قیصروکسریٰ قسط(111)

322

کسریٰ جیسے جابر دشمن سے دوبارہ ٹکر لینے کے لیے اسے نئی افواج کی ضرورت تھی اور نئی افواج تیار کرنے کے لیے اسے وقت اور روپیہ درکار تھا۔ چنانچہ پرویز نے اسے خراج جمع کرنے کے لیے جو مہلت دی تھی اس کا ایک ایک لمحہ جنگی تیاریوں میں صرف ہونے لگا۔ دولت کی کمی پوری کرنے کے لیے اس نے سلطنت کے خالی خزانے کے بجائے ان گرجوں اور خانقاہوں کا رخ کیا جہاں کلیسا کے اکابر سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانا کھاتے تھے۔ یہ لوگ اپنے خزانوں سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہ تھے۔ لیکن قیصر نے انہیں یہ سمجھایا کہ میں تم سے قرض مانگتا ہوں اور جب روم کے دن پھر جائیں گے تو تمہارے قرض کی رقوم تمہیں سود کے ساتھ ادا کی جائیں گی۔ کلیسا کے اکابر کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ ایرانیوں کو خراج ادا کرنے کے بعد بھی انہیں زیادہ مدت کے لیے امن اور راحت کی زندگی نصیب نہیں ہوگی اور سونے اور چاندی کے جو ذخائر انہوں نے اپنی خانقاہوں اور گرجوں میں چھپا رکھے ہیں وہ کسی دن ایرانیوں کے ہاتھوں لوٹے جائیں گے۔ چنانچہ مذہب کے بعض پیشوائوں نے رضا کارانہ طور پر قیصر کو اپنے خزانے پیش کردیئے اور بعض جنہوں نے تنگ دلی کا مظاہرہ کیا انہیں حکومت کے دبائو نے صدیوں کی جمع کی ہوئی دولت سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیا۔

قیصر کے لیے ایرانیوں کے ساتھ ایک فیصلہ کن جنگ لڑنا ایک مجبوری تھی۔ امن کی خاطر شاید وہ اپنی رعایا کے ہاتھوں سے سوکھی روٹیاں چھین کر بھی ایرانیوں کو پیش کردیتا۔ لیکن ایک ہزار دو شیزائوں کا مطالبہ پورا کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ اپنے ایلچیوں سے صلح کے لیے پرویز کی شرائط سننے کے بعد اس کے لیے دو ہی راستے تھے۔ اولاً کہ وہ اپنی بے بس رعایا کو ایرانیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر کہیں بھاگ جاتا اور ثانیاً یہ کہ وہ زندگی اور موت سے بے پروا ہو کر اپنے طاقت ور، مغرور اور بے رحم دشمن کے خلاف سینہ سپر ہوجاتا… اور قیصر نے یہی راستہ اختیار کیا اور اس کی نیم جان رعایا کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ ان کے کمزور، بے بس اور عیاش حکمران کی ذہنیت کی تبدیلی کے ساتھ زمانہ بھی ایک نئی کروٹ بدل رہا ہے وہ کسان اور چرواہے جو صرف زندہ رہنے کے لیے ہر ذلت برداشت کرنے پر آمادہ نظر آتے تھے۔ اب آزادی یا موت کے نعرے لگاتے ہوئے ہرقل کے جھنڈے تلے جمع ہورہے تھے اور وہ سپاہی جو جنگ کی صورت میں زیادہ سے زیادہ قسطنطنیہ کی حفاظت کے لیے اپنے خون کی رہی سہی پونجی لٹانے کے متعلق سوچ سکتے تھے اب اپنے سینوں میں مشرق کے ان شہروں اور قلعوں پر یلغار کرنے کا حوصلہ پاتے تھے۔ جہاں برسوں سے مجوسیت کی فتح کے پرچم لہرا رہے تھے۔ بازنطینی حکمران اور اس کی رعایا کی یہ کایا پلٹ انسانی تاریخ کا ایک ناقابل یقین معجزہ تھا۔

