ہم میں سے کون ہے جو نیک نامی نہیں چاہتا؟ انتہائی بدنام انسان سے بھی پوچھیے تو وہ یہی کہے گا کہ نیک نامی سے بڑی دولت تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُنہیں نیک نامی کسی طور مل ہی نہیں سکتی وہ بھی چاہتے ہیں کہ دنیا اُنہیں احترام کی نظر سے دیکھے اور سراہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ نیک نامی کی خواہش انسان میں جبلی اور فطری طور پر موجود ہے۔ ہر انسان کی ایک بنیادی خواہش یہ ہے کہ لوگ اُسے کا ذکر اچھے الفاظ میں کریں، اُسے جب یاد کریں تب تھوڑی بہت ستائش بھی کریں۔ اس خواہش کو تکمیل سے ہم کنار کرنے کے لیے انسان بہت کچھ کرتا ہے۔ جو لوگ سر سے پاؤں تک گناہوں میں لتھڑے ہوئے ہوتے ہیں وہ بھی کچھ نہ کچھ ایسا کرتے ہیں جس سے لوگوں کی اُن کے بارے میں رائے بہتر ہوجائے۔ اس کے لیے پہلے مرحلے میں دولت خرچ کی جاتی ہے، دوسرے مرحلے میں لوگوں سے میل جول بڑھایا جاتا ہے، اُنہیں اشتراکِ عمل کا یقین دلایا جاتا ہے، مصیبت کی گھڑی میں ساتھ کھڑے ہونے کا احساس دلایا جاتا ہے۔
آپ مزاجاً کیسے واقع ہوئے ہیں؟ بہت میٹھے یا بہت کڑوے؟ بہت میٹھے یعنی سب کی خدمت کے لیے ہر وقت حاضر۔ جو لوگ دوسروں کے کام آنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں اُنہیں سبھی احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ جب مفادِ عامہ کے معاملات میں کسی کو آگے بڑھتا ہوا، خدمات انجام دیتا ہوا دیکھتے ہیں تو خود بھی ایسا ہی بننے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ خدمت کا حقیقی، بے لوث جذبہ کچھ اور چیز ہے اور کسی کے لیے اپنی خدمات پیش کرکے نیک نامی کا خواہش مند ہونا کچھ اور بات۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ دوسروں کی مدد کے لیے تیار ضرور رہتے ہیں مگر کسی نہ کسی مقصد کے تحت۔ اس مقصد کی تکمیل کی صورت میں اُن کے ذہن و دل کو تھوڑا سکون میسر آتا ہے۔
فرض کیجیے آپ ٹرین میں سفر کر رہے ہیں۔ موسم بہت اچھا ہے۔ آپ نظاروں سے محظوظ ہورہے ہیں۔ آپ کے ساتھ چند اور مسافر بھی بیٹھے ہیں۔ ایسے میں ایک صاحب اپنا کوئی مسئلہ بیان کرنے لگتے ہیں۔ لوگ اُن کی طرف متوجہ نہیں ہوتے کیونکہ سبھی موسم کی رنگینی سے محظوظ ہورہے ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی کسی کا کوئی ذاتی نوعیت کا مسئلہ سننے کے لیے تیار نہیں۔ فطری سی بات ہے، ایسے ماحول میں کوئی کسی کا دکھڑا کیوں سنے! جب وہ صاحب آپ کی طرف دیکھتے ہیں تو آپ کو رحم آجاتا ہے۔ آپ اُن کی بات سنتے ہیں، صرف اس خیال سے کہ اس آدمی کے دل کا بوجھ کچھ تو ہلکا ہوجائے۔ موسم حسین و دل نشین ہے مگر آپ کچھ دیر کے لیے اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ساتھی مسافر کی بات سنتے ہیں، اس کا مسئلہ جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے دل کی بات آپ کو سناکر وہ خاصی فرحت محسوس کرتا ہے اور آپ کو بھی اس بات سے خاصی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ آپ نے اُس کے دل کو بوجھ کچھ تو کم کیا۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ میٹنگ کے دوران جب تفصیلات نوٹ کرنے کی بات آتی ہے تو کوئی بھی آگے نہیں بڑھتا۔ ایسے میں آپ رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ میٹنگ کی تفصیلات فضا میں تحلیل نہ ہوں بلکہ تحریری صورت میں موجود ہوں تاکہ اُن کی مدد سے کسی فیصلے تک پہنچنے اور حالات کا تجزیہ کرنے میں آسانی رہے۔
