انسانی تعلق کی ایک کہانی
انسانی زندگی میں تعلق کی اہمیت مسلمہ ہے، اور کچھ تعلق اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ہوتے ہیں، بعض ہمیشہ قائم رہتے ہیں تو کچھ کمزور ہوجاتے ہیں۔ یہی انسانی زندگی ہے۔ آج ہم دو اہم دوستوں کا ذکر کررہے ہیں جن میں سے ایک اپنے دور کے دبنگ صحافی اور دوسرے ملک کے صدر بنے۔ یہ ”عارفوں“ کی کہانی کچھ یوں ہے کہ پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے سات سال سے اپنے ایک انتہائی گہرے اور بے تکلف دوست سینئر صحافی عارف الحق عارف سے اس بات پر معافی مانگ کر بڑے پن کا ثبوت دیا ہے کہ وہ ان کے صدر بننے پر ان کو مبارک باد دینے اور متعدد مواقع پر رابطہ کرنے کے باوجود انہیں کوئی جواب نہیں دے سکے تھے۔
عارف الحق اسی فون پر واٹس ایپ پر سات برسوں سے مسلسل رابطہ کررہے تھے۔ 2018ء میں ڈاکٹر عارف علوی صدر بن گئے تو مبارک باد دینے کے لیے بار بار اسی فون پر کال کی اور پیغامات بھیجے۔ کال کرنے پر رنگ بھی ہوتی تھی لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آتا تھا۔ وہ یہ سمجھے کہ ان کے پاس پرانا فون نہیں ہوگا، یا پروٹوکول کی مجبوریاں ہوں گی، اس لیے عارف الحق عارف نے تین سال سے رابطہ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ حال ہی میں انہیں پتا چلا کہ صدر عارف علوی حج کے لیے مکہ مکرمہ میں ہیں تو اسی پرانے واٹس ایپ نمبر پر ان کو اپنی تصویر اور مبارک باد کا پیغام بھیج دیا۔ کچھ گھنٹوں کے بعد انہیں یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی اور خوشی بھی کہ ان سے بالآخر رابطہ ہوگیا۔ انہوں نے عید مبارک کا انگریزی میں جواب دیا تھا اور لکھا تھا کہ ”بہت شکریہ اور آپ کو بھی عید مبارک۔ (رابطہ ہوئے) طویل عرصہ (ہوگیا)۔ آپ اور آپ کے خاندان کے لیے خاص طور پر دعائیں کی ہیں۔ ہم میں سے اکثریت نے پاکستان اور اس کے عوام کے لیے دعائیں کی ہیں، معافی مانگی ہے اور اللہ غفورالرحم سے گڑگڑا کر التجا کی ہے کہ ہمیں ہماری خواہشوں کے مطابق موجودہ مصیبتوں سے نکلنے کا کوئی راستہ دے تاکہ پاکستانی قوم عظمت اور خوشحالی حاصل کرسکے“۔ نیک تمناؤں کے اس پیغام پر عارف صاحب نے جہاں خوشی کا اظہار کیا وہیں سات برس سے اپنے پیغامات کا کوئی جواب نہ دینے پر انہیں بڑی تفصیل سے شکووں بھرا ایک تلخ خط واٹس ایپ پر بھیج دیا۔ صدر نے اس کا بھی آدھا انگریزی اور آدھا اردو میں جواب دیا۔ انہوں نے لکھا:
”آپ کا خط مدینہ جاتے ہوئے ٹرین میں پڑھا۔ میرے بھائی مجھے معاف کردیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس حقیر بندے نے آپ جیسے اچھے دوست کے ساتھ ایسا کیا۔ آپ کی میرے لیے محبت اور پیار بڑا مثالی رہا ہے۔“
عارف الحق عارف نے اپنے خط میں صدر کے رویّے کو اقتدار کے نشے میں چُور اور مغرور ہونے کا نتیجہ قرار دیا تھا اور اس یقین کا بھی اظہار کیا تھا کہ اقتدار اللہ کے سوا کسی کے پاس ہمیشہ قائم نہیں رہتا اور جب صدارت کے منصب سے وہ ہٹیں گے یا اقتدار پر ان کی گرفت کمزور پڑے گی تو پھر ان کو مخلص دوست یاد بھی آئیں گے اور منقطع سارے رابطے بھی بحال ہونا شروع ہوجائیں گے۔ عارف الحق نے تصویر کے ساتھ مبارک باد کا یہ پیغام بھیجا تھا۔ صدر عارف علوی نے اس کا یہ جواب دیا:
Thank you, and Eid Mubarak to you. Long time. Speacifically prayed for you and your family. Most of all prayed for Pakistan and for its people. Asked for forgiveness and beseeched Alllah Al Ghafur and Al Raheem to provide a way out of our miseries, towards prosperity and the greatness that we all are wishing for.
