سانحۂ مشرقی پاکستان کے فوراً بعد میں نے انٹرمیڈیٹ کے پہلے سال میں جامعہ ملیہ کالج ملیر میں داخلہ لیا‘ تب ایک شعر کالج کے ادبی ذوق رکھنے والے اکثر طلبہ کو زبانی یاد تھا:
پتوں کی طرح تم بھی بکھر جائو گے یارو
گھر سے نہ نکلنا کہ بڑی تیز ہوا ہے
شاعر تھے شوکت عابد۔ ان سے ملاقات کا بہانہ یہی شعر بنا۔ ویسے تو پوری غزل ہی مطلع و مقطع سمیت بہت عمدہ تھی:
ہر لمحہ نیا زخم زمانے نے دیا ہے
ہر زخم کا مرہم بھی زمانہ ہی بنا ہے
جب دھوپ کی شدت کا بھی احساس نہیں تھا
اب چاندنی راتوںمیں بدن جلنے لگا ہے
تپتی ہوئی دہلیز سے ٹکراتے ہیں پتے
آنگن میں جو اک پیڑ تھا اب سوکھ چکا ہے
وحشت سے در و بام کی یوں لگتا ہے عابدؔ
ہر ایک مکاں شہر کا آسیب زدہ ہے
تب شوکت بی اے کے طالب علم تھے اور ان کی یہ غزل کراچی کے کالجوں میں گونج رہی تھی کہ ریڈیو پاکستان کے بزم طلبہ کے جشن سیمیں کے مقابلے میں اوّل انعام جیت چکی تھی۔ مقابلے میں پروین شاکر بھی شریک تھیں۔ شوکت ماڈل کالونی ملیر میں رہائش پذیر تھے اور ان کے دو بڑے بھائی فرحت حسین اور ثروت حسین بھی خیر سے نہایت عمدہ شاعر تھے۔ فرحت حسین تو اپنی بے نفسی کے سبب غزلیں کہہ کہہ کر ثروت حسین کو دیتے رہے۔ ثروت خود بھی ایک خوب صورت تخیل اور زبردست شعری صلاحیت (Poetic talent) کے حامل تھے۔ لیکن شاعری میں شوکت کی آواز اپنے شاعر بھائیوں ہی نہیں اس زمانے کے تمام نوجوان شعرا سے الگ پہچانی جاتی تھی۔ وہ طالب علم بھی بہت اچھے تھے۔ پچھلی تمام جماعتوں میں امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کرتے رہے۔ انٹرمیڈیٹ تک سائنس کا مضمون ڈی جے کالج میں پڑھتے رہے۔ پھر گریجویشن میں اپنے ذوقِ شعری کو دیکھتے ہوئے آرٹس میں داخلہ لے لیا۔ جامعہ ملیہ کالج سابق وزیر تعلیم اور سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمود حسین نے جامعہ ملیہ دہلی کے نمونے پر قائم کیا تھا اور شہر کی علمی و تعلیمی دنیا کی ممتاز شخصیات کی درس و تدریس کے لیے خدمات حاصل کی تھیں۔ ان میں پروفیسر کرار حسین‘ پروفیسر وحید اللہ نظمی‘ پروفیسر سید عطاء اللہ حسینی‘ پروفیسر حسن علی شطاری‘ پروفیسر اخلاق اختر حمیدی‘ پروفیسر غوری‘ پروفیسر شاہد اختر اور بہت سے دوسرے۔ شوکت ان دنوں ادبی سرگرمیوں میں بھی بہت فعال تھے‘ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے کالج میں ادبی کمیٹی کے تحت ایک نہایت اچھا ادبی پروگرام ناصر کاظمی کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے منعقد کیا تھا۔ پروگرام کی صدارت پروفیسر کرار حسین نے کی تھی۔ بی اے کے امتحان کا نتیجہ آیا تو شوکت نے پوری کراچی میں تیسری پوزیشن لی تھی۔ میرا تعارف ان سے مذکورہ شعر کے علاوہ سانحۂ مشرقی پاکستان کے حوالے سے روزنامہ ’’جسارت‘‘ کے ادارتی صفحے پر ان کی شائع شدہ ایک نہایت جذباتی المیہ نظم ’’آج ڈھاکہ لہو رنگ ہے‘‘ سے ہوا۔ چونکہ میں مشرقی پاکستان سے آیا تھا اور اس کا جانا میر ایک ذاتی سانحہ بھی تھا کہ وہیں پیدا ہوا تھا اور پلا بڑھا تھا۔ شوکت کی نظم نے رُلا رُلا دیا‘ ان تمام محب وطن پاکستانیوں کی طرح جن کو اس سانحے نے ادھ موا کر دیا تھا۔ شوکت کی شخصیت سیاسی دھارے سے کٹی ہوئی تھی۔ وہ اس زمانے کی طلبہ سیاست میں دائیں بازو اور بائیں بازو کے جھگڑوں سے بالکل الگ تھلگ تھے۔ انہیں میں نے ملکی سیاست اور انقلاب وغیرہ کے سطحی مباحث میں پڑتے نہیں دیکھا۔