ہر قل ایک طرف نئی فوج بھرتی کرنے اور دوسری طرف بحیرئہ مار مورا اور آبنائے باسفورس میں جہاز جمع کرنے میں مصروف تھا۔ باسفورس کے دوسرے کنارے ایران کے عظیم لشکر کے خیمے اب بھی دکھائی دیتے تھے لیکن اپنی زبردست تیاریوں کے باوجود ہرقل ایرانی لشکر پر براہِ راست حملہ کرنے کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہ تھا۔ ایسے حملے کی ناکامی کی صورت میں ایرانیوں کی جوابی کارروائی قسطنطنیہ کے لیے تباہی کا سامان پیدا کرسکتی تھی۔ اور فتح کی صورت میں بھی خشکی کے راستے مشرق کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے عقب میں رسد اور کمک کے طویل راستے غیر محفوظ ہوجاتے تھے۔ ایشیائے کوچک کی چوکیوں سے ایرانی لشکر کے معمولی دستے بھی ان کے لیے تباہی کا سامان پیدا کرسکتے تھے۔ ہرقل کے لیے خشکی کی بجائے سمندر زیادہ محفوظ تھا۔

چنانچہ مکمل تیاریوں کے بعد اس نے قسطنطنیہ کی حفاظت سینٹ اور کلیسا کے اکابر کے سپرد کی اور پھر لشکر کو جہازوں پر سوار ہونے کا حکم دیا۔ رومیوں کا یہ جنگی بیڑا کسی دقّت کا سامنا کیے بغیر ایشیائے کوچک کے مغربی اور جنوبی ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا شام کے مغربی کونے سے قریب خلیج اسکندریہ میں لنگر انداز ہوا اور اس کے بعد ہرقل نے اسدس کے قریب ڈیرے ڈال دیئے جہاں کسی زمانے میں سکندر اعظم نے دارا کو شکست دی تھی۔ ہرقل کا یہ اقدام خطرے سے خالی نہ تھا۔ اگر ایرانی حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے تو باسفورس کے مشرقی کنارے سے ان کی پیش قدمی قسطنطنیہ کے لیے تباہ کن ہوسکتی تھی اور ہرقل کی بذاتِ خود اس خطرے کا اس قدر احساس تھا کہ اس نے روانگی سے قبل جن لوگوں کو قسطنطنیہ کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی تھی انہیں دشمن کا مقابلہ کرنے یا بحفاظت مجبوری اس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا اختیار دے دیا تھا۔ لیکن خلقدون کے آس پاس جمع ہونے والی ایرانی افواج کسی فوری اقدام کا فیصلہ نہ کرسکیں اور اس کے بعد جب ہرقل کا لشکر ایک ایسے مقام تک پہنچ چکا تھا جہاں سے اس کی پیش قدمی ایک طرف آرمینیا اور دوسری طرف شام کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتی تھی تو ایرانی اپنے عقب کو غیر محفوظ سمجھ کر قسطنطنیہ پر یلغار کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔

شام اور ایشیائے کوچک کی سرحدوں کے آس پاس پہاڑی علاقوں میں ایرانی لشکر کے ساتھ چند جھڑپوں کے بعد ہرقل نے موسم سرما کے دوران دریائے ہیلس کے کنارے قیام کیا اور اس کے بعد قسطنطنیہ کے حالات نے اسے واپسی پر مجبور کردیا۔ اس مہم میں ہرقل کو بظاہر کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ لیکن اس کے نتائج بہت دور رس تھے۔

