زینب۔ ’’بیٹا اللہ نے تمہیں ہر قدم پر کامیابی عطا کی ہے یہ اللہ کا بڑا کرم ہے، ہم گنہگاروں پر… بس بیٹا ایک بات کا زندگی بھر خیال رکھنا۔‘‘
اسد (سوالیہ نظروں سے) ’’وہ کیا امی؟‘‘
زینب۔ ’’میں نے تمہارے باپ سے بھی یہ مطالبہ کیا تھا اللہ کا شکر ہے انہوں نے میری بات مانی۔ حالانکہ وہ جس کمپنی میں کام کرتے تھے وہاں کمانے کے کئی ذریعے تھے لیکن میں صرف رزق حلال پر اپنے بچوں کی پرورش کرنا چاہتی تھی میری خواہش پر اس گھر میں کبھی حرام کی کمائی نہیں آئی گرچہ اس رزق حلال کی تمنا میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا مجھے ہی کرنا پڑا (کچھ رک کر) لیکن میں نے اپنے رب کو ناراض نہیں کیا۔ اور اب بیٹا میں تم سے بھی یہی چاہتی ہوں کہ زندگی میں رزق حلال کو اہمیت دینا، حلال رزق جو مل جائے اس پر صبر شکر کرنا اور اللہ کے بندوں کے حقوق سے منہ نہ موڑنا۔‘‘
……٭٭٭……
وقت ایک جیسا نہیں رہتا، زینب نے صبر شکر کے ساتھ وقت گزارا تھا بلکہ اپنے بچوں کی تربیت بھی بہترین انداز میں کی تھی لہٰذا اسد اللہ کو ایک اچھی ملازمت مل گئی اس نے اپنی ماں کی نصیحت کو گراہ میں باندھ لیا۔ ماشاء اللہ رزق حلال پھر نیک سیرت اپنے ماں باپ کا فرمانبردار تو پھر اللہ اپنے ایسے بندوں کے لیے راستے کھول دیتا ہے، ماشاء اللہ اپنی محنت، ایمانداری سے جلدی ہی اس نے اپنا مقام بنالیا لیکن اس کی ذات میں کہیں بھی تکبر و بغض کی جھلک نہ تھی۔ پہلے کی طرح وہ اپنے آس پاس کے تمام رشتوں سے انکساری اور محبت سے پیش آتا بلکہ ماضی میں اگر کسی نے اس کے یا اس کے والدین کے ساتھ کہیں ناانصافی بھی کی تھی ان کے ساتھ بھی اس کا حسن سلوک مثالی تھا۔
زینب اور اس کا شوہر اپنے بچوں کی اس فرمانبرداری اور لوگوں سے حسن سلوک دیکھتے تو اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے کہ اللہ نے ان کے بچوں کو تمام برائیوں سے محفوظ رکھا ہے۔
زینب۔ ’’اسد اللہ بیٹا میں چاہتی ہوں کہ اب تم اپنا گھر بسالو۔ میرا مطلب ہے کہ اب تمہاری شادی کی عمر ہوگئی ہے میں کوئی لڑکی تمہارے لئے دیکھوں؟ اگر تمہاری نظر میں کوئی لڑکی ہو تو بتائو۔‘‘
اسد اللہ۔ ’’امی اتنی جلدی کیا ہے ابھی تو مشکل سے میں اپنے پیروں پر کھڑا ہوا ہوں ابھی سے آپ کو میری شادی کی فکر لگ گئی، چھوڑیں کوئی اور بات کریں۔‘‘
ریحانہ (اسد اللہ کی خالہ)۔ ’’باجی اسد صحیح کہہ رہا ہے ابھی تھوڑا عرصہ چھوڑدیں، آپ نے ساری زندگی ان بچوں کی تعلیم و تربیت پر سرف کرلی اب آپ کے ’’پھل‘‘ کھانے کا وقت آیا ہے تو آپ بیٹوں کی شادی کروارہی ہیں۔‘‘
زینب۔ میری پیاری سی بہن میرے دین کی تعلیم یہی ہے کہ بچے جب بلوغت میں پہنچیں تو ان کی شادی کروادو اور ماشاء اللہ اسد اب بالغ ہوچکا ہے، رہی بات میرے عیش کرنے کی، تو اللہ تعالیٰ ہی کرم کرنے والاہے تمام قسم کا رزق اسی کے ہاتھوں میں ہے جو وہ اپنے بندوں کو دیتا رہتا ہے۔