گریجویشن کے بعد انہوںنے کراچی یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹرز کیا۔ انٹر میڈیٹ کے بعد انہی کے مشورے پر میں بھی اسی شعبے کا طالب علم ٹھہرا۔ تلاش معاش میں شوکت نے کچھ دن اخبارات میں کام کیا اور پھر اشتہارات کی دنیا سے ایسے وابستہ ہوئے کہ آج تک یہی روزگار کا وسیلہ ہے۔ جزوقتی طور پر اپنے ہی شعبے میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ شوکت کو قمر جمیل اور پھر سلیم احمد جیسے ادبی نابغائوں (Genious) کی صحبتیںملیں جنہوں نے انکی شعری شخصیت کو نکھارنے اور اجالنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ وہ کچھ عرصے تک انگریزی سے شاعری کے ترجموں کی مشق بھی کرتے رہے۔ غالباً جس کا فائدہ یہ ہوا کہ غزل کے بعد نثری نظم کی صنف پر ان کی گرفت بہت مضبوط ہو گئے۔ بظاہر یہ عجیب سی بات ہے کہ ان کی غزل اور نثری نظم دونوں کا باہم موازنہ کریں تو یہ دو الگ شاعروں کی تخلیقی صلاحیت کا کرشمہ معلوم ہوں گی۔ غزل میں شوکت کا مرکزی استعارہ ’’دل‘‘ ہے دل جو وجودِ انسانی میں مرکز کی حیثیت رکھتا ہے‘ جس کی صحت پر پورے وجود کی صحت کا انحصار ہے۔ غزلوں میں اس دل نے اتنے ہفت رنگ جلوے دکھائے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس نثری نظموں میں شوکت کا لب و لہجہ طنزیہ اور کٹیلا ہے‘ اس کے بیش تر موضوعات بھی معاصر زندگی سے پھوٹے ہیں۔ شوکت چھپنے چھپانے کے معاملے میں بڑے بے بنیاز واقع ہوئے ہیں۔ اصولاً اب تک ان کے متعدد شعری مجموعے منظر عام پر آجانے چاہئیں تھے لیکن انہوں نے اپنا شعری مجموعہ لانے میں کبھی سنجیدگی مجموعہ لانے میں کبھی سنجیدگی سے دل چسپی لی اور نہ ادبی رسائل میں اپنا کلام چھپوانے ہی کو اپنا مسئلہ یا مشغلہ بنایا۔ اب ان کا ایک شعری مجموعہ ’’شاعری میرا تعارف نہیں‘‘ شہرزاد کے تحت زیر طبع ہے۔ دوسرا شعری مجموعہ دوست پبلی کیشنز سے شائع ہوگا۔
ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ شوکت مائل بہ تصوف ہوگئے۔ باطن کی عمیق دنیا کی سیر نے انہیں شاعری کی طرف ایک طویل عرصے تک متوجہ نہ ہونے دیا۔ واپسی بڑی بامعنی اور مبارک ثابت ہوئی۰ ان کی اب کی اور گیارہ برس پیشتر کی شاعری میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آیئے دیکھیں وہ اپنی شعری دنیا سے غائب رہنے کا کیا جواز پیش کرتے ہیں۔
طاہر مسعود: آپ کی ایک نثری نظم کی ابتدائی لائنیں ہیں:
’’اب سے تیس برس پہلے
جب شاعری میرا شوق تھی
مجھے شاعری کی سلطنت سے بے دخل کر دیا گیا تھا‘‘
پوچھنا یہ ہے کہ کیا سراغ ملا کہ شاعری کی سلطنت سے کس نے آپ کو بے دخل کیا تھا؟
شوکت عابد: (مسکرا کر) سچی بات تو یہ ہے کہ آج تک پتا ہی نہ چل سکا۔ ایک کیفیت تھی جو طاری ہوگئی تھی۔ شاعری کرنے کی خواہش جیسے سلب ہوگئی تھی۔ سب کچھ غیر محسوس طریقے سے ہوا۔
طاہر مسعود: یعنی آپ نے جان بوجھ کر شعر کہنا ترک نہیں کیا تھا؟
شوکت عابد: ارادے کا اس میں ہرگز دخل نہ تھا۔ شعر کہنے کی نہ خواہش ہوتی تھی نہ ضرورت ہی محسوس ہوتی تھی۔
طاہر مسعود: آپ گیارہ برس تک شاعری کی سلطنت سے بے دخل رہے‘ کیا کیفیت تھی؟ کیا اس کا تجزیہ اب آپ کے لیے ممکن ہے؟
شوکت عابد: (سوچتے ہوئے) اصل میں ذہنی اعتبار سے میرا فوکس دنیا سے دل کی طرف ہو گیا تھا۔ اگر میں یہ کہوں کہ دنیا کی ساری چیزیں بے حقیقت سی ہو گئی تھیں تو یہ بہت بڑا دعویٰ ہو جائے گا لیکن سچی بات یہ ہے کہ قدرتی طور پر س چیزوںکی طرف سے دل سرد ہوگیا تھا۔ بقول میرؔ صاحب:
دل نے ہم کو مثال آئینہ
ایک عالم سے روشناس کیا
طاہر مسعود: کیا یہ جبری کیفیت تھی؟
شوکت عابد: جبر بھی نہیں تھا اور بہت زیادہ کوئی اختیار بھی نہیں تھا۔
