کسریٰ نے برہم ہو کر یمن کے گورنر کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’ہمیں اس خبر سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی ہم یہ جانتے ہیں کہ رومی اب قیامت تک سر نہیں اُٹھا سکیں گے۔ ہم نے قیصر کا غرور ہمیشہ کے لیے خاک میں ملا دیا ہے لیکن یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ عرب کے ایک باشندے کو ہمارے خلاف اس قسم کی پیشگوئی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا اِس دُنیا میں اتنے بے خبر لوگ بھی ہوسکتے ہیں جنہیں ہماری طاقت اور ہماری فتوحات کا علم نہ ہو‘‘۔
یمن کے حاکم نے کہا: ’’عالیجاہ! عرب کے نبیؐ نے یہ پیش گوئی اس وقت کی تھی جب کہ رومی سلطنت میں ابھی زندگی کے چند سانس باقی تھے اور بعض لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوسکتے تھے کہ شاید جنگ کا پانسہ پلٹ جائے۔ مجھے کوئی پانچ سال قبل اس پیش گوئی کی اطلاع ملی تھی لیکن اب تو کوئی دیوانہ ہی اس پیش گوئی کو اہمیت دے سکتا ہے‘‘۔
پرویز نے قدرے تلخ ہو کر پوچھا۔ ’’اگر تمہیں پانچ سال قبل اطلاع ملی تھی تو تم نے ہمیں خبر کیوں نہ دی؟‘‘
’’فاتح عالم اگر مجھے یہ خدشہ ہوتا کہ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو شکست دے سکتی ہے تو میں یقیناً آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ لیکن میرے نزدیک آپ کی فتوحات کے سیلاب کے سامنے اس پیشگوئی کی کیا حقیقت تھی۔ آخر یروشلم کے راہب بھی تو یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ ایران کا لشکر یروشلم کی دیواروں تک نہیں پہنچ سکے گا‘‘۔
کسریٰ کے بے رحم چہرے پر ایک خفیف سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور یمن کا گورنر اچانک یہ محسوس کرنے لگا کہ اس کے سر سے ایک طوفان گزر چکا ہے۔
ظاہر بین نگاہیں رومیوں کی ذلت اور رسوائی کا آخری نقشہ دیکھ رہی تھیں۔ قسطینیہ کے جانشین اس تاریک گڑھے میں دم توڑ رہے تھے جہاں سے ان کے دوبارہ اٹھنے کے امکانات ختم ہوچکے تھے۔ ہرقل کے اقبال کا آفتاب غروب ہوچکا تھا اور اس کے مقدر کی رات ان ستاروں کی جھلملاہٹ کے بغیر تھی جو تھکے ہارے مسافروں کو صبح کا پیغام دیتے ہیں لیکن اب بھی خدا کی زمین پر مٹھی بھر انسانوں کی ایک جماعت ایسی تھی جن کے نزدیک ابھی تک فتح اور شکست کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ محمدؐ عربی کے یہ غلام جنہیں مشرکینِ مکہ ایرانیوں کی فتوحات کی خبریں سنا کر چڑایا کرتے تھے اپنے آقا کی زبانِ مبارک سے خالقِ ارض و سما کا یہ پیغام سن چکے تھے کہ رومیوں کی شکست بالآخر فتح میں تبدیل ہوجائے گی اور زمانے کا کوئی انقلاب اس پیشگوئی کی صداقت پر ان کا ایمان متزلزل نہیں کرسکتا تھا۔
مشرکین مکہ کے نزدیک صرف ایرانیوں پر رومیوں کے غلبہ کی پیش گوئی ناقابل یقین نہ تھی بلکہ اس سے کہیں زیادہ وہ اس بات پر حیران تھے کہ اس پیشگوئی کے ساتھ ہی مسلمانوں کو بھی اللہ کی بخشی ہوئی نصرت پر خوشیاں منانے کی بشارت دی گئی تھی اور خدا کے یہ بندے جس یقین کے ساتھ رومیوں کی فتح کا انتظار کررہے تھے اسی یقین کے ساتھ اپنی فتح کا انتظار کررہے تھے پھر جس طرح کسریٰ کو رومیوں سے انتہائی ذلیل شرائط منوانے کے بعد اس بات کا خدشہ ذرّہ بھر نہ تھا کہ رومی اس کی طاقت کے سامنے دوبارہ سر اُٹھانے کی جرأت کریں گے۔ اسی طرح مشرکینِ مکہ کو بھی یہ بات خارج ازامکان معلوم ہوتی تھی کہ بے بس انسانوں کا یہ گروہ جس پر وہ اپنے ظلم کے ترکش کے سارے تیر آزما چکے ہیں۔ عرب کے کسی میدان میں اپنی فتح کا پرچم گاڑ سکے گا۔ قیصر اپنی شکست کا اعتراف کرنے کے باوجود ایک بادشاہ تھا۔ اس گئی گزری حالت میں بھی باسفورس کے پار اس کے قلعے اور فوجی مستقر موجود تھے۔ کلیسا کی قوت اس کی پشت پر تھی اور ہزاروں انسان اس کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے موجود تھے۔ لیکن محمد عربیؐ اور ان کے مٹھی بھر غلاموں کی حالت یہ تھی کہ انہیں اپنے گھر بار چھوڑ کر کوسوں دور پناہ لینے پر مجبور کردیا گیا تھا۔
