کیفے شاندار پر بیٹھے چند نوجوان خوش گپیوں میں مصروف تھے، اتفاق سے اس وقت میں بھی وہاں جا پہنچا۔ کیفے شاندار چونکہ لانڈھی 36/B کو جاتی سڑک پر قائم ہے اس لیے زیادہ تر لوگ اپنے دوستوں سے ملنے یا گپ شپ لگانے کے لیے اسی کیفے کا انتخاب کرتے ہیں۔ کبھی کبھار میں بھی وہاں چلا جاتا ہوں۔ اُس روز جب میں وہاں پہنچا تو پہلے سے بیٹھے ان نوجوانوں کے قریب جابیٹھا جو شہر میں بڑھتی ہوئی وارداتوں پر اپنی اپنی رائے دینے میں مصروف تھے۔ آپس میں باتیں کرتے یہ نوجوانوں ایک شخص جسے وہ فائق کے نام سے پکار رہے تھے، کی باتیں بڑی توجہ کے ساتھ سن رہے تھے۔ وہ کہہ رہا تھا:
”اللہ کا شکر ہے شہر میں بڑھتی ہوئی وارداتوں سے میں ہمیشہ ہی محفوظ رہا ہوں، میرے ساتھ آج تک کوئی واردات نہیں ہوئی، موبائل فون چھینا گیا اور نہ ہی کسی نے رقم لوٹی۔ لوگ لُٹتے ہیں تو بہت افسوس ہوتا ہے۔ پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، ہوٹل مالکان سے مفت چائے پینا اور کھانے کھانا تو ان کے مشاغل میں شامل ہے لیکن سڑکوں پر دن دہاڑے لُٹتے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ان کی ذمہ داری نہیں۔ آج صبح ہونے والی واردات کو ہی دیکھ لو، اسی کیفے میں بیٹھے درجنوں افراد کو اپنے موبائل فون اور پرس میں رکھی رقم سے محروم ہونا پڑا، میرا مطلب ہے ڈاکو اسلحہ کے زور پر درجنوں افراد بشمول کیفے شاندار کے مالک سے رقم اور موبائل فون لے کر فرار ہوگئے۔ یہ اس کیفے میں ہونے والی تیسری ڈکیتی تھی۔ بتائیے ایسے حالات میں انسان کس سے فریاد کرے؟ جرائم پیشہ افراد یہاں دندناتے پھرتے ہیں اور قانون خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا ہے۔“
فائق کی باتیں سن کر ساتھ بیٹھے ایک نوجوان نے کہا: ”یار تم نے جو کچھ بھی کہا وہ سولہ آنے درست ہے، لیکن تم واردات سے محفوظ رہے یہ غلط ہے۔ پچھلے دنوں تم سے موٹر سائیکل چھین لی گئی تھی اور تم موٹر سائیکل سے محروم ہوگئے تھے تو کیا وہ ڈکیتی نہیں تھی؟ اگر تھی تو تم کیسے محفوظ رہے؟ راہ زنی یا ڈکیتی تو تمہارے ساتھ بھی ہوئی ہے۔“
”میرے ساتھ ڈکیتی ہوئی نہ ہی راہ زنی… میری موٹر سائیکل تو گھر کے باہر سے چوری ہوئی تھی جو چند دن بعد سڑک کے کنارے کھڑی مل گئی تھی، لہٰذا میں اُن متاثرین میں شامل نہیں جن کے بارے میں ہم گفتگو کررہے ہیں۔“
فائق کے جواب پر وہ شخص مسکراتے ہوئے بولا:”کان سامنے سے پکڑو یا گردن کے پیچھے سے، بات تو ایک ہی ہے۔ بات گھماکر کرنے کی کیا ضرورت ہے! سیدھا کہو کہ وہ بھی واردات تھی، یہ الگ بات ہے کہ تمہاری موٹر سائیکل مل گئی ورنہ تم بھی اب تک ماتم کرتے دکھائی دیتے۔ مان لو کہ تم بھی اس عتاب کا شکار رہے ہو۔“
”میں اسے ڈکیتی نہیں کہوں گا، تم سمجھتے ہو تو سمجھتے رہو“۔ فائق انتہائی جذباتی انداز میں بولا۔
اس سے پہلے کہ ان کے درمیان ہونے والی گفتگو میں مزید تلخی پیدا ہوتی، میں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے انہیں اپنی جانب متوجہ کرلیا، میں نے کہا:”ارے ارے سنو… تم کیا اِس ہوٹل کی بات کررہے ہو؟“
میرے سوال نے فائق کے چہرے سے عیاں ہوتے غصے کو مٹا ڈالا، وہ دھیمے لہجے میں بولا: ”جی ہاں ہم اِسی ہوٹل پر ہونے والی ڈکیتی کی بات کررہے ہیں۔“
اس کے جواب پر میں نے کہا: ”ارے چھوڑو میاں! یہ ایک کیفے نہیں، بلکہ یہاں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں لوگ محفوظ ہوں۔ گھر کی دہلیز ہو یا دکان… مسجد ہو یا مصروف سڑک… اب تو تھانوں کے سامنے بھی بے لگام مسلح ڈاکو لوٹ مار کرنے سے گریز نہیں کرتے، راہزن سائے کی طرح شہریوں کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔ سڑک پر چلتی گاڑیوں کا تعاقب کرتے یہ دہشت گرد کسی بھی کار یا موٹر سائیکل سوار کو پلک جھپکتے ہی اس کی سواری سے محروم کردیتے ہیں۔ صرف جنوری، فروری اور مارچ کے دوران اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں شدید اضافہ دیکھا گیا، جرائم کی21 ہزار سے زائد وارداتیں ہوئیں جن میں شہری اپنی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں، نقدی، موبائل فون، طلائی زیورات اور دیگر قیمتی اشیاء سے محروم ہوگئے۔ رواں سال کے آغاز میں تقریباً 7000 واقعات درج ہوئے جبکہ فروری میں 6800 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔ مارچ میں 7000 سے زائد واقعات رونما ہوئے۔ اب تو جولائی کا مہینہ ہے، نہ جانے مزید کتنے لوگ اب تک اپنی قیمتی اشیاء سے محروم ہوچکے ہوں گے۔ جنوری سے مارچ تک صرف 90 دنوں کے دوران اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں مزاحمت پر 34 شہری جان کی بازی ہار چکے ہیں جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ ڈاکوؤں نے جنوری میں 14، فروری میں 10 اور مارچ میں 10 شہریوں کو قتل کیا، جب کہ ضلع وسطی بری طرح متاثر ہوا۔ اس کے بعد شرقی اور کورنگی کا نمبر آتا ہے۔ گزشتہ سال کے اسٹریٹ کرائمز کے اعداد و شمار کراچی میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس دوران 81ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔ 2022ء کے اعداد و شمار میں 52ہزار موٹر سائیکلیں اور 26 ہزار 4 سو موبائل فون چوری ہوئے جن میں سے صرف 4 ہزار چوری شدہ اشیاء کی ریکوری کی گئی ہے جس میں 2ہزار900 موٹر سائیکلیں، 600 کاریں اور 530 فون شامل ہیں۔ 2022ء میں کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی لعنت نے ڈکیتیوں کے دوران فائرنگ کے واقعات میں 100 سے زائد قیمتی جانیں لے لی تھیں، اور 400 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔“
کراچی میں ہونے والی ڈکیتیوں اور اسٹریٹ کرائمز پر میری جانب سے بتائے گئے اعداد وشمار کو سن کر وہ نوجوان خاصے متاثر ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کے بتائے ہوئے اعداد و شمار سن کر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ شہر ڈاکوؤں اور لٹیروں کی آماج گاہ بن چکا ہے۔ اب سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ان بدترین حالات میں ہماری پولیس اور انتظامیہ کیا کررہی ہے؟ ہماری حکومت شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کیوں نہیں کرتی؟
ان نوجوانوں کی جانب سے اٹھائے گئے سوال پر میں نے کہا: ”اس بدترین صورتِ حال پر اگر پولیس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ان کی جانب سے وہی پرانے رٹے رٹائے جملے سننے کو ملتے ہیں۔ کراچی میں بڑھتی ہوئی وارداتوں پر پولیس حکام کا جو مؤقف ہے وہ بھی سن لو۔ پولیس افسران کا کہنا ہے کہ کراچی ایک بڑا شہر ہے جہاں عادی مجرم بھی ہیں، پولیس کے پاس عادی مجرموں کا جو ریکارڈ موجود ہے اس کے مطابق گیارہ ہزار ملزم ہیں۔ ہوسکتا ہے اسٹریٹ کرائمز میں ملوث افراد کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو۔ ان میں سے تقریباً تین ہزار جیل میں اور باقی ضمانت پر ہیں یا بری ہوچکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پانچ سے سات ہزار لوگ اب بھی سرگرم ہیں۔
جبکہ دوسرے نمبر پر سرگرم مجرموں میں منشیات کے عادی افراد ہیں۔ بدقسمتی سے منشیات کے عادی افراد جن کو ان کے گھر والے بھی نہیں رکھتے، وہ زندہ رہنے اور اپنے نشے کی لت کو پورا کرنے کے لیے جرائم کرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی معمولی نوعیت کے جرائم جیسے گٹر کے ڈھکن چوری کرتا ہے تو کوئی راہ زنی کرتا ہے۔ شہر میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 30 سے 40 ہزار کے قریب ہے۔ اگر ان میں سے دو ہزار بھی وارداتیں کریں اور ہم ان کا اندراج کریں تو یہ جرم کی بڑی تعداد بن جاتی ہے، لیکن رجسٹرڈ کرائم دس فیصد سے بھی کم ہیں۔ شہر میں بڑھتے جرائم کی تیسری وجہ غیر مقامی جرائم پیشہ افراد ہیں جو ایک شہر سے دوسرے شہر میں جاکر واردات کرتے ہیں اور پولیس کی گرفت سے نکل جاتے ہے جس کے بعد ان کا تعاقب کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے، لیکن پولیس نے اس سلسلے میں بھی ان کو پکڑنے کی کوششیں کی ہیں۔ کراچی میں پولیس سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں اور جہادی تنظیموں کے ہمدروں کو بھی ڈکیتیوں کی وارداتوں میں گرفتار کرچکی ہے۔ کرائم، دہشت گردی اور سیاست کو آپ الگ نہیں کرسکتے، ہمارے خطے میں یہ چیزیں ایک ساتھ چلتی ہیں۔“