طاہر مسعود: آپ کی شاعری کے تین ادوار ہیں ایک دور تو زمانۂ طالب علمی کا تھا‘ دوسرا وہ دور جب آپ نثری نظم کی تحریک میں شامل تھے اور ترجموں کے ذریعے غالباً اپنا شعری لب و لہجہ تشکیل دینے میں مصروف تھے۔ تیسرا اب کا دور جب آپ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ خاموش رہنے کے بعد دوبارہ شعر گوئی کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ تو آیئے آپ کے پہلے دور سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ فرمایئے کہ جب آپ نے شاعری شروع کی تو گھر کا ماحول کیسا تھا‘ آپ نے کب شعر کہنا شروع کیا؟
شوکت عابد: میرے گھر میں سب سے پہلے بڑے بھائی سید فرحت حسین نے شعر کہنا شروع کیا۔ خاندان میں شاعری کی کوئی روایت پہلے سے موجود نہیں تھی۔ والد مرحوم سید رفعت حسین کا تعلق انجینئرنگ کے شعبے سے تھا۔ والدہ مرحومہ شوق بانو ان کا زمین دار گھرانے سے تعلق تھا۔ ننھیال میں بھی کسی شاعر کا سراغ نہیں ملتا۔ فرحت حسین کا شاعری کا شوق ایسا تھا کہ انہوں نے ہی ہم دونوں بھائیوں ثروت حسین اور مجھے منیر نیازی‘ ناصر کاظمی اور باقی صدیقی وغیرہ کی شاعری سے متعارف کرایا۔ فرحت بھائی شعر کہتے تھے مگر جو کچھ کہتے تھے‘ ثروتت بھائی کی نذر کر دیتے تھے۔ ان کا کلام ثروت بھائی کے نام سے چھپتا رہا۔ انہیں اپنے آپ کو شاعر کہلوانے کا بالکل شوق نہیں تھا۔ یہ سلسلہ دو سال 1968 سے 1970 تک چلتا رہا۔ اس زمانے میں ثروت حسین بچوں کے لیے نظمیں کہا کرتے تھے۔ میں نے بھی آٹھویں جماعت سیے پہلے پہل بچوں کے لیے نظمیں کہنی شروع کر دی تھیں:
انکل ٹام کی موٹر کار
دیکھو تو پہیے ہیں چار
لیکن سب کے سب بے کار
اس قسم کی میری نظمیں ’’انجام‘‘ اخبار کے بچوں کے صفحے ’’ہونہار لیگ‘‘ پر شائع ہوتی تھیں ثروت حسین بھی اسی صفحے پر چھپتے۔ فرحت حسین شاعری کے ساتھ ساتھ کہانیاں بھی لکھتے تھے۔ وہ کہانیاں بھی ثروت حسین کے نام سے چھپا کرتی تھی۔
طاہر مسعود: فرحت حسین اپنے نام سے اپنا کلام اور کہانیاں چھپوانے سے گریزاں کیوں رہے؟
شوکت عابد: کچھ سمجھ میں نہیں آسکا کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ جب بھی پوچھا ٹال دیا یہ کہہ کر کہ ’’ اس سے فرق ہی کیا پڑتا ہے؟‘‘ اگر کوئی وجہ رہی ہوگی تو کبھی بتائی نہیں۔
طاہر مسعود: آپ بچوںکی شاعری سے بڑوں کی شاعری کی طرف کب آئے گا؟
شوکت عابد: میں جب ڈی جے سائنس کالج آیا تو 1969ء میں پہلا شعر کہا:
گرد ہی بن گئی لباس اپنا
خود کو اس دھول سے بچاتے کیا
طاہر مسعود: اتنا پختہ شعر فرسٹ ائر کے لڑکے کا ہے؟ اس زمانے کے کچھ اور اشعار ارشاد ہوں۔
شوکت عابد: دوسری غزل میں نے کہی جس کا ایک ہی شعر یاد رہ گیا ہے:
میں مریضِ فکر و شعور ہوں
میرے حق میں کوئی دُعا کرو
دو اشعار یاد رہ گئے ہیں:
بام و در خاموش سڑکیں بے صدا
شہر کے سب لوگ پتھر بن گئے
٭
ہم سے روشن تھی کبھی بزمِ طرب
ہم بھی اب غم کاسمندر بن گئے
طاہر مسعود: ماشاء اللہ یہ تو بڑی استادانہ غزلیں ہیں۔ اس زمانے میں آپ مشاعروں میں شریک ہوتے تھے؟