……٭٭٭……
زینب۔ ’’اسد یہ دیکھو اس لڑکی کی تصویر ہے اگر تم کہو تو میں بات آگے بڑھائوں۔
اسد اللہ۔ امی بس لڑکی شریف اور تعلیم یافتہ ہونی چاہئے (ماں کو گلے لگاتے ہوئے) بالکل میری ماں کی طرح۔‘‘
زینب۔ ’’ٹھیک ہے بیٹا میں آگے بات کرتی ہوں ویسے وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے (بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے) اور ہم بھی تو ان ہی کی طرح ہیں اللہ بہتر کرے گا۔‘‘
……٭٭٭……
آج اسد اللہ کی شادی تھی کچھ رشتہ دار لڑکی اور اس کے گھر والوں کو دیکھ کر منہ بنارہے تھے کہ اسد کو اس سے زیادہ اعلیٰ خاندان کی لڑکی مل سکتی تھی… کسی نے کہا کہ لڑکی اتنی زیادہ خوب صورت تو نہیں، کسی نے مختصر جہیز کو نشانہ بنایا، لیکن اسد اور اس کے گھر والے مطمئن تھے کہ ان شاء اللہ آگے سب ٹھیک ہوگا، لڑکی پڑھی اور شریف ہے ہم یہی چاہتے تھے۔
……٭٭٭……
رب العزت اپنے پیارے بندوں کو آزمائشوں میں بھی مبتلا کرتا رہتا ہے، شادی کو چھ سات سال گزر گئے لیکن اسد اللہ اور اس کی بیوی سیرت اولاد سے محروم رہے، علاج و معالجہ بھی ہوتا رہا لوگوں کی باتیں بھی شروع ہوگئیں۔ اس ساری صورت حال سے اسد اور اس کی پوری فیملی نے نہ ہی ہمت ہاری اور نہ صبرو شکر سے منہ موڑا۔ ایک جو سب سے خوب صورت اور قابل تعریف بات یہ تھی کہ اسد ویسے تو صوم الصلوٰۃ کا پابند تھا لیکن حقوق اللہ کی طرف اس کا زیادہ دھیان رہتا۔ اگر کبھی زینب نے کسی غریب کا تذکرہ کیا اور اسے مالی مدد دینا چاہی تو نہ صرف اسد نے فراخدلی سے ماں باپ کا ساتھ دیا بلکہ اپنی والدہ کو اکیلے میں کہتا، امی آپ نے جو رقم فلاں کی مدد کے لئے نکالی ہے اس میں کچھ اور اضافہ کردیں، آج اتنی مہنگائی ہے ان چند ہزار سے تو اس فیملی کا دس دنوں کا راشن بھی نہیں آئے گا، زینب بیٹے کی بات پر مسکرائی اور اکیلے میں اللہ کا شکر ادا کرتی کہ اللہ نے اس کے بچوں میں دوسروں کے درد کا احساس رکھا ہے یہ ہی احساس انسانیت کی نشانی ہے…
لیکن اللہ رب العزت نے بڑی نعمتوں سے اس فیملی کو نوازا تھا سب کچھ تھا صرف ایک چیز کی کمی تھی اسد اولاد سے محروم تھا۔ لیکن وہ فراخدلی سے بھانجوں بھتیجوں سے پیار کرتا انہیں خلوص سے تحفے تحائف دیتا، زینب کو اپنے بیٹے کی اس محرومی کا شدت سے احساس تھا وہ اپنے رب کے حضور سر بسجود سرگوشیاں کرتی اور آنسو بہاتی کہ اللہ اسد کو اس ’’نعمت‘‘ سے سرفراز کردے۔
……٭٭٭……
عبدالرحمن۔ (اسد کے والد) ’’زینب اب ہمیں اس طرف بھی سوچنا چاہئے۔
زینب۔ میں آپ کا مطلب نہیں سمجھی؟ کیا سوچنا چاہئے۔‘‘
