے۔ کیونکہ دنیا بھر میں ان نامور شو بزشخصیات کے لاکھوں مداح اپنی پسندیدہ شو بزشخصیات کی سرگرمیوں اوران کے آئندہ فلموں، ڈراموں اور شوز کے متعلق تازہ معلوت میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔

شعبہ تعلیم کی صحافت:
تعلیمی رپورٹر(Educational Reporter) شعبہ تعلیم میں ہونے والی اہم پیش رفت،تعلیمی اداروں کی سرگرمیوں، طلبہ کودرپیش مسائل سمیت اس شعبہ میں رونما ہونے والے دیگر اہم واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ تعلیمی رپورٹرز اسکول کی سطح سے یونیورسٹی تک تعلیمی اداروں کے نصاب،درس و تدریس ،سرکاری تعلیمی پالیسیوں، ان پرعملدر آمد، تعلیمی نظام کی خرابیوں، داخلہ پالیسیوں، بھاری فیسوں اورامتحانات کے دوران بے قاعدگیوں جیسے اہم مسائل اجاگر کرتے ہیں۔ تعلیمی رپورٹر کے لئے ضروری ہے کہ وہ ملک میں رائج جملہ نظام تعلیم،تعلیمی نصاب، محکمہ تعلیم ،تعلیمی بورڈز ،کالجز، یونیورسٹی دینی مدارس،دارالعلوم،وفاق المدارس العربیہ پاکستان،کیمبرج سسٹم اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے طریقہ کار متعلق کماحقہ معلومات رکھتے ہوں۔

شعبہ صحت کی صحافت:
صحت رپورٹر (Health Reporter) کی بنیادی ذمہ داریوں میں حکومت کی جانب سے عوام الناس کی صحت کی دیکھ بھال اور علاج و معالجہ کی فراہمی کا جائزہ لینا،عوام میں متعدی اور وبائی امراض،بچائو کے ٹیکہ جات، اور دیگر عام امراض کے متعلق شعور اور آگہی فراہم کرنے، وزارت صحت، محکمہ صحت اور مقامی حکومتوں کے تحت قائم شفا خانوں کی خدمات و کارکردگی کا جائزہ لینا ، ڈاکٹروں اور طبی عملہ کی کارکردگی پر نظر رکھنا،مریضوں کے لئے ادویات کی فراہمی کے نظام اور علاج و معالجہ کی خدمات اور کارکردگی اور مختلف پیچیدہ امراض پر تحقیق اور ان امراض کے جدید طریقہ علاج پر ماہرین امراض اور ڈاکٹروں سے بات چیت کی رپورٹنگ کرنا ہے۔

اسپورٹس کی صحافت:
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اسپورٹس رپورٹر (Sports Reporter) مختلف انڈور اور آئوٹ ڈور کھیلوں،مختلف کھیلوں کے ملکی اور غیر سطح کے مقابلوں، نامور کھلاڑیوں سے بات چیت اوراسپورٹس کے شعبہ کے اہم حالات اور واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ اسپورٹس کے شعبہ سے وابستہ صحافیوں کے لئے کھیلوں کے براہ راست مقابلوں میں ذاتی طور پر شرکت اور براہ راست میچز دیکھنے کے مواقعوں سمیت ملک اور بیرون ملک سفر کی مراعات کے ساتھ ساتھ نامور کھلاڑیوں سے بات چیت،ملاقاتوں اور انٹرویوز کے اضافی مواقع بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس شعبہ سے وابستہ رہنے کے خواہشمند صحافیوں کے لئے مختلف کھیلوں کے قواعد وقوانین سے واقفیت کے ساتھ انگریزی زبان پر عبور ضروری ہے۔

لائف اسٹائل کی صحافت:
کچھ عرصہ سے لوگوں میں طرز زندگی(Life Style) کے متعلق نت نئی معلومات کے حصول اور دلچسپی کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے۔ اس مقصد کے لئے بعض بڑے اخبارات خصوصا انگریزی اخبارات میں لائف اسٹائل رپورٹر(Life Style Reporter) خدمات انجام دیتے ہیں۔جو اپنے قارئین اور ناظرین کو ملکی اور غیر ملکی تفریحی مشاغل،رقص و موسیقی، کھانے پکانے، باغبانی، تفریح، گھر کی سجاوٹ ،فیشن، فٹنس ، صحت مند اور متوازن خوراک کی عادات اور صحت مند زندگی گزارنے کے گر بتاتے ہیں۔