شوکت عابد: جی ہاں مضافات میں جو مشاعرے ہوتے تھے‘ ان میں یہ غزلیں پڑھتا تھا تو بہت داد ملتی تھی۔ حالانکہ میں اس وقت فرسٹ ائر کا طالب علم تھا۔ انٹر میڈیٹ کرکے ڈی جے کالج سے جامعہ ملیہ پہنچا تو اس زمانے میں کراچی ریڈیو اسٹیشن پر جشنِ طلبہ منعقد ہوا تو جامعہ ملیہ کالج کے بی اے سال اوّل کے طالب علم کی حیثیت سے اس میں شرکت کی۔ وہاں وہی ’’پتوں کی طرح تم بھی بکھر جائو گے یارو‘‘ والی غزل پر پہلا انعام دیا گیا‘ جس سے شہر کے تعلیمی اداروں میں شہرت سی ہوگئی اور یہ شعر لوگوں میں خصوصاً طلبا و طالبات میں میرا وجہ تعارف بن گیا۔ اسی دوران ثروت حسین ایک مسلمہ شاعر کے طور پر معروف ہو چکے تھے۔ وہ بین الکلیاتی مشاعروں میں شرکت نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ بہت سے لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ میں اپنے بڑے بھائی ثروت حسین سے لکھواتا ہوں۔ اس قسم کی بے بنیاد باتوں سے میری شاعری شک و شبہے کا شکار ہو گئی۔ ابھی یہ الزام لگنا شروع ہوا تھا کہ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ نبی باغ کالج میں جس کے پرنسپل خواجہ آشکار حسین تھے‘ ایک فی البدیہہ مشاعرہ ہوا جس کے لیے میں نے ثروت حسین سے درخواست کی کہ آپ بھی اس مشاعرے میں شریک ہوں تاکہ یہ قضیہ حل ہو جائے۔ اس مقابلے میں ایک غزل تو لکھ کر لانی تھی اور ایک غزل فی البدیہہ وہیں مشاعرے میں کہنی تھی۔ مصنفین میں عبیداللہ علیم‘ محسن بھوپالی اور شمس زبیری (مدیر نقش) تھے۔
اس فی البدیہہ شعری مقابلے کے جو نتائج آئے وہ میری پوزیشن کو بہت اوکورڈ کر دینے والے تھے۔ لیکن ساتھ ہی مجھے یہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ مشاعرہ ایک پرفارمنگ آرٹ ہے اور مشاعرے میں داد و تحسین حاصل کرنے والی شاعری کے تقاضے الگ ہوتے ہیں‘ یہ ضروری نہیں کہ سنجیدہ اور گہری شاعری مشاعرے میں بھی مقبولیت حاصل کر سکے۔ شاعری کے اصل معیار کا تعین شاعر کے شعری مجموعے سے ہی ہوتا ہے۔ نتائج کے مطابق پہلا انعام مجھے‘ دوسرا ثروت حسین کو اور تیسرا انعام حوصلہ افزائی (Consolation Prize) کا پروین شاکر کو مل گیا۔ ثروت حسین نے تو وہیں اعلان کر دیا کہ آئندہ بین الکلیاتی مشاعروں میں شرکت نہیں کروں گا۔ لیکن پھر ریڈیو اسٹیشن کراچی کے اسٹیشن ڈائریکٹر طاہر شاہ نے ایک فی البدیہہ طرحی مشاعرہ منعقد کرایا۔ اس میں پہلا انعام ثروت حسین‘ دوسرا مجھے اور تیسرا پروین شاکر کو ملا۔ ثروت حسین کے دو اشعار بہت پسند کیے گئے:
رنج تنہائی کا اتنا تو نہ گہرا ہوتا
کاش اُس رات یہ مہتاب نہ نکلا ہوتا
اتفاقاً ہی سہی پھر بھی تیرا نام کبھی
ریگِ ساحل پہ دمِ موج نے لکھا ہوتا
میرا شعر جس پر داد ملی یہ تھا:
دل کی گلیوں میں نہ آوارہ بھٹکتے یارو
پاس اپنے اگر اس شہر کا نقشہ ہوتا
یہ اُن دنوںکی باتیں ہیں جب کراچی کے کالجوں اور یونیورسٹی میں طلبہ کی کلچرل سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ طلبہ یونینیں بحال تھیں‘ ان کے الیکشن بھی ہوتے تھے اور جو پارٹی جیت جاتی تھی وہ ہفتہ طلبہ کے انعقاد کے ذریعے طلبہ و طالبات کی تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے آنے کا موقع دیتی تھی۔ ان ہی دنوں کراچی یونیورسٹی میں ہفتہ طلبہ ہوا تو جامعہ ملیہ کالج سے میں اور منصور محمد حسین اپنے کالج کی نمائندگی کے لیے گئے۔ غزل میں مجھے اور نظم میں منصور کو پہلا انعام ملا اور یوں ٹرافی ہمارے کالج نے جیت لی۔ اس مشاعرے میں مصرعۂ طرح تھا‘ استاد قمر جلالوی کی غزل کا ’’ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو‘‘
میں نے اس مصرعے پر جو غزل لکھی اس کے چند اشعار یہ تھے:
نہ منتظر کوئی چہرہ مجھے بلانے کو
نہ کوئی خواب نہ سایہ گلے لگانے کو
بلندیوں کا فسوں اپنی سمت کھینچے گا
زمین بھی نہ ملے گی قدم جمانے کو
ابھی تو دن کی تھکن سے نڈھال ہے عابد
کھڑی ہے منزلِ شب سر پہ آزمانے کو
طاہر مسعود: آپ نے 1971ء کے المیۂ مشرقی پاکستان پر بھی تو ایک نظم لکھی ’’آج ڈھاکا لہو رنگ ہے‘‘