اس کا عارف الحق نے جو تفصیلی جواب دیا وہ درج ذیل ہے:
”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
پاکستان کے عزت مآب جناب صدر پاکستان ڈاکٹر عارف رحمان علوی صاحب اور ہمارے بھائی صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ آپ کا صدر بننے کے بعد پہلی بار عید مبارک کا جوابی پیغام پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی اور اطمینان ہوا کہ آپ نے اس عاجز بندے کو آخرکار پہچان تو لیا ہے۔ آپ کے صدر بننے کی مجھے بڑی خوشی ہوئی تھی۔ یہ کتنی زیادہ اور بڑی خوشی تھی؟ اس کو الفاظ میں بیان کرنا اور قدر اور محبت کے خاص تعلق میں ناپنا بڑا مشکل ہے۔ اس خوشی کی انتہا اور اضافت کو الفاظ میں بیان کرنا کم از کم ہمارے لیے بہت مشکل ہے۔ شاید اس لیے کہ ہم آپ کی طرح اہلِ زبان نہیں اور دلی والوں کی طرح اپنے شدید جذبات کے کلی اظہار سے عاری ہیں۔
آپ یوں سمجھ لیں کہ یہ خوشی اُس سے سو گنا، جی ہاں، سو گنا زیادہ تھی جو ایک سگے بھائی کو صدر پاکستان جیسا بڑا آئینی منصب ملنے پر دوسرے بھائی کو ہوسکتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ہم ایک دوسرے کو نام سے نہیں بلکہ بھائی صاحب بھائی صاحب کہہ کر پکارتے تھے اور عملی طور پر اس کا ثبوت بھی دیتے تھے۔ شاید آپ اس تعلق میں، بھائی چارے میں اور محبت میں ہم سے بھی بہت آگے تھے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری تحریک اسلامی سے نظریاتی وابستگی تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ تعلق اور رشتہ خونیں رشتوں سے بھی بڑا گہرا اور اخلاص پر مبنی ہوتا ہے۔
ہمارے مزاج اور سوچنے کے انداز اور زندگی کے مقاصد ایک جیسے تھے۔ دوسری بڑی وجہ آپ سے محبت اور تعلق کی، آپ کے والد تھے۔ آپ کے عظیم والد سے ہمارے گہرے تعلق کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہمارے پہلے ڈینٹل سرجن تھے جن سے ہم نے جناب میر خلیل الرحمٰن کی چند سطری ایک تعارفی چٹ/ چٹھی کی وجہ سے علاج کرانا شروع کیا۔ بعد میں ان سے بہت زیادہ تعلق اور ان سے محبت اس بنا پر مزید اُس وقت بڑھی جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ وہ ہمارے مرشد اور محسن سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کے دلی سے دوست ہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے بڑے مالی معاون اور اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے پہلے بورڈ یا اساسی مجلس کے اہم رکن تھے۔
ہمیں اعتراف ہے کہ ہمارے اس باہمی برادرانہ اور تحریکی رشتے اور اس تعلق کے اظہار اور اس کو نبھانے میں ہم سے زیادہ آپ کا کردار رہا، اور آپ نے ہمیشہ بڑے پن کا مظاہرہ کیا۔ آپ کے مقابلے میں ہم کچھ کرنے اور دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے اور اس فرق کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے بھی تھے۔ اس کی بھی ایک وجہ شاید یہ رہی ہو کہ آپ کا خاندانی اور تعلیمی پس منظر ہم سے زیادہ بہتر اور شاندار تھا۔ ہم تو کشمیر کے ایک غریب اور پسماندہ دیہی علاقے سے کراچی آئے تھے، اور کراچی آکر محنت مزدوری کرکے اپنا مستقبل بنایا تھا۔ بھائی جی آپ سے ہمارے کم از کم چالیس سال کے بھائیوں جیسے رشتے کے دوران ایک دوسرے
