’’آہ کتنے ماہ و سال بیت گئے۔ پردیس میں آ کر بس میں پردیسی ہی ہوگئی۔ اب اپنوں سے ملوں گی…کیسا لگے گا…کیسے ملوں گی؟ باجی کیسی ہوں گی، بھیا کیسے لگتے ہوں گے؟ اماں کی عینک اب کون ڈھونڈ کے دیتا ہو گا؟آنگن میں بادام اور کیریاں…کیا اب بھی لگتی ہوں گی؟شام کو گرمی کم کرنے کو کیا اماں پانی کا چھڑکاؤ کرتی ہوں گی؟ شام کی چائے پر گرما گرم جلیبی، سموسوں کے ساتھ گرما گرم بحثیں…کیا اب بھی ویسے ہی ہوتی ہوں گی؟‘‘ ماحول میں ٹھنڈ اتر آئی، جہاز ابھی فضا ہی میں تھا۔ اس نے بچوں کے گرد کمبل لپیٹا۔ دونوں سو چکے تھے۔ اس نے بھی پیچھے سر ٹکا دیا۔ ابھی سفر ختم ہونے میں خاصی دیر تھی، سو اس نے آنکھیں موند لیں۔
انسان بھی کس قدر بے بس ہے، دانے پانی کی تلاش میں نگری نگری گھومتا ہے، ساتھ میں اس کے گھر والے بھی۔ شہلا بھی جب پردیس گئی تو اکیلی تھی۔ شادی ہوئی تو شہلاسچ میں پرائی ہوگئی۔ اپنا آنگن، سکھیاں، اسکول،کالج، امی ابو، بہن بھائی… سب کو چھوڑ ہی گئی۔
سسرال بدیس میں تھا تو وہیں دل لگا لیا، فون پر رابطے بحال تھے، لیکن ماں کے گلے لگنے کی کسک، بہن بھائیوں کے ساتھ ہنسی مذاق، اپنی گلیاں، بچپن… جب تھک کر لیٹتی چھم سے ذہن پر ایک کے بعد ایک منظر آنے لگتا، آنکھوں کے کونے بھیگ جاتے… دل دکھ جاتا۔ میاں کا ابھی نیا سیٹ اَپ تھا تو انہوں نے اس سے ساتھ دینے کا وعدہ لے لیا تھا۔ بس شہلا دن رات گن گن کر گزار رہی تھی۔ نہ جانے کب اپنے ملیں گے پھر سے۔ میکہ تو ویسے ہی دل میں بسا ہوتا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں، دل ہڑک ہڑک جاتا ہے، اور اب تو اس کے ساتھ دس سالہ سمیر اور آٹھ سالہ عائشہ بھی تھی۔
رب نے خوب اچھا موقع دیا اس کو اپنوں سے ملنے کا۔ ’’بقرعید میں کچھ ہی دن باقی ہیں‘‘، شہلا زیر لب مسکرا دی۔ ’’یہاں بچے سیکھ لیں گے قربانی کی حقیقت‘‘۔ لیکن شہلا کی خواہش دل میں ہی رہ گئی۔ سادہ سادہ سے گھر اب تبدیل ہوگئے تھے… آنگن، صحن سب کچھ اب لائونج میں تبدیل ہوگیا تھا۔ وہ پیڑ پودے اب لان بن گئے جس میں خوب مہنگے مہنگے پودے تھے۔ بچوں کا وہاں جانا ممنوع تھا۔ بچے یا تو نیٹ میں مصروف رہیں یا گھر کے باہر رہیں۔ اندر کا گھر اب ایک ڈیکوریشن پیس تھا، اور تو اور بڑے اور چھوٹے بھائی دونوں میں مہنگا جانور لانے پر بحث سن کر شہلا حیران رہ گئی۔ مطلب اب قربانی بھی ایک دکھاوا ہے… ایک دوسرے پر رعب ڈالنے کے لیے، پیسے کی دھاک بٹھانے کے لیے۔ خوب لمبے چوڑے بیل گھر کے باہر آ کے بندھ گئے… پورے محلے میں دھاک بیٹھ گئی۔ دھڑا دھڑ سیلفیاں لے کر سوشل میڈیا پر ڈال دی گئیں۔ اب لائکس اور شیئر کی گنتی شروع ہوگئی۔ دونوں بیل قربان ہوگئے اور کچھ بار بی کیو کے لیے اور باقی فریزر کی نذر ہوگئے۔
’’ارے اماں! کیا رشتے داروں اور غریبوں کا حصہ بھی اب نہیں جاتا ہمارے ہاں سے کہیں؟‘‘
’’ارے بیٹا میں تو ایک کونے کی ہوگئی ہوں، جو اِن لوگوں کا دل چاہے، کریں…کون بحث کرکے الجھے! کہتے ہیں اب سب کے ہاں ہوتی ہے قربانی۔ حالاں کہ تم کو علم ہے اپنے قریبی لوگوں میں کتنے ضرورت مند اور سفید پوش ہں … بس کیا ہے دَور ہی کچھ ایسا ہے، ہر چیز دکھاوا، بناوٹ۔ اصل روح تو کہیں رہی ہی نہیں، ورنہ ممکن تھا کہ لاکھوں کا مجمع اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہوئے دیوانہ وار طواف کرے۔ اللہ کی محبت میں سرشار، سفید احرام میں سب کچھ بھلا کر بس لبیک… لبیک پکارتا رہے۔ پھر وہ مجمع اپنے اپنے گھروں میں لوٹنے کے بعد اس معاشرے میں آرام کے ساتھ رچ بس جائے، معلوم ہی نہ ہو کہ کس گھر سے ہوکر آیا ہے۔ ورنہ تو مٹھی بھر لوگ قوموں کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ شہنشاہوں کے شہنشاہ کے گھر کی زیارت ایسے کیسے بھول جاتے ہیں! پاک صاف ہوکرآتے ہیں۔ گناہوں سے پاک، نیکی کے نور میں ڈوبے ہوئے الگ ہی کیفیت میں ہوتے ہیں وہ رب کے گھر سے ہو آنے والے… لیکن شہلا! کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ان سب کے آنے کے بعد ماحول وہی رہتا ہے غیر اللہ کی برتری والا۔ معاشرہ وہی رہتا ہے گناہ پر اکسانے والا۔ نیکی کرنا مشکل تر، اس پر قائم رہنا اور مشکل۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جم غفیر جب اور جہاں سے گزرتا نیکیوں کا سمندر بہہ نکلتا، اللہ کا نظام قائم ہوجاتا، اللہ کی برتری ہر جگہ نظر آتی، دین یوں مظلوم نہ ہوتا، اللہ کے نام لیوا یوں بے چارے نہ ہوتے۔ دنیا بھر کے مسلمان مجبور، بے بس… غیر اللہ کے آگے سرنگوں۔
حج یہی تربیت تو کرتا ہے… ایک رب، ایک قرآن، ایک امام اور ایک نظام۔ اللہ اکبر کبیرا… والحمد للہ کثیرا…سبحان اللہ بکرؓ و اصیلا۔