شوکت عابد: جی ہاں وہ میری سچی کیفیت تھی جس میں ڈوب کر میں نے وہ نظم لکھی تھی۔ سقوطِ ڈھاکا کا مجھے شدید دکھ تھا۔ نظم لکھ کر میں نے ’’جسارت‘‘ میں بھجوا دی تھی‘ اسے انہوں نے موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ادارتی صفحے پر نہایت نمایاں طریقے سے شائع کر دیا۔
طاہر مسعود: چلیں اب زمانۂ طالب علمی سے آگے بڑھتے ہیں۔
شوکت عابد: ہاں پھر میری ملاقاتیں ثروت حسین کے حوالے سے ادبی حلقوں میں ہونے لگیں۔ سب سے پہلی ملاقات قمر جمیل‘ رئیس فروغ‘ احمد ہمیش اور پھر محمود کنور سے ہوئی۔
طاہر مسعود: یہ وہ زمانہ تھا غالباً جب کراچی میں نثری نظم کی تحریک شروع ہو چکی تھی۔
شوکت عابد: جب میری پہلی ملاقات قمر جمیل سے ہوئی تو نثری نظم کے حوالے سے انہوں نے گفتگوئوں کا آغاز کر دیا تھا۔ ایک دن ثروت حسین نے مجھ سے کہا کہ ایک لڑکا ہے احمد جاوید‘ نہایت ذہین اور پڑھا لکھا تو یوں ہماری ملاقات احمد جاوید سے ہوئی اور میں نے انہیں ویسا ہی پایا جیسا کہ سنا تھا۔
طاہر مسعود: تو پھر آپ نثری نظم کی تحریک کا حصہ بن گئے؟
شوکت عابد: جی ہاں میں اس تحریک میں دل و جان سے شریک ہو گیا۔ اس زمانے میں سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ غزل آئوٹ ڈیٹیڈ لگنے لگی یعنی غزل کا مستقبل تاریک نظر آنے لگا۔ اس ماحول میں مجھے تو اپنی دال گلتی نظر نہیں آئی کیوں کہ میرا جو بھی شعری سرِمایہ تھا‘ وہ سب غزلوں پر مشتمل تھا۔ نثری نظمیں ان دنوں تحریک میں شامل ہونے کے باوجود میں نے لکھی نہیں۔ پھر میں نثری نظمیں لکھنے کے بجائے مغربی انگریزی نظموں کے تراجم کی طرف متوجہ ہو گیا اور ہسپانوی شعرا لورکا‘ خمنیز‘ گبریل مسترال‘ سیچے ڈو‘ پولش شاعر تادوش روزے وچ‘ فلسطینی شاعر محمود درویش وغیرہ کی جو نظمیں انگریزی میں دستیاب ہوئیں‘ ان کا میں نے اردو میں ترجمہ شروع کر دیا۔ میں ترجمہ کرتا جاتا تھا لیکن شاعری سے ساتھ ہی میرا دل اچاٹ ہوتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ میں اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ شاعری کے لیے میرے گھرانے سے ثروت حسین ہی کافی ہیں۔ یہ 1974ء کا زمانہ تھا‘ ابتدا میں شعر و ادب کا ایسا جوش و خروش تھا کہ میں نے منیر نیازی کو خط لکھ کر کراچی آنے کی دعوت دی‘ میں نے لکھا تھا ’’منیر صاحب! کراچی آپ کو بہت یاد کرتا ہے۔‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’کراچی یاد کرتا ہے تو مجھے بلاتا کیوں نہیں؟‘‘ منیر اس زمانے میں لاہور اور پنجاب میں بھی اس طرح تسلیم نہیں کیے گئے) تھے۔ کراچی آئے تو ماڈل کالونی میں میرے مکان پر نثری نظم تحریک کے تقریباً سبھی شعرا جمع ہوئے۔ قمر جمیل‘ احمد ہمیش‘ ضمیر علی بدایونی‘ شاہد اختر‘ رئیس فروغ‘ انور سن رائے‘ عذرا عباس‘ ایوب خاور‘ اقبال فریدی‘ سیما خان اورکزئی‘ فاطمہ حسن‘ ساجد سید وغیرہ‘ بڑی عمدہ محفل رہی۔ بہرحال اس زمانے میں تحریک کے ساتھ ہونے کے باوجود میں نے نثری نظمیں اکا دکا ہی لکھیں۔ غزلیں بھی برائے نام ہی کہیں۔
طاہر مسعود: ادبی رسائل میں اپنی تخلیقات چھپوانے کا مزاج آپ کا شروع ہی سے نہیں رہا۔ آخر اس کی وجہ؟
شوکت عابد: پتا نہیں کیوں اشاعت کی طرف کبھی توجہ نہیں دی۔ کسی نے کوئی غزل یا نظم مانگ لی کہ اسے ہم شائع کرا دیں گے تو اسے دے دی ورنہ خود اپنی تخلیقات چھپوانے کا اہتمام نہیں کیا۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نوجوان لکھنے والوں کی بہت حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ ان کے اصرار پر وقتاً فوقتاً غزلیں وغیرہ انہیں بھیجتا رہا جسے وہ شائع کر دیتے تھے۔