اس نے رومیوں کو پہلی بار یہ احساس دلانے کی کوشش کی تھی کہ ان کے عافیت پسند حکمران کی ذہنیت تبدیل ہوچکی ہے اور اپنی رعایا کے لیے وہ بڑے سے بڑا خطرہ مول لے سکتا ہے۔ اس مہم کے بعد ایک طرف اس کی شکست خوردہ رعایا کے دل میں نئے حوصلے بیدار ہوچکے تھے اور دوسری طرف شام اور ایشیائے کوچک میں مجوسیوں کے ظلم و استبداد کی چکی میں پسنے والے عیسائی اُمید کی ہلکی سی روشنی دیکھ چکے تھے۔ مفتوحہ علاقوں کے عیسائیوں نے جس جوش و خروش کے ساتھ رومی لشکر کا خیر مقدم کیا تھا، اُسے دیکھ کر ہرقل کے دل میں یہ اُمید پیدا ہوگئی تھی کہ مشرقی ممالک میں اس کی رعایا ابھی تک اسے نہیں بھولی۔ اور اگر وہ ایرانیوں کو کسی میدان میں فیصلہ کن شکست دے سکا تو یہ لوگ چاروں اطراف سے ان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ تاہم ایرانیوں کے نزدیک ہرقل کی یہ مہم ایک مذاق سے زیادہ نہ تھی۔ اور جب دست گرد میں اس حملے کی اطلاع پہنچی تو مجوسی کاہن اپنے حکمران کو یہ مژدہ سنارہے تھے کہ فاتح عالم کے ہاتھوں سلطنت روما کی مکمل تباہی مقدر ہوچکی ہے۔

اور پھر جب رومیوں کی واپسی کی اطلاع سننے کے بعد پرویز اور اس کے مصاحب مسّرت کے قہقہے لگارہے تھے، ہرقل ایک نئی مہم کی تیاریاں کررہا تھا۔

’’ہرقل کا جنگی بیڑا بحیرئہ سود میں داخل ہوچکا ہے۔ اس کے جہاز طرابزون کے نزدیک لنگر انداز ہوچکے ہیں اور آرمینیا کے عیسائی جوق در جوق اس کے جھنڈے تلے جمع ہورہے ہیں‘‘۔ کسریٰ پرویز کو یکے بعد دیگرے یہ ناقابل یقین اطلاعات پہنچیں اور پیشتر اس کے کہ وہ کسی جوابی کارروائی کا فیصلہ کرسکتا، ہرقل آذربائیجان میں داخل ہوچکا تھا۔ پھر ایک دن اُسے یہ خبر ملی کہ آرمیناایران کا وہ قدیم شہر جہاں زردشت پیدا ہوا تھا، فرزندانِ صلیب کے ہاتھوں تباہ ہوچکا ہے اور وہاں ایران کے سب سے بڑے آتش کدہ کئی مقدس آگ بجھ چکی ہے۔ مجوسیوں کے نزدیک آرمیناکی وہی حیثیت تھی جو عیسائیوں کے نزدیک یروشلم کی تھی۔ اور ایرانیوں کی یلغار سے قبل جس قدر عیسائی اپنے مقدس شہر کو ناقابل تسخیر خیال کرتے تھے، اس سے کہیں زیادہ مجوسی آرمینا کے دفاع کے متعلق مطمئن تھے اور اس شہر کی تباہی کے بعد مجوسیت کے علمبرداروں کے رنج و اضطراب کا وہی عالم تھا جو یروشلم کی تباہی کے بعد فرزندانِ تثلیث نے محسوس کیا تھا۔ اور ایرانی سلطنت اب انہی حالات کا سامنا کررہی تھی جو یروشلم کی شکست کے بعد بازنطینی سلطنت کو پیش آئے تھے۔ کاتب تقدیر کے ہاتھ انسانی تاریخ کا ایک نیا ورق اُلٹ رہے تھے۔ اور تاریخ کے اس نئے ورق کی پیشانی پر ایک ایسی جنگ کی داستان بھی لکھی جارہی تھی جو اپنے نتائج کے اعتبار سے آرمینامیں روم و ایران کے معرکے سے کہیں زیادہ اہم تھی۔ یہ بدر کے میدان میں ان تین سو تیرہ مسلمانوں کی جنگ اور فتح کی داستان تھی جن کا دین صرف عرب ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے جبر و استبداد کے خلاف ایک اعلانِ جنگ تھا۔ یہ کسی قبیلہ قوم یا نسل کی فتح نہ تھی بلکہ اس ابدی صداقت کی فتح تھی جس کا پرچم محمد عربیؐ کے ہاتھ میں تھا۔

