وہ چشمِ تصور سے دیکھ رہی تھی کہ بھابھی امی کو آواز دے کر کہہ رہی تھیں ’’ماں جی! چلی ساس اور سویا ساس بھی ساتھ میں لیتی آئیے گا۔‘‘ ثویبہ نے دروازے سے باہر جاتی نورالنساء کو مؤدبانہ لہجے میں کہا۔
’’اس کے علاوہ کچھ اور چاہیے تو ابھی سے بتا دینا۔ مجھ سے بار بار گھر سے باہر نہیں نکلا جاتا۔‘‘ نورالنساء نے اپنے گھٹنے پر اپنے ہاتھ کو مضبوطی سے جماتے ہوئے بیرونی دروازے سے قدم باہر رکھتے ہوئے کہا۔
وہ لاؤنج میں صوفے پر سر ٹکائے بیٹھی حیرت سے ساس بہو کی گفتگو سن رہی تھی۔ اک سرد آہ بھرتے وہ زیر لب بڑبڑائی ’’چلی ساس… سویا ساس… اور میری ساس۔‘‘ اب وہ اپنی ماں نورالنساء کے رویّے کا جائزہ لے رہی تھی۔
’’ماں اور ساس میں بہت فرق ہے… لیکن ہر ساس میں نہیں۔ کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جو ساس نہیں بس ماں کا روپ رکھتی ہیں، لیکن میری ساس تو میری ماں جیسی نہیں۔‘‘ ایسے ہی خیالات چھوٹے چھوٹے سیاہ بادلوں کی صورت اس کے دل و دماغ کے افق پر نمودار ہوکر یوں کھل کر برسے کہ اس کی آنکھیں بہہ پڑیں۔ نورالنساء کب اس کے پاس آکر بیٹھی وہ اس بات سے بے خبر تھی۔
’’میری بیٹی! کوئی پریشانی ہے؟‘‘ نورالنساء نے فکرمند ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں ماں! بس یونہی کچھ سوچ رہی تھی۔‘‘ وہ ماں کو حالِ دل سنانا چاہتی تھی۔
’’کیا سوچ رہی تھی میری بیٹی؟‘‘نورالنساء نے استفسار کیا۔
’’یہی کہ آپ کتنی اچھی ساس ہیں، جب کہ میری…‘‘
’’اچھا تو یہ بات میری بیٹی کو پریشان کیے جارہی ہے۔‘‘ نورالنساء نے اس کی پریشان خیالی کو بھانپتے ہوئے اسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔
’’بیٹی! یہ میرے رب کی تقسیم ہے۔ بندہ اگر اپنے رب کی تقسیم پر راضی رہے تو رب تعالیٰ آسانیوں کے سامان بھی تو اپنے بندے کی خاطر مہیا کردیتا ہے، جب کہ گلے شکوے کرتے رہنے سے تعلقات میں دراڑیں پڑجایا کرتی ہیں۔ یوں زندگی مشکل ترین بن جاتی ہے۔ کیا ہوا جو تیری ساس میری جیسی نہیں! تُو خود میری جیسی ساس بن جانا۔‘‘
ماں کے سیدھے سادے جملے اس پر یوں اثر کر گئے کہ جب وقت نے کروٹ بدلی تو وہ اپنی ماں جیسی ساس بن کر اپنی بہو کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور خواہشات کو ہر ممکن طور پر پورا کرتی، تاکہ جب بھی ’’چلی ساس، سویا ساس اور میری ساس‘‘ کا تذکرہ چھڑ ے تو وہ اک سرد آہ نہ بن کر رہ جائے۔