طاہر مسعود: آپ کا یہ زمانہ قمر جمیل کی رہنمائی میں گزرا پھر آپ سلیم احمد کے مکتبہ فکر سے ان معنوں میں وابستہ ہوگئے کہ سلیم احمد کی صحبت کو آپ ترجیح دینے لگے۔ اس تبدیلی پر کچھ روشنی ڈالیے۔
شوکت عابد: جی ہاں‘ یہ درست ہے کہ میں قمر جمیل صاحب کے حلقے سے نکل کر سلیم بھائی کی طرف آگیا۔ ان سے ملاقاتیں ریڈیو پر تو ہوا ہی کرتی تھیں۔ ان ملاقاتوں سے یہ ہوا کہ دل ان کی طرف زیادہ کھنچنے لگا۔ ان میں عجیب قسم کی محبوبیت تھی۔ ان کی صحبت اختیار کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ طبیعت میں ٹھہرائو آگیا۔ جوش کی جگہ ہوش نے لے لی۔
طاہر مسعود: سلیم احمد صاحب کی رائے آپ لوگوںکی نثری نظم کی تحریک کی بات کیا تھی؟
شوکت عابد: سلیم بھائی کی اس موضوع پر قمر بھائی سے بڑی بحثیں رہتی تھیں۔ سلیم بھائی ان دانشوروں میں سے نہ تھے جو اپنے ذہن اور قلب کی کھڑکیاں بند رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دریچے ذہن کے کھلے رکھے تھے۔ چنانچہ جب قمر بھائی نے ’’جائزہ‘‘ کے نام سے ایک ادبی رسالہ نکالا تو سلیم بھائی نے اس کے لیے ایک خصوصی مضمون لکھا عنوان تھا ’’اختلاف کا پھل۔‘‘
یہ مضمون ان کے قمر بھائی سے نظری اختلاف کے بارے میں تھا۔ مضمون بہت عمدہ تھا اور بہت ہی پسند کیا گیا۔ اصل میں نوجوانوں کی بڑی تعداد میں نثری نظم کی تحریک میں شمولیت نے سب کی توجہ اس نئی صنف کی طرف کر دی تھی۔ غالباً 1974-75ء میں ن۔م۔ راشد ایران سے آئے اور انٹر (پرل) کانٹینٹل ہوٹل میں ٹھہرے تو ہم نثری نظم والے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان میں قمر جمیل‘ احمد ہمیش‘ رئیس فروغ‘ ضمیر علی بدایونی‘ ثروت حسین‘ محمود کنور‘ سجاد میر وغیرہ شامل تھے۔ راشد صاحب سے غیر رسمی سی گفتگو شروع ہوئی۔ زیادہ تر بحث اس پر ہوتی رہی کہ کیا میٹر (آہنگ) کے بغیر شاعری ممکن ہے؟ انہوں نے ابتدا میں تو بڑی مزاحمت کی۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ راشد صاحب! آپ کی نظموں میں اتنی مشکل فارسی تراکیب ہوتی ہیں کہ ان کا حسن تفہیم کی دشواری کے سبب ہی غارت ہو جاتا ہے۔ آخر اس کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے برعکس آپ نے جن ایرانی نظموں کے اپنے کیے ہوئے ترجمے سنائے اس کی زبان سادہ ہونے کے باوجود پُر اثر محسوس ہوئی۔ راشد صاحب کو یہ اعتراض کچھ کھَلا کیوں کہ انہوں نے پوری قوت و شدت سے اپنی زبان کا دفاع کیا اور کہا کہ ’’میں شاعری میں Charged زبان لکھنے قائل ہوں۔‘‘ ہم لوگوں نے انہیں نثری نظمیں لکھنے کی دعوت دی۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس وقت تو وہ قائل نہیں ہوئے اور نہایت سختی سے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے لیکن تین ماہ بعد انہوں نے سجاد میر کو دو‘ تین نثری نظمیں رسال کیں جو انہوں نے لکھی تھیں۔ انہوں نے خط میں لکھا تھا کہ کراچی کے نوجوان شاعروں سے مل کر مجھے بہت لطف آیا۔ اتنا لطف کہ مجھے اپنی جوانی کے دن یاد آگئے۔ ان کی نثری نظمیں ڈاکٹر جمیل جالبی نے ’’نیا دور‘‘ میں شائع کر دیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک نثری نظم کا عنوان تا ’’بایاں بازو‘‘ یہ نظم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے موضوع پر تھی۔
طاہر مسعود: سلیم احمد کے بارے میں بتایئے کہ انہیں آپ نے عام دوسرے نقادوں اور ادیبوں سے کس طرح مختلف پایا؟
