تاریخِ اسلامی میں خلفائے راشدین کا دور اتباع سنت و قرآن کا دور ہے۔ دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر بن خطاب کا تعلق قریش کی شاخ بنی عدی سے تھا۔ آپؓ کا سلسلہ نسب یہ ہے۔ عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزیٰ بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب۔
آپؓ کا دور خلافت فتح و نصرت و اطمینان سادگی اور طمانیت کا دور تھا۔ اس دور میں غزوات میں جو فتوحات حاصل ہوئیں اس نے مسلمانوں میں اپنی قوت کا شعور و ادراک پیدا کر دیا تھا۔ اور اسی ادراک اور شعور میں وہ پختگی آگئی تھی کہ مسلمانوں نے اپنے پیغامِ اسلام کو ساری دنیا تک پہنچانا اپنا فرضِ اوّلین سمجھا اور دنیا کی کوئی طاقت ان کو اس پیغام کی اشاعت سے نہ روک سکی۔
حضرت عمرؓ کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے اپنی دورِ خلافت میں مرکز کو اتنا منظم کر دیا تھا کہ آج باقاعدہ نظم حکومت قائم ہونے سے پہلے ہی وہ اپنے والی کی طاقت ور شخصیت‘ تعلیمات اور کردار کی بنا پر وحدت کا محور بن گئی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس اس وحدت کا سرچشمہ اور اساس تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابو بکرؓ نے ہر اس محرک اور عوامل اور رکاوٹ پر کاری ضرب لگا کر ختم کر دیا تھا جو اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتے تھے۔ منکرین زکوٰۃ اور مرتدین کا صفایا کرکے حضرت ابوبکرؓ نے اپنے جانشین کے لیے اسلام کی راہ کو آسان کر دیا تھا۔ حضرت عمرؓ کی شخصیت کی توانائی نے اس وحدت کو مسلسل کڑی میں پرو دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ مشیر خاص تھے اور اتنے صائب الرائے تھے کہ آپؐ نے حضرت عمرؓ کے بارے میں فرمایا ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتے۔‘‘
اس حدیث سے ان کی شخصیت کی بلندی‘ سیرت و کردار کی بلندی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔خلیفہ دوم حضرت عمرؓ اپنے نفس پر انتہائی قابو پانے والے‘ سختی کے کرنے والے نرمی کے وقت کے وقت انتہائی شفیق اور مہربان‘ انتہائی صائب الرائے‘ مدبر‘ سیاسی بصیرت رکھنے والے منظم اور فاتح تھے۔ مصائب اور مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے۔ عدل و انصاف کا دامن کسی صورت ہاتھ سے نہ جانے دیتے خواہ معاملہ کتنے ہی قریبی رشتے دار کا کیوں نہ ہو۔
خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروقؓ خلافت سے پہلے سے تجارت کیا کرتے تھے۔ جب خلیفہ بنائے گئے تو بیت المال سے وظیفہ مقرر ہوا۔ مدینہ طیبہ میں لوگوں کو جمع فرما کر ارشاد فرمایا کہ میں تجارت کیا کرتا تھا اب تم لوگوں نے خلافت میں مشغول کر دیا ہے اس لیے اب گزارے کی کیا صورت ہو۔ لوگوں نے مختلف مقدار تجویز کیں۔ حضرت علیؓ چپ چاپ بیٹھے تھے‘ حضرت عمرؓ نے ان سے دریافت فرمایا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ توسط کے ساتھ جو تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو کافی ہو جائے۔
حضرت عمرؓ نے اس رائے کو پسند کیا اور قبول کر لیا۔ وظیفہ کی متوسط مقدار تجویز ہو گئی۔ اس کے بعد ایک مرتبہ ایک مجلس میں جس میں حضرت علیِؓ‘ حضرت عثمانؓ‘ حضرت زبیرؓ ‘ حضرت طلحہؓ شریک تھے۔ یہ ذکر آیا کہ حضرت عمرؓ کے وظیفہ میں اضافہ ہونا چاہیے کیوں کہ ان کی گزر اوقات بہت تنگی سے ہوتی ہے۔ مگر ان سے عرض کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اس کی ان کی صاحبزادی حصرت حفصہؓ جو ام المومنین تھیں‘ ان کی خدمت میں یہ حضرات تشریف لے گئے اور ان کے ذریعے سے حضرت عمرؓ کی رائے اور وظفیہ بڑھانے کی اجازت لینے کی کوشش کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ہم لوگوں کے نام نہ ظاہر کیے جائیں۔