سے گہرے باہمی تعلق اور محبت کے واقعات کو اگر لکھنا شروع کریں تو ایک کتاب بن سکتی ہے۔ اس کو ڈاکٹر آواب کے ماسٹرز کی تعلیم پر امریکا جانے کی رات سے شروع کریں اور آپ کے گھر پر قاضی حسین احمد، مولانا جان محمد عباسی، سید منور حسن اور ڈاکٹر اطہر قریشی شہید، عبدالستار افغانی، نعمت اللہ خان، خضر حیات اور دیگر اقارب کے ساتھ فکری نشستوں، تحریک انصاف کے قیام کے بعد آپ کی اس میں شمولیت اور تحریک کے فروغ میں تحریکی بھائی کی حیثیت سے نہیں جنگ کے ایک نامہ نگار کے طور پر اپنی خدمات، آپ کے انٹرنیشنل ڈینٹل ایسوسی ایشن کا صدر بننے کے بعد پریس کوریج اور آپ کا اشاعتی محاذ پر پریس سیکریٹری اور ترجمان کا کردار ادا کرنے، ہمارے گھر پر امہ فورم کی تشکیل اور اس میں آپ کی شرکت اور نائب صدر بننے، نجیب ہارون کے گزری کے بنگلے میں دعوتوں، اس کی سرگرمیوں اور سیمینارز کے انعقاد، انتخابی اصلاحات اور جدید خودکار ووٹنگ مشینوں کے استعمال کے حق میں آرٹیکلز لکھنے اور مشترکہ مہم چلانے تک بے شمار دوسرے واقعات آپ کے حافظے میں اب بھی موجود ہوں گے۔
انہیں دہرانے کی ضرورت ہے، نہ ہی موقع، اور نہ ہی آپ کے پاس موجودہ اعلیٰ منصبی ذمہ داریوں کی وجہ سے ان کو سننے کا وقت ہے، لیکن ان کی ایک جھلک لکھنے کا مقصد صرف یہ یاد کرانا ہے کہ ہمارے اور آپ کے درمیان باہمی پیار کے تعلق اور محبت کا رشتہ کس قدر حقیقی اور گہرا ہے۔ بھائی صاحب صحافت اور تاریخ کے ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناتے اور اپنے 56سالہ صحافتی تجربے سے ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اقتدار اور ہر قسم کی بے لگام طاقت ملنے کا احساس اور نشہ بڑے بڑے لوگوں کو اندھا کردیتا ہے۔ وہ اپنے حقیقی رشتوں کو، اپنی دوستیوں کو اور اپنے ہر قسم کے تعلقات کو یکسر بھول جاتے ہیں، لیکن ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ آپ جیسا سید مودودی کا متوالا، تحریک اسلامی کا مخلص کارکن بھی ہم جیسے دوسرے تحریکی بھائی کے ساتھ محبت بھرے رشتے کو بھول جائے گا۔
ہمارا خیال تھا اور یقین کی حد تک اور شعوری طور پر یہ احساس تھا کہ اس باہمی بھائی چارے اور دوستی کے رشتے کو ہر کوئی حتیٰ کہ عمران خان بھول سکتا ہے لیکن ہمارا بھائی عارف علوی کبھی نہیں بھول سکتا چاہے دنیا اِدھر سے اِدھر ہوجائے۔ عمران خان بلاشبہ پاکستان کا مقبول ترین لیڈر ہے اور دنیا بھر میں وہ ایک سیلیبریٹی کے طور پر مشہور اور پاکستان کی پہچان ہے۔ لیکن ماننا چاہیے کہ وہ بھی عام انسانوں کی طرح انسان ہے اور خامیوں کوتاہیوں سے مبرا نہیں ہے۔ عمران کے ساتھ2013ء کے لاہور کے کامیاب جلسہ عام تک ہمارے بڑے اچھے تعلقات اور رابطے تھے۔ وہ فون پر خود رابطہ رکھتے تھے اور فون کال سنتے اور جواب بھی دیتے تھے۔