شوکت عابد: سلیم بھائی علم اور دانائی کا عجیب امتزاج تھے۔ آئیڈیل امتزاج۔ میرا ان کا ساتھ چار‘ پانچ سال تک رہا۔ جس سال ان کا انتقال ہوا اسی سال جولائی میں ہم نے ان کے ساتھ ساحل سمندر پر ایک پکنک منائی تھی۔ پکنک کا اہتمام ہمارے ایک پڑھے لکھے ادبی ذوق کے حامل دوست ڈاکٹر شوکت سعدی نے کیا تھا۔ پکنک کی فرمائش خود سلیم بھائی نے کی تھی۔ اس پکنک میں ثروت حسین‘ وارث فریدی اور تم بھی تو تھے۔
طاہر مسعود: ہاں اس پکنک کی یادگار تصویریں اب بھی محفوظ ہیں۔ بہت مزے کی پکنک تھی۔ وہاں شری گروجنیش ہمارے درمیان موضوعِ گفتگو رہے تھے۔
شوکت عابد: ہاں اس روز ہم دو بجے دوپہر سے رات ایک بجے تک ساحل کی گیلی ریت پر بیٹھے باتیں کرتے رہے تھے‘ اس کے ایک ماہ بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا۔
طاہر مسعود: پھر آپ کوچۂ تصوف کی طرف نکل گئے؟
شوکت عابد: جی ہاں 1983ء کے اختتام پر میں ایک افغان صاحبِ طریقت بزرگ جن کا تعلق سلسلہ نقش بندیہ سے تھا‘ صاحب زادہ سیف الرحمن اخوندزادہ کے ہاتھ پر احمد جاوید کی معرفت بیعت ہو گیا۔ بیعت ہوتے ہی شاعری نے مجھ سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
طاہر مسعود: دوبارہ شاعری کب اور کیسے مہربان ہوئی؟ میرا مطلب ہے گیارہ بارہ سال کے وقفے کے بعد دوبارہ اشعار کا نزول اچانک کیسے ہوا؟
شوکت عابد: سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے دعا کی تھی نہایت خلوصِ دل سے کہ تھوڑی بہت توفیق نعت لکھنے کی مل جائے۔ 1995ء کا واقعہ ہے۔ میں نے جمعے کی نماز میں ابھی نیت باندھی تھی کہ دورانِ نماز قلب پر نعت کا نزول ہونے لگا تو اب صورت یہ بنی کہ بدن تو نماز کے سارے فرائض ادا کرنے میں منہمک تھا اور دل نعت کہنے میں مصروف۔ یعنی میرے وجود کی دونوں Faculties الگ الگ کام میں لگی ہوئی تھیں۔ نماز کے بعد جس نعت کا نزول ہوا تھا اسے لکھ لیا۔ ردیف یہ تھی ’’عشقِ رسولؐ کے بغیر‘‘ جمعے کی نماز کے بعد نعت مکمل ہوئی اور اسی رات تین بجے ایک غزل لکھی اور سو گیا۔
طاہر مسعود: کیا اس غزل کے چند اشعار سنانا پسند کریں گے۔
شوکت عابد: جی ہاں مطلع تھا:
اک عجب خمارِ نشاط سا میرے جسم و جاں میں اتر گیا
میں سمٹ کے اور بکھر گیا اور میں بگڑ کے اور سنور گیا
تیری اک نگاہ کا تھا اثر میں بگولہ بن کے جو دشت میں
کبھی رقم کرتا اِدھر گیا کبھی خاک اُڑاتا اُدھر گیا
مرے دل کا گنجِ اماں ہے یہ‘ جہں ایک طائر خوش نوا
کبھی آ کے نیند اڑا گیا‘ کبھی دے کے کوئی خبر گیا
طاہر مسعود: ماشاء اللہ اس غزل میں جو دریا کی سی روانی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ایک بند تھا جو ٹوٹ گیا۔
شوکت عابد: جی ہاں ایسا ہی ہوا۔ ایک ڈیڑھ مہینے میں تیس‘ چالیس غزلیں لکھ ڈالیں۔
طاہر مسعود: شعر کہتے ہوئے کیا کیفیت ہوتی تھی؟
شوکت عابد: کچھ پتا نہیں چلتا تھا۔ چلتے پھرتے‘ سوتے جاگتے اشعار تھے کہ ایک سیلاب کی طرح چلے آرہے تھے۔
طاہر مسعود: کتنی غزلیں اس سیلاب میں بہہ کر آپ تک آئیں؟
شوکت عابد: 1995ء کے بعد سے اب تک تین سو غزلیں لکھ چکا ہوں۔ نثری نظمیں اس کے علاوہ ہیں۔ نثری نظموں کا معاملہ یوں ہوا کہ اپنی غزلوں کا مجموعہ ’’جسے دل کہیں‘‘ کے عنوان سے برادرم آصف فرخی مرتب کر رہے تھے کہ اچانک 2012ء میں نثری نظموں کا ایک ریلا سا آ گیا تقریباً پچاس سے اوپر نثری نظمیں لکھیں۔ اب میں نے اسے اس عنوان سے مرتب کیا ہے ’’شاعری میرا تعارف نہیں۔‘‘
طاہر مسعود: کیا اس عنوان میں شاعری کی تحقیر کا پہلو تو نہیں نکلتا؟