عبدالرحمن۔ ’’آج مجھے ساجد بھائی ملے تھے… تمہارا اور بچوں کا پوچھ رہے تھے (کچھ رک کر) اس کی خوشخبری وغیرہ کے لیے پوچھ رہے تھے میرے جواب نہ دینے پر سمجھ گئے تو انہوں نے اپنی بھتیجی نورین کے لئے کہاکہ بہت اچھی نیک پڑھی لکھی لڑکی ہے، رخصتی سے پہلے ہی طلاق ہوگئی تھی شاید اسد کی ہم عمر ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے آخر کب تک ہم انتظار کریں گے، اسلام میں تو چار شادیوں کی اجازت ہے اور سیرت کو اس گھر میں جو مقام حاصل ہے وہی رہے گا اس کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔‘‘
زینب نے اطمینان سے شوہر کی پوری بات سنی پھر کہا آپ کو معلوم ہے کہ مجھے کئی لوگوں نے اس قسم کی بات کی ہے بلکہ اسد کو بھی دوستوں نے اکسایا لیکن ہم دونوں ثابت قدم رہے ہیں اللہ اپنے نیک بندوں کو آزمائش دیتا ہے لیکن وہ اپنے در سے کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا اگر اللہ ہماری دعا کو اس وقت پورا نہیں کررہا ہے تو اس میں بھی میرے رب کی طرف سے کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوگی ہم دونوں ماں بیٹے اللہ سے مایوس نہیں ہیں…
یہ حقیقت تھی کہ اسد اور اس کی والدہ کو لوگوں نے کئی رشتے دکھانے کی کوشش کی تھی لیکن دونوں ماں بیٹوں کا یہی جواب تھا کہ اللہ ہی قادر ہے… اسد کی شخصیت کا ایم اہم پہلو جو سب کو متاثر کرتا وہ یہ تھا کہ اللہ نے اسے بے حساب دیا تھا لیکن اس کی ذات میں کہیں تکبر نہ تھا…
آج بھی وہ اپنے رشتے داروں کی ایک محفل میں بیٹھا تھا اس کے رشتے دار اس کی تعریف کررہے تھے کہ یہ سب تمہاری اور تمہاری والدہ کی محنت کا صلہ ہے۔ اسد کو سب کی یہ بات ناگوار گزری اس نے بڑی تحمل سے کہا بے شک اللہ نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ یہ سب میرے رب کی دین ہے اگر میں نے محنت اور جدوجہد کی تو یہ بھی ہمت و طاقت میر رب کی طرف سے ملی ہے اگر میں ذہین تھا تو یہ میری خوبی نہیں میرے رب کی قدرت ہے کہ اس نے مجھے عقل و ذہانت سے نوازا ہے۔
……٭٭٭……
اللہ کو نہ جانے اپنے بندے کی کونسی ادا پسند آجائے اور وہ اس پر اپنی رحمتیں نواز دے یہی اسد کی شاید انکساری کی عادت تھی کہ اللہ نے اسے زندگی کی سب سے بڑی خوشی سے سرفراز کردیا ، بیٹے کی پیدائش کے بعد اس کی شخصیت میں مزید انکساری آگئی ہے، دوسری طرف وہ حقوق العباد کی ادائیگی سے بھی غافل نہیں، آج وہ اپنے بیوی بچے کے ساتھ ایک پرسکون زندگی گزار رہا ہے جس پر وہ ہر گھڑی اپنے رب کے حضور سربسجود ہے کہ اللہ رب نے اس کے گھرانے کو بہت سی نعمتوں اور رحمتوں سے نوازا ہے۔
……٭٭٭……
بیشک کچھ لوگوں کو مشقت اور جفاکشی محنت کے بعد دولت ملتی ہے تو ان میں غرور و تکبر آجاتا ہے کہ یہ سب میری محنت کی وجہ سے ہوا ہے اور کچھ اللہ کے صابر اور شاکر بندے اسد اللہ کی طرح ہوتے ہیں جو ہر خوشی، ہر نعمت ہر قسم کی دولت کو رب کا انعام سمجھتے ہیں سب کچھ ہونے کے باوجود انکساری سے لوگوں کے ساتھ پیش آتے ہیں، بے شک میرا رب ایسے ہی بندوں کو پسند فرماتا ہے۔