شعبہ محنت کی صحافت:
شعبہ محنت ملک کی زراعت، صنعت و حرفت، معیشت، پیداوار اور ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔اس وقت ملک کی افرادی قوت(Labour force) تقریباً ساڑھے سات کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس ملک بھر کے پرنٹ، الیکٹرونک اور ڈیجیٹل میڈیا میں اس اہم اور مظلوم طبقہ کی کوئی نمائندگی نہیں۔قومی ذرائع ابلاغ نے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کے حامل کروڑوں مظلوم محنت کشوں، ہاریوں، کارکنوں، ملازمین،گھریلو ملازمین اور ازخود ملازمین کو یکسر نظر انداز کر رکھا ہے۔ جو قوم کے اس اکثریتی طبقہ کے ساتھ سخت امتیازی سلوک اورسنگین حق تلفی کے مترادف ہے ۔ملک کے کسی بھی سندھی، اردو اور انگریزی اخبار کو ان مظلوم محنت کشوں کو درپیش غیر یقینی ملازمتوں قلیل اجرتوں ،طویل اوقات کار اور علاج و معالجہ سے محرومی ،کام کی جگہ صحت و حفاظت کی سہولیات کی عدم دستیابی جیسے سنگین مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ملک کے ان کروڑوں محنت کشوں کو درپیش سنگین مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے کسی بھی اردو یا انگریزی قومی روزنامہ میں کوئی مزدور رپورٹر (Labour Reporter)مقرر نہیں ہے۔بلکہ اخبارات اور نیوز چینلز پر محض بزنس اور کامرس اور دیگر رپورٹرز کے ذریعہ محدود پیمانے پر شعبہ محنت کی رپورٹنگ کرائی جارہی ہے۔

صرف ملک کے واحد روزنامہ جسارت کراچی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس اخبار میں گزشتہ 32 برسوں سے ایک مزدور رہنماء اور سینئر صحافی قاضی سراج العابدین اپنی ذاتی دلچسپی اور ذوق و شوق سے خبروں اور رپورٹنگ کے ذریعہ ملک بھر کے محنت کشوں کو درپیش مسائل کو بھرپور طریقہ سے اجاگر کرتے ہیں۔روزنامہ جسارت کراچی میں قاضی سراج کی نگرانی میں ہر پیر کے دن مکمل صفحہ پر مشتمل صفحہ محنت کش شائع ہوتا ہے۔

تصویری صحافت:
جدید صحافت میں تصویری صحافی(Photo Journalist) کا کردارانتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اخبارات میں خبروں کے ساتھ تصاویر کی جدت 19ویں صدی میں متعارف ہوئی تھی ۔تصویری صحافت میں خبر کو تصویر کی شکل میںبیان کیا جاتا ہے۔کیونکہ بعض اوقات ایک فوٹوگرافر صحافی کی جانب سے لی گئی تصویر اتنی بڑی حقیقت بیان کردیتی ہے کہ اس حقیقت کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اخبارات میں خبر کے ساتھ تصاویر کو ثبوت کے طور پر بھی شائع کیا جاتا ہے۔ اخبارات و جرائد میں خدمات انجام دینے والے پیشہ ور اور تجربہ کار فوٹو گرافر صحافی شہر میں ہونے والی روز مرہ سرگرمیوں، اہم واقعات عوامی و سیاسی اجتماعات ، اجلاسوں، کھیلوں کے مقابلوں،احتجاجی مظاہروں جلسے اور جلوسوں وغیرہ کی تصاویر بناتے ہیں۔

بعض اوقات فوٹو گرافر صحافی انتہائی نامساعد حالات اورسخت موسمی حالات کے باوجود اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتے ہیں۔فوٹوگرافر صحافی قدرتی آفات،عوامی احتجاجوں،بلوہ فساد اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ان مناظر کو اپنے کیمروں میں قید کرلیتے ہیں ۔ ان فوٹو گرافرصحافیوں کی بنائی گئی ماحولیات، قدرتی مناظر، کھیلوں کے مقابلوں اور یا کسی خاص واقعہ کی تصاویر کو اخبارات و جرائد میں متعلقہ خبر کے ساتھ اور بعض اوقات ایک علیحدہ سے کیپشن کے ساتھ بھی شائع کیا جاتا ہے۔

اساتذہ صحافی :
شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے بیشتر سینئر اور انتہائی تجربہ کار صحافی حضرات مختلف ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں شعبہ صحافت کی درس و تدریس سے منسلک ہیں ۔جہاں وہ شعبہ صحافت میں نوجوان نسل کو صحافت کی اعلیٰ تعلیم اور تربیت کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں۔ ان اساتذہ کرام نے صحافت کے موضوعات پر متعدد تحقیقی اور معلوماتی کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔

کالم نگاری کی صحافت:
جدید صحافت میں کالم نگاری(Columnist) کوبے حد اہمیت حاصل ہے۔کسی اخباری کالم کی بنیاد موضوع، اسلوب اور مشاہدہ ہوتے ہیں۔ کالم کی اقسام میں سیاسی کالم ، سنجیدہ کالم، معاشی کالم، قانونی کالم ،طبی کالم اور دینی کالم شامل ہیں۔ جن نامور ادیبوں نے صحافت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیاان میں بیشتر کالم نگار کے طور پر معروف ہیں۔بیشتر ادیبوں اور صحافیوں کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ بھی اخبارات و جرائد کے لئے کالم نگاری کریں۔ملک میں بیشتر سینئر صحافی اردو، انگریزی اور سندھی اخبارات میں حالات حاضرہ، سیاست،ادب ،مزاح، تاریخ اور عمرانیات سمیت متعدد موضوعات پر ایک طویل عرصہ سے مستقل طور پر کالم نگاری کر رہے ہیں اور ان کے کالم قارئین میں بیحد مقبول ہیں۔