یہ کوئی مثالی تعلقات نہیں تھے بلکہ ایسے ہی تھے جیسے ایک کامیاب سیاست دان کو صحافیوں سے رکھنے ہوتے ہیں۔ لیکن اس جلسہ عام سے شاید اُن کو احساس ہوا کہ وہ کوئی بہت بڑی مافوق البشر شخصیت ہیں تو ان کے دوستوں کے ساتھ رویوں میں تبدیلی کا آغاز ہوا۔ اس کا تجربہ ہمیں 2016ء میں ہوا۔ ہم امریکا سے پاکستان آئے اور اسلام آباد میں ان سے ملنے کی کوشش کی۔ کامیابی نہ ہوئی تو اُس وقت کی کور کمیٹی کے رکن مفتی سعید کے توسط سے اپنا وزیٹنگ کارڈ دے کر بھیجا کہ وہ صرف چند منٹ کی ملاقات کرلیں کیونکہ ہم دوسرے دن واپس امریکا آرہے تھے۔
لیکن اب وہ پہلے والے عمران خان تھوڑی تھے۔ بقول مفتی صاحب، انہوں نے ہمارا نام سن کر نہیں بلکہ ہمارے کارڈ کو دیکھ کر بھی ہمیں پہچاننے سے صاف انکار کردیا تھا، حالانکہ آپ کو اچھی طرح یاد ہوگا اسی عمران خان نے آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی کی شادی کے دن ناقابلِ یقین احترام دیا تھا۔ جب ہم اپنی بیٹی سارہ عارف کے ساتھ اسٹیڈیم روڈ کے قریب فوجی گالف گراؤنڈ میں شرکت کے لیے پہنچے تو وہ اسٹیج پر آپ اور بیگم صاحبہ اور دولہا اور دلہن کے ساتھ فوٹو سیشن میں موجود تھے اور ہمیں دیکھتے ہی اسٹیج سے نیچے اترے اور ہم سے گلے مل کر ہمارا استقبال کیا تھا اور ہمیں وہ عزت بخشی تھی کہ شاید ہی کبھی انہوں نے کسی اور کو دی ہو۔ ان کے ہمارے لیے اس احترام نے وہاں موجود برسراقتدار اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں اور کراچی کی اشرافیہ کے ممتاز لوگوں کو حیران کردیا تھا۔ لیکن اسی عمران خان نے لاہور کے مینار پاکستان کے جلسے کی سونامی سے شہرت ملنے کے بعد 2016ء میں ہمیں پہچاننے سے بھی انکار کردیا تھا اور اس بات کو سچ ثابت کردیا تھا کہ اقتدار کا نشہ کم عقل اور فانی انسان کو اندھا کردیتا ہے۔
ہمیں اس کا بڑا صدمہ ہوا تھا اور آپ سے فون پر اس طرزعمل کا شکوہ بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ عمران خان کی گردن میں ابھی سے سریا ڈل گیا ہے، جب اقتدار ملے گا تو پتا نہیں اس کا کیا بنے گا۔ آپ نے اس بات کو ماننے سے بظاہر انکار کیا تھا۔ لیکن واقعی بات ایسی ہی تھی۔ عمران خان سے ہمیں کوئی شکوہ نہیں کہ اس سے ہمارا کوئی نظریاتی اور تحریک اسلامی کا رشتہ اور تعلق نہیں تھا، لیکن جب آپ صدر بنے اور آپ کے ایک تحریکی اور نظریاتی بھائی ہونے کے ناتے جو بے پناہ خوشی ہوئی اور یہ امید بھی پیدا ہوئی کہ عمران خان اگر اس ملک کو اسلامی نظام عدل و انصاف دینے کے قیامِ پاکستان کے مقصد سے زیادہ واقف نہیں تو آپ صدرِ پاکستان جیسے منصب پر ہوتے ہوئے ان کی رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔
تو اس خوشی میں ہم نے آپ کواسی موجودہ نمبر کے واٹس ایپ پر مبارک باد کے کئی پیغام بھیجے، کوئی جواب نہیں ملا۔بار بار بھیجے، جواب نہیں آیا۔ سوچا شاید نمبر بدل گیا ہویا پروٹوکول کے مسائل ہوں، تو وہی پیغامات ڈاکٹر آواب علوی کے ذریعہ بھیجے۔اُن کی مہربانی کہ انہوں نے ہمیں پہچان لیا اور پیغامات کو آپ تک پہنچایا، لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔پوچھنے پر آواب کا جواب یہی ہوتا کہ ” عارف صاحب، میں نے آپ کا پیغام بھیج دیا ہے، وہ جواب دیتے ہیں یا نہیں یہ اُن پر یا اُن کے اسٹاف پر منحصر ہے“۔ ہم آواب سے اس لیے خوش تھے کہ وہ ہمیں نہیں بھولا تھا۔یہ بھی آپ کی اور بھابھی کی تربیت کا نتیجہ تھا۔ پھر ہم نے ایک اور طریقہ اختیار کیا کہ مقبول یوٹیوبر صدیق جان سے کہا کہ تمہاری ملاقات ہوتی ہے تو کبھی جناب ِصدر کی خدمت میں ان کے اس بھائی کا سلام عرض کرنا۔
لیکن شاید اُس کی بھی رسائی ممکن نہ ہوسکی ہو اور یہ طریقہ بھی ناکام ہو گیا۔ پھر ہم نے آپ سے رابطہ کرنے اور ملنے کی خواہش ہی دل سے نکال دی لیکن یہ اطمینان تھا کہ ہمارا نظریاتی تعلق بڑا مضبوط ہے اس لیے وہ اسی رفتار سے بحال ہونا شروع ہو جائے گاجس رفتار سے آپ کی گرفت اقتدار سے کمزور ہوتی جائے گی اور آپ کو زمینی حقائق نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ کیونکہ آدمی کتنی ہی بلندی پر پہنچ جائے اس کو ایک نہ ایک دن واپس اپنے اصل کی جانب لوٹ جانا ہوتا ہے۔ بھائی صاحب آپ جانتے ہیں کہ ہمارا
تعلق صحافت سے ہے اور آپ سے رابطہ ہو یا نہ ہو پاکستان کے حالات اور خاص طور پر آپ یعنی صدارتی ایوان کی خبریں ہماری نظروں میں رہی ہیں۔آپ بھی ہر سال یوم پاکستان 23مارچ اور یوم آزادی 14اگست کو اعلیٰ کارکردگی اور قومی خدمات پر مختلف لوگوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو بھی تمغا جات، ایوارڈز اور حسنِ کارکردگی کی اسناد دیتے ہیں۔جب بھی کسی صحافی کا نام سامنے آتا تو حیرانی ہوتی کہ آپ کو کبھی اِس خاکسار کی یاد نہیں آئی جس کی نہ صرف صحافت میں بلکہ سماجی اور معاشرتی میدان میں بھی کچھ نہ کچھ تو خدمات ہیں اور جس نے تحریکِ انصاف کی 2012ءتک پاکستان کے مؤثر ترین اخبار کے ذریعے بڑی خدمت کی ہے اور اس کو مقبول بنانے میں اس کا مثبت کردارہے۔
لیکن پھر خیال آیا کہ آپ ہمیں کیوں یاد رکھیں گے کہ ہم وطن سے ہزاروں میل دور ہیں۔ ہم نے یہ چند گزارشات اپنا بھائی اور ساتھی سمجھ کے کردی ہیں، اگر آپ کو بری لگی ہوں یا اس سے آپ کو ہماری طرف سے کسی قسم کی گستاخی کا پہلو نکلتا محسوس ہو تو ہمیں معاف کردیں۔ہم ایک دوسرے کے بھائی تھے، بھائی ہیں، بھائی رہیں گے۔ اپنا بہت سا خیال رکھیے گا۔
آپ کا بھائی عارف الحق عارف“
+19165191538arifulhaquearif@gmail.com
ڈاکٹر علوی نے یہ خط مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جاتے ہوئے ٹرین میں پڑھا اور اس کا بھی جواب دیا۔ جس کا متن یہ ہے:
Read your full letter on train to Madina. My brother forgive me if you felt this small man can or did forget a good friend like you. Your love for me has been exceptional.
معذرت کرتا ہوں، معافی مانگتا ہوں۔یہ دنیا فانی ہے۔ آپ سب کی دعائوں نے مل کر ایک چھوٹے حقیر آدمی کو بڑی آزمائش کی جگہ پر بھیج دیا۔ کاش کہ میں بھی تنکا ہوتا۔اللہ آپ کو اور اولاد کو خوش رکھے۔
عارف علوی