شاید آپ ایک ایسے انسان ہیں جو کسی کی بھی استدعا پر اپنی خدمات پیش کرنے، پریشانی دور کرنے کے لیے تیار و بے تاب رہتا ہے۔ کبھی کبھی تو شاید آپ کسی کی استدعا کا بھی انتظار نہیں کرتے اور اپنی خدمات بخوشی پیش کردیتے ہیں۔ دوسروں کے لیے اچھا ہونا، کام آنا اچھی بات ہے اور آپ کو یہ بات پسند ہے کہ لوگ آپ کو توجہ دینے والے، احساس کرنے والے اور مدد پر آمادہ رہنے والے انسان کی حیثیت سے یاد رکھیں۔ ممکن ہے آپ کی خواہش ہو کہ لوگ آپ کو قربانی دینے والے، ایثار کا مظاہرہ کرنے والے انسان کی حیثیت سے بیان کریں، یاد رکھیں۔
آپ سوچیں گے یہ سب کچھ بہت اچھا ہے۔ اس سے اچھی بات بھلا کیا ہوسکتی ہے کہ لوگ آپ کو اچھے لفظوں میں یاد رکھیں، آپ کا ذکر کرتے رہیں، آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتے رہیں؟ یہ تو کسی بھی انسان کے لیے بہت ہی آئیڈیل بات ہوسکتی ہے، اور اس میں کوئی شک بھی نہیں۔ ہر اُس انسان کو اپنے آپ پر فخر ہونا چاہیے جو دوسروں کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہو۔ یہ تو ہوئی عمومی بات۔ نفسی امور کے ماہرین مگر کچھ اور ہی کہتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ جو لوگ ہر وقت دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہتے ہیں، اپنے وقت اور توانائی کو دوسروں کے لیے بہ رُوئے کار لانے میں دیر نہیں لگاتے اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے وہ کبھی کبھی شدید ذہنی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب، ماہرین کے نزدیک، یہ ہے کہ دوسروں کے لیے بہت زیادہ اچھا ہونا، ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش میں اپنے وجود کو نظر انداز کرنا ذہنی پیچیدگیوں کو جنم دیتا ہے۔ گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔ وقت کو اس پہلو سے دیکھنے والے کم ہیں۔ کبھی کبھی یہ احساس بہت شدت سے ذہن کو گھیرتا ہے کہ اچھا خاصا وقت گزر چکا ہے اور اپنے آپ پر خاطر خواہ حد تک توجہ نہیں دی جاسکی، خیال نہیں رکھا جاسکا۔ جو لوگ سب کو خوش رکھنا چاہتے ہیں وہ اپنے آپ کو دھیرے دھیرے ایسی ذہنی الجھنوں کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں جو بالآخر ان کی زندگی کو شدید عدم توازن سے دوچار کرکے دم لیتی ہیں۔
کیریئر سے متعلق امور کے جرمن مشیر مارٹن وہرل کہتے ہیں ”دوسروں کے کام آنا اچھی بات ہے۔ دوسروں کی مدد کرکے انسان کو خوشی ملتی ہے۔ دل کو سکون بخشنے کا یہ ایک اچھا ذریعہ اور طریقہ ہے، مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو دوسروں کے لیے وقف کردے تو اس کا اپنا وجود غیر متوازن ہوکر رہ جاتا ہے۔ اگر آپ ہمیشہ دوسروں کی خواہشات کے سامنے جھکتے رہیں گے تو اپنے وجود کو بری طرح نظرانداز کرتے رہیں گے۔“
ہم اس حقیقت کو کیوں نظرانداز کردیتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت بھی محدود ہے اور توانائی بھی۔ جو کچھ بھی ہم کرسکتے ہیں اس کے لیے وقت اور توانائی دونوں ہی کا ہونا لازم ہے۔ ان دونوں مدوں میں ہمیں جو کچھ بھی ملتا ہے وہ چونکہ محدود ہوتا ہے اس لیے ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہے۔ اگر آپ دوسروں کی خواہشات کے آگے جھکتے رہیں گے، ان کی مدد کرنے کے نام پر اپنے وجود کو نظرانداز کرتے رہیں گے تو آپ کے لیے مشکلات جمع ہوتی جائیں گی، اور جب وہ بے نقاب ہوں گی تب آپ حیران رہ جائیں گے اور ابتدائی مرحلے میں تو کچھ سمجھ ہی نہیں پائیں گے۔
