ادبی نشست کا احوال

381

گزشتہ دنوں حریم ادب ضلع ائرپورٹ کے تحت ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کے انتظامات کے لیے مختلف امور کی کمیٹیاں بنادی گئی تھیں، اس لیے سب نے اپنے کام کو بہ خوبی انجام دیا۔ آرائش کمیٹی نے اسٹیج اور ہال کو پھولوں کے ساتھ بہت خوب صورتی سے سجایا تھا۔ مہمانوں کا استقبال پھولوں کی دل فریب مہک سے ہورہا تھا۔

مہمانِ خصوصی حریم ادب کراچی کی نائب نگراں، معروف شاعرہ اور افسانہ نگار سمیرا غزل تھیں۔ ان کی تخلیقات تو پڑھی تھیں مگر ملاقات پہلی دفعہ ہوئی، بہت اچھا لگا۔ دیگر مہمانوں میں عصمت منیر نگراں حریم ادب ضلع شرقی اور ان کی نائبین صباحت منصور اور شگفتہ ضیا تینوں ہی نام کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ افسانہ نگاری، بلاگ رائٹنگ اور شاعری، ادب کی ہر صنف کے استاد تھے ہمارے مہمانانِ گرامی۔ پروگرام کا آغاز آمنہ خالد کی تلاوتِ قرآن کے بعد میمونہ یحییٰ نے نعتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا، ’’ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں‘‘۔ نگراں حریم ادب ضلع ائرپورٹ طاہرہ فاروقی نے حریم ادب کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ادیب کا مقام بہت بلند ہوتا ہے، اتنا بلند کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے محبت کی خاطر اپنے لیے ادیب کا منصب پسند کیا ہے اور قرآن جیسا ادب تخلیق کیا جسے اپنی نعمتوں میں افضل ترین نعمت قرار دیا، قلم کی حرمت کی قسم کھائی۔‘‘

یہ سب سننے کے بعد قلم کار بہنیں فخرمحسوس کررہی تھیں ادب سے اپنے لگاؤ پر، اور اس کے ساتھ ہی دل میں عزم بھی تھا اس منصب کا حق ادا کرنے کا۔ اب مرحلہ تھا قلم کار بہنوں کی تخلیقات سننے کا۔ نصرت مبین، خدیجہ اشتیاق، ثروت اقبال، رومانہ فیصل، ریطہ طارق، فوزیہ تنویر، ریحانہ عقیل، عنبرین معیز اور ثمرین شاہد نے اپنی تحریریں پڑھیں۔

سہ ماہی نشست کے موضوعات آنے والی سہ ماہی کے حوالے سے تھے۔ قربانی، سیرتِ عمر فاروقؓ‘ سالانہ چھٹیاں اور مختلف حوالوں سے گفتگو رہی، ساتھ ساتھ مہمانوں کے دل چسپ اور مفید تبصرے بھی جاری تھے جو نئی قلم کاروں کی رہنمائی کررہے تھے۔ شگفتہ ضیا نے کہا کہ ’’جس تحریر کا عنوان چونکا دینے والا ہو اس کو پڑھنے میں قاری دل چسپی محسوس کرتا ہے۔‘‘

صباحت منصور نے کہا کہ ’’سادہ اور عام فہم انداز ہو، تاکہ پڑھنے والے کو یہ لگے کہ یہ اسی کے دل کی آواز ہے۔‘‘ عصمت منیر نے کہا کہ ’’الفاظ کا چناؤ بہترین ہو، بے جا طوالت نہ ہو، مختصر اور جامع لکھنے کی کوشش کریں۔‘‘

’’نانی کے گھر پہ جانا، وہ رت جگا منانا‘‘ فاطمہ عدنان کی نظم نے سب کو بچپن کی یاد دلادی۔ ’’تم اپنے سر پہ سجائے رکھنا حیا کا آنچل‘‘ فرحانہ قمر صاحبہ نے اپنی نظم پرحاضرین سے داد وصول کی۔ اسماء تفضل نے اپنی نظم بہت ہی خوبصورت انداز سے ترنم میں پڑھی تو ماحول پر ادبی نشست کا صحیح رنگ نظر آیا۔ ’’چھوڑ دے اپنے گناہ قربان کر امارہ نفس‘‘

اس کے بعد نشست کا سب سے اہم حصہ مہمانِ خصوصی سمیراغزل کی پُر مغز مگر سادہ و دل نشین گفتگو تھی۔ انہوں نے کہا کہ لکھنے سے پہلے ہوم ورک ضروری ہے، مطالعہ جتنا اچھا کریں گے اتنا ہی اچھا لکھیں گے۔ انہوں نے نئی قلم کار بہنوں کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ سادہ اور عام فہم انداز میں مختصر اور جامع لکھنے کی کوشش کریں۔

ناظمہ ضلع ائرپورٹ ساجدہ تنویر نے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ادیب معاشرے کا دماغ ہوتا ہے۔ ادیب وہ باصلاحیت فرد ہے جو بات کو آسان انداز میں سمجھاتا ہے۔ ادب معاشرے کے ذوق اور نظریات کا عکاس ہوتا ہے۔ سعدیہ شارق کی خوب صورت اشعار سے مزین اناؤنسمنٹ نے ادبی نشست کو چار چاند لگادیے۔ ناظمہ ضلع کی دعا سے اس خوب صورت اور یادگارتقریب کا اختتام ہوا۔

حصہ