سنا آپ نے پولیس کا مؤقف یا بہانے… جس شہر کی پولیس جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کرنے کے بجائے مجرموں کی اقسام گنوانا شروع کردے اس شہر میں امن قائم ہوتا دیکھنے کی خواہش دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں۔ بات سیدھی سی ہے، جس نے جرم کیا وہ گرفتار ہونا چاہیے۔ مجرم نہ صرف قانون کے شکنجے میں ہوں بلکہ انہیں سخت سے سخت سزا بھی ملنی چاہیے۔
خیر ہمارے درمیان گفتگو ابھی چل ہی رہی تھی کہ میرے دوست بھی وہاں پہنچ گئے۔ یوں مذاکرات کرنے والوں کا دائرہ وسیع ہوگیا۔ سب اپنی اپنی رائے دینے لگے۔ نہال شیخ کی خاموشی ان کے ذہن میں چلنے والے خیالات کا پتا دے رہی تھی۔ میں نے اُن کے اس رویّے کو بھانپتے ہوئے کہا: ”کوئی اور بات کرو، اس موضوع کے لیے مجلس میں حاضر ہونا ضروری ہے، لگتا ہے شیخ صاحب کسی اور دنیا میں کھوئے ہوئے ہیں۔“
ابھی میرا جملہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ نہال شیخ نے میری جانب متوجہ ہوتے ہوئے کہا:”میں تم لوگوں کی باتیں بڑی توجہ سے سن رہا ہوں، فرق صرف اتنا ہے کہ تم لوگ سکے کا ایک رخ دیکھ رہے ہو جبکہ دوسری جانب تمہارا دھیان نہیں۔ تم ڈکیتی کی وارداتوں اور معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم پر تو گفتگو کررہے ہو لیکن اس کے اسباب کے بارے میں نشاندہی نہیں کررہے، یعنی تمہیں جرم تو دکھائی دیتا ہے، بڑھتے ہوئے جرائم کی وجہ نظر نہیں آتی۔ بے شک کسی بھی قسم کے جرائم میں ملوث شخص کی کسی طور حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی لیکن معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کے اسباب پر سوچا تو جا سکتا ہے۔ بات سیدھی سی ہے، جس معاشرے میں دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو وہاں ایسے حالات کا ہونا فطری عمل ہے۔“
نہال شیخ نے اپنی بات آگے بڑھتے ہوئے کہا: ”تنگ دستی میں جرم ہوجانا تو معمولی بات ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تنگ دستی انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ ظاہر ہے کوئی بھی شخص اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا ہوا نہیں دیکھ سکتا، اس صورت حال میں وہ کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرے گا۔ لوگوں کے لیے روزگار کا بندوبست کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، جب ریاست اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی تو ایسے ہی حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ جرائم پیشہ افراد کی کارروائیوں کی کوئی حمایت نہیں کرتا، لہٰذا میرے نزدیک اسٹریٹ کرائمز میں ملوث ہونے کی بنیادی وجہ بدترین معاشی حالات، اخلاقی پستی اور تربیت کا فقدان ہے۔ خاص طور پر معاشی تنگ دستی فرد یا افراد کو جرم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ نفسیات میں ایسے گھرانوں کے لیے ”ڈس فنکشنل فیملی“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے علاؤہ ایسے گھرانے جہاں ماں باپ اپنے فرائض ادا نہ کرسکیں، مار پیٹ کی وجہ سے گھر کا ماحول بچوں کو باہر کا راستہ دکھائے، ایسے خاندان جو اپنی بقا کے لیے معاشی محاذ پر مصروف رہیں اور بچوں کی تربیت کو یکسر نظرانداز کردیا جائے تو ان کے بچے سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث افراد کی قربت حاصل کرلیتے ہیں۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ اب تو اسٹریٹ کرائمز صرف کراچی کا مسئلہ نہیں بلکہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی ایسی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔“
ہمارے درمیان ہونے والی گفتگو خاصی دیر تک جاری رہی۔ باتوں باتوں میں گزرتے وقت کا بالکل بھی اندازہ نہ ہوا۔ مجلس برخاست ہوتے ہوتے رات کے دو بج چکے تھے اور کیفے شاندار پر اب بھی دن کا سماں تھا۔ گھڑی پر نظر پڑتے ہی تمام دوست اٹھ کھڑے ہوئے، سو میں نے بھی گھر کی راہ لی۔ آخر میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ کرااچی کے عوام کا بڑھتی ہوئی وارداتوں پر لب کشائی کرنا روز کا معمول ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس عذاب سے نجات دلوانے کے لیے سرکار کب اور کیا اقدامات کرتی ہے۔