ایک طرف ہرقل کے سپاہی آرمینامیں ایرانیوں کی شکست پر خوشیاں منارہے تھے اور دوسری طرف آقائے مدینہؐ کے جان نثار بدر کی فتح پر اپنے پروردگار کی بارگاہ میں سجدہ ریز تھے۔ اسی طرح ایک طرف ایران کے مجوسیوں اور دوسری طرف مکہ کے مشرکین کے گھروں میں ماتم بپا تھا۔ وہ پیش گوئی جس کا مذاق اُڑایا گیا تھا اور جس کے خلاف مشرکینِ مکہ شرطیں بدتے تھے پوری ہورہی تھی۔ ایران پر روم اور عرب پر اسلام کا غلبہ شروع ہوچکا تھا۔ تاہم ایران کے مغرور حکمران کے نزدیک آرمیناکی شکست ایک حادثہ تھا۔ اُسے یہ اطمینان تھا کہ رومیوں نے ابھی تک اس کے عظیم لشکر کا سامنا نہیں کیا۔ اس نے ایک لڑائی میں ناکامی کا منہ دیکھا تھا۔ لیکن فیصلہ کن معرکے ابھی پیش آنے والے تھے اور یہی حال مکہ کے مشرکین کا تھا۔ میدان بدر میں فوج کی تعداد اور اسلحہ کی برتری کے باوجود ایک عبرتناک شکست ان کے لیے تکلیف دہ ضرور تھی لیکن وہ یہ جانتے تھے کہ آنے والے معرکوں میں پورا عرب ان کی پشت پر ہوگا۔

ہرقل، شمال مغرب کے علاقوں کو تاخت و تاراج کرنے کے بعد قزوین اور اصفہان کا رخ کررہا تھا۔ پرویز نے اس کی غیر متوقع کامیابیوں سے پریشان ہو کر مصر سے لے کر ایشیائے کوچک تک اپنی بیشتر افواج کو واپس بلالیا۔ لیکن ان افواج کے اجتماع سے قبل ہرقل میڈیا اور آسریا کے کئی شہروں کو تباہ و برباد کرچکا تھا۔ دشمن کے خلاف کسی میدان میں فیصلہ کن جنگ لڑنے کی بجائے اس کی توجہ ان شہروں، قلعوں یا چوکیوں کی طرف تھی جہاں اُسے کسی شدید مزاحمت کی توقع نہ تھی۔ اگر کسی میدان میں ایرانی افواج کے اجتماع کی خبر تھی تو وہ اچانک اپنا رُخ بدل کر مہینوں کا سفر ہفتوں میں طے کرتا ہوا کسی ایسے قلعے یا مستقر پر حملہ کردیتا جہاں زیادہ آسانی کے ساتھ دشمن پر ضرب کاری لگائی جاسکتی تھی۔

بالآخر پرویز نے اپنی دورافتادہ چوکیوں سے جمع ہونے والے لاتعداد لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ پہلی فوج جو پچاس ہزار آزمودہ کار سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ ہرقل کا سامنا کرنے کے لیے روانہ ہوئی۔ دوسری فوج کو رومیوں کے عقب میں پہنچ کر ان کے رسد اور کمک کے راستے مسدود کرنے کا حکم ملا۔ اور تیسرا لشکر پرویز کے ایک انتہائی تجربہ کار جرنیل سربار کی قیادت میں قسطنطنیہ پر ایک فیصلہ کن حملہ کی نیت سے خلقدون کی طرف روانہ ہوا۔ (جاری ہے)

حصہ