کسی کی مدد کرنے میں بظاہر کوئی قباحت نہیں، مگر چند امور کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ جو مدد کا طالب ہو اس کے بارے میں آپ کو اچھی طرح معلوم ہو کہ وہ مدد کا مستحق ہے بھی یا نہیں۔ اگر وہ کسی بھی کام کے لیے خرچ کرسکتا ہو تو پھر آپ سے مدد کے لیے کہنے کا کوئی جواز نہیں۔ اگر کوئی شخص کسی چیز کو خریدنے کی پوری سکت رکھتا ہو تو اس بات کا کوئی جواز نہیں بنتا کہ آپ سے وہ چیز مانگی جائے، اور آپ کے لیے بھی لازم ہے کہ ایسے معاملات میں احتیاط کا دامن تھامے رہیں اور وقت و توانائی کے ضیاع سے بچیں۔
اگر آپ دوسروں کی مدد کرنے کے نام پر اپنے وجود کو نظرانداز کرتے رہیں اور وقت و توانائی کا ضیاع روکنے میں ناکام رہیں تو اُس وقت کو آنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی جب آپ کے ذہن پر بوجھ بہت بڑھ چکا ہو۔ اگر ذہن پر بوجھ بڑھ رہا ہو تو اس کا ایک مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے جسم اور ذہن دونوں کو نظرانداز کررہے ہیں اور وہ بھی متواتر۔ اس کے نتیجے میں ذہنی پیچیدگیوں کے بڑھتے رہنے کی گنجائش بڑھتی جاتی ہے۔ ہمارا جسم بھی بہت کچھ بیان کررہا ہے اور ذہن بھی کچھ نہ کچھ بولتا ہی رہتا ہے، مگر ہم دونوں کو نظرانداز کرتے رہتے ہیں۔ یہ ایک بنیادی غلطی ہے جو ہر وہ انسان کرتا ہے جو دوسروں کے دکھ درد کو کچھ زیادہ محسوس کرتا ہے۔ کسی کی پریشانی کے بارے میں جان کر پریشان ہو اٹھنا اچھی بات ہے، کسی کو مدد کی ضرورت ہو تو اس کی مدد کرنے میں بظاہر کوئی قباحت نہیں، مگر پھر بھی انسان کے لیے ناگزیر ہے کہ اپنی ضرورتوں کا پورا خیال رکھے۔ دوسروں کی پریشانیاں دور کرنے کی روش پر گامزن رہنے سے اگر اپنی پریشانیاں بڑھ رہی ہوں تو اسے کوئی مستحسن روش قرار نہیں دیا جائے گا۔
آپ نے بارہا دیکھا ہوگا کہ بے غرض اور دوسروں کی مدد کرتے رہنے کو اپنا فریضہ گرداننے والے بہت تیزی سے اپنی توانائی ضایع کر بیٹھتے ہیں۔ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے، جرمنی کے ہاکو پرائیویٹ کلینکس فار سائیکوسومیٹک میڈیسن کے میڈیکل ڈائریکٹر معروف سائیکاٹرسٹ اور سائیکو تھراپسٹ ڈاکٹر آندرے ہیگ مین نے کہی ہے۔
مارٹن وہرل کہتے ہیں کہ اچھا ہونا آپ کے لیے ہمیشہ برا نہیں ہوتا۔ اٹلی کے ماہرِ عمرانیات و معاشیات ولفریڈو پریٹو نے کہا تھا کہ معاشی حسنِ کارکردگی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ انسان دوسروں کے لیے اچھا ثابت ہونا چاہتا ہے۔ اگر بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے تمام مطلوب وسائل دستیاب ہوں تو انسان مدد کرنے کے لیے زیادہ تیزی سے تیار ہوجاتا ہے۔
مارٹن وہرل کہتے ہیں: اگر آپ کسی کے لیے کچھ کرتے ہیں اور اس سے اچھا تاثر اور خوش گوار احساس پیدا ہوتا ہے تو ایسا کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ ہاں، کسی کی مدد کرنے کے بعد آپ کو بدمزگی محسوس ہو تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی حد سے آگے گئے ہیں اور آپ کی نیکی نے وہ نتیجہ پیدا نہیں کیا جو مطلوب تھا، یعنی آپ کے دل کو راحت نصیب نہیں ہوئی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ جو لوگ سبھی کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، مدد کرتے رہتے ہیں وہ دراصل بے لوث نہیں ہوتے بلکہ اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ لوگ انہیں سراہیں، چاہیں۔ امریکا میں کی جانے والی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے مارٹن وہرل کہتے ہیں کہ جو لوگ ہر وقت دوسروں کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور اپنے وقت و توانائی کا بڑا حصہ دوسروں کے مسائل حل کرنے میں صرف کرتے ہیں انہیں بھی سب پسند نہیں کرتے بلکہ کچھ لوگ ان پر تنقید سے بھی گریز نہیں کرتے۔
اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ جو لوگ بہت اچھے ہوتے ہیں ان سے بھی خار کھانے والے پائے جاتے ہیں۔ بات عجیب سی ہے مگر سچ ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ جو لوگ بہت اچھے ہوتے ہیں ان سے وہ لوگ ہمیشہ حسد کرتے ہیں جو خود اچھے نہیں ہوتے اور چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی ان جیسے ہی ہوجائیں۔ جو لوگ غیر معمولی طور پر اچھے ہوتے ہیں اور دوسروں کی مدد کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ان کے بارے میں بدگمانی رکھنے والے بھی کم نہیں ہوتے۔ اچھے لوگوں کے بارے میں یہ سوچا جاتا ہے کہ وہ آخر اچھے کیوں ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کا کوئی خاص مقصد ہو جسے حاصل کرنے کے لیے وہ اچھائی کا ڈھونگ رچا رہے ہوں؟
ڈاکٹر آندرے ہیگ مین کہتے ہیں کہ جو لوگ ہر معاملے میں رضامندی ظاہر کرنے کے عادی ہوتے ہیں ان پر کام کا دباؤ بڑھتا جاتا ہے۔ کسی بھی ادارے میں جب بھی کوئی کام کروانا ہوتا ہے تو سینئرز کی نظر ان پر پڑتی ہے جو انکار کے عادی نہیں ہوتے۔ جو انکار نہیں کرتے ان پر توقعات کا بوجھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ بات بات پر ہاں میں گردن ہلانے والوں کی گردن ہر وقت پھنسی رہتی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ دوسروں کے لیے یا پھر اضافی کام کے لیے وقف ہوکر رہ جاتے ہیں اور اپنے لیے زیادہ وقت بچتا ہے نہ توانائی۔ اس کا ایک واضح مطلب یہ بھی ہے کہ جب آپ ہر معاملے میں ہاں کہنے کے عادی ہوجائیں تو انکار بہت مشکل سے ہوپاتا ہے۔ یوں آپ بیشتر وقت کہیں نہ کہیں اٹکے ہی رہتے ہیں۔
کوئی بھی انسان دوسروں کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے اس قدر رضامندی کیوں ظاہر کرتا ہے؟ ہوسکتا ہے اس کا تعلق بچپن میں کی جانے والی تربیت سے ہو۔ بہت سے بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ اگر وہ دوسروں کی توقعات پر پورے اتریں گے، ان کی مدد کریں گے، ان کا خیال رکھیں گے تو لوگ انہیں اچھا سمجھیں گے، سراہیں گے اور ان کے بارے میں اچھی رائے دیں گے۔ بہت سے بچوں کو یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ اگر وہ دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہیں گے تو والدین کی طرف سے انعام ملے گا۔
انسان میں دوسروں کے لیے بہت کچھ کرنے کا جذبہ کیوں کر پیدا ہوتا ہے یا کیوں کر پروان چڑھتا ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ اس کا تعلق شاید اُس زمانے سے ہے جب انسان کے لیے تنہا زندگی بسر کرنا ممکن نہ تھا۔ غار کے زمانے کا انسان دوسروں کی مدد کا محتاج بھی رہا کرتا تھا اور دوسروں کی مدد کرنے کے لیے ہر وقت تیار بھی رہتا تھا۔ تب بقا کا مدار مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے پر تھا۔ درندوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا اور پیٹ بھرنے کے لیے کچھ نہ کچھ حاصل کرنا اشتراکِ عمل کے بغیر ممکن نہ تھا۔ ایسے میں کسی بھی گروہ کے کسی فرد کے لیے ممکن نہ تھا کہ باقی سب کی نظر میں برا بنے۔ یہی سبب تھا کہ سب ایک دوسرے کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔
زمانہ بہت بدل چکا ہے۔ آج گزرے ہوئے زمانوں کی ذہنیت کا بڑا حصہ متروک سمجھنا چاہیے۔ دو ڈھائی ہزار سال قبل انسان جس انداز سے رہا کرتا تھا وہ انداز اب زیادہ کام کا رہا نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ چار پانچ صدیوں کے دوران بہت کچھ بدل گیا ہے۔ اقدار کچھ کی کچھ ہوگئی ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد انقلابِ معلومات نے معاملات کو کچھ کا کچھ کردیا ہے۔ اب انسان ہزار سال پرانی ذہنیت کے ساتھ اپنے آپ کو زیادہ دور تک نہیں چلا سکتا۔ آج بھی کروڑوں انسان دوسروں کے لیے بہت زیادہ دکھی ہونے سے اپنے آپ کو نہیں روک سکتے، مگر لازم ہوچکا ہے کہ سوچ بدلی جائے۔ حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ زندگی کے نئے ڈھانچے کو شرحِ صدر کے ساتھ قبول کیا جائے۔ آج کا جادوئی فارمولا یہ ہے کہ ہر معاملے کی حدود طے کی جائیں اور طے شدہ حدود میں رہتے ہوئے زندگی بسر کی جائے۔ آج ناگزیر ہے کہ آپ اپنی تمام ضرورتوں کو ذہن نشین رکھیں۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ایسے تمام ہی معاملات میں الجھنے سے محتاط رہیں جو آپ کی ضرورتوں کو متاثر کرسکتے ہوں، آپ کی الجھنوں میں اضافہ کرسکتے ہوں۔ اس کے لیے مسلسل مشق کی ضرورت ہے۔
آندرے ہیگ مین کہتے ہیں کہ یہ بھی ناگزیر ہے کہ آپ اپنے وجود سے وابستہ توقعات بھی کم رکھیں۔ اپنے آپ سے بہت زیادہ اور بہت بڑے مطالبات کرنے کی ضرورت ہے نہ گنجائش۔ ہم ایک پیچیدہ دور میں جی رہے ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ نئے دور کے تقاضوں کو سمجھنے میں زیادہ کامیاب نہیں اور زندگی متوازن انداز سے بسر کرنے کی پوزیشن میں نہیں آرہا تو ماہرینِ نفسیات سے رجوع کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ دفتر میں زیادہ کام کا معاملہ ہو، گھر شفٹ کرنے میں دوست کی مدد کرنے کا مرحلہ ہو یا پھر کسی پارٹی میں شرکت کا دعوت نامہ آیا ہوا ہو، اپنے آپ کو تھوڑا سا سوچنے کا موقع ضرور دیجیے۔ مارٹن وہرل کہتے ہیں کہ جب ہم معاملات پر غور کرتے ہیں تب کسی کے لیے بھی فوراً ہاں کہنے سے گریز کرتے ہیں، اور یوں بعد کے پچھتاوے سے بچ جاتے ہیں۔ غیر سنجیدہ اقرار سے دیانت دارانہ انکار بہت اچھا ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں، اس کے لیے بھی مشق لازم ہے۔
یہ بھی لازم نہیں کہ آپ کسی معاملے میں انکار کریں اور آپ کا انکار فوری طور پر یا آسانی سے قبول کرلیا جائے۔ جنہیں آپ کی طرف سے انکار کی توقع ہی نہ ہو وہ مزاحمت کریں گے۔ لوگ جب کسی کی زبان سے انکار سنتے ہیں تو دلائل کے ذریعے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دلائل سے کام نہ نکلے تو گڑگڑاتے ہیں، جذبات کی سطح پر بلیک میلنگ کرتے ہیں۔ لوگ اپنے مفاد کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے پر تُل سکتے ہیں۔ آپ کو ثابت قدم رہنا ہے۔ انکار سوچ سمجھ کر کرنا ہے اور اس کی پشت پناہی بھی کرنی ہے۔ مارٹن وہرل اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ آپ کو اپنی بات منوانے کا ہنر آنا چاہیے۔ محض دوسروں کی مرضی پر جینے اور ان کے لیے کچھ بھی کر گزرنے پر آمادگی ظاہر کرنا کسی بھی درجے میں معیاری زندگی کی نشانی یا دلیل نہیں۔
ہمارے معاشرے کو بہت کچھ درکار ہے۔ سنجیدگی بھی اور اخلاصِ نیت بھی، دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہنے کی بھی ضرورت ہے۔ مگر یہ سب کچھ منطقی حدود میں ہونا چاہیے۔ خدائی خدمت گار بنے رہنے میں کچھ بھی نہیں رکھا۔ زندگی اس لیے نہیں ہے کہ سوچے سمجھے بغیر سب کے کام آنے کے لیے تیار رہا جائے۔ صرف اُس کی مدد کی جانی چاہیے جسے واقعی مدد کی ضرورت ہو۔ اگر آپ لوگوں کے کام آنے کے لیے ہر وقت تیار رہیں گے تو وہ بھی آپ کی آمادگی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہر وقت تیار رہیں گے۔ آپ پر سب سے زیادہ حق آپ کے اپنے وجود کا ہے۔ آپ کے لیے سب سے بڑھ کر آپ کی اپنی زندگی ہے۔ باقی سب کچھ ثانوی حیثیت کا حامل ہے۔