فیچر نگا ری کی صحافی:
فیچر(Feature) انگریزی زبان کا لفظ ہے۔جس کے لغوی معنی کسی چیز کے نمایاں نقش، چہرہ مہرہ ،وضع قطع اور خد و خال ہیں اصناف صحافت میں ایک صنف فیچر نگاری بھی ہے فیچر نویسی سے مراد کسی اخبار کے میگزین کے لئے کسی خاص موضوع کے متعلق ڈرامائی اور افسانوی انداز میں لکھی گئی ایسی تحریر ہے جس کے ذریعہ قارئین کو دلچسپ انداز میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔فیچر کا متن، تعار،ف ذرائع، زاویئے اور ڈھانچہ کسی خبر کے مقابلہ میں زیادہ طویل اور تحقیقی ہوتاہے ۔ فیچر کی اقسام میںنیوز فیچر ،خلاقی فیچر، سماجی فیچر ،تربیتی فیچر اورسوانحی فیچر وغیرہ شامل ہیں۔ایک معروف امریکی صحافی اور مصنف ایچ کلارنس کہتے ہیں کہ ’’ صحافتی تحریروںمیں فیچر نگاری کو ایک ایسا منفرد مقام حاصل ہے کہ جو اخبارات کو دوامی شہرت بھی بخش سکتا ہے۔جس کی بدولت ایک فیچر نگار ایک بہترین مبصر اور اپنے زمانہ کے مسائل کا ترجمان بن سکتا ہے‘‘۔

ملک میں ہر اخبار کے میگزین میں ہر ہفتے مختلف موضوعات پر دلچسپ فیچر شائع ہوتے ہیں، جو قارئین میں نہایت دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ شعبہ صحافت کی ترقی و ترویج اور فروغ کے لئے قائم پاکستانی اخبارات و جرائد کے مالکان کی انجمن آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی(APNS) کی جانب سے شعبہ صحافت کے دیگر موضوعات کے علاوہ فیچر نگاری کے شعبہ میں بھی بہترین فیچر نویسی پر منتخب صحافیوں کو انعامات بھی دیئے جاتے ہیں۔

کارٹونسٹ صحافت:
لفظ کارٹون لاطینی لفظCartone اور ولندیزی لفظKaton سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی ہیں مضبوط اور بھاری کاغذ۔ پرنٹ میڈیا میں کارٹون کو ایک فن پارہ کی حیثت حاصل ہے اور کارٹون کو سب سے پہلے برطانوی مزاحیہ جریدہ ’’ پنچ میگزین ‘‘ نے 1843ء میں اپنے صفحات پر استعمال کیا تھا۔صحافت کی رو سے کارٹون کو صحافت کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔کارٹون کو اخبارات ،جرائد میں روازانہ یا ہفتہ واری بنیادپر حالات حاضرہ یا کسی توجہ طلب موضوع یا درپیش مسئلہ کو گرافک کی شکلوں کے ذریعہ اجاگر کیا جاتا ہے۔ صحافتی کارٹون موجودہ مواصلات کا سب سے طاقتور عنصر ہے۔ملک کے تقریباً تمام قومی اخبارات کے ادارتی صفحات پر کارٹونسٹ صحافی مختلف موضوعات پر اپنے فنکارانہ مزاحیہ اور طنز آمیز انداز فکر کے ذریعہ اظہار کرتے ہیں۔

نمائندگان صحافت:
ملک کے بعض سینئر اور انتہائی تجربہ کار صحافی معروف عالمی خبر رساں اداروں اور اخبارات اور نیوزٹی وی چینلز کی جانب سے ان کی پاکستان میں بطور نمائندہ (Correspondent) نمائندگی کرتے ہیں اور ان صحافیوں کی جانب سے ملک کی سیاسی و اقتصادی صورت حال،حالات حاضرہ، اہم واقعات اور دلچسپی کے دیگر موضوعات پر مبنی تحقیقی مضامین اورنیوز رپورٹیں ان عالمی اشاعتی اورنشریاتی اداروں میںشائع اور نشر ہوتی رہتی ہیں۔

صحافتی مصنّفین :
ملک کے بعض سینئر صحافی کسی صحافتی ادارے میں باقاعدہ ملازمتوں کے بجائے بطور مصنف صحافی (Author Journalist) تحقیق، تصنیف اور تالیف کے شعبہ سے بھی وابستہ ہیں۔ جس کے تحت یہ سینئر اور تجربہ کار صحافی حضرات وقتا فوقتا تاریخ، سیاست اور صحافت اور دیگر اہم موضوعات پراپنی کتابیں شائع کرتے رہتے ہیں۔ (جاری ہے)

حصہ