شوکت عابد: بات یہ ہے کہ شاعری نہ میرا شوق ہے۔ یہ میرا مشغلہ بھی نہیں ہے اور مسئلہ تو بالکل بھی نہیں ہے۔ اسے آپ سہولت کے لیے تھراپی کی ایک صورت کہہ سکتے ہیں۔
تم اس کو شاعری کہتے ہو یہ دوا ہے میری
اسی دوا سے کچھ آرام مجھ کو آتا ہے
طاہر مسعود: کہیں ایسا تو نہیں کہ گیارہ برسوں کے روحانی سفر میں آپ کو شاعری کا نعم البدل مل گیا ہو جس کے بعد شاعری فروتر نظر آنے لگی ہو؟
شوکت عابد: اصل میں اس وقت جس قسم کی یک رخی شاعری ہو رہی ہے‘ طبیعت اس سے اکتا جاتی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں ہر سال شعری مجموعے چھپ جاتے ہیں لیکن ان کا ایک شعر ایک مصرع بھی آپ تک نہیں پہنچ پاتا۔ آپ کا اندرونی تجربہ نہیں بن پاتا۔ اس کی وجہ غالباً ڈی ایچ لارنس کے لفظوں میں یہ ہے کہ ’’انسان اور انسانی تعلقات کا ادب اپنے سارے امکانات پورے کر چکا ہے اب ادب کی نئی زندگی اس وقت شروع ہوگی جب خدا سے اس کے ٹوٹے ہوئے تعلق کو دوبارہ قائم کیا جائے۔‘‘ ہمارے ہاں اس وقت جو یک سطحی شاعری ہو رہی ہے اس سے طبیعت اِباکرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسی بات کو میں یوں کہوں گا کہ ہماری موجودہ شاعری تکرار میں مبتلا ہو گئی ہے۔
طاہر مسعود: اس وقت شاعری میں ایک گروہ جدیدیت اور دوسرا قدامت یا روایتی شاعری کی طرف مائل ہے‘ آپ کیا اس میں اپنا راستہ بیچ میں سے نکالنا چاہتے ہیں؟
شوکت عابد: اس کا جواب میں نے اپنے ایک شعر میں دیا ہے:
چھیڑ مت قصۂ قدیمِ وجدید
میں پرانا بھی ہوں نیا بھی ہوں
میری سمجھ میں قدیم وجدید کا تنازع آج تک نہیں آیا کیوں کہ شعر میں سب سے پہلے تو دیکھنے کی چیز یہ ہوتی ہے کہ شاعری کتنی برآمد ہو رہی ہے۔
طاہر مسعود: اچھا یہ فرمایئے کہ آپ چھپنے سے اتنے گریزاں کیوں رہتے ہیں؟
شوکت عابد: اگر آپ سینئر شعرا پر نظر ڈالیں تو ایک شاعر بھی ایسا نہیں ہے جس نے اپنا شعری مجموعہ لانے میں عجلت کا مظاہرہ کیا ہو۔ انور شعور‘ جون ایلیا‘ نصیر ترابی۔ ان سب کے شعری مجموعے خاصی پختہ عمر میں جب ان کی شاعری بھی پختہ ہو چکی تھی‘ چھپ کر سامنے آئے۔ اگر آپ میں اپنے آپ کو تسلیم کرائے جانے‘ شہرت حاصل کرنے اور خود کو منوانے کی خواہش ہوگی تو آپ مجموعہ لانے میں عجلت کریں گے ورنہ آپ کی شاعری جب بھی چھپے گی‘ اصل میں اس کے منظر نامے پر آنے کا وہی صحیح وقت ہوگا۔
طاہر مسعود: آپ 33 برسوں سے شعر کہہ رہے ہیں تو تین دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی ایک شعری مجموعے کا نہ آنا تشویش ناک بات نہیں ہے؟
شوکت عابد: دیکھیے 11 برس تو میں شاعری ہی سے کنارہ کش رہا۔ مشاعروں میں عام طور پر میں جاتا نہیں۔ شاید تھوڑی دیر ہوگئی ہو مجموعہ لانے میں لیکن 2015ء میں میرا شعری مجموعہ ان شاء اللہ آجائے گا‘ آپ کی پُر محبت شکایت دور ہو جائے گی۔
طاہر مسعود: زمانہ شاعروں کو سب سے زیادہ نقصان کیا چیز پہنچا رہی ہے؟
شوکت عابد: اپنے شاعر ہونے کا احساس۔ ایلیٹ نے کہا تھا کہ شاعری شخصیت سے گریز کا نام ہے۔ آج کے بیشتر شاعروں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی شخصیت سے چھٹکارا پانے میں ناکام ہیں۔ ان کی شخصیت ہی ان کی اور ان کی شاعری کے درمیان حائل ہو جاتی ہے۔ کوئی بھی شاعر یا فن کار جب تک اپنے شاعر یا اپنے فن کار ہونے کے امیج سے آزاد نہیں ہوگا‘ بڑی شاعری نہیں کر پائے گا۔ ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ شاعر اپنے ہی بت کی پرستش میں مبتلا نظر آتا ہے جس کے نتیجے میں Real Self جو تخلیق کا سرچشمہ ہے‘ اس سے اس کا رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے تو بڑی شاعری کیسے ہو؟