مشرکینِ مکہ اپنی قوت اور جنگی وسائل کے اعتبار سے غریب اور نادار مسلمانوں پر وہی فوقیت رکھتے تھے جو ایرانیوں کو رومیوں پر حاصل تھی اور اس وقت جب کہ وہ مکہ میں اپنے عزیزوں، دوستوں اور بھائیوں کے بے پناہ مظالم سے تنگ آکر انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں مدینے کا رُخ کررہے تھے۔ یہ کون کہہ سکتا تھا کہ اس چھوٹے سے قافلے کا ہر قدم فتح کی منزل کی طرف اُٹھ رہا ہے اور راستے کی یہ پہاڑیاں جو ان کی بے بسی کا مشاہدہ کررہی ہیں کسی دن ان کے جاہ و جلال سے لرز اُٹھیں گی۔ یہ کون کہہ سکتا تھا کہ کفر کی تاریک آندھیوں سے پناہ ڈھونڈنے والے نور کا ایک ایسا سیلاب بن کر لوٹیں گے جس کی تابانیوں سے مکہ کے در و دیوار جگمگا اُٹھیں گے۔ ظاہربین آنکھوں کو عرب و عجم کا صرف ایک ہی نقشہ دکھائی دیتا تھا اور وہ یہ تھا کہ عرب کے اندر صرف اسلام کے دشمن اور عرب سے باہر صرف رومیوں کے ایرانی حریف ہی غالب رہیں گے۔ ان کے نزدیک نصرانیوں کی تقدیر مجوسیوں اور مسلمانوں کی قسمت مشرکینِ مکہ کے ہاتھ میں تھی۔ دست گرد کے مجوس کاہن اس بات پر خوشیاں منارہے تھے کہ زردشت کا دین عیسائیت پر دائمی غلبہ حاصل کرچکا ہے اور عرب کے بت پرست اس بات پر شاداں تھے کہ ان کے لات وہیل ایک ایسے دین کو شکست دے چکے ہیں جس کی تعلیم ان کے صدیوں کے عقائد کے منافی تھی۔ لیکن اسلام کی صداقت پر ایمان لانے والوں میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جسے اس پیش گوئی کی صداقت پر ایمان نہ ہو۔ وہ اپنے آقا کی نگاہوں سے مستقبل کا نقشہ دیکھ چکے تھے اور حال کے آلام و مصائب کو ناقابل شکست حوصلوں کے ساتھ برداشت کررہے تھے۔ دنیا میں کوئی ایسا نہ تھا جس کا حال ان سے زیادہ اذیت ناک تھا اور دنیا میں کوئی ایسا نہ تھا جو اپنے مستقبل کے متعلق ان سے زیادہ پرامید تھا وہ صرف یہ جانتے تھے کہ روم و ایران اور اپنے مستقبل کے متعلق ان کے آقا کی پیش گوئی کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔ اور انہیں یہ سوچنے کی ضرورت نہ تھی کہ قدرت رومیوں کو موت کے چنگل سے چھڑا کر فتوحات کے راستے پر ڈالنے کے لیے کون سے اسباب مہیا کرے گی اور پھر یہ مختصر سا قافلہ جو انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں مکہ سے نکل کر مدینہ میں پناہ لے چکا ہے کس طاقت کے بل بوتے پر اللہ کے دین کے ان دشمنوں کو شکست دے سکے گا جو عرب قبائل میں ایک مرکزی حیثیت کے مالک تھے اور جو اسلام کو عرب کی جاہلی رسوم کا بدترین دشمن ثابت کرکے پورے ملک کو اپنے پیچھے لگا سکتے تھے۔ عرب میں صرف مکہ ہی ایک ایسا شہر تھا جسے پورے ملک میں ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اگرچہ حضرت ابراہیمؑ کا دین مشرکانہ رسومات کا مجموعہ بن کر رہ گیا تھا او رروئے زمین پر خدا کا پہلا گھر بتوں سے بھر دیا گیا تھا تاہم اس شہر کے ساتھ عربوں کی عقیدت کا رشتہ ابھی تک قائم تھا۔ وہ ہر سال حج کی رسومات ادا کرنے اور اپنے ہاتھوں کے بنائے بتوں سے منتیں ماننے کے لیے یہاں آتے تھے اور صدیوں سے بیت اللہ کی نگرانی اور حفاظت کے فرائض ادا کرنے کے بعد قبیلہ قریش کو بھی عرب قبائل میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہوچکی تھی۔ وہ اس جہالت کے علمبردار تھے جس کی تاریکیاں پورے عرب کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے تھیں۔ وہ ان مذہبی اور سیاسی عقائد کے معلم تھے جن کے باعث یہ ملک ایک اخلاقی انحطاط کی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ ان حالات میں ایک نئے دین کے خلاف ان کا نعرہ پورے عرب کو مشتعل کرسکتا تھا اور ظاہری حالات سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ جب عرب کے کسی میدان میں مسلمانوں کے ساتھ قریش مکہ کا تصادم ہوگا تو پورے عرب کی طاقت ان کی پشت پر ہوگی۔ اگر مکہ سے کوئی بگولہ اُٹھا تو یثرب تک پہنچتے پہنچتے وہ ایک مہیب آندھی میں تبدیل ہوجائے گی۔ لیکن وہ قافلہ جو رات کے وقت مکہ سے نکلا تھا اور جس کی ساری پونجی ایمان کی نہ ختم ہونے والی دولت تک محدود تھی۔ ظاہری حالات کے تاریک پردوں کے آگے ایک ایسے مستقبل کی منازل دیکھ رہا تھا۔ جہاں ایک نئی صبح کا آفتاب پوری تابانیوں کے ساتھ جلوہ افروز تھا۔
ہر قل کی افواج جنگ کے میدانوں میں پٹ چکی تھی۔ اس کے خزانے خالی ہوچکے تھے اور اب حالات نے اسے ایک بے رحم اور مغرور دشمن کے انتہائی توہین آمیز مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ اس کی رعایا اس سے بددل اور مایوس ہوچکی تھی۔ اور قسطنطنیہ کے در و دیوار اس کا مذاق اڑا رہے تھے اور وہ تاج جو سلطنت روما کی سطوت اور جبروت کا آئینہ دار تھا اسے غلامی کے طوق سے زیادہ بدنما محسوس ہوتا تھا۔ وہ ایک ایسی کشتی کا ناخدا تھا جس کے پیندے میں سوراخ ہوچکے تھے۔ اہل روم جو چند برس قبل اسے اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اس کے راستے میں آنکھیں بچھاتے تھے اب اس کے وجود کو اپنے لیے ایک سزا سمجھتے تھے۔ لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ روم کی ذلت اور رسوائی کا آخری منظر دیکھتے کے بعد قدرت کی وہ ان دیکھی اور انجانی قوتیں اچانک حرکت میں آجائیں گی۔ جن کے اشاروں پر بارانِ رحمت کا نزول ہوتا ہے اور بادِ سموم سے جھلسے ہوئے بے جان صحرا سبزہ بن جاتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کا کمزور، عیاش اور بے حس حکمراں کسی دن اچانک خوابِ غفلت سے بیدار ہوگا اور وہ مردہ رگیں جن پر آگ کے انگارے بھی اثر انداز نہیں ہوتے،زندگی کے خون سے لبریز ہوجائیں گی۔ اگر کوئی رومی اپنی نجات کے لیے ابھی تک معجزے کا منتظر تھا تو وہ بھی یہ سوچنے کے لیے تیار نہ تھا کہ قدرت کا کوئی معجزہ ہرقل کو مایوس اور بددلی کے قبرستان سے نکال کر جیتے جاگتے انسانوں کی صف میں کھڑا کرسکتا ہے اور اہل روم اس کی قیادت میں کسی کامیابی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔ ماضی کے واقعات نے انہیں بار بار جس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا تھا وہ یہ تھی کہ روم کے لیے ہرقل کا ستارہ منحوس ہے اور اگر قدرت کو ان کی بھلائی مقصود ہے تو وہ انہیں جنگ کے کسی نئے میدان کا راستہ دکھانے سے پہلے ایک ایسے حکمران سے نجات دلانے کے اسباب پیدا کرے گی جو ماضی کے امید افزا حالات میں بھی انہیں شکست ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں دے سکا۔
لیکن چند برس قبل مکہ کی گلیوں میں پیغمبرؐ اسلام کی جس پیشگوئی کا مذاق اڑایا گیا تھا اس کے پورا ہونے کا وقت قریب آچکا تھا۔ ہرقل اس وقت خوابِ غفلت سے بیدار ہوا جب اسے دیکھنے، جاننے اور سمجھنے والے تمام انسان مایوس ہوچکے تھے۔ اس نے اس وقت اپنی زنگ آلود تلوار اُٹھانے کی جرأت کی جبکہ اس کے بازو شل ہوچکے تھے، اس نے عزت کا راستہ اس وقت اختیار کیا جب کہ روئے زمین کی ساری ذلتوں اور رسوائیوں کو ایک گٹھڑی میں باندھ کر اس کی پیٹھ پر لاد دیا گیا تھا۔ اور اسے فتح اور نصرت کے اسباب تلاش کرنے کی اس وقت فکر ہوئی جب کہ روم کی تباہی کے تمام ظاہری اسباب مکمل ہوچکے تھے۔ (جاری ہے)