چنانچہ جب ام المومنینؓ نے اپنے والد محترم سے اس بات کا تذکرہ کیا تو ان کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا اور انہوں نے ان لوگوں کے نام دریافت کیے جنہوں نے وظیفہ بڑھانے کی تجویز پیش کی تھی۔ آپؓ نے فرمایا اگر مجھے ان کے نام معلوم ہو جاتے تو ان کے چہرے بدل دیتا۔ یعنی ایسی سزا دیتا کہ ان کے منہ پر نشان پڑ جاتے۔ پھر ام المومنین سے دریافت کیا ’’تو بتا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمدہ سے عمدہ لباس تیرے گھر میں کیا تھا۔‘‘ انہوں نے عرض کیا کہ دو کپڑے گیرو رنگ کے جن کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن یا کسی وفد کی آمد پر پہنتے تھے۔‘‘
حضرت عمرؓ نے پھر دریافت کیا ’’تیرے یہاں ان کا عمدہ سے عمدہ کھانا کیا تھا؟‘‘ام المومنین نے عرض کیا ’’ہمارا کھانا جَو کی روٹی تھی۔ ہم نے گرم گرم روٹی پر گھی کے ڈبہ کی تلچھٹ الٹ کر اس کو ایک مرتبہ چپیڑ دیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس کو مزے لے لے کر تناول فرما رہے تھے اور دوسروں کو بھی کھلاتے تھے۔‘‘
حضرت عمرؓ نے ام المومنین سے دریافت کیا ’’تمہارے ہاں ان کا عمدہ سے عمدہ بستر کیا تھا؟‘‘انہوں نے عرض کیا ’’ایک موٹا سا کپڑا تھا گرم میں اس کو چوہرا کرکے بچھاتے تھے اور سردی میں آدھے کو بچھا لیتے اور آدھے کو اوڑھ لیتے۔
فرمایا ’’حفصہ! ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طرز عمل سے ایک اندازہ مقرر فرما دیا تھا اور امیدِ آخرت پر کفایت فرمائی۔ میں بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کروںگا۔ میری مثال اور میرے دو ساتھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کی مثال ان تین اشخاص کی ہے جو ایک راستے پر چلے پہلا شخص ایک توشہ لے کر چلا اور مقصد کو پہنچ گیا۔ دوسرے نے بھی پہلے کا اتباع کیا اور اسی کے طریقے پرچلا۔ وہ بھی پہلے کے پاس پہنچ گیا۔ پھر تیسرے نے چلنا شروع کیا۔ اگر وہ ان دونوں طریقے پر چلے گا تو ان کے ساتھ مل جائے گا اور اگر ان کے طریقے کے خلاف چلے گا تو کبھی بھی ان کے ساتھ مل سکے گا۔‘‘
حضرت عمرؓ نے ہمیشہ زاہدانہ زندگی بسر کی۔ ایک مرتبہ ایک جمعہ کو آپؓ خطبہ پڑھ رہے تھے اور آپؓ کے لباس میں بارہ پیوند تھے جس میں سے ایک چمڑے کا بھی تھا۔ ایک مرتبہ جمعہ کی نماز میں دیر سے تشریف لائے اور معذرت فرمائی کہ مجھے اپنے کپڑے دھونے اور سکھانے میں دیر ہوئی کیوں کہ اس جوڑے کے علاوہ اور کوئی جوڑا نہ تھا۔ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کھانا تناول فرما رہے تھے۔ غلام نے عرض کیا عتبہ بن ابی فرقد حاضر ہوئے ہیں۔ آپؓ نے اندر آنے کی اجازت فرمائی اور کھانا کھانے میں ان کو شریک کیا۔ حضرت عتبہؓ کھانے میں شریک ہوئے تو ایسا موٹا کھانا تھا کہ نگلا نہ گیا۔ انہوں نے عرض کیا ’’چھنے ہوئے آٹے کا کھانا بھی تو ہوسکتا ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’کیا سب مسلمان میدہ کھا سکتے ہیں؟‘‘
حضرت عتبہؓ نے جواب دیا ’’نہیں سب مسلمان نہیں کھا سکتے۔‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’افسوس تم یہ چاہتے ہو کہ میں ساری لذتیں دنیا میں ہی ختم کر دوں۔‘‘اصحابِ رسول کا کردار بے داغ اور سیرت اجلی تھی۔ مشتبہ مال و دولت سے بھی حد درجہ اجتناب فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے دودھ نوش فرمایا۔ دودھ کا ذائقہ کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ جن صاحب نے دودھ پلایا تھا ان سے دریافت کیا کہ ’’یہ دودھ کیسا ہے‘ کہاں سے آیا ہے؟‘‘
انہوں نے عرض کیا ’’فلاں جنگل میں صدقے کے اونٹ چر رہے تھے‘ میں وہاں گیا تو ان لوگوں نے دودھ نکالا جس میں سے مجھے بھی دیا۔‘‘
حضرت عمرؓ نے منہ میں انگلیاں ڈال کر سارے کا سارا قے کر دیا۔
ایک مرتبہ آپؓ کی خدمت میں بحرین سے مُشک آیا۔ ارشاد فرمایا کہ ’’کوئی اس کو تول کر مسلمانوں میں تقسیم کر دیتا۔‘‘ آپؓ کی اہلیہ حضرت عاتکہؓ نے عرض کیا کہ ’’میں تول دوں گی۔‘‘
آپؓ نے سن کر سکوت فرمایا ‘ تھوڑی دیر بعد پھر یہی ارشاد فرمایا کہ ’’کوئی اس کو تول دیتا تاکہ میں تقسیم کر دیتا۔‘‘ آپؓ کی اہلیہ نے پھر یہی عرض کیا۔ آپؓ نے پھر سکوت فرمایا۔ تیسری دفعہ میں ارشاد فرمایا کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ تو اس کو اپنے ہاتھ سے ترازو کے پلڑے میں رکھے اور پھر ان ہاتھوں کو اپنے بدن پر پھیر لے اور اتنی مقدار کی زیادتی مجھے حاصل ہو۔‘‘